پاکستان سمیت پوری اُمت کے مسائل کا حل نظام خلافت
کے قیام میں ہے : خورشید انجم
تنظیم اسلامی کا ہر وہ رفیق جو پورے انشراحِ صدرکے
ساتھ اقامت دین کی جدوجہد میں لگا ہوا ہے ان شاء اللہ،
وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں سرخرو ہوگا اور اس کاشمار اس صف
میں ہوگا جو مسلمانوں کے لیے لڑ رہی تھی :ڈاکٹر انوار علی
قرآن مجید اور سنت رسول ﷺسے ہمیں رہنمائی ملتی ہے کہ
اگر ہم راہِ حق پر پیش رفت کریں گے تو باطل کی
ساری چالیں ناکام ہو جائیں گی :ڈاکٹر ضمیر اختر خان
تنظیم اسلامی کے کُل پاکستان سالانہ اجتماع 2024ء کے موقع پر
پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں مختلف قومی اور بین الاقوامی موضوعات پر تجزیہ اور اظہار خیال
میز بان :آصف حمید
مرتب : محمد رفیق چودھری
سوال: احادیث ِرسول ﷺ میں قیامت سے قبل نظام ِخلافت کے قیام کی نوید موجود ہے ۔ ان احادیث کو بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسراراحمدؒ نے عام کیا اور تنظیم اسلامی نے بھی ’’نوید خلافت ‘‘کے نام سے بڑے پیمانے پر ان کی اشاعت کی ۔ ان احادیث کا تذکرہ ہمیں کسی اور مذہبی یا دینی پلیٹ فارم، ان کے میڈیا اور سوشل میڈیا فورمز پر نہیں دکھائی دیتا ۔ اس کی کیا وجہ ہے ؟
خورشید انجم: اگر آپ کے سوال کا جواب ایک لفظ میں دیا جائے تو وہ ہے محدودیت اور اس کی تفصیل یہ ہے کہ 200 سالہ دورِ غلامی میں دین کے حوالے سے ہمارے تصورات کو اس قدر مسخ کیا گیا اور اس قدر محدودیت آ گئی ہے کہ اب ہماری اکثریت دین کے جامع تصور سے لاعلم ہے ۔ اسی بات کا رونا اقبال نے بھی رویا ہے؎
مُلّا کو جو ہے ہِند میں سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد!آج ہماری اکثریت نے صرف نماز ، روزہ ، زکوٰۃ اور حج کو کُل اسلام سمجھ لیا ہے ۔ اس سے آگے کسی کی سوچ ہی نہیں جاتی کہ سیاست ، معیشت اور معاشرت بھی دین کا حصہ ہیں اور ان میں بھی اسلام کو نافذ ہونا چاہیے۔ دینی حلقوں اور مدارس میں بھی صرف فقہی مسائل پر بحث ہوتی ہے ، کتاب الملاحم اور کتاب الفتن تک پہنچنے کی نوبت ہی نہیںآتی اور اگر ان کو پڑھایا بھی جاتاہے تو زیادہ سے زیادہ معاملہ تلاوت تک محدود رہتاہے ۔ بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسراراحمدؒنے 1991ء میں تحریک خلافت کا آغاز کیا تھا اور اسی دوران ’’نوید خلافت ‘‘کے نام سے خلافت کی احادیت کو عام کیا تھا۔ اگرچہ اس سے قبل 1975ء میں جب تنظیم اسلامی کی بنیاد رکھی گئی تو اس وقت بھی ڈاکٹر صاحب ؒ نے اس حوالے سے ایک خطاب کیا تھا جو ’’تنظیم اسلامی کا پس منظر‘‘کے عنوان سے شائع بھی ہوتا ہے ۔ اس میں بھی وہ حدیث شامل کی گئی تھی جس میں کہا گیا ہے :”میری امت پر ایسا وقت آئے گا جیسے بنی اسرائیل پر آیا تھا، اور وہ مماثلت میں ایسے ہو گا جیسے جوتا جوتے کے برابر ہوتا ہے۔‘‘ یعنی یہ اُمت بھی انہی فتنوں میں مبتلا ہوگی جن میں بنی اسرائیل مبتلا ہوئے تھے ۔ اس کے بعد پھر بہت بڑی جنگ ہوگی اور آخر میں پھر اسلام کا غلبہ ہوگا ۔ ڈاکٹرا سراراحمدؒ نے اس بات کو اُجاگر کیا کہ اب وہ دور آنے والا ہے جس کا ذکر ان احادیث میں ہے لیکن آج منبر و محراب سے اور دینی حلقوں کے میڈیا فورمز سے ان احادیث کا ذکر اس طرح نہیں ہورہا جس طرح ہونا چاہیے۔ ایک حدیث میں یوں بھی ذکر ہے کہ ایک زمانہ آئے گا جب دجال کا ذکر کم ہو جائے گا ۔ اس کے برعکس منبر و محراب سے جو چیزیںعام کی جارہی ہیں ان میں فرقہ واریت اور فقی بحثوں کا رنگ غالب ہے ۔
ڈاکٹر ضمیر اختر خان: دورِ استعمار میں مذہب کو سیاست ، معیشت اور معاشرت سے جدا کر دیا گیا ۔ یعنی دین کا جو اجتماعی نظام تھا اس کا تصور لوگوں کے ذہنوں سے نکال دیا گیا ۔ اس کے برعکس قومی ریاستوں کا تصور دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے علاوہ جتنے بھی مسلم ممالک ہیں وہ یا توقومیت کی بنیاد پر بنے ہیں یا جغرافیائی حدود کے پابند ہوگئے ہیں ۔ جبکہ خلافت کا تصور یہ تھا کہ پوری اُمت مسلمہ جسد واحد کی مانند ہے اور تمام مسلمان ایک خلیفہ کے ماتحت ہوں ۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے دینی حلقے اور دینی مدارس بھی دین کے جامع تصور اور اجتماعی نظام کے ذکر سے خالی ہیں ۔ الا ماشاء اللہ ،صرف فقہی مسائل پر بحث تک محدود رہ گئے ہیں ۔
ڈاکٹر انوار علی:ایک تصور یہ بھی بن گیا ہے کہ حضرت مہدی آئیں گے تو ہمارے لیے راستہ ہموار کریں گے اور پھر دین غالب ہوگا اور اس سے پہلے ہمیں بس ایک کونے میں بیٹھ کر اللہ کی عبادت کرنی ہے جو کہ درست تصور نہیں ہے ۔
سوال: وہ طاقتیں جو اس وقت پوری دنیا پر حکومت کر رہی ہیں ، یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ ان احادیث سے بے خبر ہوں جن میں پوری دنیا پر خلافت کے قیام کا ذکر ہے ۔ یقیناً انہوں نے خلافت کا راستہ روکنے کے لیےمنصوبہ بندی بھی کر رکھی ہوگی ۔ مسلمانوں کو ان کے مشن سے دور کرنے کے لیے ان کی کوششوں کے بظاہر کوئی شواہد موجود ہیں ؟
ڈاکٹر ضمیر اختر خان: معرکۂ حق و باطل ہر دور میں جاری رہا ہے ۔ نبی اکرم ﷺ سے پہلے بھی جب پیغمبر آئے تو ان کےخلاف باطل کے پیروکار سرگرم ہوئے اور ان کے ساتھ جنگیں بھی کیں ۔نو آبادیاتی دور میں دین و مذہب سے آزاد ایک تصور زندگی سیکولر فلسفے کے طور پر رائج ہو گیا تھا جو آج تک جاری ہے ۔ اب اس تصور کے دفاع میں باطل قوتیں ہر طریقہ اختیار کر رہی ہیں ۔ نائن الیون کے بعد ٹونی بلیئر نے کہا تھا کہ ہم دنیا میں کہیں بھی خلافت کا نظام قائم نہیں ہونے دیں گے ۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ اس حوالے سے پلاننگ کر رہے ہیں اور سرتوڑ کوشش بھی کر رہے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ کیا مسلمانوں کو ان کے سامنے ہار مان لینی چاہیے ؟ کیا باطل کی تمام تدبیریں کامیاب ہو جائیں گی ؟ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیں یقین دہانی مل رہی ہے: {اِنَّہُمْ یَکِیْدُوْنَ کَیْدًا(15) وَّاَکِیْدُ کَیْدًا(16)} ( الطارق ) ’’(اے نبیﷺ!) یہ لوگ اپنی سی چالیں چل رہے ہیں اور میں بھی اپنی چال چل رہا ہوں۔‘‘
اس حوالے سے جو بہت ہی حوصلہ افزا بات قرآن مجید اور سنت رسول ﷺسے ہمیں ملتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر ہم راہِ حق پر پیش رفت کریں گے تو باطل کی ساری چالیں ناکام ہو جائیں گی ۔ لہٰذا اگر ہم چاہتے ہیں کہ باطل کی چالوں کا توڑکیا جائے تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ اور صحابہ کرام ؇کے طریقے کو اختیار کرتے ہوئے اپنی جدوجہد کو تیز تر کر دیں تاکہ کسی ایک خطہ زمین پر اللہ کا دین قائم ہو جائے ۔ ہمارے سامنے افغانستان کی مثال موجود ہے جہاں امارت اسلامیہ قائم ہوئی تو امریکہ سمیت 48 ممالک نے اس پر چڑھائی کردی کیونکہ ان کو برداشت نہیں ہورہا تھا کہ باطل نظام کے مقابلے میں کوئی اپنا نظام قائم کرے ۔ 20 سال نیٹو ممالک نے ناک رگڑنے کے بعد بالآخر شکست کھائی اور اب وہاں دوبارہ امارت اسلامیہ قائم ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ باطل کی ساری تدبیریں ناکام ہو گئیں ۔ لہٰذا راہِ حق پر جدوجہد کے ذریعے ہی ہم باطل کو شکست دے سکتے ہیں ۔
ڈاکٹر انوار علی: قرآن مجید کی سورۃ آل عمران میں مصابرت کا بیان آیا ہے ۔ ڈاکٹر اسرار احمدؒ اس مقام کے حوالے سے خاص طور پر یہ بات واضح فرماتے تھے مصابرت کا سوال ہی وہاں پیدا ہوتاہے جب سامنے والا بھی صبر پر ڈٹا ہوا ہو۔ آپ دیکھیں کہ باطل ہم سے بڑھ کر انوسٹمنٹ کر رہا ہے ، بھرپور تیاریاں اور کوششیں کر رہا ہے۔ انہوں نے احادیث کا مطالعہ بھی کر رکھا ہے جبکہ اس کے برعکس امت مسلمہ اپنے دفاع سے بھی قاصر ہے ۔ وہ ہمارے گھروں کے اندر تک پہنچ کر چادر اور چاردیواری کے تصور کو متاثر کررہے ہیں ۔ گھراور خاندان کے نظام کو ، والدین اور اولاد کے تعلق کو توڑنے کی کوشش کر رہےہیں ۔ آج سیٹلائٹ ٹیکنالوجی ہمارے موبائل فونز میں انٹرنیٹ کی صورت میںبالکل مفت دستیاب ہے جس کے پیچھے ان کی اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری ہے ۔ ذرا سوچئے ایک سیٹلائٹ کو خلا میں بھیجنے پر کتنی لاگت آتی ہے مگر یہ سب کچھ انہوں نے ہمارے لیے مفت کردیا ہے تو اسی کے ذریعے وہ اپنے مقاصد بھی پورے کر رہے ہیں ۔
خورشید انجم: ہمارا سیاسی اور معاشی نظام تو مکمل طور پر باطل کے شکنجے میں ہے البتہ ہمارا معاشرتی نظام کسی قدرباطل کی یلغار سے بچاہوا تھا ۔ لیکن اب وہ ہمارے معاشرتی نظام پر بھی نقب لگا رہے ہیں۔ مغرب کی طرح ہی مادر پدر آزادی ، وہی بے حیائی ، عریانی اور فحاشی یہاں بھی پھیل رہی ہے ۔ کتنے ہی گھروں میں فتنے جنم لے رہے ہیں اور طلاق کی شرح کس حد تک بڑھ چکی ہے ، یہ سب کچھ باطل کی ان کوششوں کو واضح کر رہا ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ احادیث میں خراسان کا بھی ذکر ہے کہ یہاں سے فوجیں نکلیں گی اور جاکر امام مہدی کے لشکر میں شامل ہو جائیں گی۔ خراسان میں موجودہ افغانستان، پاکستان کے بعض شمالی علاقے اور ایران کا کچھ علاقہ شامل ہے ۔ اسی طرح احادیث میں شام کا بھی ذکر ہے کہ وہاں ایمان ہوگا اور خیر ہوگی ، شام میں فلسطین بھی شامل تھا ، پھر یمن کے بارے میں بھی احادیث ہیں لیکن ان تمام علاقوں پر جنگیں مسلط کی گئیں اور انہیں تباہ کرنے کی پوری کوشش کی گئی ۔ اسی طرح احادیث میں ذکر ہے کہ ہر شجر اور پتھر یہودی کے خلاف بولے گا لیکن غرقد کا درخت یہودی کو چھپا ئے گا ۔ آج غرقد کے درخت کی اسرائیل میں کاشت ہو رہی ہے ۔ ظاہر ہے کہ انہوں نے ان احادیث کا مطالعہ کیا ہے اور اس کے مطابق وہ اپنی منصوبہ بندی اور کوششیں کررہے ہیں ۔
ڈاکٹر ضمیر اختر خان:باطل قوتوں کے سارے مکرو فریب کی اصل کو اللہ تعالیٰ نے یوں بیان کیا ہے:
{یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِئُوْانُوْرَ اللہِ بِاَفْوَاہِہِمْ وَاللہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ(8)}(الصف) ’’وہ تلے ہوئے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے منہ (کی پھونکوں) سے بجھا کررہیں گے‘ اور اللہ اپنے نُور کا اتمام فرما کر رہے گا ‘ خواہ یہ کافروں کو کتنا ہی ناگوار ہو۔‘‘
وہ تو ساری کوششیں اور ساری منصوبہ بندیاں کریں گے لیکن اللہ تعالیٰ ان ساری تدبیروں کو غارت کر دے گا ۔
سوال: آج ابلیسی نظام نے پوری دنیا کو اپنے شکنجے میں جکڑ لیا ہوا ہے اور بظاہر ایسے آثار بھی نظر نہیں آرہے کہ دوبارہ احیاء ہوگا۔ آپ کے خیال میں ان احادیث کے پورا ہونے کا وقت کب آئے گا ؟
ڈاکٹر انوار علی: جب رات گہری ہو جاتی ہےتو صبح کے آثار کا آغاز بھی وہیں سے ہو جاتا ہے ۔ مکہ مکرمہ میں آپ ﷺاور صحابہ کرام ؓنے کس قدر اذیتیں برداشت کیں ، آپ ﷺ کا کس طرح مذاق اُڑایا گیا،یہاں تک کہا جاتا کہ کھانے کو کچھ نہیں ہے اور آپ لوگ روم اور فارس پر حکومت کی باتیں کر رہے ہو (معاذاللہ)۔ پھر طائف سے کس حالت میں واپس آئے اور پھر کس طرح پناہ ملی ، آپ ﷺ کے صحابہ ؇پر کیا گزری ، حضرت بلال ، حضرت مصعب ، حضرت خباب بن ارت ؇کن حالات سے گزرے ، یعنی مکہ کے 13 برس ظلمت کی رات کس قدر گہری ہوتی چلی گئی ، جب ہر طرف سے راستے بند ہوگئے توپھر اچانک مدینہ منورہ کا راستہ کھل گیا اور اس کے بعد اسلام کا غلبہ چند سالوں میں ہوگیا ۔ اللہ تعالیٰ اپنی تدبیر فرمانے میں سب سے بہتر ہے ۔ وہ قرآن میں فرمایا ہے:
{وَاللّٰہُ غَالِبٌ عَلٰٓی اَمْرِہٖ }(یوسف:21) ’’اور اللہ تو اپنے فیصلے پر غالب ہے۔‘‘
البتہ اللہ تعالیٰ کی ایک سنت یہ بھی ہے کہ وہ پہلے لوگوں کو آزمائشوں سے گزارتا ہے ۔اللہ پاک کہتا ہے:
{لِیَمِیْزَ اللّٰہُ الْخَبِیْثَ مِنَ الطَّیِّبِ }(الانفال :37) ’’تا کہ اللہ پاک کو ناپاک سے (چھانٹ کر) علیحدہ کر دے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے مومنین اورمنافقت کا سہارا لینے والوں کو چھانٹ کر علیحدہ بھی کرنا ہے ۔لہٰذا سوال یہ نہیں ہے کہ اللہ کا دین کب غالب ہوگا ۔ اصل سوال یہ ہے کہ ہم اللہ کے دین کے لیے کیا کر رہے ہیں؟ اللہ کے رسول ﷺکی احادیث میں قرب قیامت کی جو نشانیاں بیان کی گئی ہیں ان میں سے اکثر پوری ہو چکی ہیں اور بہت تیزی سے حالات اور واقعات رونما ہورہے ہیں ۔ ان حالات میں ہمیں اپنی فکر کرنی چاہیے کہ ہم کس صف میں کھڑے ہیں ۔
ڈاکٹر ضمیر اختر خان: رسول کریم ﷺ نے فرمایا:’’ تمہارے درمیان، نبوت موجود رہے گی جب تک اللہ چاہے گا۔۔ اس کے بعد نبوت کے طریقہ پر خلافت قائم ہوگی اور وہ اس وقت تک قائم رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا… اس کے بعد کاٹ کھانے والی بادشاہت قائم ہوگی … اس کے بعد قہر وتکبر اور زور زبردستی والی بادشاہت کی حکومت قائم ہوگی اور وہ اس وقت تک باقی رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا… اس کے بعد پھر نبوت کے طریقہ پر خلافت قائم ہوگی۔ ‘‘ اس حدیث کے مطابق اگر دیکھا جائے تو ہم پانچویں دور کی دہلیز پر کھڑے ہیں ۔ اگرچہ امت مسلمہ کے ٹکڑےٹکڑے کرکے 57 مسلم ممالک بنا دیے گئے مگر اس میں خیر کا پہلو یہ ہے کہ ہمیں اسلام کے غلبے کی جدوجہد کرنے کی مہلت مل گئی ۔ بالخصوص اہل پاکستان کو تو آزادی اسلام کے نام پر ملی ہے۔ ہم نے ایک عہد کیا تھا کہ یہاں اسلام کا بول بالا کریں گے ۔اگر ہم نے اس عہد کی پاسداری نہ کی تو پھر ہم نفاق کے مرض میں مبتلا ہو جائیں گے ۔ جیسا کہ سورۃ التوبہ میں فرمایا گیا :
{وَمِنْہُمْ مَّنْ عٰہَدَ اللہَ لَئِنْ اٰتٰـىنَا مِنْ فَضْلِہٖ } (التوبۃ:75) ’’اور ان میں وہ لوگ بھی ہیں جنہوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ اگر وہ ہمیں اپنے فضل سے نواز دے گا۔‘‘
ڈاکٹر اسرار احمدؒ بڑی شد و مد سے اس آیت کی تفسیر کیا کرتے تھے ۔ اگر ہم اس عہد کی پاسداری میں خود کو کھپا دیں تو خلافت کا آغاز یہیں سے ہو جائے گا اور آنے والے دور میں یہیں سے لشکر جاکر حضرت مہدی اور حضرت عیسیٰ ؑ سے ملیں گے مگر ایسا تب ممکن ہوگا جب ہم اپنی زندگی آج سے ہی دین کے غلبے کے لیے کھپائیں گے ۔
خورشید انجم: اس حوالے سے ہم یقینی طور پر تو کچھ نہیں کہہ سکتے کہ حضرت عیسیٰ d دوبارہ کب تشریف لائیں گے البتہ اتنا ضرور ہے کہ آخری دور کے حوالے سے جو نشانیاں احادیث میں بیان کی گئی ہیں وہ ایک ایک کرکے پوری ہوتی جا رہی ہیں ۔ جیسے حدیث میں کہا گیا کہ ننگے پاؤں ننگے بدن چرواہے بڑی بڑی عمارتیں بنائیں گے ۔ آج عرب کے بدو ایسی عمارتیں بنانے میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ اسی طرح ایک بڑی جنگ الملحمۃ الکبریٰ کا ذکر ہے۔ گویا اس کا آغاز بھی مشرق وسطیٰ میں ہو چکا ہے اور وہ رفتہ رفتہ پھیل رہی ہے ۔واللہ اعلم۔ صہیونی جس گریٹر اسرائیل کے منصوبے کی تکمیل میں اس جنگ کو پھیلا رہے ہیں تو خدشہ ہے کہ یہیں سے عالمی جنگ بھڑک اُٹھے گی ۔حدیث میں بتایا گیا ہے کہ اس جنگ میں اس قدر تباہی پھیلے گی کہ ایک اُڑتا ہوا پرندہ زمین پر اُترنے کی کوشش کرے گا مگر نہیں اُتر سکے گا کیونکہ اس قدر لاشیں زمین پر بچھی ہوں گی ۔ اسی طرح ایک اور جنگ کا ذکر ہے جو رومیوں کے خلاف ہوگی اس میں اگر کسی کے 100 بیٹے ہوں گے تو 99 شہید ہو جائیں گے ۔ مسلمانوں کو فتح تو ہوگی مگر اس کی انہیں کوئی خوشی نہیں ہوگی
سوال:مشرق وسطیٰ، خصوصاً فلسطین کی موجودہ صورتحال ، صہیونی اور ابلیسی طاقتوں کا اتحاد اور عرب ممالک کی اسرائیل نوازی، کیا یہ سب عوامل گریٹر اسرائیل کے منصوبے کی تکمیل تو نہیں کر رہے اور کیا اس صورتحال میں امام مہدی کی آمد کا معاملہ آپ کو نظر آتا ہے ؟
خورشید انجم: عربوں کا تو یہ معاملہ ہے کہ وہ شتر مرغ والا کام کر رہے۔ جیسے شتر مرغ ریت میں اپنی گردن کو دبا کر سمجھتا ہے کہ خطرہ ٹل جائے گا ۔ اسی طرح عرب اسرائیل سے دوستی کرکے سمجھ رہے ہیں کہ وہ بچ جائیں گے۔ یہاں تک کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرنے جارہے تھے لیکن حماس نے جہاد شروع کردیا ۔ اب وہ حماس کو قصوروار قراردے رہے ہیں ۔ یعنی عرب ممالک اس حد تک بے حسی کا شکار ہو چکے ہیں جبکہ دوسری طرف اسرائیل اور اس کی پشت پناہ طاقتیں مسلسل گریٹر اسرائیل کے منصوبے کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ عیسائی صہیونی اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں بلکہ ایونجلسٹ تو کہتے ہیں کہ جلداز جلد گریٹر اسرائیل قائم ہو تاکہ ہمارامسایاح آسکے ۔ وہ مسایاح ہی دجال ہےجس کے کنٹرول میں( اللہ کے اذن سے )دنیا کے وسائل ہوں گے ۔ اس کے مقابلے میں حضرت مہدی آئیں گے اور شام میں ایک جگہ محصور ہو جائیں گے ۔ پھر حضرت عیسیٰd آئیں گے اور دجال کو ہلاک کردیں گے ۔
ڈاکٹر ضمیر اختر خان: گریٹر اسرائیل کا منصوبہ اس لیے بھی پورا ہوتاہوا نظر آرہا ہے کہ عرب گمراہی میں پڑ چکے ہیں ۔ بقول ڈاکٹر اسراراحمدؒ عرب مجرم نمبر1 ہیں کیونکہ ان کی زبان میں قرآن نازل ہوا مگر وہ دنیا تک پہنچانے کی بجائے سرکشی کی راہ پر نکل چکے ۔ بلیک گولڈ ( پٹرولیم) جو پوری امت کی متاع تھی اس پر اجارہ داری قائم کرکے عیاشیوں کے اڈے بنائے ہوئے ہیں ۔ اس لیے سزا کے طور پر یہ اسرائیل کے ہاتھوں خوار ہوں گے لیکن پھر اسرائیل کو ظلم اور جبر کی سزا بھی ملے گی ۔ آخری وعدے کے طور پر یہودیوں کو یہاں اکٹھا کر کے لایا جائے گا اور پھر ان کا انجام بھی ادھر ہی ہوگا ۔ ڈاکٹر اسرار احمدؒ فرمایا کرتے تھے کہ مجرم نمبر 2 ہم ہیں جنہوں نے اسلام کے نام پر پاکستان بنایا مگر وعدے سےپھر گئے اور دین کو نافذ کرنے کی بجائے سرکشی کے راستے پر چل رہے ہیں ۔ ظاہرہے اس کی سزا بھی ہمیں دی جائے گی ۔ اس سے بڑی سزا کیا ہوگی کہ ایک ایٹمی ملک ہوتے ہوئے بھی غیروں کے ٹکڑوں پر گزارا کر رہے ہیں اور ان کی تمام شرائط مانتے چلے جارہے ہیں ۔
ڈاکٹر انوار علی: انسانی تاریخ میں شاید پہلی دفعہ یہ ہورہا ہے کہ بھوک اور پیاس کو وار سٹریٹجی کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ 19ہزار بچوں کو شہید کر دیا گیا ہے ۔ تاریخ میں اصحاب الاخدود کا واقعہ ملتا ہے جس میں بعض مفسرین کے مطابق بیس ہزار لوگوں کو جلایا گیا ۔ ان میں بچے بھی تھے ، عورتیں بھی ۔ یہی کچھ غزہ میں بھی ہورہا ہے ۔ مگر اس سب کے باجود اہل غزہ کا حوصلہ بڑھا ہے اور وہ پہلے سے زیادہ ہمت کے ساتھ لڑ رہے ہیں۔ دنیا کی طاقتور ترین فوج جس کے پاس دنیا کی ساری ٹیکنالوجی ہے ان کے مقابلے میں مات کھارہی ہے ۔ یہ اللہ کی مدد کے نظارے ہیں ۔
سوال: احادیث نبویہ ﷺ میں خراسان سے سیاہ جھنڈوں کے نکلنے کا ذکر ہے جو کہ حضرت مہدی کے لشکر میں شامل ہوں گے اوریروشلم میں وہ جھنڈے نصب ہوں گے ۔ کیا اس خراسان کے وجود میں آنے کاابھی کوئی امکان ہے یا نہیں ؟
خورشید انجم: بظاہر تو اس وقت محسوس نہیں ہو رہا لیکن جس طرح احادیث میں موجود دیگر پیشین گوئیاں پوری ہورہی ہیں اسی طرح یہ بھی پوری ہوگی ۔ اس کی نشانی یہ بھی ہے کہ افغانستان میں ایک اسلامی حکومت قائم ہو چکی ہےاور اس کے لیے طویل عرصہ تک وہاں جہاد جاری رہا ہے ۔ اس علاقے میں جہاد کا زندہ ہونا بھی اس کی علامت ہے ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو استحکام بھی عطا کیا ہے اور وہ آگے بڑھ رہے ہیں ۔ روس اور چین کے ساتھ بھی ان کے اچھے تعلقات قائم ہوگئے ہیں ۔ ان کا سادہ طرززندگی اور کرپشن سے پاک ماحول ، انصاف کا بول بالا،یہ سب چیزیں اسی بات کی عکاسی ہیں۔ پھر پاکستان بھی ایک نظریہ کی بنیاد پر وجود میں آیا ہے اور یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہاں تنظیم اسلامی اس 400 سالہ احیائی فکر کی امین ہے جس کا مقصد غلبہ دین ہے ۔ اسی طرح ایران کے ساتھ بھی اسرائیل کی جنگ چھڑ چکی ہے اور خراسان کا ایک حصہ ایران میں بھی لگتا ہے ۔جس تیزی سے حالات بدل رہے لگتا یہی ہے کہ پیشین گوئی پوری ہو کر رہے گی ۔
ڈاکٹر انوار علی:خراسان کے حوالے سے باطل قوتیں باخبر ہیںاور اس حوالے سے یقیناً وہ منصوبہ بندی کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان کشیدگی بڑھ رہی ہے اور اس کا مقصد یہی ہے کہ یہاں سے وہ لشکر نہ جانے پائیں ۔ دوسری طرف چونکہ یہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے اور پورا ہو کر رہنا ہے ۔ ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ کیا ہم اپنے حصے کا کام کر رہے ہیں اور جب وہ وقت آئے گا تو ہم کہاں کھڑے ہوں گے ؟
سوال: آخر الزمان کے حوالے سے احادیث میں جو پیشین گوئیاں ہیں ان میں خلافت علی منہاج النبوۃ کا ذکر بھی ہے ۔ تنظیم اسلامی کا ہدف بھی خلافت کا قیام ہے ، یہ بتائیے کہ تنظیم اسلامی اپنی منزل کے راستے میں کہاں کھڑی ہے اور آئندہ کے حالات سے نمٹنے کے لیے رفقائے تنظیم کو کیا لائحہ عمل اختیار کرنا چاہیے؟
خورشید انجم: تنظیم اسلامی کے پلیٹ فارم سے جو بھی جہدوجہد ہم نے کرنی ہے اس کا اصل مقصد اپنی آخرت کو بچانا ہے ۔لہٰذا ہم اپنی آخرت کی فکر کریں اور حالات و واقعات پر بھی نظر رکھیں ۔ ڈاکٹر اسراراحمدؒ فرمایا کرتے تھے کہ رفقاء کوپوری طرح معلوم ہونا چاہیےکہ ہم کہاں کھڑے ہیں ، ہمارا ماضی ، حال اور مستقبل کیا ہے؟ ہمارے اردگرد زمانے میں کیا ہورہا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ غلبہ دین کی جدوجہد بھی جاری رکھیں۔ایک عادلانہ نظام اس دنیا کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ اہل مغرب نے جمہوریت کے لیے قربانیاں دیں لیکن نتیجہ کیا نکلا ؟ جمہوریت بھی سرمایہ دار ڈکٹیٹروں کی لونڈی ثابت ہوئی ، پھر وہ کمیونزم کی طرف بھاگے تو وہاں بھی آمریت کا سامنا کرنا پڑا ۔ اسلام ہی وہ واحد دین ہے جس میں انسانیت کی نجات ہے ۔ ڈاکٹر جسٹس جاوید اقبال افغان طالبان کے پہلے دور حکومت میں افغانستان کا دورہ کرکے واپس آئے تو انہوں نے متعدد مقامات پر اپنی تقاریر میں کہا کہ افغانستان میں جو نظام میں دیکھ کر آیا ہوں اگر ایک دو دیگر مسلم ممالک میں بھی قائم ہو جائے تو پوری دنیا مسلمان ہو جائے گی۔ تنظیم اسلامی اسی احیائی فکر کی امین ہے۔ لہٰذا ہمیں نظام خلافت کے قیام کے لیے اپنی جدوجہد پر توجہ دینی چاہیے۔ پاکستان کے اور پوری امت کے مسائل کا حل اسی میں ہے ۔
ڈاکٹر ضمیر اختر خان: تنظیم اسلامی کے رفقاء کو ایک تو یہ محسوس کرنا چاہیے کہ ہم خوش قسمت ہیں کہ 400 سالہ مساعی کو لے کر آگے بڑھ رہے ہیں ۔ جب انسان کو کسی نعمت کا احساس ہوتاہے تو پھر آگے بڑھنے کا جذبہ پیدا ہوتاہے۔ لہٰذااس نعمت کا احساس کرتے ہوئے ہم اپنی زندگیاں اس جدوجہد میں کھپائیں ، اپنی اولاد کو، اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کو اس طرف لائیں تاکہ یہ قافلہ آگے بڑھے اور جو ہمارا اصل ہدف ہے اس کے حصول کی راہ ہموار ہو ۔ بنیادی مقصد یہی ہے کہ اس جدوجہد کے ذریعے ہمارا رب ہم سے راضی ہو جائے۔ ہم جنت کا حصول چاہتے ہیں تو وہ بیٹھے بٹھائے تو نہیں مل جائے گی ۔ بالفرض ہماری زندگی میں دین قائم نہ بھی ہو تو ہماری جدوجہد ہماری دائمی فلاح اور نجات کا ذریعہ بنے گی ۔ ان شاء اللہ۔ اگر خلافت قائم ہو جائے تو وہ ہمارے تمام مسائل کا حل ہوگی ۔ افغانستان کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں اس وقت ہر طرح کا استحکام آرہا ہے ، لوگوں کو عدل و انصاف مل رہا ہے اور ہر خاص و عام کو محسوس ہو رہا ہے کہ یہاں ایک حکومت ہے ۔
ڈاکٹر انوار علی:مجھ سے نوجوان سوال کرتے ہیں کہ فلسطین کے لیے کیا کریں تومیں کہتا ہوں کہ صرف فلسطین کے لیے ہی کیوں ، ہمیں کشمیر ، سنگیانگ ، چیچنیا اور میانمار کے مسلمانوں کے لیے بھی کچھ کرنا چاہیے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا کرنا مناسب ہوگا ؟ وہاں جاکر شہید ہو جانا ایک سٹریٹجی ہو سکتی ہے ، یہ بھی اپنی جگہ بڑی بات ہے لیکن اس سے بہتر سٹریٹجی یہ ہے کہ ہم اپنے ملک میں رہ کر خلافت کے نظام کے لیے جدوجہد کریں۔ آج اگر پاکستان میں واقعتاً اسلام نافذ ہوتااور یہاں خلافت کی شمع روشن ہوتی تو کیا اسرائیل کی یہ جرأت ہو سکتی تھی کہ وہ فلسطینیوں کا قتل عام کرتا ؟ میں پورے انشراح صدر کے ساتھ عرض کر رہا ہوں کہ اس وقت اصل ضرورت نظام خلافت کے لیے جدوجہد کرنے کی ہے ۔ جو بھی یہ جدوجہد کر رہا ہے وہ مجاہد ہے ، وہ تمام مظلوم مسلمانوں کے لیے لڑ رہا ہے ۔ ہمارا یہ ہدف صرف اس لیے نہیں کہ پاکستان کے معاشی حالات اچھے ہو جائیں ، سیاسی استحکام آجائے بلکہ مقصد یہ بھی ہے کہ پوری اُمت کے حالات بدل جائیں ۔ حضرت مہدی بھی جب آئیں گے تو وہ آکر سونے کے سکے نہیں بانٹیں گے بلکہ جہاد کریں گے ۔ یہی ہمارا اصل کرنے کا کام ہے ۔ اگر اس سے ہم جی چرائیں اور چھوٹے چھوٹے اہداف کے حصول کی بھی کوشش نہ کریں اور دعوے بڑے بڑے کریںکہ ہم فلسطین آزاد کروائیں گے ، کشمیر آزاد کروائیں گے تو یہ باتیں جچتی نہیں ہیں ۔ سورہ کہف کے شروع میں ہی یہ بات آئی ہے کہ :
{قَیِّمًا لِّیُنْذِرَ بَاْسًا شَدِیْدًا مِّنْ لَّدُنْہُ} ’’(یہ کتاب) بالکل سیدھی ہے ‘تا کہ وہؐ خبردار کرے ایک بہت بڑی آفت سے اُس کی طرف سے۔‘‘
یہاں بَاْسًا شَدِیْدًا سے مراد مفسرین نے وہ بڑی جنگ الملحمۃ العظمیٰ بھی لی ہے جو کہ بالکل تیار کھڑی ہے۔ اس کے فوراً بعد ہی مومنین کے لیے خوشخبری بھی ہے :
{وَیُبَشِّرَ الْمُؤْمِنِیْنَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَہُمْ اَجْرًا حَسَنًا(2)} ’’اور (تاکہ) وہ بشارت دے اُن اہل ایمان کو جو نیک عمل کرتے ہوں کہ ان کے لیے ہو گا بہت اچھا بدلہ۔‘‘
اگر ہم اقامت دین کی جدوجہد میں لگے رہیں گے تو پھر ہمارے لیے کوئی پریشانی نہیں ہے ۔ ہمیں اچھے اجر کی امید رکھنی چاہیے کیونکہ اللہ کا وعدہ ہے :
{وَلَا تَہِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْاوَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(139)}(آل عمران) ’’اور نہ کمزور پڑو اور نہ غم کھائو‘اور تم ہی سربلند رہو گے اگر تم مؤمن ہوئے۔‘‘
تنظیم اسلامی اسی فکر کی امین ہے اور ہمارا ہر وہ رفیق جو پورے انشراح صدر سے اس محنت میں لگا ہوا ہے کل اللہ تعالیٰ کے ہاں سرخرو ہوگا اور اس کاشمار اس صف میں ہوگا جو مسلمانوں کے لیے لڑ رہی تھی ۔ ان شاء اللہ
tanzeemdigitallibrary.com © 2024