(خصوصی پیغام) ناظمہ علیا اہلیہ ڈاکٹر اسرار احمدؒ کا خصوصی پیغام - ناظمہ علیا اہلیہ ڈاکٹر اسرار احمدؒ

8 /
تنظیم اسلامی کے سالانہ اجتماع2024ءمیں شریک رفقاء کے لیے
 
ناظمہ علیا اہلیہ ڈاکٹر اسرار احمد ؒ کا
خصوصی پیغام
میرے محترم اور عزیز رفقاء تنظیم ِاسلامی!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،
اللہ تبار ک وتعالیٰ نے اپنے خاص فضل و کر م سے آپ کو ایک بار پھر سالانہ اجتماع میں شرکت کا موقع عطا فرمایا ہے۔ اس بات پر اللہ کا بہت شکر بجا لاتی ہوں فَلِلّٰہِ الْحَمْدُ حَمْدًا کَثِیْرًا وَلَہُ الشُّکر۔{وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلہِ الَّذِیْ ھَدٰىنَا لِھٰذَاقف وَمَا کُنَّا لِنَھْتَدِیَ لَـوْ لَآ اَنْ ھَدٰىنَا اللہُ ج }(الاعراف:43)’’ اور وہ کہیںگے کل شکر اور کل تعریف اُس اللہ کے لیے ہے جس نے ہمیں یہاں تک پہنچادیا‘ اور ہم یہاں تک نہیں پہنچ سکتے تھے اگر اللہ ہی نے ہمیں نہ پہنچا دیا ہوتا۔ ‘‘ میں خود کو کچھ لکھنے کے قابل تو نہیں سمجھتی تاہم مرحوم بانی امیر ڈاکٹر اسرار احمدؒ سے تعلق کی وجہ سے بہت کچھ کہنا بھی چاہتی ہوں۔گزشتہ سالانہ اجتماع کے موقع پرفلسطین کے حالات کے حوالے سے میں جس کرب سے گزر رہی تھی ایک سال سے زیادہ عرصہ ہونے کے بعد اس میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔
٭ ایک طرف اہلِ غزہ کی مشکلات کو دیکھتی ہوں خواتین،بچے، بوڑھے،بیمار سب   ہی پانی ، خوراک اور ادویات کی قلت کے باعث جن مشکلات کا شکار ہیں ،ہم ان کا صحیح اندازہ ہی نہیں کر سکتے۔کیونکہ ہم تک پوری خبریں نہیں پہنچ پاتیں۔بنیادی انسانی ضروریات کی قلت ، بھوک اور تکلیف میں دم توڑتے بچے ،بوڑھے ،زخمی افراد پھر ان کو سنبھالنے والے مردوزن ، جو خود خوراک کی شدید کمی(Severe Starvation)  کا شکار ہیں،وسائل کی کمی کے باعث دوسروں کی مدد کے منتظر ،امت ِ مسلمہ کی غیرت کو جگاتے نظر آتے ہیں۔   ع
’’دل ہی تو ہے، نہ سنگ و خشت ،درد سے بھر نہ آئے کیوں‘‘
٭ دوسری طرف ....اہل ِ فلسطین کی ثابت قدمی اور صبر و ثبات سے دل کو حوصلہ ملتا ہے کہ’ ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں ـ‘ جو کل عالمِ انسانیت کو اہل ِایمان کے جذبۂ جہاد    سے متعارف کروارہے ہیں کہ آج کے دجالی دور میں راتوں کے راہب اور دن کے شہسوار موجود ہیں جن کے خوف سے صہیونی طاقتیں لرزتی ہیں جو فرعونیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بچوں کا قتل عام تو کر سکتی ہیںمگر میدان جنگ میں مجاہدین کا مقابلہ کرنے سے خائف نظر آتی ہیں ۔
٭ تیسری طرف....سر شرم سے جھک جاتا ہے جب مسلمان عوام کے منتخب مسلمان حکمرانوں اور صاحبِ اقتدار لوگوں کو دجالی دور کے دجل میں مبتلا دیکھتی ہوں ۔بہت ڈر لگتا ہے اِس بات سے کہ کہیں حکمرانوں ہی کی نہیں عوام الناس کی بے حسی اللہ کے غضب کی صورت میں ہم سب کو اپنی لپیٹ میں نہ لے لے ۔ہمیں کثرت سے دعا کرنی چاہیے:  ((اَللّٰھُمَّ لَا تَقْتُلَنَا بِغَضَبِکَ وَلَا تُھْلِکُنَا  بِعَذَابِکَ وَعَافِنَا قَبْلَ ذَالِک )) 
’’اے اللہ! تو اپنے غضب سے ہمیں نہ مار، اپنے عذاب کے ذریعہ ہمیں ہلاک نہ کر اور ایسے برے وقت کے آنے سے پہلے ہمیں بخش دے۔‘‘
( آمین ثم آمین)
٭ میرے عزیز رفقاء تنظیم ِاسلامی ! 4سال سے زیادہ عرصہ بیت گیا، امیر تنظیم اسلامی شجاع الدین شیخ صاحب اپنی ذمہ داری پوری محنت اور کوشش کے ساتھ ادا کر رہے ہیں ۔ ندائے خلافت میں ہرہفتے باقاعدگی کے ساتھ ’’امیر محترم کی گزشتہ ہفتے کی مصروفیات ‘‘ کا مطالعہ کرتی ہوں تو اُن کی محنت ،مصروفیات اور دعوت کے کام کی اَن تھک کوششوں میں مجھے بانی ٔ محترم رحمۃ اللہ علیہ کی جھلک نظر آتی ہے۔اللہ سبحانہ وتعالیٰ اُن کی محنت اور کوشش کو بابرکت بنائے ۔آمین!
امیر محترم اپنے بیانات اور خطبات جمعہ کے ذریعے اپنی جماعت ہی نہیں بلکہ پوری امت کو جگانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں ۔اپنے خطباتِ جمعہ اور خطاباتِ عام میں وہ مسلسل فلسطین کے مظلومین کے حق میں صدائے احتجاج بلند کرتے نظر آتے ہیں۔وہ اپنا کام پوری محنت اور خلوص کے ساتھ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ہمیں بھی اپنی فکر کرنی چاہیے کہ دین کے حوالے سے جن ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لیے ہم نے’’اَوْفُوْا بِالْعَھْرِ اِنَّ الْعَھْدَ کَانَ  مَسْئُولَا‘‘’’اور عہد کو پورا کرو یقیناً عہد کے بارے میں بازپرسی ہو گی۔‘‘ کوپیش نظر رکھتے ہوئے اللہ سے جو عہدکر رکھا ہے، اسے ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں یا نہیں۔اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔
اندریں حالات ،دور جدید کے فتنے اور ان پر مستزاد سوشل میڈیا کی دجالیت پر مبنی جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ ثابت کرنے کی صلاحیت نے ہر درد مند دل کے دکھ میں بہت اضافہ کر دیا ہے ۔یوں لگتا ہے کہ وہ وقت بالکل قریب آن لگا ہے جب اہلِ ایمان اپنے ایمان کی پونجی سنبھالتے جنگلوں کا رخ کرنے لگیں گے۔سورۃ النحل کی آیت نمبر97میرے ذہن میں گردش کرتی رہتی ہے میں چاہتی ہوں آپ سب رفقاء اسے یاد کر لیں اور اپنے گھر والوں کو بھی میری طرف سے بطور ہدیہ پہنچا دیں اور اس کا ترجمہ اور مفہوم بھی سمجھا دیں اِن شاء اللہ ایمان و عمل میں اضافہ ہوگا۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
{مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃًج وَلَنَجْزِیَنَّہُمْ اَجْرَہُمْ بِاَحْسَنِ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(97)} (النحل:97) ’’جس کسی نے بھی نیک عمل کیا ‘ خواہ وہ مرد ہو یا عورت‘ بشرطیکہ ہو وہ مؤمن تو ہم اُسے (دُنیا میں) ایک پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے۔اور (آخرت میں) ہم انہیں ضرور دیں گے اُن کے اجر‘  اُن کے بہترین اعمال کے مطابق۔‘‘  
عزیزان گرامی !ہمیں آج بھی وہی کام کرنے ہیں جو میں گزشتہ سال اپنے پیغام میں لکھ چکی ہوں۔ میں چاہوں گی کہ میری گزشتہ سال کی وہ گزارشات جن کا تعلق عمل کی دنیا سے ہے ،آپ اپنے ذہنوں میں پھر سے تازہ فرمالیں۔
عزیز رفقائے گرامی! ہمیں اس بات کا جائزہ ضرور لیناچاہئے کہ مسجد ِاقصیٰ کی حرمت کے لیے ہم کیا کر سکتے ہیں؟ہم دعاتو کر سکتے ہیں۔ دعا مومن کا ہتھیار ہے،دعا ہی اصل عبادت ہے،دعا عبادت کا جوہر ہے۔ہم ایسی پُر خلوص دعا کا سہارالیں جو خلوصِ دل سے اللہ کے حضور توبہ کرکے مانگی گئی ہو۔رو رو کر اپنے رب سے التجائیں کریں ،قنوتِ نازلہ کا اہتما م کریں۔گھر والوں کو بھی تاکید کریں۔ایسی تمام مصنوعات(Products)جن  میں کسی درجے میں بھی اسرائیل کو فائدہ پہنچ سکتا ہو ان کا مکمل بائیکاٹ کریں۔
’’دُعائے‘‘ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
پیارے نبی ﷺ نے جنگ کے حالات میں خاص طور پر لمبی لمبی دعائیں مانگیں۔بدر کے موقع پر آپﷺ نے بہت درد مندی سے رو روکر اپنی قلتِ تعداد و اسباب پر اپنے رب کی مدد کے لیے دامن پھیلایا۔آج ہمیںبظاہر اہلِ غزہ کی فتح غیر یقینی لگتی ہے لیکن اللہ سبحانہ وتعالیٰ دشمنانِ اسلام کو ذلیل و خوار کرنے پر قادر ہے۔
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطاراب بھی 
حالات میں تبدیلی کے لیے بہت مؤثر ذریعہ حقیقی توبہ اور گناہوں سے اجتناب بھی ہے ۔ سب رفقاء  ’’Charity Begins at Home ‘‘کے مصداق اپنے اپنے گھروں کا جائزہ لیںکہ دجالی فتنے کی کون کون سی صورتیں ہمارے گھروں میں داخل ہونے کی کوشش کر رہی ہیں ۔موبائل فون کا فتنہ تو ہر گھر میں موجود ہے۔اہل ِخانہ کو اور خود کواُس کی ہلاکت خیزی سے بچانے کے کیا طریقے اختیار کیے جائیں؟اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ کتبِ احادیث میں سے باب الفتن کاضرور مطالعہ کریں۔
اپنے گھروں کا جائزہ اس پہلو سے بھی ضرورلیںکہ کیا بچے دنیاوی تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم بھی حاصل کر رہے ہیں،دینی شعائر کا اہتمام کر رہے ہیں؟اگر نہیں تو سمجھ لیںکہ ان پردجالی فتنہ اثر انداز ہو رہاہے۔ایسا نہ ہو کہ آنے والے وقت میں معلوم ہو کہ دینی غیرت و حمیت بالکل ہی دم توڑ چکی ہے،معاذ اللہ    ؎
احساس عنایت کر آثارِمصیبت کا
امروز کی شورش میں اندیشۂ فردا دے
اپنے بچوں میں دینی حمیت بیدار کرنے کے لیے انہیں اپنے اسلاف سے جوڑنے کی کوشش کریں۔سیرت النبیﷺ ،سیرت صحابہؓ،ائمہ اربعہؒ اور تاریخِ اسلامی کی نامور شخصیات کی زندگیوں کا مطالعہ کرائیں۔اُن میں جذبہ جہاد اور شوق شہادت پیدا کریں۔انہیں دجالیت اور صہیونیت سے متعارف کرائیں۔تاریخ بنی اسرائیل اور تاریخ امتِ مسلمہ کا مطالعہ کرائیں۔آپ کے علم میں ہو گا کہ اسرائیل میں ہر یہودی بچے کو مونٹیسوری لیول سے ہی اسلام اور مسلمانوںسے دشمنی کی نہ صرف تعلیم دی جاتی ہے ،بلکہ اسلام دشمنی اُن کی گھٹی میں ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ہم کم سے کم یہ کوشش تو کر سکتے ہیں کہ اپنے بچوں میں اللہ ،  اللہ کے رسولﷺ اور اللہ کے دین کے ساتھ وفاداری کے جذبات پیدا کریں۔ بچوں کو وقت ضائع کرنے والی مصروفیات سے نکالیں خصوصاً موبائل پر وقت کے ضیاع سے.... فلسطینی بچوں کی زندہ مثالوںسے ان میں قرآن کی محبت،دین کے ساتھ وفاداری اور جذبۂ جہاد پیدا کریں۔
اسرائیل نواز کمپنیوں کی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں۔مفتی تقی عثمانی صاحبs نے بہت خوبصورت بات کی ہے’’یہ حرام حلال کا مسئلہ نہیں ہے، یہ دینی غیرت و حمیت کی بات ہے۔ملٹی نیشنل کمپنیوں کی مصنوعات ہماری زندگیوں میں جزو لاینفک کی طرح شامل ہو چکی ہیں۔‘‘انہیں چھوڑنا بہت ادنیٰ درجے کی قربانی ہے۔ادنیٰ سے اعلیٰ کی طرف بڑھیں ۔اللہ کی رضا کے لیے ہر وہ کام چھوڑ دیں جسے چھوڑنے کا ہمارے پیارے نبی ﷺنے حکم دیا ہے۔تنظیمِ اسلامی کے ہر رفیق کو وہ حدیث یاد ہو گی کہ صحابہ کرام ؓ نے نبیﷺ سے سوال کیا تھا: ((اَیَّ الْھِجْرَۃِ افْضَلْ یَا رِسُوْ لَ اللہ))’’یا رسول اللہ ﷺ سب سے افضل ہجرت کون سی ہے۔‘‘  رسول ﷺ نے جواباً ارشاد فرمایا: ((اَنْ تَھْجُرُ کُلَّ مَا کرۃ رَبُّکَ))’’افضل ہجرت یہ ہے کہ تم(ہر) اس چیز کو چھوڑ دو جسے تمہارا رب ناپسند کرتا ہے۔‘‘
اکثر مجھے شکایت پہنچتی رہتی ہے کہ رفقائے تنظیم اسلامی کے گھروں کی وہ خواتین جو ماشاء اللہ تنظیم میں شامل ہیں، عمومی اور خصوصی پروگرامز میںکم ہی شرکت کرتی ہیں۔ الا ماشاء اللہ___یہ لمحہ فکریہ ہے !خواتین کا نظم مردوں کے تحت ہے ،یہ اس بات کا مظہر ہے کہ آپ مردوںکو اللہ نے اصل ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔خاص طور پر اپنے گھروں میں آپ کی حیثیت قوام کی سی ہے۔گھر والوں میں دین کاشوق پیدا کرنے کی کوشش کریں گے تو شکایت دور ہوگی ان شاء اللہ۔آپ کا محبت آمیز نرم رویہ ،یہ کام با آسانی کر سکتا ہے۔
ہو حلقہ یاراں توبریشم کی طرح نرم    رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
عزیزانِ گرامی!دل بہت افسردہ ہے۔مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔وہ اسے مشکل میں تنہا نہیں چھوڑتا۔ہمیں لگتا ہے کہ اہلِ فلسطین بڑی آزمائش میں ہیں حالانکہ غور کیاجائے تو اصل آزمائش میں ہم ہیں ۔
پاکستان اپنی ایٹمی طاقت کس پر آزمائے گا؟کوئی دھمکی دی جاسکتی تھی، مسلم اتحاد کی بات کی جاسکتی تھی۔آج دو ارب مسلمانوں میں سے اکثریت کا یہ حال ہے کہ یا کھال مست ہیں یا مال مست   اَعَاذَ نَااللّٰہُ مِنْ ذَالِک  ؎
ہر درد مند دل کو رونا مرا رُلا دے
’’خاموش جو کھڑے‘‘ ہیں شاید اُنہیں جگا دے
وقت ایک سا نہیں رہتا۔آج موقع ہے ہم از سر نو اپنی مصروفیات ،اپنی فکر مندیاں اور اپنی پلاننگز کا جائزہ لیں۔اپنے لیے کچھ اہداف طے کریں۔اللہ سے مدد مانگتے ہوئے اس کی طرف لپکیں: {فَفِرُّوْٓا اِلَی اللہِ ط اِنِّیْ لَـکُمْ مِّنْہُ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ x} (الذاریات) ’’تو دوڑو اللہ کی طرف ‘یقیناً مَیں تم لوگوں کے لیے اُس کی طرف سے صاف صاف خبردار کرنے والاہوں۔‘‘
٭ عزیزانِ محترم! میں اپنی دعائوں میں ہمیشہ امیر تنظیمِ اسلامی اور رفقائے تنظیم کو یادرکھتی ہوں اور آپ تمام رفقاء سے درخواست کرتی ہوں کہ میرے ’’ خاتمہ بالایمان‘‘ کے لیے دعا کریں اور یہ دعابھی اپنی دعائوںمیں شامل رکھیں کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ مجھے آخری وقت تک اپنے سوا کسی کا محتاج نہ کرے۔
جزاکم اللہ خیر، السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہٗ