اُمت مسلمہ کاسب سے بڑامسئلہ نظام خلافت کا نہ ہونا ہے،
باقی تمام مسائل اسی وجہ سے ہیں۔
آج دو ارب مسلمان ہونے کے باوجود ہم مغلوب ہیںاور پانی
کی ایک بوتل غزہ کے مسلمان بھائیوں تک نہیں پہنچا سکتے ،
اس ذلت و رسوائی سے نکلنے کا واحد حل یہ ہے کہ اللہ کے
دین کو دوبارہ غالب کرنے کی جدوجہد کی جائے،
اللہ کے رسول ﷺکی زندگی کا مشن اللہ کے دین کو قائم کرنا تھا ،
سچا اُمتی وہی ہوگا جو آپ ﷺ کے مشن کو
اپنی زندگی کا مقصد بنائے گا ۔
تنظیم اسلامی کے کل پاکستان سالانہ اجتماع 2024ء کے خصوصی پروگرام’’ امیر سے ملاقات‘‘ میں
امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ کے رفقائے تنظیم و احباب کے سوالوں کے جوابات
میزبان :محمد نعمان
مرتب : محمد رفیق چودھری
سوال:میں ایک ادارے میں ملازم ہوں اور تحریک کا حصہ بننا چاہتا ہوں لیکن ادارے نے حلف لیا ہے کہ دوران ملازمت میں کسی بھی مذہبی یا سیاسی تنظیم کا حصہ نہیں بن سکتا۔ آپ رہنمائی فرمائیں کہ مجھے کیا کرنا چاہیے؟ (حافظ الیاس وسیم،ساہیوال)
امیر تنظیم اسلامی: ایک طرف وہ حلف نامہ ہے جو ریاستی اداروں کے ملازمین سے لیا جاتا ہے کہ وہ دوران ملازمت کسی مذہبی یا سیاسی تنظیم کا حصہ نہیں بنیں گے ۔ یہ ایک طرح کا وعدہ ہے ۔ ہم وعدہ خلافی کے حق میں بھی نہیں ہیں ۔ لیکن دوسری طرف دین ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور زندگی کے ہر شعبہ پر اپنا غلبہ اور نفاذ چاہتا ہے۔ اس لیے یہ ہماری دینی ذمہ داری ہے کہ ہم دین پر ممکنہ حد تک عمل کریں، دوسروں کو بھی اس کی دعوت دیں اور دین کو قائم کرنے کی جدوجہدبھی کریں جو کہ نبی اکرم ﷺ کامشن تھا۔اس دینی فریضہ کی ادائیگی کے لیے دینی اجتماعیت کو اختیار کرنا ضروری ہے جو کہ غلبہ دین کی جدوجہد کر رہی ہو۔ سورۃ العصر کا حاصل بھی یہ ہے کہ اجتماعیت اختیار کر کے دینی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی کوشش کی جائے ۔ہم وعدہ خلافی کی بات نہیں کریں گے لیکن اصولی طور پر یہ مقدمہ ہم اپنے بھائی کے سامنے رکھیں گے کہ ایک طرف دینی ذمہ داری ہے اور دوسری طرف معاش کے لیے وعدہ ہے ۔ فیصلہ انہوں نے خود کرنا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ان کے لیے آسانی فرمائے ۔ آمین !
سوال: اگر مسلم امہ کسی خاص مقصد کے لیے اجتماعی طور پر اکٹھی ہوتی ہےجیسا کہ مسئلہ فلسطین کے حل کےلیے تو اس اجتماعیت کے امیر کا تعین، تقرر کس معیار پر اور کس طریقہ کار پر ہوگا اور اس ضمن میں ایک عام مسلمان کو کیا کوشش کرنی چاہیے؟(کلیم اللہ ، حبیب، ساہیوال)
امیر تنظیم اسلامی:اس معاملے کے دو پہلو ہیں ۔ ایک تو وقتی مسائل ہوتے ہیں جیسا کہ فلسطین ، کشمیر یا میانمار کا مسئلہ ہے ۔ ان مسائل پر ہم سمجھتے ہیں کہ امت کو مشترکہ طور پر آواز بلند کرنا چاہیے ، لائحہ عمل طے کرنا چاہیے اور کچھ اصولوں پر جمع ہو جائیں تو بہت اچھی بات ہے۔ قرآن کہتا ہے:
{وَتَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی ص} (المائدہ:2) ’’اور تم نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں تعاون کرو۔ ‘‘
البتہ سب سے بڑا مسئلہ نظام خلافت کا نہ ہونا ہے ۔ باقی تمام مسائل اسی وجہ سے ہیں۔ ہم ایک اُمت بننے کی بجائے لسانی ، نسلی اور جغرافیائی بنیادوں پر تقسیم ہو چکے ہیں ۔ اس تقسیم و تفریق میں ذاتی مفادات بھی شامل ہو جائیں تو پھر اپنوں کے مقابلے میں غیروں کا ساتھ دیا جاتا ہے۔ آج کئی عرب ممالک حماس کی مخالفت صرف اسی وجہ سے کر رہے ہیں ۔ اس مسئلے کا مستقل حل نظام خلافت کا دوبارہ قیام ہے ۔ آج اللہ کا دین مغلوب ہے، اُمت کی ذلت کی وجہ یہ ہے کہ اس نے اُمت والا کام چھوڑا ہوا ہے۔ اس زمین پر کوئی خطہ، کوئی ملک ہم نہیں دکھا سکتے جہاں اللہ کا دین مکمل طور پر غالب ہو۔ یہ ہمارا سب سے بڑا جرم ہے اور اسی وجہ سے آج دو ارب مسلمان ہونے کے باوجود ہم مغلوب ہیںاور پانی کی ایک بوتل تک غزہ کے مسلمان بھائیوں تک نہیں پہنچا سکتے ۔ اس ذلت و رسوائی سے نکلنے کا واحد حل یہ ہے کہ اللہ کے دین کو دوبارہ غالب کرنے کی جدوجہد کی جائے۔ ظاہر ہے یہ جدوجہد اجتماعی طور پر ہوگی ۔ اگر امت کے فہیم عناصر اور دین کا درد رکھنے والے اس مشترکہ معاملے پر جمع ہوجائیں تو یقیناً یہ مسئلہ تو پیش آئے گا کہ امیر کون ہوگا ؟ بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسراراحمدؒ بھی فرماتے تھے کہ ایک امیر ہونا چاہیے تاکہ ڈسپلن رہے اور سمت بھی درست رہے ۔ امیر کے تعین اور تقرر کے لیے معیار وہی ہونا چاہیے جو دین نے مقرر کیا ہے کہ جو تقویٰ میں سب سے بڑھ کر ہو اور معاملہ فہمی اور حکمت میں بھی برتر ہو ۔ کچھ بنیادی معیارات مشاورت سے بھی طے کیے جا سکتے ہیں۔ جہاں تک عام آدمی کا معاملہ ہے تو عام آدمی کم سے کم کسی دینی اجتماعیت میں تو آئے تاکہ وہ اپنی دینی ذمہ داریاںبا آسانی ادا کرسکے ۔
سوال: ہمارے بہت سے رفقاء اور احباب خود بھی اور اپنے بچوں کے معاملے میں بھی قرآن مجید کی تعلیم و تعلم کے حوالے سے پریشان ہیں ۔ کیا آپ یہ محسوس نہیں کرتے کہ علم فاؤنڈیشن کے تحت آپ نے اوردیگر علماء نے جو کام کیا ہے اس سے رفقاء اور احباب کو مستفید ہونے کا موقع فراہم کیا جائے ۔ ( احسان اللہ، حلقہ لاہور شرقی )
امیر تنظیم اسلامی: ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس دور میں اللہ تعالیٰ نے استاد محترم بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمد ؒ کے ذریعے ہمیں قرآن حکیم سے جوڑا، پھر دورہ ترجمہ قران کا سلسلہ ،رجوع الی لقرآن کورسز، دروس قرآن کی محافل ، منتخب نصاب کے دروس اور بیان القرآن کی اشاعت کا سلسلہ جاری ہے ۔ پاکستان بھر میں سینکڑوں مقامات پر دروس قرآن کا اہتمام ہوتا ہے۔ رفقاء و احباب سے گزارش ہے کہ وہ اپنے آپ کو اور اپنے عزیروں ، رشتہ داروں کو ان دروس سے جوڑنے کی کوشش کریں ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا کہ بانی تنظیم ڈاکٹر اسرار احمدؒنے وقت کی جو بھی ٹیکنالوجی میسر تھی اس کا استعمال شرعی حدود میں رہتے ہوئے کیا ۔ اس کو ہم اپنے گھروں میں بھی استعمال کرنے کی کوشش کریں ۔ یعنی اپنے گھروں میں ڈاکٹر صاحبؒ اور ان کے شاگردوں کے دروس سے استفادہ میڈیا کے ذریعے بھی کریں۔ علم فاؤنڈیشن کے تحت جو متفقہ نصاب تیار ہوا ہے اس کی منظوری وفاقی حکومت نے بھی دی ہے اورپنجاب اور کے پی کے حکومتوں نے بھی اس کو نصاب کا حصہ بنایا ہے ۔ الحمدللہ ۔ اس نصاب کی تیاری میں اللہ تعالیٰ نے ناچیز سے بھی کام لیا اور مجھ پر اپنا فضل فرمایا ۔ اب پاکستان بھر میں سوا کروڑ کے لگ بھگ طلبہ و طالبات اسکولوں میں اس نصاب سے مستفید ہو رہے ہیں ۔ اب سوال یہ ہے کہ رفقائے تنظیم اور احباب اس سے کس طرح استفادہ کریں تو اس حوالے سے حافظ عاکف سعید صاحب کے دور امارت میں حلقہ خواتین کے مشورے پر بچوں کے لیے چھوٹی چھوٹی کتابوں پر مشتمل نصاب تیار کیا گیا تھا ۔ گھریلو اُسرے کا تصور بھی ہمارے ہاں موجود ہے ۔ اس سے استفادہ کیا جاسکتاہے ۔ اس کے علاوہ الحمدللہ علم فاؤنڈیشن کے نصاب کی چار کتب میں ریکارڈ کروا چکا ہوں ۔ ان سے بھی آن لائن استفادہ کیا جاسکتاہے ۔
سوال: میں جوان ہوں، تعلیم یافتہ ہوں، برسر روزگار ہوں، لیکن مجھے کوئی رشتہ نہیں مل رہا، میں کیا کروں،نکاح کے لیے تحریکی خاتون کیسے تلاش کروں؟(کامران اسلم ، مقامی تنظیم چوہنگ لاہور)
امیر تنظیم اسلامی:ماشاءاللہ! اچھی بات ہے کہ ایک نوجوان کو اپنی حیا ، اپنی نگاہوں اور ایمان کی حفاظت کی فکر ہے ۔ اس حوالے سے پہلا مجرب نسخہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا میں ہے :
{ رَبِّ اِنِّیْ لِمَآ اَنْزَلْتَ اِلَیَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیْرٌ(24) } (القصص) ’’پروردگار! جو خیر بھی ُتو میری جھولی میں ڈال دے‘ میں اس کا محتاج ہوں۔‘‘
یہ مجرب دعا ہے، اس کا بھی اہتمام ہونا چاہیے اور اگلی بات یہ کہ جب ایک بندہ اجتماعیت سے جڑتا ہے تو اس کا ایک تقاضا یہ بھی ہوتا ہے کہ اپنے ساتھیوں کے ایمان اور حیاء کی حفاظت میں ان کی معاونت کی جائے ۔ اس تعلق سے تنظیم میں جو ان کے سینئرز ہیں ، ذمہ داران ہیں ، ان سے بھی بات کرنی چاہیے ۔ اپنے والدین سے بھی بات کرنی چاہیے۔ والدین کی دعا اولادکے حق میں جلد قبول ہوتی ہے ۔ آج ہمارے معاشرے میں نکاح کو بہت مشکل بنا دیا گیا ہے اس کے خلاف بھی ڈاکٹرا سراراحمدؒ نے باقاعدہ تحریک چلائی جس کا مقصد تھا کہ نکاح کو آسان بنایا جائے۔ سب سے اہم یہ ہے کہ اقامت دین کی جدوجہد کو تیز تر کیا جائےکیونکہ اللہ کا دین قائم ہوگا تو پھر نکاح جیسی سنت پر عمل کرنا بھی کوئی مشکل نہیں ہوگا ۔
سوال:اس میں سینئر رفقاء کی طرف سے بھی کچھ معاونت ہو سکتی ہے ایسے نوجوانوں کی؟
امیر تنظیم اسلامی: بالکل ہو سکتی ہے۔ ہمارے ہاں تنظیمی نظم میں بنیادی یونٹ اُسرہ ہوتاہے جس کا ذمہ دار ایک نقیب ہوتاہے ۔ اس کی ذمہ داری ہے کہ اپنے رفقاء کے گھریلو معاملات ، ان کی اخلاقی تربیت ، علمی تربیت اور ان کی مشکلات کے حل کے بارے میں فکر مند رہے اور رہنمائی دینے کی کوشش کرے ۔ لہٰذا اپنے نقیب سے ایسے معاملات میں مشاورت کی جاسکتی ہے ۔ اگر نقیب سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوتا تو پھر مقامی تنظیم کے امیر کے علم میں لایا جائے، دیگر سینئر لوگوں کے علم میں لایا جائے۔ اسی طرح اپنے گھر کی خواتین کو تنظیم میں شامل کرکے حلقہ خواتین سے جوڑنے کی کوشش کی جائے ۔ اگر گھر والے آن بورڈ ہوں گے تو دیندار خاتون کا رشتہ تلاش کرنا مشکل نہیں ہوگا ۔ البتہ تنظیم میں آنے کا اصل مقصد اللہ کے دین کو قائم کرنے کے لیے جدوجہد کرنا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور اخروی نجات حاصل ہو جائے ، یہ نیت ہوتو باقی سارے معاملات بھی اللہ حل کر دے گا ۔ ان شاء اللہ
سوال: مسجد دین اسلام کی بنیادی درس گاہ ہے۔ آج ملک کی بیشتر مساجد کی امامت ایسے علماء کے پاس ہے جو دین کے بجائے فرقے کے پرچار کو ترجیح دیتے ہیں، ہماری مساجد ایسے مذہب کی ترویج کر رہی ہیں جسے ڈاکٹر اسراراحمدؒ نے اسٹیٹک اسلام کا نام دیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تنظیم ایسے حفاظ تیار کرے جنہیں درس نظامی کی تعلیم دلوائی جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ مساجد کو ہم خیال علماء میسر آ سکیں؟( ثاقب شفیع ، حبیب )
امیر تنظیم اسلامی:فرقہ واریت کا لفظ ذرا سا بھاری ہے ۔ اصل میںوہ مسلکی معاملات میں زیادہ آگے نکل کر کلام کر رہے ہوتے ہیں تو پھر اس میں اختلافی مباحث بھی آجاتے ہیں۔ جیسا کہ ڈاکٹر اسرار احمدؒ نےفرمایا تھا کہ دین کا جو جامع تصور ہے کہ دین ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور اپنا مکمل نفاذ چاہتا ہے ، اس کے نفاذ کی جدوجہد کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے ، اس جامع تصور کو چھوڑ کر عقائد ، ایمانیات اور عبادات تک دین کو محدود کردینا ، یہ اسٹیٹک اسلام ہے۔ جب دین کا جا مع تصور سامنے نہ ہو تو پھر ایسے ہی چھوٹے مسائل پر جھگڑے اور بحثیں ہوتی ہیں ۔ جبکہ دوسری طرف اللہ کے دین کا کیا حال ہے ؟
اے خاصۂ خاصان رسل وقت دعا ہے
امت پہ تیری آ کے عجب وقت پڑا ہے
جو دین بڑی شان سے نکلا تھا وطن سے
پردیس میں وہ آج غریب الغربا ہےپاکستان میںسالانہ تقریباً 80 ہزار سےایک لاکھ تک حفاظ تیار ہورہے ہیں ۔ اسی طرح ہزاروں کی تعداد میں درس نظامی کے فاضلین کی کھیپ تیار ہورہی ہے ۔ تنظیم اسلامی کو اس میں کوئی ویلیو ایڈیشن کی ضرورت نہیں ہے ۔ البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ ہم آئمہ مساجد کے ساتھ رابطہ رکھیں ، مساجد کی کمیٹی میں شامل حضرات سے رابطہ رہے اور مساجد میں ہمارا اپنا بھی ایک رول ہو ۔ وہاں گفتگو کرنے اور تنظیم کا موقف بیان کرنے کے مواقع حاصل کریں ۔ مجھے خود امیر تنظیم کی حیثیت سے پورے ملک کے دوروں کے دوران کئی مساجد میں خطاب کا موقع ملتا ہے ، اسی طرح کئی مساجد میں رفقائے تنظیم کو رمضان کے دوران دورہ ترجمہ قرآن کا موقع ملتا ہے ۔ کئی مساجد میں خلاصہ مضامین قرآن ہوتے ہیں ۔ دروس قرآن بھی ہوتے ہیں ۔ الحمد للہ اس حوالے سے کافی بہتری آرہی ہے ۔ تنظیم اسلامی کا اصل میدان مسلک سے بالا تر ہو کر دین کے جامع تصور کی دعوت دینا ہے ۔لوگوں کو یہ بتانا ہے کہ اللہ کے دین کو غالب کیسے کرنا ہے ۔ اس کے لیے جدوجہد کرنی ہے ۔ جہاں تک درس نظامی کے فاضلین کا معاملہ ہے تو الحمدللہ تنظیم کی سطح پر فاضلین درس نظام کی ایک قابل ذکر تعداد موجود ہے ۔ اسی طرح رفقاء کی ایک بڑی تعداد ہے جن کے بچے اور بچیاں حافظ قرآن ہیں اور مزید بھی کر رہے ہیں ۔ تاہم ہمارا اصل فوکس اس بات پر ہے کہ آئمہ مساجد سے روابط بڑھائے جائیں ۔
سوال:بعض اسلامک اسکالر اس جواز کی بنیاد پر اقامت دین کے معاملے پر اختلاف رکھتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں فرقہ واریت بہت زیادہ ہے ۔ اگر اسلام غالب ہوتاہے تو کس فرقے کا اسلام نافذ ہوگا ؟ اور کیا باقی فرقے اس کو قبول کر لیں گے ؟(دانیال انصاری،حلقہ کراچی جنوبی)
امیر تنظیم اسلامی: یہ سوال بہت پرانا ہے اور جواب بھی بہت پہلے آچکا ہے ۔ جب پاکستان قائم ہوا تو اس کے بعد 1949ء میں قرارداد مقاصد پاس ہوئی جس میں یہ طے کر دیا گیا کہ یہاں حاکمیت اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ہوگی اور کتاب و سنت کے منافی کوئی قانون نہیں بنایا جائے گا ۔ تب یہ سوال اُٹھایاگیا کہ اتنے فرقے ہیں ، کس کا اسلام غالب ہوگا ۔ اس وقت تمام مسالک کے 31 جید علماء نے متفقہ طور پر 22 نکات پر مشتمل ایک مسودہ پیش کیا تھا کہ اس کے مطابق اسلام نافذ ہوگا تو کسی بھی مسلک یا فرقے کو کوئی اختلاف نہیں ہوگا ۔ سب اس پر متفق ہوں گے ۔ تنظیم اسلامی کی ویب سائٹ پر ان 22 نکات کی تفصیل مل جائے گی ۔ پھر جب قاضی حسین احمد مرحوم کے دور میں ملی یکجہتی کونسل بنی تھی تو اس وقت ان میں چند مزید نکات کااضافہ کرکے تمام مسالک نے اتفاق کر لیا تھا۔اب الحمد للہ کسی مسلک یا فرقہ کو نفاذ اسلام کے حوالے سے کوئی اختلاف نہیں ہے ۔ جب اسلام نافذ ہوگاتو نماز کی پابندی کروانا حکومت کی ذمہ داری ہوگی ۔ قرآن میں ارشاد ہے :
{اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰہُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنْکَرِط}(الحج:41) ’’وہ لوگ کہ اگر انہیں ہم زمین میں تمکّن عطا کر دیں تو وہ نماز قائم کریں گےاور زکوٰۃ ادا کریں گےاور وہ نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے روکیں گے۔‘‘
نماز قائم کروانا ، مساجد کا انتظام کرنا، آئمہ اور خطباء کا انتظام کرنا ریاست کی ذمہ داری ہوگی لیکن حکومت کسی پر یہ پابندی نہیں لگائے گی کہ نماز میں ہاتھ اوپر باندھنے ہیں یا نیچے باندھنے ہیں ۔ ہر مسلک کے لوگ اپنے اپنے مسلک کے مطابق انفرادی دینی فرائض ادا کریں گے۔ اسی طرح تمام انفرادی امور میں ہر آدمی اپنے مسلک کے مطابق عمل کر سکے گا ۔ اسی طرح علم فاؤنڈیشن کے تحت قرآن مجید کا جو ترجمہ تیار کیا گیا ہے اس پر بھی تمام مسالک کا اتفاق ہے۔ اس کو سکولوں میں پڑھایا جائے ، کسی مسلک کے ماننے والوں کو اعتراض نہیں ہوگا ۔
سوال: تنظیم اسلامی زیادہ تر اتفاق و اتحاد کی بات کرتی ہے اور اسی وجہ سے فقہی یا مسلکی باتوں پر زور دینے سے گریز کرنے کا درس بھی دیتی ہے۔لیکن سالانہ اجتماع میں ان مسالک کے علماء کو بطور مہمان شریک ہونے کی دعوت کیوں نہیں دی گئی ؟( وسیم حبیب ، حلقہ خیبر پختونخوا جنوبی)
امیر تنظیم اسلامی: ڈاکٹر اسرار احمدؒ سے محبت کرنے والے لوگ ہر مسلک میں موجود ہیں ، وہ تنظیم اسلامی سے بھی محبت رکھتے ہیں اورجب کبھی تنظیم اسلامی یا انجمن خدام القرآن کے زیر اہتمام مختلف شہروں میں سیمینارز ، کانفرنسز یا دیگر پروگرامز ہوتے ہیں تو ان میں تمام مسالک کے لوگ آتے ہیں ، علماء بھی آتے ہیں اور دینی جماعتوں کے قائدین بھی آتے ہیں۔ جہاں تک سالانہ اجتماع کا تعلق ہے تو یہ تنظیمی سطح پر رفقاء کی یاددہانی اور تذکیر وتربیت پر مشتمل اجتماع ہوتاہے ۔اس لیے یہ خاص طور پر رفقاءو احباب کے لیے مختص ہوتا ہے ۔
سوال: موجودہ حالات میں وہ کون سے مراحل ہیں جن کے بعد تنظیم اسلامی اقدام یا اس سے آگے کے مراحل طے کرے گی؟ (اذان بن صمد، حلقہ کراچی جنوبی)
امیر تنظیم اسلامی:بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسراراحمدؒ کے اس حوالے سے کئی اہم خطبات ویڈیوز کی صورت میں موجود ہیں اور اسی موضوع پر ان کی مشہور کتاب ’’رسول انقلاب کا طریقہ انقلاب ﷺ ‘‘کے عنوان سے بھی موجود ہے ۔ ، ان سے بھی استفادہ کیا جاسکتاہے ۔ مختصراً یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺنے 13 سالہ مکی دور میں وہیں نماز ادا کی ہے جہاں 360 بت رکھے ہوئے تھے ۔ یعنی کفر کے بتوں کے خلاف کوئی اقدام نہیں کیا ۔اس دوران صرف دعوت دی ہے ، دعوت قبول کرنے والوں کو منظم کیا ہے ، انہیں ایک جماعت کی شکل میں مربوط کیا ہے۔ انہیں صبر کے مراحل سے گزرنے کے لیے تربیت دی ہے ۔ جب ایک ایسی مضبوط اور منظم جماعت تیار ہو جائے جو سمع و طاعت کی بنیاد پر امیر کی ایک کال پر کٹ مرنے پر تیار ہو جائے اس کے بعد اقدام کا مرحلہ آتاہے ۔ اس سے قبل بغیر تیاری اور تربیت کے کوئی قدم اٹھانا سنت رسول ﷺسے مطابقت نہیں رکھتا ۔
سوال:ہماری تنظیم آج کے تقاضوں کے مطابق سوشل میڈیا کو موثر طریقہ سے استعمال کیوں نہیں کر رہی؟ (محمد زید، حبیب، حلقہ کراچی جنوبی)
امیر تنظیم اسلامی:ہمیں اپنی کمی کوتاہی کا کھلے دل سے اعتراف کرنا چاہیے۔ البتہ جہاں تک ممکن ہے تنظیم اسلامی سوشل میڈیا کو اپنے دعوتی مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہے ۔ الحمد للہ ڈاکٹر اسراراحمدؒ کے خطبات سوشل میڈیا پرکثیر تعداد میں سنے جارہے ہیں ، ظاہر ہے اس کا اہتمام ہمارے شعبہ سمع و بصر کے تحت کیا گیا ہے ۔ البتہ سوشل میڈیا کے استعمال میں احتیاط بھی ضروری ہے تاکہ دینی حدود اوردینی وقار پامال نہ ہو ۔ خاص طور پر سوشل میڈیا کے ذریعے کمائی کرنے کا تصور تنظیم میں بالکل نہیں ہے اور اس کی اجازت بھی نہیں ہے ۔ ہمارے وہ رفقاءجو سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں ان کو بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ اپنے دعوتی کام میں ٹول کے طور پر اسے استعمال میں لائیں مگر دینی حدود اور دینی وقار کو سامنے رکھتے ہوئے ۔ تاہم بہتری کی گنجائش موجود ہوسکتی ہے جس کو ہم ماہرین کی خدمات حاصل کرکے مزید بہتر کرنے کی کوشش کریں گے ۔ ان شاء اللہ !
سوال: اگر ریاست یا سربراہ مملکت یا سپہ سالار مظلوم مسلمانوں کی مدد کے لیے جہاد کا اعلان نہیں کرتے تو اس کے بعد کس کی ذمہ داری ہے ؟(راجہ محمد امجد خان، حلقہ سکھر)
امیر تنظیم اسلامی:جہاد کا اعلان اسلامی ریاست کرتی ہے ، جہاں خلیفہ ہی امت کا امام ہوتاہے اور وہ شریعت کے دائرہ میں رہ کر احکامات جاری کرتا ہے ۔ جہاں سود ی نظام ہو ، بے حیائی ، فحاشی کی کھلے عام اجازت ہو ، جہاں خلاف شریعت قانون سازیاں ہو رہی ہوں وہاں جہاد کے اعلان نہیں ہوا کرتے۔57 مسلم ممالک اسلامی ریاستیں نہیں ہیں کیونکہ وہاں اسلام نافذ نہیں ہے ۔ اگر اسلامی ریاست ہی قائم نہیں ہے تو مسلمانوں کا پہلا فرض یہ ہے کہ وہ اسلامی ریاست قائم کرنے کی کوشش کریں ۔ یہ فرض ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ مسلم حکمرانوں کو بھی جذبۂ خیر خواہی کے تحت توجہ دلانی چاہیے ۔ عوام کو بھی جگانا چاہیے کہ پانی ، بجلی ، گیس ، مہنگائی کے خلاف ہم احتجاج اور مظاہرے کرتے ہیں ، سڑکوں پر نکلتے ہیں تو اللہ کے دین کے قیام کے لیے کیوں نہیں نکلتے ۔ تاہم ہمارا اصل فریضہ یہ ہے کہ ہم منہج انقلاب نبوی ﷺ کے مطابق دین کو قائم کرنے کی جدوجہد کریں ۔ اس کے نتیجہ میں جب اسلامی ریاست قائم ہوگی تو پھر مظلوم مسلمانوں کی حمایت کے لیے اعلانِ جہاد بھی ہوگا اور اقدام بھی ہوگا ۔ ان شاء اللہ ۔
سوال: باطل نظام میں جو ہمارے مخالفین ہیں وہ اگر اقدام کے مرحلہ سے قبل ہی ہمارے امراء اور قائدین کو اٹھا کر جیلوں میں ڈال دیں اور رفقاء کو منتشر کردیں تو پھر ہمارے پاس کیا لائحہ عمل ہوگا ؟ (منیر احمد،حلقہ سکھر)
امیر تنظیم اسلامی: انقلاب کےلیے جدوجہد کرنے والوں کو ہر قسم کے حالات کا سامنا کرنے کے لیے پہلے سے تیار ہونا چاہیے ۔ اس راستے میں اللہ کے پیغمبروں کو شہید کیا گیا ، انہیں اذیتیں دی گئیں ، خود محمد مصطفیٰ ﷺکا خون اطہر طائف کی گلیوں میں بہا ہے ، جنگ احد میں بہا ہے ۔ 259 صحابہ ؇ اس انقلاب کی راہ میں شہید ہوئے تب جاکر حجاز میں دین غالب ہوا ہے ۔ نظام کو بدلنا کوئی آسان کام نہیں ہے ۔ پھر یہ کہ اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو آزماتا بھی ہے :
{وَلَـنَـبْلُوَنَّــکُمْ بِشَیْئٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ ط} (البقرہ:155)’’اورہم تمہیں لازماً آزمائیں گے کسی قدر خوف اور بھوک سے‘اور مالوں اور جانوں اور ثمرات کے نقصان سے۔‘‘
پھر اللہ تعالیٰ یہ بھی فرماتا ہے:
{فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا(5)}(الم نشرح) ’’تو یقیناً مشکل ہی کے ساتھ آسانی ہے۔‘‘
ہمارے لیے اُسوہ حسنہ محمد مصطفیٰ ﷺ کی ذات بابرکات ہے۔ تاہم حضور ﷺ کے سامنے کفار اور مشرکین تھے ، ہمارے سامنے مسلمان ہیں ۔ ہم نے سب سے پہلے ان لوگوں کو دعوت دینی ہے ۔ کیا معلوم انہی میں سے بہت سے لوگ دین کی جدوجہد کے لیے تیار ہو جائیں ۔ پھر جیسا کہ ڈاکٹر صاحب ؒ فرمایا کرتے تھے کہ جب ایک معتدبہ تعداد سمع و طاعت کے لیے تیار ہو جائے اور حکومت سوچنے پر مجبور ہو جائے کہ کتنوں کو جیلوں میں ڈالیں گے اور کتنوں کو شہید کریں گے تب اقدام کے بارے میں سوچا جائے گا ۔ ہم نے اپنے حصے کا کام کرنا ہے جس کا مقصد اپنی آخرت کی فلاح و نجات ہے ۔ باقی اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دینا ہے ۔ اس نے فرعونوں کو مٹایا ، نمرودوں کو مٹایا اور ان کے مقابلے میں اپنے دین کو سرفرازی عطا کی۔ ہم نے ساراتوکل اللہ پر کرنا ہے ۔
سوال: کیا اقامت دین فرض ہے یا فرض عین ہے؟
امیر تنظیم اسلامی:یہ سوال درست نہیں ہے۔ سوال اس طرح ہونا چاہیے کہ اقامت دین کی جدوجہد کرنا فرض ہے یا نہیں۔کیونکہ دین کو قائم کرکے دکھانے کا تقاضا ہم سے نہیں کیاگیا بلکہ ہم سے اقامتِ دین کی جدوجہد کرنے کا تقاضا ہے ۔ دین کو قائم کرنا اللہ کے اختیار میں ہے۔ ہمارے اختیار میں صرف اس کے لیے جدوجہد کرنا ہے ۔ اس راہ میں کتنے انبیاء شہید ہوگئے، ان کے دور میں دین قائم نہیں ہوسکا مگر وہ کامیاب ہیں ۔ جہاں تک فرض یا فرض عین کا سوال ہے تو تنظیم کے قائدین کا موقف یہ ہے کہ ہمیں عین کی بحثوں میں پڑنا نہیں چاہیے بس اتنا کہہ دینا کافی ہے اقامت دین کی جدوجہد کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے ۔ ڈاکٹر اسراراحمد ؒ نے اس بات کو واضح کیا تھا کہ جب آپ کسی چیز کو فرض عین کہتے ہیں تو اس کی یہ تعریف کرنی پڑے گی کہ یہ کروگے تو فرض ادا ہوگا ۔ مثلاً فجر کے دو فرض ادا کروگے تو فرض ادا ہوگا ۔ اگر ایک یا تین ادا کریں گے تو اس فرض کی ادئیگی نہیں ہوگی۔ اسی طرح زکوٰۃ 2.5فیصد ہے ۔ اس سے زیادہ یا کم نہیں ہوسکتی۔ اقامت دین کی جدوجہد میں ہم اس طرح بیان نہیں کر سکتے ۔ لہٰذا ان بحثوں میں پڑے بغیر ہمیں اللہ کے دین کے لیے جدوجہد جاری رکھنی چاہیے ۔ نماز فرض عین ہے ، کتنے لوگ پڑھتے ہیں ؟ اسی طرح اگر ہم اقامت دین کی جدوجہد کو فرض عین کہہ بھی دیں گے تو کتنے لوگ اس فرض کو ادا کریں گے ۔ جنہوں نے یہ فریضہ ادا کرنا ہے وہ ان بحثوں میں پڑے بغیر بھی ادا کر سکتے ہیں ۔
سوال:آپ کے نزدیک اسلامی نظام کے نفاذ میں سب سے بڑی رکاوٹ یا رکاوٹیں کیا ہیں ؟نیز ان رکاوٹوں کو کیسے عبور کیا جا سکتا ہے؟(انجینئر امجد ،قرآن اکیڈمی ملتان)
امیر تنظیم اسلامی:سب سے پہلی اور بڑی رکاوٹ خود ہمارا تصور دین ہے ۔ مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد یہ سمجھے بیٹھی ہے کہ نماز ، روزہ ، زکوٰۃ اور حج ادا کرلیا تو میری نجات پکی ہے ۔ ان کے نزدیک دین کو بطور نظام قائم کرنے کی جدوجہد کرنا دینی فرائض میں شامل ہی نہیں ہے ۔ بقول ڈاکٹر اسراراحمدؒ حرام خوری بھی چلتی رہے ، قتل و غارت گری بھی ہوتی رہے ، ایک دوسرے کی جائیدادوں اور حقوق پر قبضہ گیری بھی جاری رہے مگر عمرہ کرلیا ، کسی پیر کی درگاہ پر پیسے دے دئیے تو سارے گناہ معاف ہوگئے ۔ اناللہ وانا الیہ راجعون!لہٰذا سب سے پہلی رکاوٹ یہ تصور ہے ۔ دوسری رکاوٹ سیاسی ہے۔ دینی سیاسی جماعتیں جب جمہوری تماشے میں شامل ہوئیں تو مسلکی بنیادوں پر ووٹ ڈالے گئے اور دینی حلقوں میں تقسیم پیدا ہوگئی ، ایک دوسرے پر الزامات اور بہتان تراشیاں بھی ہوئیں لہٰذا عوام ان سے اکتا گئے ۔ اس سے بھی نقصان پہنچا ہے اور کبھی دین والوںکے طرز عمل کی وجہ سے بھی عام آدمی دین سے دور ہوا ۔ بہت ساری باتیں ہیں جو دین کے راستے کی رکاوٹ بنی ہیں ۔
سوال: کیا وجہ ہے کہ نظام خلافت کے دلائل قطعیہ کے باوجود جید علماء اور مذہبی جماعتیں اس کے قیام میں ساتھ کھڑی نظر نہیں آتیں؟ (ساجد اقبال ،کراچی شرقی)
امیر تنظیم اسلامی: جب ہم تنظیمی اجتماعات میں گفتگو کرتے ہیں، قرآن حکیم کے دروس سنتے ہیں،ڈاکٹر اسراراحمدؒ کی گفتگو سنتے ہیں تو ہمارے سامنے قرآن کی یہ اصطلاحات آتی ہیں:
{ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ}(الصف:9)’’وہی ہے (اللہ) جس نے بھیجا اپنے رسولؐ کو الہدیٰ اور دین حق کے ساتھ تاکہ غالب کر دے اس کو پورے نظامِ زندگی پر۔‘‘
{وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ(3)}(المدثر)’’اور اپنے رب کی بڑائی کا بول بالا کرو۔‘‘
((لِتَکُوْنَ کَلِمَۃُ اللہِ ھِیَ الْعُلْیَا))تاکہ اللہ ہی کا کلمہ بلند رہے ۔
تکبیر رب ، اظہار دین ، اعلائے کلمۃ اللہ ، رب کی بڑائی کا بول بالا کرنا یہ سب قرآنی اصطلاحات مسلمانوں سے اقامت دین کی جدوجہد کا تقاضا کرتی ہیں۔ یہ اصطلاحات علماء بھی استعمال کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ خلافت کے قیام کے لیے کھڑے نہیں ہوتے تو اس حوالے سے ایک بات تو یہ ہے کہ بعض دینی جماعتیں سیاسی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم انتخابی سیاست کے ذریعے دین قائم کریں گے ۔ اسی طرح بعض کہتے ہیں کہ دین کے بہت سے گوشے ہیں ، ہم نے فلاں گوشہ اختیار کر رکھا ہے ۔ جیسا کہ بعض یہ کہتے ہیں کہ ہم دعوت و تبلیغ کے ذریعے اقامت ِدین کا فریضہ ادا کررہے ہیں ۔ اسی طرح بعض لوگوں کے ہاں دین کا تصور ہی محدود ہے ۔ یہ ساری باتیں ہیں ۔ اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو توفیق عطا فرمائے کہ ہمارا تصور دین بھی درست ہواور ہم عمل میں بھی آگے بڑھیں اور ہم مجسم قرآن حضرت محمد مصطفیٰ ﷺکے صحیح معنوں میں اُمتی بنیں اور امتیوں والا کام کریں ۔ آمین یا رب العالمین!
tanzeemdigitallibrary.com © 2024