(اداریہ) آئیے پاکستان کو حقیقی اسلامی فلاحی ریاست بنائیں! - خورشید انجم

8 /

اداریہ

خورشید انجم

آئیے پاکستان کو حقیقی اسلامی فلاحی ریاست بنائیں!


ڈونلڈ ٹرمپ 2016 ءمیں پہلی بار امریکی صدر منتخب ہوئے اور انتہائی غیر روایتی صدر ثابت ہوئے۔جان ایف کینیڈی کے بعد ٹرمپ شاید ماضی قریب کے دوسرے امریکی صدر ہیں جنہوں نے کھلم کھلا امریکی ڈیپ سٹیٹ کے ساتھ محاذ آرائی کی اور اکثر تجزیہ نگاروں کے مطابق 2020 ءکے امریکی صدارتی الیکشن میں ان کے ہارنے کی ایک بڑی وجہ امریکی اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت تھی۔ 2024 ءکے صدارتی الیکشن کے نتیجہ میں ٹرمپ کو ایک مرتبہ پھر امریکی صدر بننے کا موقع ملا ہے۔اس مرتبہ ٹرمپ 2016 ءسے بھی زیادہ مضبوط صدر کے طور پر وائٹ ہاؤس کے مکین ہوں گے ۔ نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 91 الزامات کے سائے میں اپنی صدارتی مہم شروع کی تھی۔انتخابی مہم کے دوران ان پر قاتلانہ حملہ بھی کیا گیا، وہ امریکی تاریخ کے تیسرے صدر ہیں جن کا مواخذہ کیا گیا، لیکن وہ برّی ہوگئے۔اپنے دورِ صدارت میں ٹرمپ نے فوجی فنڈز کا رخ امریکا، میکسیکو سرحد پر دیوار کی تعمیر کی طرف موڑا، غیر قانونی تارکین وطن کےلیے خاندانی علیحدگی کی متنازع پالیسی نافذ کی۔ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے پہلے دور میں 7 مسلم ممالک سے لوگوں کی امریکا آمد پر پابندی لگائی۔اُس دوران ٹرمپ نے امریکا کو پیرس ماحولیاتی معاہدے اور ایرانی جوہری معاہدے سے علیحدہ کر لیا۔امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے مقبوضہ بیت المقدس منتقل کیا۔ ملک میں ریکارڈ ٹیکس چھوٹ دی، چین سے تجارتی جنگ چھیڑی اور شمالی کوریا میں قدم رکھنے والے پہلے امریکی صدر بنے۔
اپنے صدارتی دور میں ٹرمپ نے کورونا وائرس کے خلاف غیر سائنسی اقدامات کو فروغ دیا، اسے چائنہ وائرس قرار دیا۔ جب کہ امریکا میں اِس وبا سے 4 لاکھ اموات ہوئیں۔ 2020ء کے صدارتی انتخابات میں شکست تسلیم نہ کرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے دھاندلی کے الزامات لگائے، انتخابی فراڈ کے 60 سےزائد دعووں پر انہیں عدالتوں میں شکست ہوئی۔ ڈونلڈ ٹرمپ پر یہ الزام بھی ہے کہ اُنہوں نے 2020ء کا الیکشن ہارنے پر اپنے حامیوں کو کیپیٹل ہل کے باہر جمع کیا، اُس جتھے نے کیپیٹل ہل پر ہلہ بولا، اور اس دوران 5 افراد ہلاک ہوئے۔ مذکورہ بالا تمام حقائق کے باوجود اِس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ ایک کرشماتی شخصیت کے حامل ہیں اور امریکی ریاستوں میں ان کی مقبولیت بہت زیادہ ہے۔ یہ بات تو تاریخ طے کرے گی کہ ٹرمپ کے وائٹ ہاؤس میں دوسری بار داخل ہونے کے بعد اُن کے ملک امریکا پرکیا اثرات مرتب ہوتے ہیں اور بیرونِ امریکا کیا صورتحال پیدا ہوتی ہے۔ ٹرمپ کی کامیابی کے پس ِپشت کئی عوامل ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ امریکا میں مقیم عرب نژاد ووٹر امریکی صدر بائیڈن کی اسرائیل نوازی اور فلسطینیوں کی نسل کُشی کی حمایت کی پالیسیوں سے سخت نالاں ہیں۔ وضاحتاً عرض ہے کہ اس کا مطلب یہ نہ لیا جائے کہ عرب نژاد امریکی ووٹر ٹرمپ اور ریپبلکن پارٹی سے ہمدردی رکھتے ہیں بلکہ ان کا مقصد یہ تھا کہ فلسطینیوں کی نسل کُشی کرنے والے ظالموں کو مزہ چکھایا جائے۔ جہاں تک اسرائیل کا تعلق ہے تو یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ ٹرمپ اسرائیل کا حمایتی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ٹرمپ اپنے عرب نژاد امریکیوں سے کیے ہوئے وعدوں کو کیسے پورا کر پائیں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹرمپ نے اپنے پہلے دورِ حکومت میں افغانستان سے امریکی فوجوں کو واپس بلانے کا دانش مندانہ فیصلہ لیا۔ لیکن بعض معاملات میں ان کے سخت مواقف اور ترجیحات کے باعث علاقائی اور عالمی تعلقات میں تنازعات اور اختلافات مزید بڑھے۔
پاکستان کے حوالے سے ٹرمپ کی حکومت نے سخت مؤقف اپنائے رکھا اور دیگر اکثر معاملات کی طرح پاک امریکہ تعلقات کو بھی ٹویٹر اور دوسرے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بڑا موضوع بنائے رکھا۔ انہوں نے بھارت کے ساتھ تعلقات کو مزید جِلا بخشی۔اب جب ٹرمپ دوبارہ حکومت میں آرہے ہیں، تو کیا اسرائیل اور بھارت کے حوالے سے ان کی سابقہ پالیسیوں میں کوئی تبدیلی آئے گی، یہ ٹریلین ڈالر کا سوال ہے۔کیا ٹرمپ کے اگلے دورِ حکومت میں امریکہ اور دنیا بھر میں مزید مشکلات پیدا ہوں گی، یہ تو صرف وقت ہی بتائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکی تاریخ دیگر ممالک پر حملوں سے بھری پڑی ہے۔ پھر یہ کہ امریکہ میں ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس انتہائی طاقتور ہے اور وہ ہر حال میں دنیا میں جنگ جاری رکھنا چاہتا ہے۔ صدر ٹرمپ نے ابھی اپنی کابینہ کے کچھ اراکین کا ہی اعلان کیا ہے اور صاف دکھائی دیتا ہے کہ انتہائی دائیں بازو کے لوگوں کو چنا گیا ہے۔ اسرائیلی سفیر کے طور پر ایک کٹر صہیونی کو نامزد کیا گیا ہے جو کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ٹرمپ یوکرین کے بارے میں کیا پالیسی اپناتا ہے۔ جس طرح بائیڈن دور میں یوکرین کے لیے کئی سو ارب ڈالر فراہم کیے گئے کیا ٹرمپ بھی اسی طریقہ کار اور طرزِ عمل کو جاری رکھیں گے یا یوکرین سے اپنا ہاتھ کھینچ لیں گے۔
ایک اہم سوال یہ ہے کہ ٹرمپ کے چین کے ساتھ تعلقات کیسے ہوں گے۔ ماضی میں ٹرمپ کی چین کے ساتھ تلخیاں بڑھیں یہاں تک کہ جب کرونا وائرس سامنے آیا تو ٹرمپ اس کو چائنہ وائرس کا نام دیتے تھے، لیکن اس کے باوجود چینی بہرحال ایک مدبر قوم ہے اور وہ ایسی باتوں کو تعلقات کے بنانے یا بگاڑنے میں اہمیت نہیں دیتے۔ ایک انتہائی اہم سوال یہ ہے کہ اگر ٹرمپ اسرائیل کے حوالے سے ان کی خواہش کے مطابق اقدامات نہیں کرتے تو کیا امریکی صہیونی لابی ان کے لیے مشکلات پیدا کر دے گی۔ پھر یہ کہ امریکہ کی ڈیپ سٹیٹ یعنی اسٹیبلشمنٹ کس حد تک ٹرمپ پر اثر انداز ہو سکے گی۔ یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ اس مرتبہ ٹرمپ انتہائی واضح اکثریت اور قوت کے ساتھ اقتدار میں آئے ہیں۔ انہوں نے نہ صرف الیکٹورل کالج کی دوڑ جیتی ہے بلکہ پاپولر ووٹ میں بھی برتری حاصل کی ہے۔ ایوانِ نمائندگان اور سینٹ دونوں میں اکثریت حاصل کی ہے۔امریکی سپریم کورٹ میں بھی اکثریت روایت پسندوں یعنی ٹرمپ کے حامی ججوں کی ہے۔ اس مرتبہ مسلمانوں نے بھی ٹرمپ کو ووٹ ڈالا اور وہ سات ریاستیں جنہیں سوینگ سٹیٹس کہا جاتا تھا وہاں ٹرمپ کی جیت میں مسلمانوں نے کلیدی کردار ادا کیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا ٹرمپ مسلمانوں سے کیے ہوئے اپنے وعدے پورے کرتے ہیں۔ انتخابات سے چند روز پہلے تک کثیر الاشاعت ہونے کے دعوےدار اخبارت میں ایسے کالمز شائع ہوتے رہے جنہیں پڑھ کر یوں لگا کہ گدھے کے نشان کے جیت جانے میں ہی عافیت ہےاور ہاتھی کے نشان والوں کے آجانے سے وہ ہاتھی سب کو اپنے پاؤں تلے روند دے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ امریکہ میں حکومت گدھے کے نشان کی ہو یا ہاتھی کے نشان کی، اُس سے اسلام دشمنی میں کوئی فرق نہیں آتا۔ امریکی انتخابات کا براہ راست اثر ناجائز صہیونی ریاست کی حکومت پر بھی پڑتا ہے ۔اِسی لیےصہیونی اپنی اپنی پسند کی جماعت کوالیکشن لڑنے کے لیے فنڈز دیتے ہیں کیونکہ اُنہیں امریکی کندھوں پر سوار ہو کر پوری دنیا پر حکمرانی کرنی ہے۔ لہٰذا صدر ٹرمپ کا دورِ اقتدار مسلمانوں کے لیے خوشخبریوں کا دور نہیں ہوگا اور نہ ہی اسرائیل نوازی میں کوئی کمی ہوگی۔ اگرچہ بعض ذرائع کا خیال ہے کہ اب اسرائیل کو امریکی کندھوں سے کچھ چبھن سی محسوس ہونے لگی ہے۔ وہ براہ راست عالمی شہنشائیت کا خواہشمند ہوتا جارہا ہے ،اِسی لیے اُس نے بھی اپنے لیے دونوں آپشن کھلے رکھے تاکہ اسرائیل کی ناجائز ریاست کا تسلسل اور تسلط برقرار رہے ۔ ہمارے نزدیک اگر ٹرمپ صہیونیوں اور ڈیپ سٹیٹ کی پالیسیاں پر عمل درآمد سے انحراف کرتے ہیں اور اس پر اڑ جاتے ہیں تو ان کی جان کو بھی خطرہ ہو سکتا ہے۔ بہرحال غالب گمان ہے کہ پاکستان کے حوالے سے ٹرمپ اپنا رویہ پہلی صدارتی مدت والا ہی اپنائیں گے لہٰذا پاکستان کو ٹرمپ سے زیادہ امید نہیں لگانی چاہیے۔ مشرقِ وسطیٰ اور یوکرائن میں صورتِ حال انتہائی مخدوش ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ دنیا جس طرح گلوبل ویلج کی صورت اختیار کر چکی ہے اب دوملکوں کے درمیان جنگ اُن تک ہی محدود نہیں رہے گی بلکہ عالمی جنگ کی صورت اختیار کرے گی۔ علاوہ ازیں اندرونی سطح پر مملکتِ خداداد پاکستان میں شام جیسے حالات پیدا کیے جا رہے ہیں۔ہماری اسٹیبلشمنٹ نے بعض غیر دانش مندانہ اقدام کر کے اندرون ملک معاملات کو بگاڑا ہے، لیکن اس پر بعض سیاسی جماعتوں کی فوج کے خلاف باقاعدہ مہم چلانا اور اُسے کمزور کرنے کی کوشش کرنا ملک کی جڑوں پر کلہاڑا چلانے کے مترادف ہے۔ یہ فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ فوج نے بہرحال پاکستان کو شام اور لیبیا بننے سے بچایا ہے وگرنہ دشمنوں نے اِس حوالے سے بھرپور اور جان توڑ کوشش کی ہے۔ اللہ تعالیٰ عسکری اداروں کو بھی ہدایت دے کہ وہ اپنی آئینی ذمہ داری اور حدود کے مطابق کام کریں۔
فوج کے خلاف مہم چلانے والوں کوبھی جاننا چاہیے کہ اگر خدانخواستہ یہ مضبوط دیوار گر گئی تو دشمن سب کا بطور پاکستانی دشمن ہوگا۔ وہ پُرواسٹیبلشمنٹ اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ کے چکر میں نہیں پڑے گا۔ سب کی جان، مال اور عزت کا تیا پانچہ کر دے گا اور بلا امتیاز سب کو اپنے پاؤں تلے روندے گا۔ پھر پچھتانا بے کار ہو گا۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ فوج کو کمزور کرنے کے باوجود بھارت موقع سے فائدہ نہیں اُٹھائے گا اور کوئی جارحانہ اقدام نہیں کرے گا یا کسی جارحانہ اقدام کے نتیجہ میں مداخلت کر کے پاکستان کے اینٹی اسٹیبلشمنٹ لوگوں سے خصوصی اور امتیازی سلوک کرے گا تو اُس کی عقل اور سوچ کا ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔ فریقین یعنی عسکری اداروں اور سیاست دانوں کو ماضی کو بھلا کر مثبت انداز میں ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کو بھی یہ سمجھنا چاہیے کہ عوام اور عوامی نمائندوں سے مثبت اور مستحکم تعلق قائم کیے بغیر ملک کا دفاع کرنا ممکن نہیں ہے۔ سیاست دان آپس کے لڑائی جھگڑوں میں فوج کو ملوث نہ کریں۔ کوئی فریق ماضی کی طرح سیاسی حریف کو پچھاڑنے کے لیے فوج کو آواز دے اور نہ فوج ملکی سلامتی اوربیرونی خطرات سے نمٹنے کے سوا کوئی اور کام کرے اور نہ ہی داخلی سطح پر کوئی دخل اندازی کرے۔ عدالتوں کو مکمل طور پر آزادی سے کام کرنے دیا جائے، نہ حکومت عدلیہ پر انتظامی دباؤ ڈالے اور نہ اپوزیشن اُن کا عوامی جلسوں میں منفی انداز میں ذکر کرے۔ سودی نظام اور فحاشی و عریانی کی تمام صورتوں کا خاتمہ کرنے پر توجہ دی جائے۔اگر ان تمام باتوں کو ایک جملے میں سمیٹ لیا جائے تووہ کفایت کرے گا ۔ آئیے! حقیقی مسلمان بن جائیں، آئیے پاکستان کو حقیقی اسلامی فلاحی ریاست بنائیں۔