(خصوصی رپورٹ) سالانہ اجتماع 2024ء - خالد نجیب خان

8 /

سالانہ اجتماع 2024ءپرانی شناسائیاں اورمحبتیں دیکھنے میں آتی رہیں

نظام خلافت کی جدوجہد نفلی درجے کا کام نہیں ہے بلکہ یہ فرض ہے۔

پاکستان میں اہلِ غزہ پر مسلسل اسرائیلی مظالم کے حوالے سے جتنا مسلسل کام تنظیم اسلامی

نے کیا ہے،کسی دوسری جماعت نے نہیں کیا۔

اسرائیل کا کوئی توڑ ہے تو وہ اسلامی ایٹمی پاکستان ہے۔وہ جانتا ہے کہ پاکستان اُس

کے لیے خطرہ ہے جبکہ پاکستان چاہتا ہے کہ وہ اسرائیل کے لیےخطرہ نہ بنے۔

اللہ کے حقوق کی بات ہوگی تو یقیناً بات بن جائے گی کیونکہ حقوق العباد بھی اللہ کی طرف

سے ہی مقرر کردہ ہیں۔

اجتماعی دعا کے دوران پنڈال آمین کی صداؤں سے گونجتا رہا۔

مرتب: خالد نجیب خان

یوں تو دین اسلام میں دو ہی عیدیں ہیں جبکہ لغت میں عید سے مراد لوٹ کر آنے والا دن ہوتاہے۔ تنظیم اسلامی کا سالانہ اجتماع بھی چونکہ ہر سال لوٹ کر آتا ہے۔اس تناظر میں دیکھا جائے تو کسی تحریک کا سالانہ اجتماع بھی کارکنوں کے لیے عید کی سی حیثیت رکھتا ہے۔یہی وجہ کہ رفقاء اور احباب سارا سال سالانہ اجتماع کا انتظار کرتے ہیں۔
اِس سال 15نومبر کو شدید دھند میں بہاولپور میں دریائے ستلج کے کنارے مرکزی اجتماع گاہ میں غزہ میں جاری جنگ کے دوران دوسری مرتبہ تنظیم اسلامی کا سالانہ اجتماع ہوا۔سالانہ اجتماع میں شرکت کے لیے ملک کے ہرحصے سے رفقاء اور احباب پہنچے۔جمعہ کو بعد نماز عصر شروع ہونے والے اجتماع میں شرکت کےلیے کئی رفقاء اور احباب تو جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب ہی پہنچ گئے تھے۔کئی سینئر رفقاء اپنی گونا گوں مصروفیات کے باعث اپنے مقررہ وقت پر خطاب اور ملاقات کے لیے پہنچے۔ بہت سے شرکاء تو ایسے بھی تھے جو گئے تو بطور حبیب تھے مگر لوٹے تو رفیق تھے۔شروع سے آخر تک وہاں موجود رہنے والے رفقاء اور احباب نے یقیناً سب سے بڑھ کر فیض پایا۔
جمعۃ المبارک کی صبح کو نمازِ فجر میں رفقاء امیر تنظیم اسلامی پاکستان جناب شجاع الدین شیخ کو اپنے درمیان پا کر بہت خوش ہوئے۔امیر محترم خود اُٹھ کرآنے والوں سے گلے ملتے رہے ۔کئی احباب کےلیے یہ منظر بہت دلفریب اور ناقابل یقین تھا کہ امیر محترم خود اُٹھ کر ہر آنے والے سے مل رہے ہیں مگراُنہیں یہ جان کر مزید حیرت ہوئی کہ امیر محترم کاتو یہ معمول ہے کہ وہ اجتماع میں آنے والے ہر حبیب اور رفیق سے ضرور ملنے کی کوشش کرتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ تمام رفقاء اُن سے نہ صرف بہت محبت کرتے ہیں بلکہ اُن حکم کی تعمیل بھی کرتے ہیں۔نماز فجر کے بعد شرکاء اپنے اپنے رہائشی خیموں میں چلے گئے۔
ساڑھے سات بجے اعلان ہوا کہ ناشتہ کےلیے پنڈال میں جمع ہوجائیں۔شرکاء اجتماع بہاولپور میں اپنے سامنے لاہوری ناشتہ دیکھ کربہت خوش ہوئے۔اُس وقت قافلے مسلسل پہنچ رہے تھے جنہیں اصولاً تو پہلے اپنے خیمے میں جا کر سامان رکھنا تھا مگر اُن کی سفر کی تھکاوٹ کا لحاظ کرتے ہوئے اُن کی تواضع فوری طور پر ناشتہ سے کی گئی اور پھر اُنہیں اپنے خیموں میں بھیجا گیا۔ناشتہ کے دوران پرانی شناسائیاں اورمحبتیں بھی دیکھنے میں آتی رہیں۔ نائب امیرتنظیم اسلامی جناب اعجاز لطیف صاحب نے خطابِ جمعہ میں تزکیہ ٔنفس کے حوالے سے تذکیری گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ قرآن مجید کا اسلوب یہ ہے کہ عموماً اہم بات کو کم از کم دومرتبہ بیان کیا گیا ہے، یہ موضوع تین مرتبہ آیا ہے۔قرآنی آیات اور احادیث کی روشنی میں اُنہوں نے بتایا کہ اصل کامیابی دنیا کی زندگی کی کامیابی نہیں بلکہ آخرت کی کامیابی ہے جبکہ دنیا کی زندگی تو دھوکے کے سوا کچھ بھی نہیں۔موت تومومن کےلیے تحفہ ہے۔ہم میں سےبہت سے لوگ توموت سے فرار اِس لیے بھی چاہتے ہیں کہ وہ رزق روٹی کے چکر میں ہوتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی جان اُس وقت تک مر نہیں سکتی جب تک کہ وہ اپنے حصے کا رزق پا نہیں لیتا۔روزی ملنے میں تاخیر ہو جائے تو اللہ کی ناشکری نہیں کرنی چاہیے۔ہمیں ہمہ وقت موت کی تیاری کرنی ہے۔ نماز جمعہ کے بعد نماز عصر تک کھانے اور آرام کا وقفہ ہوا۔
نماز عصر کے فوراً بعد امیر محترم نے اجتماع کا باقاعدہ آغاز کرتے ہوئے افتتاحی کلمات میں سورۃ العصر کی تلاوت کے بعد حاضرین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ جو بندوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ اللہ کا بھی شکر ادا نہیں کرتا اس لیے یہ میری ذمہ داری ہے کہ میں آپ سب کا شکریہ ادا کروں کہ مہنگائی ، دہشت گردی کے واقعات اور خراب موسم کے باوجود میری پکار پر رفقاء اور احباب یہاں جمع ہوئے ہیں۔میں تمام شرکاء کے اہل خانہ کا بھی شکر گزار ہوں کہ جنہوں نے یہاں پہنچنے والوں کو اتنے دنوں کے لیے اپنے سے جدا ہونے کی اجازت دی اور سہولت فراہم کی ۔ بےشک شکر ادا کرنے سے اللہ تعالیٰ مزید عطا فرماتا ہے۔بعد ازاں نائب ناظم رابطہ و قانونی امور جناب ڈاکٹر ضمیر اخترخان نے ’’قرآن… کتاب ہدایت و انقلاب‘‘ کے موضوع پر لیکچر دیا۔نماز مغرب کے بعد مطالعہ حدیث میں دعا کی اہمیت پر جناب سجاد سرور نے گفتگوکی۔ امیر حلقہ کراچی جنوبی جناب ڈاکٹر محمد الیاس نے سیرت النبی ﷺ سے چند اوراق پرلیکچردیا۔بعد ازاں تنظیم اسلامی کے اکابرین،جناب حافظ عاکف سعیدs، چودھری رحمت اللہ بٹرؒ ، انجینئرحافظ نوید احمدؒ ،مختار حسین فاروقی ؒ کا تعارف اور ان کے مختلف ویڈیوکلپس پیش کیے گئے۔نماز عشاء سے قبل پینل گفتگو زمانہ گواہ ہے پیش کی گئی۔گفتگو میںناظم نشرواشاعت و تعلیم وتربیت جناب خورشید انجم ،نائب ناظم رابطہ و قانونی امور جناب ڈاکٹرضمیر اختر خان اور امیر حلقہ کراچی شرقی جناب ڈاکٹر انوار علینے عالمی اور ملکی حوالے سے مختلف موضوعات پر بات کی۔اس گفتگو میں جناب آصف حمید نے میزبانی کے فرائض سر انجام دئیے۔نماز عشاء کے بعد رہائشی خیموں میں رات کا کھانا کھانے کے بعد شرکاء اجتماع کے پاس ذاتی وقت تھا کہ وہ اجتماع میں لگے سٹالز سے کتب خریدیں یا عارضی بازار میں جا کرگرما گرم کشمیری چائے،خشک میوہ جات،موسمّی کا جوس یا تلی ہوئی تازہ دریائی مچھلی سے لطف اندوز ہوں یااپنے اہل خانہ کے لیے کوئی یادگاری تحفہ خرید سکیں۔
16نومبر کے سیشن کے لیے شرکاء تہجد کے وقت بیدار ہوگئے۔ کچھ لوگوں نے اپنے اپنے خیموں میں نمازِ تہجد ادا کی جبکہ کچھ نے پنڈال میں جا کر ادا کی اور اذان فجر کے انتظار میں تسبیح و تلاوت میں مشغول ہو گئے ۔
نمازِ فجر کے بعد حلقہ لاہور شرقی کے ناظم دعوت جناب شہباز احمد شیخ نے سورۃ الشوریٰ کی آیت 13 کی روشنی میں درسِ قرآن دیا۔جس کوحاضرین مجلس نے بڑے غور وانہماک سے سنا۔ناشتے کے وقفے کے بعد ساڑھے آٹھ بجے پنڈال ایک مرتبہ پھر شرکاء سے کھچا کھچ بھرگیا۔سٹیج سے اعلان کیا گیا کہ معاون شعبہ تعلیم وتربیت جناب مولانا خان بہادر ’’نظامِ خلافت کی شرعی حیثیت‘‘ کے موضوع پر خطاب کریں گے ۔
اُنہوں نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اجتماعی نظام عطا فرمایا ہے جسے نظامِ خلافت کہتے ہیں۔نظام خلافت کی جدوجہد نفلی درجے کا کام نہیں ہے بلکہ یہ فرض ہے۔یہ پوری اُمت پر فرض ہے۔امام غزالی ؒ کے نزدیک خلیفہ کی تقرری ضروریات شرع میں سے ہے جبکہ امام رازی ؒکے نزدیک خلیفہ کا تقرر قطعی طور پر فرض ہے۔
اِس کے بعد صدر انجمن خدام القران ملتان جناب ڈاکٹر طاہر خاکوانی نے ’’دین اسلام اور اس کے تقاضے‘‘ کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے دین اسلام کے نفاذ کے حوالے سے 10 نکات بیان کئے اور ساتھ یہ بھی بتایا کہ یہ کیوںکر نافذ ہو سکتے ہیں۔اُنہوں نے بتایا کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو اسلام کے نام پر بنا ہے ،اس کی بقا ہی اسلام سے وابستہ ہے۔اگر یہاں اسلام نافذ نہیں کیا گیا تو یہ مسلسل مسائل کا شکار رہے گا۔
بعد ازاں حلقہ گوجرانوالہ کے ملتزم رفیق قاری بلال نے استماع قرآن کی محفل میں اپنی خوبصورت آواز میں قرآن پاک سے سورۃ ابراہیم کے چھٹے رکوع کی تلاوت کی۔
نمازظہرسے قبل بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمدؒ کی ویڈیوز بڑی سکرین پرحاضرین کو دکھائی گئیں جن میں وہ اُن سوالات کے جوابات دے رہے تھے کہ جن کے بارے میں آج بھی لوگ جاننا چاہتے ہیں۔
کھانے کے وقفے کے بعد جب شرکاء پنڈال میں پہنچے تو نمازِ عصرکی اذان ہو چکی تھی۔نماز عصر ادا کرنے کے بعد معاون شعبہ تعلیم و تربیت مجاہد امین نے’’دنیا سے نہ لپٹو،آخرت کے طالب بنو‘‘کے حوالے سے حدیث کا مطالعہ پیش کیا۔بعد ازاں امیر تنظیم اسلامی کے مشیر خصوصی اور سینئر رہنما تنظیم اسلامی جناب ڈاکٹر عبدالسميع نے ’’فکر اقبال: ابلیس کی مجلس شوریٰ کی روشنی میں‘‘ کے موضوع پرگفتگو کی۔
نمازِمغرب سے قبل مرکزی ناظم شعبہ سمع و بصر اور سوشل میڈیا جناب آصف حمید نے ’’سوشل میڈیا کا دعوتی، تحریکی اور انقلابی نقطۂ نظر سے استعمال‘‘کے موضوع پر گفتگو کی۔اُنہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا کے نقصانات اپنی جگہ مسلم ہیں ،جو لوگ ابھی تک اس سے محفوظ ہیں اُنہیں سوشل میڈیا کی طرف آنے کی دعوت میں ہرگزنہیں دوں گا مگر جو لوگ کسی نہ کسی وجہ سے سوشل میڈیا کواستعمال کرنے پر مجبورہیں، اُنہیں یہ ضرور کہوں گا کہ تنظیم اسلامی کے پیغام کو آگے پھیلانے میں وہ تنظیم اسلامی اور انجمن خدام القرآن کے آفیشل اکاونٹس کو نہ صرف سبسکرائب کریں بلکہ اُن پر آنے والی پوسٹس کو شیئر بھی کریں۔اُنہوں نے یہ بھی بتایا کہ اِس وقت بہت سے لوگ بانی تنظیم ڈاکٹر اسرار احمدؒ کی تقریروں کے ویڈیو کلپس سیاق وسباق کے بغیر محض اپنے مفاد یا تنازعہ پیدا کرنے کے لیے اپ لوڈ کرتے ہیں جس کو ہمارے اپنے رفقاء اور احباب بھی نادانستگی میں شیئر کرتے چلے جاتے ہیں جو کہ غلط بات ہے۔ بانی تنظیم ڈاکٹر اسرار احمدؒ نے بھی دعوت و تبلیغ کے لیے تمام تر مروجہ ذرائع استعمال کرنے کی ہدایت کی ہے ۔اِس موقع پر یہ بھی وضاحت کی گئی کہ تنظیم اسلامی،انجمن خدام القران یا بانی تنظیم ڈاکٹر اسرار احمدؒکے حوالے سے چلنے والا کوئی بھی چینل موناٹائز نہیں ہے کیونکہ تنظیم اسلامی اور انجمن خدام القران کا ہدف دولت کمانا نہیں ،نظامِ خلافت کا قیام ہے۔
نماز مغرب کے بعد معاون شعبہ تعلیم و تربیت جناب عبدالرؤف نے اسلام کی پہلی اور آخری کڑی کی مناسبت سے مطالعہ حدیث پیش کیا۔بعد ازاں مختلف امراء نے دعوتی اورتنظیمی حوالے سے اپنے اپنے تجربات بیان کئے جس سے پنڈال میں موجود رفقاء میں نہ صرف تحریک پیدا ہوئی بلکہ رہنمائی بھی ملی۔نماز عشاء سے پہلے خصوصی نشست ’’امیر سے ملاقات ‘‘ کا انعقاد کیا گیا جس میں امیر تنظیم اسلامی شجاع الدین شیخ نے رفقاء کے سوالات کے جوابات دئیے۔ دوران پروگرام وقفہ میں رفیق تنظیم جڑانوالہ جناب شیخ محمد سلیم نے کلام اقبال ترنم سے پڑھ کر سنایا۔ نماز عشاء کے بعد رات کا سادہ مگر توانائی سے بھرپور کھانا شرکاء اجتماع کے رہائشی خیموں میں پہنچایا گیا۔رات کے کھانے کے بعد ایک مرتبہ پھر شرکاء نے بازار کا چکر لگایا ۔
اجتماع کے آخری روز اختتامی اجلاس کا آغاز نمازفجر کے فوراً بعد درس قرآن پاک سے ہوا۔ حلقہ ملاکنڈ کی مقامی تنظیم بٹ خیلہ کے ناظم تربیت جناب شوکت اللہ شاکر نے سورۃ التوبہ کی آیت 24 کے حوالے سے تفصیلی بات کی۔ناشتہ کے وقفہ کے بعد ’’تنظیم اسلامی کا نظام تربیت ودعوت‘‘ کے عنوان سے پینل گفتگو میں معاون خصوصی مرکزی ناظم تعلیم و تربیت جناب شیرافگن، حلقہ کراچی جنوبی کے ناظم دعوت اور سینئر رفیق ِتنظیم جناب عامر خان نے ’’تنظیم اسلامی کا نظام تربیت و دعوت‘‘ کے حوالے سے گفتگو کی۔ اس پروگرام کی میزبانی کے فرائض ناظم تربیت حلقہ اسلام آباد جناب عامر نوید نے ادا کیے۔ اِس پینل گفتگو سے شرکاء اجتماع دعوت اور تنظیم کے بہت سے پہلوؤں سے آگاہ ہوئے۔بعد ازاں نائب ناظم اعلیٰ جنوبی پاکستان جناب سیّد نعمان اختر نے’’ پاکستان میں تبدیلی کے ممکنہ مناہج‘‘ کے موضوع پر تفصیلی گفتگو کی۔اُنہوں نے کہا کہ اجتماعی سیاسی ،معاشی و معاشرتی نظام میں کسی بنیادی تبدیلی کو انقلاب گردانا جاتا ہےمگرایک مسلمان کو بھی چاہیے کہ اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر،خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی ﷺ پر عمل پیرا ہو اور یاد رکھے کہ بےشک اللہ کسی قوم کی حالت اُس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ وہ اپنی حالت خود نہ بدلے ۔
مرکزی ناظم نشرواشاعت وتربیت جناب خورشید انجم کے خطاب سے پہلے جناب سید حنظلہ عبداللہ نے نظم فلسطین کی پکار پیش کی۔ جناب خورشید انجم نے ’’القدس پکار رہا ہے‘‘ کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں اہلِ غزہ پر مسلسل اسرائیلی مظالم کے حوالے سے جتنا مسلسل کام تنظیم اسلامی نے کیا ہے،کسی دوسری جماعت نے نہیں کیااورحماس کے ترجمان ڈاکٹر خالد قدومی نے اِس کو سراہا بھی ہے ۔ہمارے بعض دانشور تو یہ اعتراض کرتے ہیں کہ حماس کو یہ محاذ چھیڑنے کی ضرورت ہی کیاتھی جبکہ آج تک کسی بھی فلسطینی نے ایساسوال نہیں اُٹھایا بلکہ وہ پوری تندہی کے ساتھ صہیونی فوج کا مقابلہ کررہے ہیں ۔کیونکہ اُس قوم کو شیخ احمد یٰسینؒ نے تیار کیا ہے ،اُن کا ہر قدم قرآن کی روشنی میں اُٹھ رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اسرائیل اِس صورتحال سے سخت پریشان ہے اور مجبوراً اب وہ اِس جنگ کو پھیلا رہا ہے۔ بہرحال ہمیں اپنے حصے کا کام کرنا ہے۔اسرائیل کا کوئی توڑہے تو وہ اسلامی ایٹمی پاکستان ہے۔اسرائیل یہ جانتا ہے کہ پاکستان اُس کے لیے خطرہ ہے جبکہ پاکستان یہ چاہتا ہے کہ وہ اسرائیل کے لیےخطرہ نہ بنے۔
بعد ازاں صدر مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور اور بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمدؒکے فرزندِ اکبر جناب ڈاکٹر عارف رشید نے ناظمہ عُلیا کاپیغام پڑھ کر سنایا۔اِس کے بعد ناظم اعلیٰ جناب ڈاکٹر سید عطا الرحمٰن عارف نے تنظیمِ اسلامی کی سالِ رفتہ کی کارکردگی کی رپورٹ ’’قافلہ تنظیم منزل بہ منزل …پیش رفت‘‘ پیش کرتے ہوئے یہ بھی بتایا کہ مسئلہ فلسطین کے تناظر میں تنظیم اسلامی و انجمن ہائے خدام القرآن کے زیر اہتمام ملک بھر کی مساجد میں قنوت نازلہ کا سلسلہ جاری ہے۔ ہفت روزہ ندائے خلافت کے ہر شمارہ میں کم از کم ایک صفحہ قضیہ فلسطین کے لیے مخصوص کیا گیا ہے۔
آخر میں امیر تنظیم اسلامی جناب شجاع الدین شیخ نے اپنے اختتامی خطاب میں ایک مرتبہ پھر سے تمام شرکاء اور اُن کے اہل خانہ، تمام منتظمین اور ریاستی اداروں کا شکریہ ادا کیاکہ جن کے تعاون کی وجہ سے یہ اجتماع کامیابی سے منعقد ہوسکا۔اُنہوں نے بتایا کہ گزشتہ اجتماع کی نسبت حاضری زیادہ ہونے کے باوجود انتظامات بہتر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جو جہنم سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا وہی کامیاب ہے۔امت کی ذلت اور رسوائی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ اُمت میں اُمت والا کوئی کام ہے ہی نہیں،یہی وجہ کہ دنیا بھر میں مسلمان ریاستیں تو موجود ہیں مگر کہیں پر بھی اسلام نافذنہیں ہے۔بنی اسرائیل کی تاریخ سب کے سامنے ہے کہ سب سے لاڈلی اُمت ہونے کے باوجود اُسے منظر سے ہٹا دیا گیا۔ اِن حالات میں نصرت الٰہی کا حصول ہی اِس صورتحال کا حل ہے۔ اللہ کی نصرت تو اُسی وقت آسکتی ہے جب ہم اُس کا نظام نافذ کرنے کی جدوجہد کریں گے، نافذ ہوتا ہے یا نہیں ہوتا یہ ہمارا مسئلہ نہیں ہے ہمارا کام تو صرف جدوجہد کرنا ہے۔نصرت الٰہی کے حصول کےلیے ہمیں پیغمبرﷺ کے مشن کو اختیار کرناہوگا۔ اللہ کی نصرت آگئی تو پھر کوئی دوسرا غالب نہیں آسکتا۔اِس وقت ہر شخص اپنے اپنے حق کی بات کررہا ہے۔کہیں عورتیں اپنے حقوق کے لیے آواز اُٹھا رہی ہیں تو کہیں، مزدور آواز اُٹھا رہے ہیں،کہیں مہنگائی سے مارے لوگ اپنے حقوق کے لیے شور مچا رہے ہیں اور تو اور اب مردوں کے حقوق کے حوالے سے بھی آواز اُٹھائی جارہی ہے۔آواز نہیں اُٹھائی جارہی تو صرف حقوق اللہ کے لیے نہیں اُٹھائی جارہی۔جب اللہ کے حقوق کی بات ہوگی تو یقیناً بات بن جائے گی۔کیونکہ حقوق العباد بھی اللہ کی طرف سے ہی مقرر کردہ ہیں۔اِس کے لیے اللہ سے تعلق کو جوڑیں،اللہ سے مانگیں،آخرت کی فکر کریں، داعی الی اللہ بنیں، قرآن سے خود جڑنے کے بعد دوسروں کو بھی جوڑیں، دین اور اجتماعیت کو ترجیح دیں ۔اللہ کی مدد کبھی بھی باغیوں اور سرکشوں کے لیے نہیں آتی ۔
باطل کی جنگ درحقیقت اللہ سے ہے، کیا اللہ چاہے تو باطل کو نیست و نابود نہیں کر سکتا؟بے شک وہ تو کُن کہہ کر سب کچھ کرسکتا ہے مگر وہ نہیں کرتاکیونکہ وہ چاہتا ہے کہ اس کے بندے یہ فریضہ سرانجام دیں۔حاضرین اجتماع اور اُن کے اہل خانہ کو انہوں نےسورہ مومن کی آیات 7 ،8 اور 9 بطور تحفہ پیش کیں اور بتایا کہ ان آیات میں بہترین دعائیں بیان کی گئی ہیں۔یہ دعائیں کریں اِن میں بڑی برکت ہے مگر ساتھ جدوجہد بھی بہت ضروری ہے۔بعد از اختتامی خطاب پنڈال میں موجود احباب نے امیر محترم کے ہاتھ پر بیعت کی۔اجتماعی دعا کے دوران پنڈال آمین کی صداؤں سے گونجتا رہا۔آخر میں اذان ظہر کے فوراً بعد نماز ظہر ادا کی گئی اورشرکاء کو اجازت دی گئی کہ وہ اپنےاپنے گھروں کو لوٹ سکتے ہیں۔اِس موقع پر حاضرین ایک قطار بنا کر باری باری امیر محترم سے ملنے کے لیے سٹیج کی طرف آتے رہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ تمام رفقاء و احباب کی قربانیوں اور محنتوں کو شرفِ قبولیت عطا فرمائے اور اجتماع میں شرکت کو ہمارے لیے توشۂ آخرت بنائے۔ آمین!