پاکستان کو موجودہ سنگین حالات سے نکالنے کا واحد فارمولہ یہی
ہے کہ صاف و شفاف جمہوریت کو راستہ دیا جائے اور
اس کے ساتھ ساتھ جس مقصد کے لیے پاکستان بنایا گیا تھا اس
کے حصول کی جدوجہد بھی کی جائے : خورشید انجم
سابقہ فاٹا کے علاقوں میں پرانی رنجشوں اور فرقہ وارانہ
کشیدگی کو کم کرنے میں مذہبی اور دینی حلقوں کو بھی
اپنا کردار ادا کرنا ہوگا : رضاء الحق
حکومت نے ایک جماعت سے احتجاج کاآئینی اور قانونی
حق چھین کر فاشزم کا ثبوت دیا ہے : مشتاق احمد خان
پارا چنار اورکرم میں قیام امن کے لیے ملی یکجہتی کونسل
کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے: پروفیسر محمد ابراہیم
ضلع کرم میں بدامنی کی بنیادی وجہ حکومت کا معاہدوں پر
عمل درآمد نہ کروانا ہے : دلدار حسین
وفاقی دارالحکومت میں احتجاج اور سانحہ کرم کے موضوعات پر
پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف تجزیہ نگاروں اور دانشوروں کا اظہار خیال
میز بان :وسیم احمد
سوال: پاراچنار سے پشاور آنے والے ایک قافلے پر دہشت گردانہ حملے میں 50 سے زائد افرادکی شہادت اور 100 سے زائدکے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ یہ کشیدگی کافی عرصہ سے چل رہی ہے جس میں اب تک سینکڑوں شہادتیں ہو چکی ہیں ۔ کیا یہ قبائلی سطح کا معاشی تنازعہ ہے یا فرقہ وارانہ تنازعات کا شاخسانہ ہے ؟
خورشیدانجم:اس علاقے میں یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ انگریزوں کےدور سے یہ تنازعات چل رہے ہیں اور ان کی بنیادی وجہ زمینی تنازعہ ہے۔ چونکہ ان علاقوں میں لینڈ ریکارڈ نہیں ہے لہٰذا قبضہ کے لیے قتل و غارت ہوتی رہتی ہے ۔ پھر وہاں کے لوگوں کا مزاج بھی اس طرح کا ہے کہ معمولی باتوں پر بندوقیں نکل آتی ہیں ۔ تیسری وجہ فرقہ وارانہ ہے ۔ پارا چناراور کرم میں زیادہ تر علاقہ اہل تشیع کے پاس ہے جبکہ صدہ کا علاقہ اہل سنت کے پاس ہے ۔ کرم سے جو راستہ پشاور کو جاتاہے وہ صدہ سے ہو کر جاتاہے ۔اطلاعات کے مطابق حالیہ واقعہ میں پہلے ایک شیعہ کے قتل کی غلط افواہ پھیلی جس کے نتیجہ میں اہل تشیع نے اہل سنت کے ایک قافلے پر حملہ کرکے درجنوں لوگوں کو شہید کر دیا اور تقریباً دس گاڑیوں کو جلا دیا جن میں سے ایک پولیس کی گاڑی بھی تھی جو سیکیورٹی کے لیے قافلے کے ساتھ تھی ۔ اس کےجواب میں تین حملے کیے گئے جن میں 50 کے قریب لوگ شہید اور 100 کے قریب زخمی ہوئے جن میں شیعہ بھی تھے اور سنی بھی تھے ۔ اس کے بعد بگن نامی گاؤں کو آگ لگا دی گئی اور لوٹ مار بھی کی گئی ۔ کہا جارہا ہے کہ اس میںاہل تشیع سے منسلک زینبیون نامی ایک عسکری تنظیم ملوث ہے۔ اس تنظیم کے کمانڈر تہران توری کی اس حوالے سے متنازعہ گفتگو بھی سامنے آئی ہے ۔ اس کے بعد ایک بزرگ شخص کا سر کاٹ کر لٹکایا گیا جو کہ دوسرے فریق کو اشتعال دلانے کا ایک طریقہ تھا ۔ اس کے بعد حالات مزید خراب ہوگئے ہیں ۔ پارا چناراور ضلع کرم میں شیعہ سنی فسادات پہلے بھی ہوتے رہتے تھے لیکن حالیہ واقعات نے بہت بڑی کشیدگی کو جنم دیا ہے جس سے ملک دشمن عناصر بھی فائدہ اُٹھا سکتے ہیں ۔ اس وقت پوری دنیا کی نظریں پاکستان پر ہیں ۔ خاص طور پر امریکہ اور بھارت تو اس موقع کی تلاش میں ہیں کہ یہاں عراق جیسے حالات پیدا کیے جائیں ۔
رضاء الحق: شیعہ سنی تنازعات کی تاریخ بہت پرانی ہے ۔ اسلام کی تاریخ میں سب سے پہلا نقب جو یہود نے اس امت میں لگایا وہ یہی تھا ۔ اس سازش کے بیج بونے والا ابن سبا یہودی تھا ۔ آج قومی ریاستوں کا دور ہے اور ایسی ریاستوں کے بہت سے دشمن ہوتے ہیں جو موقع کی تلاش میں ہوتے ہیں کہ کسی طرح اس ریاست کو اندرونی طور پر کھوکھلا کیا جائے ۔ اس سے پہلے بھی پاکستان کو کمزور کرنے کے لیے ایسے ہتھکنڈے استعمال ہوتے رہے ہیں۔ 1980ء کی دہائی میں جھنگ میں اہل سنت کی مساجد کے سامنے سے ایک وین گزرتی تھی اور فائرنگ کرتی تھی ۔ کچھ گھنٹوں بعد وہی وین امام بارگاہوں کے پاس سے گزرتے ہوئے فائرنگ کرتی تھی ۔ دوطرفہ بےشمار شہادتیں ہوتی تھیں اور الزام ایک دوسرے پر لگایا جاتا تھا ۔ اس طرح کے فسادات کروا کر درحقیقت بیرونی قوتیں اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہیں ۔
سوال: یہ سازشیں70 سال سے جاری ہیں اور ہم ان کا شکار ہوتے چلے جارہے ہیں ۔ آخر ہم اس کا کوئی دیر پا حل کیوں نہیں نکالتے ؟
رضاء الحق:دیرپا حل نکالنے کے لیےکسی علاقے پر سویلین کنٹرول کا مضبوط ہونا انتہائی ضروری ہوتا ہے۔ سابقہ فاٹا کے علاقوں میں کبھی بھی حکومت کی رٹ مکمل طور پر قائم نہیں رہی ۔ یہ فیڈرلی ایڈمنسٹرڈ علاقہ تھا جس کو وفاق وہاں کے پولیٹیکل ایجنٹس کے ذریعے کنٹرول کرتا تھا ۔ لیکن یہ کنٹرول برائے نام تھا ۔ حقیقت میں ان علاقوں کو صوبوں کے تحت ہونا چاہیے تھا ۔ اس وقت خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت ہے جو وفاق میں مظاہروں میں مصروف تھی جبکہ فاٹا میں اس وقت اس کا بھی کنٹرول نہیں ہے۔ اس صورتحال سے دہشت گرد فائدہ اُٹھارہے ہیں ۔ ویسے تو امریکہ اور میکسیکو کے بارڈرز پر بھی مسائل پیدا ہوتے ہیں مگر وہاں کی حکومتیں ان کو حل کرنے کی باقاعدہ کوشش کرتی ہیں جبکہ ہمارے ہاں سول انتظامیہ کی ان خطوط پر تربیت ہی نہیں کی گئی کہ وہ اس بارڈر کو کنٹرول کر سکے۔ جب تک یہ کام نہیں کیا جائے گا حالات کنٹرول میں نہیں آسکتے ۔ اس کے ساتھ ساتھ دینی حلقوں کو بھی پرانی رنجشوں اور فرقہ وارانہ کشیدگی کو کم کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا ۔
سوال: کیا کرم اور پارا چنارمیں تنازعات کو ختم کرنے کے لیے مقامی جرگہ، وہاں کی دینی جماعتیں یا پھر ملی یکجہتی کونسل کوئی کردار ادا نہیں کر سکتیں ؟
پروفیسر ابراہیم:یقیناً ملی یکجہتی کونسل کردار ادا کر سکتی ہے ۔اس سے پہلے بھی اس نے کوشش کی ہےلیکن اب زیادہ منظم کوشش کی ضرورت ہے ۔ یہ لڑائی انگریز کے دور سے جاری ہے۔ پارا چنار میںاہل سنت و اہل تشیع دونوں کا اس بات پر بھی جھگڑا ہوتا تھا کہ کس کی مسجد کا مینار اونچا ہوگا ۔ اس پربھی بہت سے لوگ لقمہ اجل بنے۔ یعنی معمولی باتوں پر بھی خون خرابہ ہوتا رہتا ہے ۔ بہرحال ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہیے ۔ ملی یکجہتی کونسل کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ۔ ہم اس حوالے سے کوشش میں لگے ہوئے ہیں ، دونوں طرف کے علماء سے رابطے کر رہے ہیں ۔
سوال:پاراچناراور کرم کی تازہ ترین صورتحال کیا ہے اور آپ کی نظر میں تنازعات کاحل کیا ہے ؟
دلدار حیسن:اس علاقے میں شیعہ سنی فسادات 1938ء سے جاری ہیں۔ حالیہ واقعات سے قبل اہل سنت کو ان کے آبائی گاؤں پارا چنار سے بے دخل کیا گیا ، ان کے بے شمار لوگوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا ۔ پھر مری معاہدہ طے پایا،اس کے بعد بھی ابھی تک امن قائم نہیں ہوسکا ۔ 12اکتوبر کو اہل سنت کے ایک قافلہ پر اہل تشیع کی زینبیون نامی عسکری تنظیم نے حملہ کر کے 16 معصوم بچوں اور عورتوں کو شہید کر دیا۔ جس کی وجہ سے حالات ایک مرتبہ پھر خراب ہوگئے ۔ حکومت نے 62 مطلوب افراد کی فہرست انجمن حسینیہ کے حوالے کی لیکن انجمن حسینیہ نے اپنے لوگوں کو حکومت کے حوالے کرنے سےمسلسل انکار کیا جس کے نتیجے میں نامعلوم افراد کی طرف سے 21 نومبر 2024ء کوایک قافلے پر حملہ کیا گیا جس میں اہل سنت اور اہل تشیع دونوں کے افرادجاں بحق ہوئے۔ حملہ آوروں کی ابھی تک شناخت نہیں ہو سکی۔ اس کے بعد اہل تشیع کے لوگ اہل سنت کے بگن شہر پر حملہ آور ہوئے اور وہاں بے دردی سے عورتوںاور بچوں کو زندہ جلایاگیا ۔ ایک ڈاکٹر فیملی کو اغواء کر کے لےجایاگیا ۔ کرم ایجنسی میں امن و امان کی صورتحال مسلسل بگڑتی جارہی ہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ امن معاہدوں پر عمل درآمد نہیں ہورہا ۔ حکومت کوچاہیے کہ معاہدوں پر عمل درآمد کروائے۔ وہاں سیکیورٹی فورسز کی چوکیاں بنائی جائیں اور پارا چنار کے اہل سنت کو علاقہ بدر نہ کیا جائے کیونکہ ان کی موجودگی سے وہاں امن کی صورت حال روز بروز بہتر ہوتی جائے گی ۔ اگر اہل تشیع وہاں آئی ڈی پیز کونہیں رہنے دیتے اور مری معاہدے پر عمل نہیں کرتے تو امن وامان کو برقرار رکھنا حکومت کے لیے مشکل ہوجائے گا۔
سوال: ان حالات میں جبکہ بیلا روس کےصدر اپنے ایک تجارتی قافلے کے ہمراہ پاکستان کے دورے پر تھے پی ٹی آئی کا اسلام آباد کی طرف مارچ کرنا اور ملک کو انتشار کی نذر کرنا کیا دانشمندانہ فیصلہ تھا ؟
مشتاق احمد خان: میں اس فیصلے کو بالکل دانشمندانہ ، جمہوری ، آئین اور دستور کی بالادستی اور عوام کے حق حکمرانی کے تحفظ والا فیصلہ سمجھتا ہوں۔ اپنے آئینی حقوق کے لیے مطالبات پیش کرنا اور مظاہرے اور جلوس نکالنا عوام کا آئینی حق ہے ۔ دنیا کے ہر ملک میں اس کو تسلیم کیا جاتا ہے ۔ یہ کوئی انوکھا اور غیر متوقع معاملہ ہرگز نہیں تھا۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ ایک پارٹی کا آپ نے مینڈیٹ چھین لیا ، انتخابی نشان چھین لیا ، اس کے لیڈر کو جیل میں بھیج دیا۔ ملکی اور ریاستی ادارے اس کے خلاف استعمال کیے ، پھر اس سے احتجاج کا حق بھی چھین لیا ۔ اب آپ ان سے ان کا حق ِزندگی بھی چھین رہے ہیں ۔ آخر وہ کیا کریں ؟ دو تہائی مینڈیٹ ان کو عوام نے دیا تھا وہ عوام کی امانت ہے ۔ عوام کے حق حکمرانی پر ڈاکہ ڈالنا کہاں کا انصاف ہے۔ اس پر ان کا احتجاج بالکل جائز تھا لیکن حکومت نے ان سے احتجاج کا حق بھی چھین کر فاشزم کا ثبوت دیا ہے ۔یہ جمہوریت پر حملہ ہے ۔ انہوں نے تین چار دن کوئی توڑ پھوڑ نہیں کی لیکن اس کے باوجود حکومت نے ریاستی اداروں کو جس طرح اس جماعت کے خلاف جبر کے لیے استعمال کیا ہے اس کی میں مذمت کرتا ہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ اس کے نتیجے میں پاکستان میں سیاسی استحکام نہیں آئے گا۔اگر سیاسی استحکام نہیں ہوگا تو معاشی استحکام بھی نہیں ہوگا اور پاکستان مزید مسائل و مشکلات سے دوچار ہوگا۔
سوال: پی ٹی آئی کی فائنل کال اور ان کے مطالبات اپنی جگہ لیکن احتجاج کے لیے اسلام آباد میں آئے ہوئے لوگوں کے ساتھ حکومتی طرزعمل ، پکڑ دھکڑ ، مارپیٹ کے علاوہ پورے ملک کو جام کرکے عوام کی زندگی اجیرن بنانا قانونی اور اخلاقی لحاظ سے کیا درست عمل ہے ؟
رضاء الحق: پاکستان کی پوری تاریخ میں سیاسی جماعتوں کا یہ طرزعمل رہا ہے کہ جب وہ حکومت سے باہر ہوتی ہیں توآئین و قانون کی پاسداری ، امن ،محبت ، بھائی چارہ اور انسانی حقوق کی باتیں بڑے زور و شور سے کرتی ہیں لیکن جب کسی جماعت کو حکومت مل جاتی ہے تو یہ سارے آئینی اور اخلاقی تقاضے اس کو بھول جاتے ہیں۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ پاکستان کو لاحق خطرات کی وجہ سے یہ ملک شروع سے ہی سیکیورٹی سٹیٹ بن گیا تھا اور کسی بھی سیکیورٹی سٹیٹ میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار بڑھ جاتا ہے ۔ ہمارے ہاں سیاست دانوں نے بھی اسٹیبلشمنٹ کا کندھا استعمال کرنے کی ہمیشہ کوشش کی ہے جس کی وجہ سے سویلین کنٹرول کم ہوگیا ۔ حالانکہ ریاست کا بنیادی کام عوام کے حقوق کا تحفظ کرنا ہوتا ہے ۔ ہمارے آئین کی دفعات 7 سے لے کر 28 تک بنیادی انسانی حقوق کے متعلق ہیں ۔ آرٹیکل 15 اور 16میں یہ بھی درج ہے کہ عوام کو آئینی دائرہ کار کے اندر اظہار رائے کی مکمل آزادی ہے ۔ اس لحاظ سے حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کو اپنے حقوق اور مطالبات کے لیے احتجاج کا حق دے ۔ آج تک تمام سیاسی پارٹیاں مظاہرے اور احتجاج کرتی آئی ہیں ، اگر چہ ان پر بھی سختیاں کی گئیں اور پابندیاں عائد ہوتی رہی ہیں لیکن حالیہ حکومت کا جو طرزعمل ہےایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔ دوسری طرف یہ بات بھی درست ہے کہ جب عمران خان وزیراعظم تھے تو اپنی تقاریر میں کہا کرتے تھے کہ یہ لوگ روز احتجاج کے لیے آجاتے ہیں جس سے معیشت کا نقصان ہوتا ہے اور دیگر ممالک کے وفود یا سربراہان آئے ہوتے ہیں ۔ OIC کانفرنس کے انعقاد کے وقت بھی اسلام آباد میں ایک مذہبی سیاسی جماعت دھرنا دیئے بیٹھی تھی ۔ بدقسمتی سےتمام سیاسی جماعتوں کا طرزعمل کوئی مثالی نہیں رہا تاہم مارشل لاء سے پھر بھی جمہوریت بہتر ہے۔ اگرچہ اس میں بھی صرف چہرے ہی بدلتے ہیں نظام نہیں بدلتا ۔ ہم پارلیمانی نظام اور جمہوریت چاہتے ہیں تو پھر ہمار اطرزعمل بھی اس کے مطابق ہونا چاہیے ۔ تمام سیاسی جماعتوں کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ اس طرح کے بیانات سے گریز کرنا چاہیے جیسا کہ سابق خاتون اول نے ایک برادر اسلامی ملک کے حوالے سے دیا یا جیسے بیانات وفاقی وزیر داخلہ دے رہے ہیں ۔ اس کے علاوہ تمام سٹیک ہولڈرز کوبھی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے ۔
سوال: پی ٹی آئی کےمطالبات میںعمران خان اور گرفتار کارکنان کی رہائی ، 26 ویں آئینی ترمیم کے خاتمے اور چوری شدہ مینڈیٹ کو واپس کرنے جیسے چار بڑے مطالبا ت بھی شامل تھے ۔ کیا آپ کی نظر میں فائنل کال کے لیے ایسے مطالبات لے کر سڑکوں پر آنا ، اس طرح کا احتجاج کرنا اور لوگوں کی زندگی اجیرن بنانا منطقی اور آئینی لحاظ سے درست تھا ؟
خورشیدانجم:ان مطالبات سے یہ محسوس ہورہا ہے کہ یہ اس بات کا ردعمل ہے کہ اس جماعت کو دیوار کے ساتھ لگانے کی کوشش کی گئی ہے ۔ ماضی قریب میں الیکشن کمیشن کا رویہ اور اس جماعت کے کارکنوں کی پکڑ دھکڑ اور جبر نے شاید ایسے حالات پیدا کر دیئے ہیں۔ حالیہ واقعات میں بھی حکومت کو زیادہ سے زیادہ راولپنڈی یاسلام آباد کے راستے بند کرنے چاہئیں تھے لیکن اس کے برعکس حکومت نے پورے ملک کو گویا جام کردیا ۔ موجودہ حکومت میں شامل جماعتیں بھی اپنے دور میں اسلام آباد میں دھرنے اور احتجاج کرتی رہی ہیں مگر ان کے ساتھ اس طرح کا سلوک نہیں کیا گیا ۔ بہرحال پی ٹی آئی کے مطالبات کسی حد تک جائز ہیں ۔ کیونکہ ان کے راستے بند کیے گئے ، ان کو دیوار کے ساتھ لگانے کی پوری کوشش کی گئی ۔ گویا انہیں اس پر مجبور کیا گیا ہے ۔ پھر جس مضحکہ خیز طریقے سے فارم 47 کے ذریعے مینڈیٹ چوری کیا گیا ہے اور جس طرح سے 26 ویں آئینی ترمیم پاس کی گئی ہے اس کے بعد تو ایسے حالات پیدا ہونے ہی تھے۔ جبکہ بہترین حل یہ تھا کہ صاف و شفاف الیکشن کروا دیئے جاتے، عوام کو ووٹ کا حق دیا جاتا ، عوام جس کومنتخب کرتے، اس کے حوالے حکومت کر دی جاتی ۔
سوال: بے شک پی ٹی آئی کا مینڈیٹ چوری ہوا اور ان کو قانونی حق نہیں دیا جارہا لیکن فائنل کال اس کے میں جو مطالبا ت سامنے آئے ان میں سے ایک بڑا مطالبہ یہ بھی تھا کہ عمران خان کو رہا کیا جائے ۔ کیا دنیا میں کہیں ایسا ہوا ہے کہ احتجاج کے ذریعے کسی قیدی کو رہا کروایا جائے ؟
مشتاق احمد خان:دنیا میںکبھی ایسا ہوا ہے جیسا کہ پرویز مشرف کے خلاف عدالت نے فیصلہ دیاکہ اس کو پھانسی دینے کے بعد اس کی لاش کو ڈی چوک میں لٹکایا جائے لیکن بجائے اس کے اس کو ایئر پورٹ لے جاکر دوبئی فرار کروایا گیا اور پھر اس کی رپورٹ لائی گئی کہ وہ تو سخت بیمار ہے لیکن اگلے ہی روز دوبئی سے اس کی ویڈیو بھی سامنے آگئی جس میں وہ ایک پارٹی میں ڈانس کر رہا تھا۔ پی ٹی آئی کا اصل مطالبہ مینڈیٹ کی واپسی کا تھا ۔جہاں صورتحال یہ ہو کہ ایک طرف الیکشن کمیشن ریاست کی پشت پناہی میں آپ کے مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈال رہا ہو اور دوسری طرف جب آپ الیکشن ٹریبیونل میں جاتے ہیں تو 9 ماہ ہوگئے 85 فیصد انتخابی مسائل پر اس نے فیصلہ نہیں دیا۔ حالانکہ قانون کے مطابق 6 ماہ کے اندر الیکشن ٹریبیونل فیصلہ دینے کا پابند ہے۔ان حالات میںPTI کیا کرے ؟ اس نے جو مطالبات رکھے ، آپ کو چاہیے تھا جو جائز مطالبات تھے آپ مان لیتے اور باقی کچھ کے بارے میں آپ کہتے کہ ہم بیٹھ کر گفتگو کرتے ہیں اور کچھ کو بے شک رد کر دیتے ۔ بجائے اس کے آپ کہیں کہ ہم آپ کو نہیں چھوڑیں گے ، گولیاں برسا کر سب کو گرائیں گے ۔ دیکھیں یہ گولیاں عوام کے لیے نہیں ہوتیں ، یہ عوام کے تحفظ کے لیے ہوتی ہیں۔
سوال:فی الوقت تو حکومت نے پی ٹی آئی کی فائنل کال کو دبا دیا ہے اور اسلام آباد سمیت پورے ملک کے حالات معمول کی طرف جاتے دکھائی دیتے ہیں لیکن بہرحال کشیدگی ختم نہیں ہوئی ۔ علی امین گنڈا پور نے بھی کہا ہے کہ تحریک جاری رہے گی ۔ آ پ یہ بتائیے کہ اس سیاسی ہیجان کی کیفیت کا حل کیا ہے ؟
مشتاق احمد خان:سیاسی ہیجان ہو ، معاشی بحران ہو ، داخلی و خارجی خطرات ہوں ، ان سب مسائل کا حل صرف یہ ہے کہ عوام کے مینڈیٹ کا احترام کیا جائے ۔ دستور کی بالادستی ہو ، چوکیدار صرف چوکیداری کرے ، وہ مالک نہ بنے ۔ دستور کے مطابق اس ملک کے مالک صرف عوام ہیں جوقرآن و سنت کے دائرہ میں رہتے ہوئے اپنے حق حکمرانی کو استعمال کرتے ہیں اور اپنے ووٹ سے نمائندوں کا انتخاب کرتے ہیں ۔ دستور کی اس روح پر عمل درآمد ہو۔ جب تک اسٹیبلشمنٹ کی بالادستی ختم نہیں ہوگی ، عوام کے مینڈیٹ کا احترام نہیں کیا جائے گا، با اختیار اورخود مختار پارلیمنٹ نہیں ہوگی ، دستور کی بالادستی قائم نہیں ہوگی تو مسائل حل نہیں ہوں گے ۔
سوال: اس وقت پاکستان کو سیاسی اور معاشی طور پر جو مسائل درپیش ہیںاور جس طرح پاکستان سفارتی تنہائی کا شکار ہے ، ان حالات میں کیا تنظیم اسلامی کے پاس کوئی ایسا فارمولہ ہے کہ پاکستان میں دیر پا امن بھی قائم ہو اور ملک ترقی اور خوشحالی کے راستے پر بھی گامزن ہو سکے ؟
خورشیدانجم: دیکھئے بظاہر عارضی حل تو یہی ہے کہ جمہوریت کو چلنے دیا جائے۔ مارشل لاء کسی صورت میں بھی ملک کےلیے مفید ثابت نہیں ہوسکتا کیونکہ اس صورت میں یہی تاثر جائے گا کہ پنجاب کی حکومت ہے جس سے صوبائی اور علاقائی عصبیت بڑھے گی ۔ پاکستان کا قیام بھی جمہوری عمل کے ذریعے ممکن ہوا تھا اور اس کو چلایا بھی جمہوریت کے ذریعےہی جا سکتا ہے ۔لہٰذاجمہوری عمل جاری رہنا چاہیے اور غیر جمہوری قوتوں کی مداخلت سے پاک جمہوریت ہونی چاہیے ۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مسلم لیگ کو کامیابی دو قومی نظریہ کے ذریعے ملی ۔ 1937ء کے انتخابات میں مسلم لیگ کو شکست ہوئی تھی اور جو حکومت بنی اس کے طرزعمل سے یہ ثابت ہوگیا تھا کہ متحدہ وفاق میں مسلمانوں کے حقوق کا دفاع ممکن نہ ہوگا ۔ اسی لیے 1946ء کے انتخابات میں جب مسلم لیگ نے دو قومی نظریہ کی بنیاد پر یہ نعرہ لگایا کہ’’ مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ‘‘ تو مسلمانوں کی اکثریت نے مسلم لیگ کو ووٹ دیا اور اس کے نتیجہ میں پاکستان کا معرض وجود میں آنا ممکن ہوا۔ گویا کہ یہ ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا ہے ۔ یعنی ایک نظریہ کی بنیاد پر بنا ہے ۔ اس کی بقاء اور سلامتی بھی اسی نظریہ کے نفاذ پر منحصر ہے ۔ لہٰذا موجودہ حالات سے نکالنے کے لیے واحدفارمولہ یہی ہے کہ ملک میں صاف و شفاف جمہوریت بھی چلنے دی جائے اور اس کے ساتھ ساتھ جس مقصد کے لیے پاکستان بنایا گیا تھا اس کے حصول کی جدوجہد بھی کی جائے ۔ یہی وہ واحد حل ہے جس کے بعد یہاں امن بھی ہوگا ، خوشحالی بھی ہوگی اور قومی یکجہتی بھی ہوگی۔ جیسے بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسراراحمدؒ فرمایا کرتے تھے کہ اگر اسلام پاکستان کا باپ ہے تو جمہوریت اس کی ماں ہے ۔ لہٰذا یہ دونوں لازم اور ملزوم ہیں ۔
خخخ
tanzeemdigitallibrary.com © 2025