(نعیم اختر عدنان، ناظم نشر و اشاعت حلقہ لاہور شرقی)
پاکستان کا آئینی و دستوری نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے ،اس مملکتِ خدا داد کو اپنے قیام ہی سے آئینی حوالے سے ناپسندیدہ صورت حال کا سامنا رہا ۔ ملک کے مشرقی بازو یعنی مشرقی پاکستان کی آ بادی مغربی بازو یعنی مغربی پاکستان سے زیادہ تھی ،جبکہ اختیارات کا منبع وسرچشمہ مغربی پاکستان کی ملٹری اور سول بیوروکریسی تھی۔اسی وجہ سے ملک کو آ ئینی ڈھال کی فراہمی میں نو سال کا طویل عرصہ لگ گیا اور یوں 1956 ءکا سال شروع ہوگیا ۔ اس نئے آ ئین کے برگ وبار ابھی پورے طور پر ظاہر بھی نہیں ہوئے تھے کہ پہلے سکندر مرزا اور بعد میں جنرل ایوب خان نے نوزائیدہ آ ئین کو اپنے بھاری بھرکم بوٹوں تلے روند ڈالا اور ملک کو پہلے مارشل لاء کے شکنجہ میں جکڑ لیا۔ اس آ مریت وفسطائیت کے منحوس اور گہرے سائے یوں دراز ہوئے کہ جنرل یحیٰی خان پر مشتمل فوجی ٹولے کے ہاتھوں دنیا کی سب سے بڑی مسلمان مملکت دو لخت ہوگئی، جسے سقوط ڈھاکہ کا نام دیا گیا۔ 1973 ءمیں باقی ماندہ پاکستان کے لیے قومی سطح پر اتفاق رائے کے ذریعے نیا آئینی بندوبست کیا گیا اور اس قومی و ملی دستاویز کو 1973 ء کے آ ئین کا نام دیا گیا ۔محض چار سالوں کی قلیل مدت ہی گزر پائی تھی کہ آ ئین کے خالق ذوالفقار علی بھٹو کو بندوق کی نوک کے ذریعے اقتدار سے بے دخل کردیا گیا ۔ بعد ازاں اہلِ توپ و تفنگ نے اپنے ساتھ عدل کے ترازو کو ملایا اور آئین اور ایٹمی پروگرام کے خالق کو تختہ دار پرلٹکا دیا گیا،یوں مملکت پاکستان طویل عرصہ تک ’’مردِ مومن مردِ حق ،ضیاءالحق ضیاءالحق‘‘ کے نعروں سے لطف اندوز ہوتی رہی۔ اس طویل عرصہ میں صادر ہونے والے غیر آئینی اقدامات کو آ ٹھویں ترمیم کے ذریعے آ ئین کا حصہ بنادیا گیا ۔ صاحبانِ اختیار و اقتدار نے ’’نیاجال لائے پرانے شکاری ‘‘کے مصداق اب اپنی جارحانہ پالیسی کا انداز بدلہ اور صدر ذی وقار کے ہاتھ میں58-2B کی تلوار تھما دی ۔ اس صدارتی آمرانہ اختیار کے ذریعے محمد خان جونیجو، محترمہ بینظیر بھٹو اور نواز شریف کو جمہوری اقتدار کے حجلہ عروسی سے بے دخل کیا گیا۔ برسات کی رم جھم کی طرح مختصر عرصہ کے لیے آ ئینی و جمہوری طرز حکومت قائم رہا تاآنکہ جنرل پرویز مشرف نے نہ صرف جمہوریت پر شب خون مارا بلکہ عدل کے ایوانوں کو بھی اپنی ’’محبت‘‘ کا اسیر کرلیا کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت کے عالی قدر منصفوں نے آ ئین شکن کو آئین میں ترمیم کرنے کا غیر آ ئینی اختیارِ خسروانہ بھی عطاء فرما دیا۔ یہ عمل متعدد بار دہرایا گیا ، جمہوریت کی نیم جان نیلم پری پھر سے آ راستہ و پیراستہ ہوئی اور پھر سے سیاستدانوں نے قومی اتفاقِ رائے سے آ ئین پاکستان کو فوجی آ مریت کی مسلط کردہ آ لودگیوں سے نکال باہر کرنے کی کامیاب کوشش کی۔ مگر شومئی قسمت نے جمہوری و دستوری کشتی کے کھیون ہاروں کو پھر سے عدلیہ کے ہتھوڑے سے مضروب کروایا ۔ یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کے جرم کا مرتکب قرار دیکر اور نواز شریف کو ’’پانامہ و اقامہ‘‘ کی داستان طلسم ہوش ربا کا کردار بنا کر جمہوریت کو پامال کردیا گیا ۔ بقول شاعر
رنگ گل کا سلیقہ ہے نہ بہاروں کا شعور
ہائے کن ہاتھوں میں تقدیر حنا ٹھہری ہے
ریاست و مملکت کے رموز آ شنا ماہرین نے گلشن کے کاروبار کو چلانے کے لیے تین ستونوں کا تصور تخلیق کر رکھا ہے ،ایک ستون کو مقننہ یعنی پارلیمان کا نام دیا گیا، قانون سازی اور آ ئین میں ترمیم اس ادارے کی ذمہ داری قرار دیا گیا ، ریاست کا دوسرا ستون ایگزیکٹیو (انتظامیہ) یعنی سول بیوروکریسی اور حکومت پر مشتمل ہے اور کہا جاتا ہے کہ آ ئینی دائرہ کار میں رہتے ہوئے تمام امورِ مملکت کی انجام دہی اس ’’راجکماری‘‘ کا فریضہ اور حق ہے ،مملکت و ریاست کا تیسرا ستون عدلیہ کو قرار دیا گیا ہے ،جو آ ئین میں دئیے گئے حقوق و اختیارات کی محافظت کی ذمہ دار ہوتی ہے عدالتوں کا کام آ ئین و قوانین کے مطابق بلا تفریق و امتیاز سب شہریوں کو ان کے دستوری و قانونی حقوق کی فراہمی کا فریضہ انجام دینا ہوتا ہے۔ فوجی آ مریتوں کے زخم خوردہ عوام اب عدلیہ کی چیرہ دستیوں کا شکار بنائے جارہے ہیں۔ عدلیہ نے خود کو ناقابل تسخیر ستون بنانے کے لیے پارلیمان کوحکم دیا کہ وہ آ ئین میں ترمیم کے ذریعے ایسی قانون سازی کرے کہ عدلیہ خود مختار ادارہ بن سکے ۔اس خود مختاری اور عدلیہ کی آزادی نے یوں جست لگائی کہ اب عدلیہ نے شتر بے مہار ادرے کا روپ اختیار کرلیا ۔عدالتی تحریک نے سول حکومتوں اور آ ئین وقانون کو اپنی لونڈی و کنیز کا درجہ عطاء فرما دیا ،اب اس خوشنما اور دلفریب عدالتی بندوبست کے ذریعے نہ مارشل لاء کی ضرورت رہی اور نہ ہی کسی صدارتی اختیار کی احتیاج باقی رہی ۔گزشتہ کئی سالوں سے ایوان ہائے عدل سے ایسے فیصلے صادر کروائے گئے کہ آئین و دستور کی دستاویز کیا ہوئی ۔کسی مجبور و بے بس عفیفہ کی سرعام غنڈہ عناصر کی جانب سے عزت کی پامالی کا ہر سطح پر ماحول بنتا چلا گیا۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق اس صورت حال میں’’ مرتا کیا نہ کرتا‘‘ کے مصداق حکومت میں شامل اور پارلیمنٹ میں موجود سیاسی جماعتوں نے عدلیہ کی اصلاح کے لیے باہمی طور پر اتفاق و اشتراک عمل سے چھبیسویں آئینی ترمیم کا مسودہ تیار کیا ۔ بہت سے نشیب و فراز کے بعد چھبیسویں آئینی ترمیم کے اونٹ کو آ ئینی خیمہ میں داخل کرنے کی کامیاب حکمت عملی کا مظاہرہ کیا گیا ۔ امید کی جانی چاہیے کہ اس آئینی ترمیم کے بعد آئین ،پارلیمان ، منتخب جمہوری حکومت اور دیگر آئینی و قانونی ادارے اپنا اصل مقصد پورا کرنے کے قابل ہوسکیں گے۔ ہم سب کی دلچسپی کا محور ملک وقوم کی بہتری اور بھلائی ہی ہونی چاہیے۔ امید کی جانی چاہیے اور بھروسہ بھی رکھنا چاہیے کہ ’’پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ‘‘ کے مصداق اس ترمیم سےملک و ملت کی گاڑی ہموار طریق سے محو سفر رہ سکے گی۔