(زمانہ گواہ ہے) ’’ قائداعظم کا پاکستان ‘‘ - محمد رفیق چودھری

11 /

’’اسلام‘‘ ہی نظریۂ پاکستان تھا،اس حقیقت کوتسلیم نہ کرنااور

اس کی مخالفت کرنا محض ڈھٹائی ہے: ایوب بیگ مرزا

قرارداد مقاصد پاس ہوگئی تو اس کے بعد اس بحث کا جواز ہی

پیدا نہیں ہوتا کہ پاکستان کس لیے بنا تھا : ڈاکٹر فرید احمد پراچہ

پالیسی سازوں اور قانون سازوں کو چاہیے کہ وہ اسلام اور

قائداعظم کے ویژن کو مدنظر رکھتے ہوئے قانون اور پالیسی

بنائیں : پروفیسر خرم عزیز ڈھلوں

’’ قائداعظم کا پاکستان ‘‘

پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف تجزیہ نگاروں اور دانشوروں کا اظہار خیال

میز بان :وسیم احمد

سوال: ہمارے ہاں سیکولر اور لبرل طبقہ قائد اعظم، علامہ اقبال اور نظریہ ٔپاکستان کے حوالے سے وقتاً فوقتاً ابہام پیدا کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے ۔آپ کے خیال میں بانیان پاکستان کا نظریہ ٔپاکستان کیا تھا؟
ایوب بیگ مرزا:نظریہ ٔپاکستان اسلام تھا۔اس بارے میں کوئی دو رائے نہیں ہو سکتیں۔ اسے تسلیم نہ کرنااور اس کی مخالفت کرنا محض ڈھٹائی ہے۔ہمارے ایک بزرگ، جو سیکولرذہن رکھتے تھے،کہا کرتے تھےکہ جب پاکستان کی تحریک اُٹھی تو شروع میں ہم نے توجہ نہیں دی اور اپنے کاروبار میں لگے رہے ، جب 1947ء آگیا اور پاکستان کا بننا یقینی نظر آنے لگا تو ایک دن میں اپنے بزنس آفس سے نکل کر گھر کی طرف جارہا تھا کہ راستے میں ایک شخص نماز کی کتاب فروخت کرتا ہوا ملا ۔ میرے ذہن میں آیا کہ اب پاکستان تو بنا ہی چاہتا ہے ، پاکستان کے بننے کو روکا نہیں جا سکتا ، جب پاکستان بنے گا تو اس میں نماز پڑھنا قانوناً فرض ہو گا، نماز لازماً پڑھنی پڑے گی لہٰذا نماز کی کتاب لے ہی لوں ۔ ذراسوچئے ! ایک سیکولر شخص اُس وقت یہ سوچ رہاتھا تو عام دینی مزاج رکھنے والے مسلمانوں کے ذہن میں کیا تصور ہوگا ؟ وہ یہی تصور تھا کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست بنے گا ۔ ہندوستان سے الگ ہونے کا مقصد ہی یہی تھا ۔ مسئلہ یہ ہے کہ قائداعظم کے بعض ارشادات ایسے ہیں جن کو سیکولر طبقہ دروغ گوئی سے کام لے کر اپنی مرضی کے معنی پہناتا ہے جبکہ کچھ ارشادات ایسے ہیں جن کو جامد دینی طبقہ اپنی مرضی کے معنی پہناتا ہے اور جمہوریت کی نفی کرتاہے ۔ حالانکہ قائداعظم علامہ اقبال کے ویژن سے متاثر تھے اور یہی ڈاکٹرا سراراحمدؒ کی بھی رائے تھی کہ قائداعظم ایک ایسی اسلامی ریاست چاہتے تھے جس کا آئین بنیادی اسلامی اصولوں کے مطابق ہو لیکن اس کا نظام جمہوری ہو ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی بنیاد تو اسلام ہے مگر پاکستان کے قیام کا ذریعہ جمہوریت ہے ۔1937ء کے انتخابات میں مسلم لیگ کو بُری طرح شکست ہوئی تھی اور کانگریس کی حکومت بنتے ہی ہندوؤں کی مسلم دشمنی کھل کر سامنے آگئی تھی اوروہ مسلمانوں کو کوئی حقوق دینے کو تیار نہ تھی ۔ مسلمانوں پر کاروبار ، روزگار ، ملازمت ، سیاست کے دروازے بند ہوگئے ۔ لہٰذا مسلمانوں کو شدت سے اس بات کا احساس ہوا کہ اگر ہم ہندوؤں کے ساتھ رہیں گے تو ہمارا جینا مشکل ہو جائے گا ۔ یہی وجہ ہے کہ صرف نو سال بعد جب 1946ء میں الیکشن ہوئے تو مسلم لیگ بھاری اکثریت کے ساتھ جیت گئی اور اس کے نتیجے میں پاکستان کا قیام ممکن ہوگیا ۔ یہاں پھر یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ مسلمانوں نے مسلم ہونے کی بنیاد پر علیحدہ وطن کے حصول کو ضروری سمجھا اور اسی لیے مسلم لیگ کو ووٹ دئیے ۔لہٰذا تحریک پاکستان کی بنیاد مذہب پر تھی اور قیام پاکستان کا ذریعہ جمہوریت تھی اور پاکستان کی بقا اور سلامتی کے لیے بھی اسلام اور جمہوریت ضروری ہیں ۔
سوال:قیامِ پاکستان کے وقت بعض دینی جماعتوں اور شخصیات نے قیامِ پاکستان کی مخالفت کی تھی۔ حالانکہ حقائق یہ ثابت کرتے ہیں کہ اسلام ہی نظریۂ پاکستان تھا ۔کیا آپ بھی یہی سمجھتے ہیں کہ واقعی اسلام ہی نظریہ ٔپاکستان تھا اور اسی نظریہ کے نفاذ میں ہماری فلاح ہے ؟
ڈاکٹر فرید احمد پراچہ: قائد اعظم کی کم و بیش 102 تقاریر ایسی ہیں جن سے ان کا ویژن بالکل واضح ہو جاتاہے ۔ 8مارچ 1944ء کو انہوں نے علی گڑھ یونیورسٹی میں  تقریر کرتے ہوئے فرمایا کہ مسلم قومیت کی بنیاد نہ وطن ہے، نہ زبان ہے،بلکہ اس کی بنیاد کلمہ توحید ہے۔ جب ہندوستان کے پہلے فرد نے کلمہ توحید پڑھا تھا تو مسلم قومیت کی بنیاد بن گئی تھی اور اس کے بعد وہ الگ قوم کا فرد بن گیا تھا۔ 11 اکتوبر 1947 ءکی تقریرمیں انہوں نے فرمایا کہ ہمارا مطالبہ الگ قومیت کی بنیاد پرہے ۔ اسی طرح 31 اکتوبر 1947ء کو پشاور میں آپ نے فرمایا کہ ہم پاکستان کو اسلام کی تجربہ گاہ بنانا چاہتے ہیں ۔ اسی طرح علامہ اقبال کا تو سارا کلام ہی نظریۂ پاکستان اور اسلامی نظام پر مبنی ہے ۔
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہیں چنگیزی
صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے، پا بہ گِل بھی ہے
اِنہی پابندیوں میں حاصل آزادی کو تُو کر لے
میں ظُلمتِ شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو
شررفشاں ہوگی آہ میری، نفَس مرا شعلہ بار ہو گا
آبِ روانِ کبیر! تیرے کنارے کوئی
دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب
قائداعظم اور علامہ اقبال کے ویژن سے تو واضح ہے کہ اسلام ہی نظریہ ٔپاکستان تھا ۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو مشرقی پنجاب اور مغربی پنجاب علیحدہ نہ ہوتے ۔ اسی طرح مشرقی بنگال اور مغربی بنگال الگ نہ ہوتے ۔’’ پاکستان کا مطلب کیا :لا الٰہ الا اللہ ‘‘کے نعرے نہ لگتے ۔ اسی طرح یوپی اور سی پی کے لوگ کبھی پاکستان کے حق میں ووٹ نہ دیتے ۔ حالانکہ وہ کبھی پاکستان کا حصہ نہیں بن سکے ۔ جہاں تک علماء کا تعلق ہے تو یوپی کے علماء نے اسلامی دستور بنانے کے لیے باقاعدہ ایک کمیٹی بنائی تھی جس میں عبدالماجد دریا بادیؒ ، سید سلیمان ندویؒ اور مولانا مودودیؒ جیسے عظیم لوگ شامل تھے ۔ قائداعظم نے پاکستان بننے کے بعد دو کام کیے۔ ایک یہ کہ انہوںنے مولانا مودودی صاحبؒ کو ریڈیو پاکستان کی نشریات میں اسلام کے نظام حیات کو واضح کرنے کی ذمہ داری دی۔ دوسرا علامہ محمد اسد کو اسلامائزیشن کا ڈیپارٹمنٹ قائم کرکے دیا ۔ پھر جب قرارداد مقاصد پاس ہوگئی تو اس کے بعد تو اس بحث کا کوئی جواز ہی باقی نہیں رہتا کہ پاکستان کس لیے بنا تھا کیونکہ یہ قرارداد پاکستان بنانے والوں کی اسمبلی نے ہی پاس کی تھی۔
سوال: تحریک پاکستان جب زوروں پر تھی تو قائداعظم کی صحت کے مسائل بھی تھے لیکن انہوں نے اس بات کو خفیہ رکھا تاکہ مخالفین قیام پاکستان میں رکاوٹ نہ بن سکیں ۔پھر بالکل آخری دنوں میں جب ان کوزیارت سے کراچی شفٹ کیا جارہا تھا تو ایمبولینس خراب ہوگئی ، یہ بدانتظامی کا مظاہرہ کیوں کیا گیا ؟ کیا بعض لوگ قائداعظم کو راستے سے ہٹانا چاہتے تھے ، آپ کی رائے کیا ہے ؟
ایوب بیگ مرزا: اس معاملے میں پورے یقین سے کوئی حتمی بات کہنا بہت مشکل ہے لیکن یہ بات اپنی جگہ پر درست ہے کہ بعض چیزیں پُرسرار طور پر ہوئیں۔ پہلا سوال یہ ہے کہ انہیں زیارت کیوں لے جایا گیا حالانکہ وہ پسماندہ علاقہ تھا جہاں میڈیکل کی سہولیات نہیں تھیں ۔ بجائے اس کے ان کو کسی بڑےشہر میں کیوں نہیں رکھا گیا جہاں میڈیکل کی جدید سہولیات میسر ہوتیں ؟ پھر جب قائداعظم کو زیارت سے کراچی لایا جارہا تھا تو وزیراعظم کا اپنی کابینہ سمیت ایئر پورٹ پر موجود ہونا ضروری تھا ۔ لیکن وہ ایمبولینس بھیج دی گئی جو خراب تھی ۔ کراچی کی سڑکوں پر ستمبر کی گرمی میں ڈیڑھ گھنٹہ تک بیمار قائد کو تکلیف دی گئی ۔ حالانکہ وہاں سے گورنر ہاؤس تک صرف پندرہ منٹ کا راستہ تھا ۔ کوئی دوسری گاڑی بھیجی جا سکتی تھی ۔ کہا جاتا ہے وزیراعظم اس وقت سرکاری فنکشن اٹینڈ کر رہے تھے ۔ کیا وہ فنکشن سے نکل کر بانی پاکستان کو دیکھنے نہیں جا سکتے تھے؟ یہ سب چیزیں سوالات پیدا کرتی ہیں ۔
سوال: مرحوم ڈاکٹر صفدر محمود صاحب جو نظریہ ٔپاکستان کے بڑے حامی تھے، انہوںنے کہا تھا کہ قائداعظم نے یہ بات کبھی نہیں کہی کہ میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں ۔ آپ کی رائے میں کیا واقعی کوئی ایسے کھوٹے سکے تھے جنہوں نے تعمیرِ پاکستان یا قیام پاکستان میں روڑے اٹکانے کی کوشش کی؟
فرید احمد پراچہ: اگر قائد اعظم نے نہیں بھی کہا تو عملاً تو یہی ہوا۔ منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے۔ آپ یوں سمجھ لیں کہ پاکستان بننے کے بعد ڈرائیونگ سیٹ پر وہ لوگ آگئے کہ جن کا پاکستان بنانے میں کوئی حصہ نہیں تھا۔ سارا جاگیردار طبقہ جو پہلے یونینسٹ پارٹی میں تھا ، جو انگریزوں کے گھوڑے پال رہے تھے ، ان کے کتے نہلا رہے تھے اور انگریزوںکی فوج میں شامل ہو کر جنہوں نے خانہ کعبہ پر گولیاں چلائیں ۔1857ء کی جنگ آزادی میں جنہوں نے آزادی کے متوالوں پر گولیاں چلائیں ، پاکستان بننے کے بعد انگریز کا سارا وفادار طبقہ سیاست میں آگیا اور آج ان کی تیسری نسل اسمبلیوں میں بیٹھی ہوئی ہے ۔ اس پر کئی کتب لکھی جا چکی ہیں ۔ پھر بیوروکریسی بھی وہی تھی جو انگریز کے دور میں تھی ، یہ سب لوگ انگریز کے لیے جاسوسیاں کرتے تھے ۔ ملک غلام محمد اور سکندر مرزا جیسے لوگ پاکستان کے حکمران بن گئےجو نسل درنسل انگریزوں کے وفادار تھے ۔ کچھ ایسا ہی معاملہ عسکری سطح پر بھی ہوا ۔ یہ سارے کھوٹے سکے ہی تھے ۔
ایوب بیگ مرزا:میں سمجھتا ہوں کہ قائد اعظم کی ٹیم میں بڑے اچھے لوگ بھی تھے۔ جیسا کہ لیاقت علی خان میں بہت اچھی صفات بھی تھیں ۔ اسی طرح سردار عبدالرب نشتر تھے، چودھری محمد علی تھے جنہوںنے پاکستان کا پہلا آئین دیا ۔ پھر یہ کہ چودھری محمد علی نے 1946ء میں اکیلے تمام ہندوؤں کو شکست دے دی تھی ۔ 1946ء کے الیکشن کے بعد کانگریس کا مطالبہ تھا کہ مشترکہ حکومت بنائی جائے لیکن قائداعظم یہ بات نہیں مان رہے تھے ۔ چودھری محمد علی نے قائد کو مشورہ دیا کہ آپ مان جائیں لیکن شرط یہ رکھیں کہ ہم نے وزارتیں نہیں لینی سوائے ایک وزارت خزانہ کے ۔ چنانچہ متحدہ حکومت بن گئی اور چودھریمحمد علی وزیر خزانہ بن گئے ۔ انہوں نے کانگریسی وزارتوں کے فنڈز روک کر کانگریسی حکومت کو گھٹنے ٹیک دینے پر مجبور کر دیا۔ اس طرح آخر مجبو رہو کر کانگریس کو خود حکومت توڑنا پڑی ۔
سوال: قائداعظم نے 11 اگست کی تقریر میں غیر مسلم اقلیتوں کے ساتھ جس حسنِ سلوک کی بات کی، وہ اسلامی احکامات کے عین مطابق تھی۔ ہمارے ملک کا سیکولر طبقہ قائداعظم کے ان خیالات کو سیکولرازم کے کھاتے میں  ڈالنے کی کوشش کیوں کرتاہے ؟
پروفیسرخرم عزیز ڈھلوں:دراصل 11 اگست کی تقریر میں قائداعظم نے ایک ایسا ویژن دیا تھا کہ پاکستان ایک ماڈرن ڈیموکریٹک سٹیٹ بنے جس کی اساس اسلام کے بنیادی اصولوں پر ہو ۔ اسلام کے بنیادی اصولوں میں رواداری ہے ، تحمل مزاجی ہے ، پھر یہ کہ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے ۔ لیکن ہمارے لبرلز نے قائد کے ویژن کو ہائی جیک کیا اور کہا کہ قائد پاکستان کو سیکولر ریاست بنانا چاہتے تھے کہ جہاں مغربی تہذیب جیسی مادر پدر آزادی ہو ۔ حالانکہ قائد کی صرف ایک تقریر کی بنیاد پر نہیں کہا جا سکتا کہ یہی ان کا ویژن تھا ۔ قائداعظم نے دو قومی نظریہ کی بنیاد پر پاکستان کی تحریک چلائی کیونکہ ان کے نزدیک ہندو راج میں مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ ممکن نہ تھا ۔ لہٰذا پاکستان کی بنیاد ہی اسلام پر ہے ۔ قائداعظم چاہتے تھے کہ پاکستان کو ایک ایسی اسلامی ریاست بنائیں، جہاں لوگ اسلام کے اصولوں کے مطابق زندگی گزار سکیں۔ جب پاکستان بن گیا تو تب قائداعظم چاہتے تھے کہ یہاں اقلیتوں کو بھی وہ تمام حقوق دئیے جائیں جو اسلام ان کو دیتا ہے ۔ پھر یہ کہ جمہوریت ایک طرح کا شورائی نظام ہے جہاں مشاورت سے قومی معاملات کا حل نکالا جاتا ہے۔ جیسا کہ علامہ اقبال نے فرمایا تھا کہ جب اسلام کی ماڈرنائزیشن کی بات آئے گی تو ہم اسے جائز عصری حقائق کے ساتھ ضم کریں گے اور اس کے لیے ہمیں اجتہاد کا راستہ اپنا نا پڑے گا ۔ اجتہاد ہی وہ سیڑھی ہے جو مسلمانوں کو بحیثیت اُمت آگے بڑھنے میں مدد دے سکتی ہے اور بحیثیت پاکستانی ہمیں مسلم اُمہ کا رہنما بننے میں مدد دے سکتی ہے ۔
سوال:ہمارے ہاں جدید سیکولر و لبرل طبقہ قیام پاکستان کے حوالے سے بانی پاکستان کے ویژن کے بارے میں غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے ۔ یہ فرمائیے کہ قائداعظم کے ارشادات کی روشنی میں  نظریہ ٔپاکستان کیا تھا ؟
پروفیسرخرم عزیز ڈھلوں:تحریک پاکستان کے دوران بھی بہت سے لوگ قائداعظم کے خلاف سازشیں کر رہے تھے اور اس کے بعد پاکستان کو ایک ماڈرن اسلامک سٹیٹ بننے کی راہ میں بھی رکاوٹیں ڈالتے رہے ۔ دنیا میں جتنے بھی عظیم لوگ ہوتے ہیں اُن کے ساتھ یہ سب ہوتا ہے ۔ قائداعظم کی بیماری جب حد سے بڑھی اور اُنہیں زیارت سے کراچی لایا جارہا تھا تو انہیں ایسی ایمبولینس دی گئی جو اچھی حالت میں نہیں تھی۔ اسی طرح فاطمہ جناح نے اپنی کتاب مائی برادر میں لکھا ہے کہ قائداعظم نے آخری سال میں فرمایا تھا کہ میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں۔ اسی وجہ سے وہ مفاد پرست سیاستدانوں کو ملتے بھی نہیں تھے ۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا ہمیں ان سازشوں میں پڑنا ہے یا پھر آگے بڑھنا ہے؟ آگے بڑھنے کےلیے ہمیں اسلام کے بنیادی اور ابدی اصولوں کوجائز جدید جمہوری اصولوں کے ساتھ لے کر چلنا ہے۔ تب ہی ہم دنیا میں آگے بڑھ سکتے ہیں ۔ اسلام اور پاکستان لازم اور ملزوم ہیں ۔ پاکستان بنا بھی اسلام کے نام پر تھا اوراسلام کی بنیاد پر ہی چل سکتا ہے ۔ لہٰذا پاکستان کے جو پالیسی ساز اور قانون ساز ہیں، انہیں چاہیے کہ وہ اسلام اور قائداعظم کے ویژن کو مدنظر رکھتے ہوئے قانون اور پالیسی بنائیں ۔
سوال:قیام پاکستان کے 24 سال بعد مشرقی پاکستان علیحدہ ہوگیا ۔ آپ کے خیال میں سقوط ڈھاکہ کے عوامل کیا تھے اور ہم نے آج تک اس سانحہ سے کوئی سبق کیوں  نہیں سیکھا ؟
ایوب بیگ مرزا: پاکستان کی بنیاد اسلام اورپاکستان کو حاصل کرنے کا ذریعہ جمہوریت ہے، لیکن پاکستان بننے کے بعد ہم نے دونوں کو تہہ وبالا کر دیا۔ یعنی ہم نے بنیاد کو تسلیم کیا اور نہ ہی ذریعہ کو ۔ہم نے جمہوریت کا شروع سے ہی گلا گھونٹ دیا اور آج تک گھونٹا ہوا ہے ۔ اسی طرح اسلام ہی وہ سیمنٹ تھا جس نے مشرقی اور مغربی پاکستان کو جوڑا ہوا تھا ،ورنہ نہ ہماراکلچر ایک تھا ، نہ زبان ایک تھی ، نہ نسل ایک تھی ۔جب ہم نے اس سیمنٹ کو بیچ میں سے نکال دیا تو پاکستان دوٹکڑے ہو گیا ۔ جہاں تک سبق سیکھنے کا تعلق ہے توحقیقت یہ ہےکہ آج ہماری دینی جماعتیں بھی انتخابات کے موقع پر اسلام کو بنیاد نہیں بناتیں ۔ وہ یہ نہیں کہتیں کہ ہم نے اسلامی نظام قائم کرنا ہے ۔ وہ بھی وہی نعرے لگاتی ہیں جو سیکولر سیاسی جماعتیں لگاتی ہیں ۔ اس حالت میں آپ بتائیں منطقی طور پر پاکستان کیسے قائم رہے گا؟ عملاً ہم نے آج تک کوئی سبق نہیں سیکھا ، آج بھی ہمارے تمام سٹیک ہولڈرز اسی روش پر قائم ہیں ۔
سوال: قائد اعظم فوجی آمریت اور شخصی آمریت دونوں کے خلاف تھے لیکن عملاً پاکستان میں تقریباً چار دہائیوں  تک فوج وطن عزیز کے سیاہ و سفید کی مالک بنی رہی ۔ آپ کے خیال میں کیا پاکستان کی تعمیر و ترقی کی راہ میں ایک رکاوٹ یہ عنصر بھی ہے ؟
فرید احمد پراچہ: کیاقائداعظم کے پاکستان میں فوجی حکومت کا تصور کہیں فٹ ہوتا ہے ؟ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ قائد نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا کہ یہاں فوجی حکومت ہوگی ۔ قائد اعظم نے تو خود اپنے بارے میں کہاتھا کہ میں کون ہوتا ہوں اصول دینے والا ، ہمارا دستور تو 1300 سال پہلے بن گیا تھا۔ پاکستان کے خلاف جتنے بھی کام ہوئے ہیں وہ فوجی دور حکومت میں ہوئے ہیں ۔ مثال کے طور مشرقی پاکستان الگ ہوا ، پاکستانی دریاؤں کا پانی بیچا گیا ، سیاچن پر بھارت کا قبضہ ہوگیا ، ہمارے اڈے امریکہ کو دئیے گئے ۔ اسی طرح ہماری جتنی معاشی بدحالی ہے ، جتنی کرپشن ہے ، جتنی سیاسی بدحالی ہے،اس میں 65 فیصد حصہ فوج اور بیوروکریسی کا ہے ۔ سول حکومت بھی جب آتی ہے تو اس کا ریموٹ کنٹرول فوج کے پاس ہوتا ہے ۔ قائداعظم کی 11 اگست کی تقریر موجود ہے جس میں انہوں نے ہدایت دی تھی کہ اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی کا کام ہوگا کہ وہ سول حکومت کی بات مانے ، آپ عوام کے خادم ہیں ، حکمران نہیں ، لیکن جو خادم تھے، وہ حکمران بن گئے ۔ ہمارے حکمران بڑی آسانی سے کہہ دیتے ہیں کہ ہم قائد اعظم اور علامہ اقبال کا پاکستان بنانا چاہتے ہیں لیکن حقیقت میں نہ انہیں قائداعظم کے ویژن کا پتا ہے اور نہ علامہ اقبال کے ویژن کا علم ہے ۔ ہم کہتے ہیں اسلامی کا پاکستان بناؤ یا نہ بناؤ ، کم ازکم علامہ اقبال اور قائد اعظم کا پاکستان تو بنائو۔