…مرے دور کا مسلماں!
عامرہ احسان
شام میں 54 سال بعد آزادی کا سورج طلوع ہوا۔ دنیا بھر میں بکھرنے پر مجبور ہو جانے والے شامی!رنج و غم، آزمائشوں، در بدریوں، خاندانوں میں بچھڑنے کے ہزاروں، لاکھوں واقعات کی تلخیوں کے باوجود ان میں غیرمتوقع خوشی کا عجب عالم ہے۔’ گہرے دکھ کے احساس کے ساتھ خوشی منا رہے ہیں۔ یقین نہیں آتا، ایسا ممکن ہو چکا؟ یہ احساسات میرے دل کی گہرائی، میری روح، میری ہر سانس میں ہیں۔ پیرس میں مقیم ایک مہاجر نے کہا! شام کی فتح (8 دسمبر) نہ ہوتی اگر 7 اکتو بر نہ ہوا ہوتا۔ فلسطینیوں کی جاں گسل جدوجہد، سب جانتے بوجھتے اسرائیل کا چھتہ چھیڑ دیا! 75 سالوں کے صبر کا لاوہ جو پھٹا، نتائج و عواقب سے بے نیاز، طوفان الاقصیٰ۔ اس نے پوری دنیا زیر و زبر کردی۔ صہیونیت ، مغرب کا حقیقی کریہہ چہرہ کھل کر سامنے آگیا۔اسرائیل کو مسلسل قبرستان آبادکرنے کے لیے اسلحے کی فراہمی ڈھٹائی اور شرمناک اعتماد کے ساتھ امریکہ، یورپ نے کی۔
عورتوں، بچوں کے حقوق کے افغانستان پر راگ الاپنے والوں کی اصلیت غزہ اور اب شام میں دنیا نے دیکھ لی۔ ان کے لیے اب زندہ و بیدار باشعور انسانوں میں خوف اور رعب کی جگہ نفرت و بے زاری نے لے لی ہے۔ ضمیروں کے اس سڑاند بھرے پلندے نے دنیا کو متعفن کر دیا۔ ہولو کاسٹ مذاق بن گیا۔ (Anti-Semitism)، یہود دشمنی لطیفہ ٹھہرا۔ جس موضوع کو چھونا، لب کشائی بھی حرام تھی، ( کہ 60 لاکھ یہودی اس قتل عام میں مارے گئے، اس پر سوال مت اٹھاؤ!) 17 یورپی مغربی ممالک میں اس پر قانونی پابندی تھی۔ سزائیں تھیں۔ آج فلسطین میں سر کٹے بچے،جلے اجساد، قیدیوں پر لرزہ خیز مظالم، ہسپتال عملے، مریضوں، بچوںاور عورتوں سمیت بموں، ٹینکوں کی گولہ باری کی زد میں رہے۔ان اقلیتوں کے حقوق کے پاسداران نے خود عیسائی عبادت گاہوں، مساجد کو تاک کر نشانہ بنایا، بننے دیا ! ( اب شام میں پھر یہی اقلیتوں والا راگ الاپا جارہا ہے۔) اس سب کے باوجود شام میں آزادی کی تحریک، عزیمت، ثبات، بجلی کا کڑ کا بن کر اٹھی اور بشار الاسد کی سفاک، درندہ صفت حکومت کو بھسم کر گئی۔ نہ روس مدد کو آیا، نہ لبنان، ایران اور در پردہ خیرخواہانِ غرب و شرق۔ نہ آسمان رویا نہ زمین!
ظلم کو للکارنے والا کون تھا؟ انقلاب کی پہلی چنگاری درعہ میں 13 سالہ حمزہ الخطیب کی صورت پھوٹی (2011 ء) اور آج فلسطینی انقلاب کی کوکھ سے شامی انقلاب نے جنم لیا، جس کی پیدائش پر دنیا بھر کے مسلمان شاداں و فرحاں مٹھائیاں کھا ،کھلا رہے ہیں! حمزہ نے کچھ نو عمر لڑکوں کے ساتھ مل کر ظالم قصاب اسدی حکومت کے خلاف سکول کی دیوار پر نعرے لکھے اور مظاہرہ کیا۔ پس منظر میں ایسی ہی مبنی بر ظلم واستحصال مشرقِ وسطیٰ و المغرب کی حکومتوں کے خلاف اُٹھنے والی عرب بہار تھی۔ مسلم دنیا کے نوجوانوں کی تحریک، آزادی، جینے کی،اظہارکی،عدل وانصاف کی طلب میں تیونسی ریڑھی بان کی ریڑھی الٹنے سے چلی تھی۔
شامی حمزہ کو گرفتار کیا گیا۔ 13 سالہ شیر زبردست باغی تھا ہر طاغی کا! اُسے کہا گیا کہ وہ بشار الاسد کی تصویر کے آگے سجدہ کرے اور کہے کہ وہ اس کے سوا کسی خدا کو نہیں جانتا۔ عینی شاہدوں کا کہنا ہے کہ اُس نے قہقہہ لگایا اور اُسی لمحے اُس تصویر پر پیشاب کر دیا۔ اس پر نصیری افسران غصے سے پاگل ہو گئے۔ اسے ناقابل بیان طریقوں سے ٹارچر کر کے شہید کر دیا۔ حمزہ شامیوں کا اصل محسن ہے۔ آزادی کا ہیرو! بس پھر کیا تھا۔ فار التنور...! لوگوں کا سونامی پھٹ پھوٹ پڑا۔ مظاہرے، غم و غصے کا بے پناہ طوفان بن کر شہر شہر اُٹھے۔ 5 لاکھ شامی شہید ہوئے۔ ظلم کا ہر حربہ بشمول سنگین جنگی جرائم (کیمیائی ہتھیار) شامی آبادی پرآزمائے گئے۔ بمباریوں نے کھنڈر بنا دیئے۔ آبادی پوری دنیا میں بکھر گئی۔ آزادی کے پروانے نہ دبے نہ ر کے۔ دو لاکھ شامی جبری لاپتہ ہوئے۔ دمشق کی ہولناک ترین جیل ٹھونس دی گئی۔ ناقابل یقین مظالم کا ریکارڈ توڑ مرکز بنی۔ پہلے بھی باپ حافظ الاسد نے 1982 ء میں حماۃ کی مزاحمتی تحریک میں پورے خاندان غائب کر دیئے تھے۔ اب وہ قیدی بھی چھوٹے ہیں عبوری حکومت کے جیلیں توڑنے کھولنے پر! قیدی نکل کر پوچھتے ہیں، کیا حافظ الاسد کی حکومت ختم ہو گئی؟ ’چھٹے اسیر تو بدلا ہوا زمانہ تھا‘۔ بشار الاسد کے دور کے قیدیوں میں گرفتار ماؤں کے وہ بچے جو جیلوں میں پیدا ہوئے حیران پریشان ہیں باہر نکل کر۔ سورج، درخت، سڑکیں، آبادیاں 7،8سال کے بچوں نے بھی پہلی دفعہ دیکھے ہیں۔ پوچھتے ہیں یہ سب کیا ہے؟ دمشق کی صیدنیا جیل، مغرب، امریکہ، فرانس، گلوبل غنڈہ گرد سبھی چودھریوں کے لیے ایک بھاری تازیانہ ہے۔ اس جیل کی ہولناک تفاصیل مسلسل چھپ رہی ہیں۔ مگر امریکہ تو خود ابو غریب، بگرام، گوانتا نامو، ڈاکٹر عافیہ کا مجرم ہے۔
فرانس نےالجزائر کی جنگ آزادی کے شیر مجاہدین کے سرکاٹ کر پچھلی صدی سے اپنے سیاحتی مرکز میوزیم میں فخریہ رکھے ہوئے تھے نمائش کے لیے! یہ اسلام تو نہیں ہے جو بدترین دشمن کی لاش کے مثلے کی بھی اجازت نہیں دیتا۔آدابِ جنگ شریعت نے سکھائے ہیں۔ جہاں میدانِ جنگ میں اُترنے سے پہلے ہر مجاہد فقہ الجہاد، آدابِ جہاد و تہذیب ِ جنگ و جنگی قیدی پڑھتا ہے۔ جس دین کے نبیﷺ پر قیدیوں کی بندشوں کے سخت ہونے پر ان قیدیوں کی کراہیں دل پر تازیانہ بن کر پڑ رہی تھیں، حکم دیا جاتا ہے کہ بندشیں ڈھیلی کر دو ! ہم تو ٹھہرے دہشت گرد۔ اب وہ اسرائیل، جسے( 120 ممالک کی رکنیت پر مبنی) عالمی عدالتِ انصاف،غزہ کی قیامتوں اور قتل عام پر جنگی مجرم ٹھہرا چکی، کہاں ہے؟
غزہ اجاڑ کر امنِ عالم کا بے تاج بادشاہ اسرائیل اب شام پر حملہ آور ہے۔ اب تک 800 حملے کر چکا ہے ۔ 15 دسمبر کی رپورٹ میں 12 گھنٹوں میں 60 حملے کیے۔ دمشق سے کچھ ہی دور گولہ بارود، اسلحے کے ڈپو اور شامی فضائی دفاعی نظام پر بھاری بمباری ہو ئی تا کہ شامی فضاؤں میں اسرائیل بلا روک ٹوک پروازیں کرتا پھرے ۔مگر اسرائیل دہشت گرد نہیں ہے! یہ یاد دلانا یوں ضروری ہے کہ حالات کا جبر یہ ہے کہ امریکہ کے لیے یہ حیران کن فتح نہ اُگلے بن پڑتی ہے نہ نگلے۔
شام مسلمانوں اور صہیونیوں کی بیک وقت دکھتی رگ ہے۔ تاریخی اعتبار سے، ماضی، حال، مستقبل کے اعتبار سے۔ ماضی میں یہ رومن ایمپائر تھی، قیصرِ روم والی ۔ شام گویا امریکہ تھا۔ نبی ﷺکی آخری فتح غزوہ تبوک کی تھی ۔ آپﷺ رو می سرحد تک(رومیوں کی جنگی تیاری کی اطلاعات پر) لشکر لے کر گئے۔ قیصرِ روم 2لاکھ سے زائد فوج اور مسلح ترین ہونے کے با وجو دڈرکر مقابلے پر نہ آیا۔ مدینہ کی ریاستی سرحدیں یہاں تک آن پہنچیں۔ لشکر ِاسامہؓ کی تیاری آپﷺ کے وصال سے عین پہلے نبیﷺ کروا چکے تھے، جسے سیدنا ابو بکر صدیقؓ نے خلافت سنبھالتے ہی روانہ کر دیا رومی سرحد کی طرف۔ وہ بامراد لوٹے اور مکمل فتح سید نا عمر ؓ کے دور میں ابو عبیدہ بن جراح اور خالد بن ولید رضوان اللہ علیہماکے ہاتھوں ہوئی۔ شام فاروقی خلافت کا نگینہ تھا۔ خلافت عثمانیہ تک بلاد الشام، شام، لبنان، اردن اور فلسطین (غاصب اسرائیل) پر محیط تھا۔ صلیبی جنگوں اورقدس پر قبضے کے لیے یورپی لشکروں کی یلغار کا ہدف۔بلادِ شام ہی سے معراج عطا ہوئی۔ آخری دور کی جنگیں جن میں سید نا مہدی، سید نا عیسیٰ ؑ کا نزول اور دجال کا ظہور بھی شامل ہیں سب بلادِ شام میں ہی وقوع پذیر ہوں گے۔ عربی میں ملحمۃ الکبریٰ (بہت بڑی بھاری جنگ) اورانگریزی میں آرمیگڈون (جس کا حوالہ جارج بش 2001ء، 2003 ء میں افغانستان، عراق جنگوں میں بکثرت دیتا رہا پادری بن کر!) کا مرکز بھی شام ہے۔ علامات بتاتی ہیں کہ یہ سب تیاریاں اسی رخ پر ہیں۔ نہ صرف جنگی مجرم نیتن یا ہو کھلا پھر رہا ہے بلکہ امریکہ کی بھر پور تائید سے شام کی بحری، فضائی، زمینی دفاعی فوجی طاقت مکمل تباہ کرنے میں اسرائیل کو اسلحہ، ڈالر، سیاسی سفارتی مددسب فراہم کر رہا ہے۔
عرب لیگ کے وزرائے خارجہ کی میٹنگ اور انہی ممالک کے ساتھ فرانس، جرمنی، برطانیہ، امریکہ اور یورپی یونین کے نمائندے بھی دوسرے اجلاس منعقدہ عقبہ (اردن) میں موجود تھے۔ عبوری حکومت قبول کیے بغیر چارہ نہیں۔ اسرائیل کے شامی علاقوں کے غیر قانونی قبضے پر مسلمان اُف نہیں کر سکتا اور مغرب اس کی کار کردگی عین برحق قرار دیتا ہے۔ تاہم بلنکن امریکی وزیر خارجہ، شام یا عبوری حکومت کے لیے ہر تائیدی (ہچکیاں لگے اٹکتے) جملے پر یہ کہنا لازم سمجھتا ہے کہ ’HTS ہیۃ تحریر الشام کا سربراہ جولانی دہشت گرد ہے ‘!جولانی کی ادلب تا دمشق کی برق رفتار فتح میں صرف ہزار کے لگ بھگ جانی اتلاف ہوا مگر وہ دہشت گرد ہے۔ اسی لیے ہم یاد دلاتے رہتے ہیں دنیا کو کہ اسرائیل امن کی فاختہ ہے۔ آئندہ جھنڈوں پر فاختہ یا زیتون کی شاخ کی جگہ نیتن یاہو کی تصویر مغربی ممالک لگالیں تاکہ دنیا امن کا معنی لغت میں درست کر سکے۔ (انبیاء کی سرزمین اور قرآن میں انجیرو زیتون کی علامت والا تذکرہ ہے، اس لیے زیتوں کی بے حرمتی ہم نہیں کر سکتے! )صورت اگر چہ کر گس (گدھ) کی ہے مگر امریکہ اسرائیل امن کے پیامبر ہیں تو فاختہ ہی سہی! قرب ِقیامت کی اور کس کس علامت کے آپ منتظر ہیں؟
کبھی مرے دور کا مسلماں
حقیقت اپنی سمجھ سکے گا؟