(دعوت و تحریک) دعوتِ دین اور اس کے لوازمات - سجاد سرور، معاون شعبہ تعلیم و تربیت

11 /

دعوتِ دین اور اس کے لوازمات

سجاد سرورمعاون شعبہ تعلیم و تربیت

یہ دنیا اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ایک عظیم شاہکار ہے، اور انسان کو اس میں ایک خاص مقصد کے تحت بھیجا گیا ہے۔ قرآن مجید میں بھی یہی فرمایا گیا ہے کہ انسان کی تخلیق بے مقصد نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کی معرفت کے لیے ہے:
{وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ (56)} (الذاریات (’’ اور نہیں پیدا کیا میں نے جن و انس کو مگر اپنی عبادت کے لیے۔‘‘
یعنی انسان کی زندگی ایک امتحان اور مقصدیت پر مبنی ہے، جہاں اسے اپنی قابلیت کے مطابق اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کو صحیح راستے پر استعمال کرتے ہوئے اپنی آخرت کے لیے تیاری کرنی  ہے۔ 
جس طرح خود اللہ تعالیٰ کی عبادت فرض ہے اسی طرح دعوتِ دین اسلام کی بنیادی ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ داری ہے جو ہر مسلمان پر اس کی استطاعت کے مطابق فرض ہے۔ اس کا مقصد لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی توحید، اس کے رسول ﷺ کی اطاعت  اور اسلام کی حقانیت کی طرف بلانا ہے تاکہ اُخروی نجات حاصل ہو سکے۔ دعوت دین ایک عظیم فریضہ ہے، جسے خود نبی کریم ﷺ نے انتہائی حکمت، محنت ، محبت اور صبر کے ساتھ انجام دیا۔
دعوت ِ دین دراصل دعوت ِ حق ہے یہ’’لا الٰہ الااللہ‘‘ کی دعوت ہے۔ دعوت ِ دین ایک سعادت ِ ابدی ہے۔ فوزوفلاحِ دائمی ہے اور دین و دنیا کی مکمل کامیابی ہے۔ اسلام نے تمام اُمتِ مسلمہ کو داعیٔ حق بنا کر اُٹھایا ہے اور ارشاد فرمایا :
’’ تم وہ بہترین امت ہو جسے لوگوں کے لیے برپا کیا گیا ہے) تم حکم کرتے ہو نیکی کا اور تم روکتے ہو بدی سے اور تم ایمان رکھتے ہو اللہ پر اور اگر اہلِ کتاب بھی ایمان لے آتے تو یہ ان کے حق میں بہتر تھا۔ان میں سے کچھ تو ایمان والے ہیں لیکن ان کی اکثریت نافرمانوں پر مشتمل ہے۔‘‘(آل عمران:110)
اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں مفتی شفیع  ؒ اپنی تفسیر معارف القرآن میں لکھتے ہیں۔ 
اس آیت میں اُمتِ محمدیہ کے خیر الامم ہونے کی وجہ بیان فرمائی ہے ،کہ یہ خلق اللہ کو نفع پہنچانے ہی کے لیے وجود میں آئی ہے، اور اس کا سب سے بڑا نفع یہ ہے کہ خلق اللہ کی روحانی اور اخلاقی اصلاح کی فکر اس کا منصبی فریضہ ہے۔
 ؔوہ ادائے دلبری ہو کہ نوائے عاشقانہ
جو دلوں کو فتح کر لے وہی فاتح زمانہ
بانیٔ تنظیم ڈاکٹر اسرار احمدؒ بیان القرآن میں اس آیت کی تشریح میں بیان فرماتے ہیں۔ 
یہاں اُمت مسلمہ کی غرضِ تأسیس بیان کی جا رہی ہے۔ یعنی یہ پوری اُمت مسلمہ اس مقصد کے لیے بنائی گئی تھی ۔ لیکن بدقسمتی سے آج اُمت مسلمہ اپنا مقصد ِحیات بھول چکی ہے۔ اس صورت حال میں ضروری ہے کہ امت میں سے جو لوگ جاگ جائیں وہ دوسروں کو جگا کر’’اُمت کے اندر ایک اُمت‘‘ (Ummah within Ummah)  بنانے اور مذکورہ بالا تین کام سرانجام دینے کی کوشش کریں۔ فرمایا: ’’تم بہترین اُمت ہو جسے لوگوں کے لیے نکالا گیا ہے‘‘۔ دنیا کی دیگر قومیں اپنے لیے زندہ رہتی ہیں۔ ان کے پیش نظر اپنی ترقی‘ اپنی بہتری‘ اپنی بہبوداور دنیا میں اپنی عزت و عظمت ہوتی ہے‘ لیکن تم وہ بہترین اُمت ہو جسے لوگوں کی راہنمائی کے لیے مبعوث کیا گیا ہے : ؎
ہم تو جیتے ہیں کہ دنیا میں ترا نام رہے
کہیں ممکن ہے کہ ساقی نہ رہے جام رہے!
گویا ایک مسلمان کی زندگی کا مقصد زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ہدایت کی طرف بلانے اور جہنم کی آگ سے بچانے کی‘کوشش کرنا ہے ۔غرض دعوتِ دین اس اُمت   کا ایک فرضِ منصبی ہے جس کی تکمیل کے لیے ایسے افرادِ کار   کی تیاری ضروری ہے جو علم کے حامل ، عمل میں پختہ اور سیرت و کردار میں قابلِ تقلید نمونہ ہوں۔
دعوتِ دین کے لوازمات
دعوتِ دین کی کامیابی کے لیے چند اہم لوازمات درج ذیل ہیں:
1۔ اخلاصِ نیت
دعوت دینے والے کی نیت اللہ کی رضا اور دین کی اشاعت ہونی چاہیے، نہ کہ ذاتی مفادات یا شہرت۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا:{وَادْعُ اِلٰی رَبِّکَ ط اِنَّکَ لَعَلٰی ہُدًی مُّسْتَقِیْمٍ(67)} (الحج)’’ اور آپ ﷺ اپنے رب کی طرف بلاتے رہیے۔ یقیناً آپ ﷺ ہدایت کے سیدھے راستے پر ہیں۔‘‘ یعنی دعوت کا مقصد ہدایت کی طرف بلانا اور خیر پھیلانا ہو۔
2۔علم ِدین
دعوت دینے والے کو دین کے بنیادی احکامات اور اسلامی تعلیمات کا صحیح علم ہونا ضروری ہے۔ بغیر علم کے دعوت دینا نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’میری طرف سے لوگوں کو پہنچا دو اگرچہ ایک آیت ہی ہو۔‘‘(بخاری)
3۔ حکمت اور بصیرت 
دعوت کے دوران حکمت اور بصیرت کا ہونا انتہائی ضروری ہے۔ ہر فرد کو موقع کی مناسبت سے اور معاشرتی حالات کے مطابق بات کرنی چاہیے۔ سختی یا نرمی کا انتخاب حالات کے مطابق ہو۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{قُلْ ہٰذِہٖ سَبِیْلِیْٓ اَدْعُوْٓا اِلَی اللہِ قف عَلٰی بَصِیْرَۃٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِیْ ط}(یوسف:108) ’’(اے نبی !) آپ کہہ دیجیے کہ یہ میرا راستہ ہے میں اللہ کی طرف بلا رہا ہوں پوری بصیرت کے ساتھ میں بھی اور وہ لوگ بھی جنہوں نے میری پیروی کی ہے۔‘‘
4۔صبر اور استقامت
دعوتِ دین کا راستہ مشکلات سے بھرا ہو سکتا ہے، جیسا کہ انبیاء کرامf نے بھی صبر کے ساتھ مصائب اور تکالیف کو برداشت کیا۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو حکم دیا:
 {فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ} (الاحقاف:35) ’’تو (اے محمد ﷺ !) آپ بھی صبر کیجیے جیسے اولوالعزم رسول ؑ صبر کرتے رہے ہیں۔‘‘
دعوت دینے والے کو ناامید نہیں ہونا چاہیے۔
5۔محبت اور اخلاق
دعوت کا سب سے مؤثر ذریعہ محبت اور حسن اخلاق ہے۔ نبی کریم ﷺ نے اخلاق سے لوگوں کو اپنی طرف مائل کیا۔ قرآن میں فرمایا گیا:{فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللہِ لِنْتَ لَـہُمْ ج}(آل عمران:159)’’(اے نبی (ﷺ) یہ تو اللہ کی رحمت ہے کہ آپؐ ان کے حق میں بہت      نرم ہیں۔‘‘
6 ۔عملی نمونہ
دعوت دینے والے کو خود اپنے عمل سے اسلام کی تعلیمات کا نمونہ پیش کرنا چاہیے۔ قول اور فعل میں تضاد دعوت کو بے اثر کر دیتا ہے۔ نبی کریم ﷺ کی زندگی دعوت کا بہترین عملی نمونہ ہے۔ارشادِ بادی تعالیٰ ہے: 
{وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَآ اِلَی اللہِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَّقَالَ اِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَg}(  حٰم السجدۃ)    ’’اور اس شخص سے بہتر بات اور کس کی ہوگی جو بلائے اللہ کی طرف اور وہ نیک عمل کرے اور کہے کہ میں مسلمانوں میں سے ہوں۔‘‘
7۔مخاطبین کی حالت اور ضروریات کا ادراک
دعوت دیتے وقت مخاطب کے مزاج، علم اور حالت کو سمجھنا ضروری ہے۔ سب کے لیے ایک ہی انداز مناسب نہیں ہوتا۔
8۔دعا اور توکل
دعوت دینے کے بعد اس کے اثرات اللہ کے حوالے کر دینا اور دعا کے ذریعے ہدایت کی طلب کرنا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{اِنَّکَ لَا تَہْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰکِنَّ اللہَ یَہْدِیْ مَنْ یَّشَآئُ ج}(القصص: 56) ’’(اے نبی ﷺ !) آپ ہدایت نہیں دے سکتے جس کو آپ چاہیں بلکہ اللہ ہدایت دیتا ہے۔‘‘
دعوتِ دین کی عدم تاثیر کے اسباب 
  دعوت ِ دین کا نتیجہ نہ نکلنے کے بہت سے اسباب ہو سکتے ہیں مولانا ڈاکٹر ساجد الرحمن صدیقی صاحب ان اسباب کے سلسلے میں اپنی کتاب ’’ دعوت ِ دین کے قرآنی اصول ‘‘میں رقم طراز ہیں : 
’’اس دور میں دعوت و اصلاح کا کام پوری طرح مؤثر نہ ہونے کے دو اسباب ہیں ایک تو یہ کہ فسادِ زمانہ اور حرام چیزوں کی کثرت کے سبب عام طور پر لوگوں کے قلوب سخت اور آخرت سے غافل ہو گئے ہیں۔ قبول   حق کی توفیق کم ہو گئی ہے اور بعض تو اس قہر میں مبتلا ہیں جس کی خبر رسول اللہ ﷺ نے دی تھی کہ آخر زمانے میں بہت سے لوگوں کے قلوب اندھے ہوجائیں گے اور بھلے بُرے کی پہچان اورجائز اور ناجائز کا امتیاز ان کے دل سے اُٹھ جائےگا۔
اور دوسرا سبب یہی کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور دعوتِ حق کے فرائض سے غفلت عام ہو گئی ہے۔عوام کا تو کیا ذکر ، خواص علماءو صلحاء میں بھی اس ضرورت کا احساس بہت کم ہو گیا ہے۔ یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ اپنے اعمال درست کر لیے جائیں تو یہ کافی ہے ،خواہ اُن کی اولاد ، بیوی ، بھائی ، دوست ،احباب کیسے ہی گناہوں میں مبتلا رہیں۔ ان کی اصلاح کی فکر گویا ان کے ذمے ہی نہیں ۔ حالانکہ قرآن و حدیث کی نصوصِ صریحہ ہر شخص کے ذمہ اپنے   اہل و عیال اور متعلقین کی اصلاح کو فرض قرار دے رہی ہیں ۔
 ’’ اےایمان والو!اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کواس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں ،اس پر سختی کرنے والے، طاقتور فرشتے مقرر ہیں جو اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کرتے ہیں جو انہیں حکم دیا جاتا ہے۔‘‘(التحریم:6)
اور پھر اگر کچھ لوگ دعوت و اصلاح کے فریضے کی طرف توجہ بھی دیتے ہیں تو وہ قرآنی تعلیمات اور دعوت ِ پیغمبرانہ کے اُصول و آداب سے نا آشنا ہیں ،بے سوچے سمجھے جس کو جس وقت ،جو چاہا کہہ ڈالا اور یہ سمجھ بیٹھے کہ ہم نے اپنا فرض ادا کردیا ہے حالانکہ یہ طرز ِ عمل سنتِ انبیاء کے خلاف ہونے کی وجہ سے لوگوں کو دین اور احکام ِ دین پر عمل کرنے سے زیادہ دور پھینک دیتاہے۔ 
خصوصا ً جہاں کسی دوسرے پر تنقید کی نوبت آئے تو تنقید کا نام لے کر تنقیص اور استہزاء و تمسخر تک پہنچ جاتے ہیں۔ حضرت امام شافعی ؒ نے فرمایاـ:
’’جس شخص کو کسی غلطی پر متنبہ کرنا ہے، اگر تم نے اس کو تنہائی میں نرمی کے ساتھ سمجھا یا تو یہ نصیحت ہے اور اگر اعلانیہ لوگوں کے سامنے اُس کو رسوا کیا تو یہ فضیحت ہے۔ ‘‘
خلاصہ
دعوتِ دین ایک عبادت ہے جو اخلاص، علم، حکمت، اور صبر کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی۔ یہ کام صرف زبان تک محدودنہیں بلکہ عمل اور اخلاق کے ذریعے بھی ہوتا ہے۔ دعوتِ دین کو موثر بنانے کے لیے انسان کو اپنی ذات کو بھی بہتر بنانا ہوگا تاکہ اس کا پیغام لوگوں کے دلوں پر اثر کرے۔
 

 

Title

Text