(دعوت غوروفکر) دیکھنا قافلہ چھوٹ نہ جائے - نعیم اختر عدنان

11 /

دیکھنا قافلہ چھوٹ نہ جائےنعیم اختر عدنانتنظیم اسلامی کے سالانہ اجتماع2024ء میں شرکت کے بعد کچھ تاثرات

تنظیم اسلامی پاکستان نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کی منفرد اسلامی و دینی تحریک ہے جس کے بانی امیر کا اعزازبین الاقوامی سطح پر تعارف اور پہچان رکھنے والی شخصیت ڈاکٹر اسرار احمدm کو حاصل ہوا ۔ درج ذیل مختصر و جامع عبارت پر مشتمل سلوگن کے ذریعے تنظیم اسلامی کی ساخت اور نوعیت سامنے آ جاتی ہے :’’تنظیم اسلامی مروجہ مفہوم کے اعتبار سے نہ کوئی سیاسی جماعت ہے نہ مذہبی فرقہ ، بلکہ ایک اصولی،اسلامی، انقلابی جماعت ہے جو اولاً پاکستان میں اور بالآخر ساری دنیا میں دین حق یعنی اسلام کو غالب کرنے یا دوسرے لفظوں میں نظام خلافت کو قائم کرنے کے لیے کوشاں ہے۔‘‘ بقول اقبال؎
تاخلافت کی بنا دنیا میں ہو پھر استوار
لاکہیں سے ڈھونڈ کر اسلاف کا قلب و جگر!
  آ ج کی دنیا میں نظام خلافت اور اس کے قیام کی بات کرنا ، بقول اکبر الہ آبادی ؎
رقیبوں نےرپٹ لکھوائی جا جا کے تھانے میں 
کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں 
کے مصداق ہے۔ دین حق کو غالب کرنےاورنظام خلافت کے قیام کی جدو جہد کے عزم بالجزم کا محض زبانی اظہار ہی نہ ہو بلکہ اس عظیم مقصد کے حصول کے لیے انقلابی مراحل   کی حامل جدو جہد بھی مقصودو مطلوب ہو تو یہ درحقیقت جہاد  کا علم بلند کرنے ہی کے مترداف ہے ۔بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمدm نے اپنی زندگی اسی مشن کے لیے وقف کئے رکھی۔اس عظیم مقصد کے حصول کے ابتدائی قدم کے طور پر اعوان و انصار اکٹھے کئے،بقول شاعر’’ میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل ، لوگ ساتھ آتے گئے کارواں بنتا گیا۔‘‘اس انقلابی جماعت سے وابستگان کو قرآنی فکر کا حامل انقلابی نظریہ دے کر بیعت سمع وطاعت کی کڑی سے منسلک کرکے،ان انقلابی کارکنان کی فکری و نظری اور عملی تربیت کے مراحل طے کئے، مگر دنیا کے مشکل ترین کام کو سر انجام دیتے ہوئے بھی ڈاکٹر صاحبؒ فرماتے تھے : ’’میں ایک اسلامی اصولی، انقلابی جماعت بنانے کی کوشش کررہا ہوں ‘‘ بقول مولانا حسرت موہانی’’جان دی دی ہوئی اسی کی تھی ، حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا ‘‘ اپنے خون جگر اور شبانہ روز وشب کی جانگسل محنت اور جدو جہد کے ما حاصل کے بارے میں یہ بھی فرماتے تھے؎
نو امید نہ ہو ان سے اے رہبر فرزانہ 
کم کوش تو ہیں لیکن بے ذوق نہیں راہی
  ڈاکٹر اسرار احمد ؒ نے اپنی زندگی ہی میں بہت سی تحریکی اور تنظیمی ذمہ داریاں حق بحقدار رسید کے مصداق دوسری نسل کے سپرد کردیں ،جن میں سے ایک تنظیم اسلامی کی امارت بھی تھی۔تنظیم اسلامی میں تمام سطحوں پر طویل مشاورت اور  غور وخوض کے نتیجہ میں محترم حافظ عاکف سعیدs کو امارت تنظیم کی ذمہ داری تفویض کردی۔محترم حافظ عاکف صاحب کو ڈاکٹر اسرار احمد ؒ کے فرزند ارجمند ہونے کا شرف و سعادت بھی حاصل ہے ۔ آ پ کی قیادت و امارت میں تنظیم اسلامی نے اپنے انقلابی فکر ، طے شدہ طریقہ کار کے مطابق   تنظیمی و تحریکی اہداف کے حصول کے لیے پیش قدمی جاری رکھی ۔ تنظیم اسلامی کا قافلہ مسلسل اپنے ہدف اور منزل کی جانب محو سفر رہا ، اس عرصہ میں بہت سے نشیب و فراز بھی آئے ،مگر یہ قافلہ مسلسل محو سفر رہا اس دور میں اگرچہ ؎
تیز ترک گامزن ،منزل ما دور نیست
 کا نعرہ تو سنائی نہیں دیا مگر یہ پُرسوز آواز ضرور کانوں کی سماعتوں سے مسلسل ٹکراتی رہی؎
ملت کے ساتھ رابطہ استوار رکھ 
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ
ایک مسلمان دیگر عقائد اور ایمانیات کے ساتھ ساتھ تقدیر پر بھی ایمان رکھتا ہے ،چنانچہ قدرت کاملہ کی کیا حکمت کار فرما تھی کہ محترم و مکرم جناب حافظ عاکف سعید مختلف جسمانی عوارض میں مبتلا ہوگئے اور یوں انہوں نے تنظیم کی امارت سے خود کو سبک دوش کرنے کا فیصلہ کرلیا اور تنظیم اسلامی کی مرکزی مجلس مشاورت کو تنظیم اسلامی کے نئے امیر کے  لیے رائے لینے کا فیصلہ کیا گیا۔اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور اس کی خصوصی عطا سے جناب شجاع الدین شیخ کا اسم گرامی تنظیم کی امارت کے لیے تجویز ہوا اور جناب حافظ عاکف سعید نے مرکزی مجلس مشاورت کی آراء سے اتفاق کرتے ہوئے اُنہیں تنظیم اسلامی کا امیر مقرر کر دیا۔تنظیم اسلامی کے تیسرے اور موجودہ امیر جناب شجاع الدین شیخ کے لیے شاعر کے یہ الفاظ مستعار لیے جاسکتے ہیں؎
بار امانت نہ تو انست کشید
قرعہ فال بنام من دیوانہ زدند
 تنظیم اسلامی پاکستان میں امارت کے منصب میں تبدیلی ہوا کے ایک خوشگوار جھونکے کی آمد کی حامل قرار پائی ۔ محترم و مکرم شجاع الدین شیخ s نے روز اول ہی سے اپنی تنظیم کے کام اور مقصد کو اپنی ترجیح اوّل بنا کر تنظیم سے وابستہ  رفقاء و احباب کو اپنے قال و حال سے یہ پیغام دیا کہ ؎
اک ولولہ تازہ دیا میں نے دلوں کو
کے مصداق تمام سطحوں اور جملہ پہلوؤں پر؎
نگہ بلند ،سخن دلنواز ،جان پُرسوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے
کے انداز میں اپنی منفرد پہچان اور شناخت کے ساتھ نہ صرف خود اللہ کے کلمہ کو سر بلند کرنے کی جدو جہد میں اپنی متاع زیست لگا اور کھپا رہے ہیں بلکہ اپنے ساتھیوں کو بھی اسی راہ عزیمت کا راستہ اختیار کرنے کی ترغیب بھی دیتے رہتے ہیں ۔تنظیم اسلامی کے کل پاکستان رفقاء کے لیے سالانہ اجتماعات اپنی نوعیت کے اعتبار سے اپنی مثال آ پ ہیں ۔بہاولپور شہر کے قریب نیم جان دریائے ستلج کے کنارے صحرا میں تنظیم اسلامی کے سالانہ اجتماع کا انعقاد ، تنظیمی استحکام کے ساتھ ساتھ توسیع و تحریک کا زور دار پیغام دے کر اس طرح اختتام پذیر ہوا کہ یہ صدا سنائی دے رہی ہے کہ ’’دیکھنا قافلہ چھوٹ نہ جائے ‘‘ اللہ تبارک وتعالیٰ غلبہ دین ، اسلام کی سربلندی اور خلافت کے عادلانہ نظام کے قیام کی جدو جہد کرنے والے اس قافلہ کو رواں دواں رکھے اور منزل مقصود تک پہنچائے۔ آمین! میر تقی میر کے الفاظ میں رفقاء تنظیم اسلامی کو یہ توفیق عطا فرمائے کہ؎
معرکہ گرم تو ٹک ہونے دو خونریزی کا
پہلے شمشیر کے نیچے ہمیں جا بیٹھیں گے 
تنظیم اسلامی پاکستان کے عالی قدر اور خوش نصیب و خوش خصال امیر اور سالار قافلہ جناب شجاع الدین شیخ کی خدمت میں خواجہ حیدر علی آ تش کی نظم کے یہ اشعار پیش خدمت ہیں:
ہوائے دور مے خوشگوار راہ میں ہے
خزاں چمن سے ہے جاتی بہار راہ میں ہے
گدا نواز کوئی شہسوار راہ میں ہے
بلند آ ج نہایت غبار راہ میں ہے
عدم کے کوچ کی لازم ہے فکر ہستی میں
نہ کوئی شہر ،نہ کوئی دیار راہ میں ہے
نہ بدرقہ ہے ،نہ کوئی رفیق ساتھ اپنے
فقط عنایت پروردگار راہ میں ہے
سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے
ہزار ہا شجر سایہ دار راہ میں ہے
مقام تک بھی ہم اپنے پہنچ ہی جائیں گے
خدا تو دوست ہے ،دشمن ہزار راہ میں ہے
تھکے جو پاؤں تو چل سر کے بل نہ ٹھہر آ تش ؔ
گل مراد ہے منزل میں ،خار راہ میں ہے