(حالاتِ حاضرہ) تندرستی ہزار نعمت ہے - سجاد سرور، معاون شعبہ تعلیم و تربیت

12 /

تندرستی ہزار نعمت ہے


سجاد سرور(معاون مرکزی شعبہ تعلیم و تربیت)

 
’’تندرستی ہزار نعمت ہے‘‘ ایک مشہور اور حقیقت پر مبنی کہاوت ہے جو انسانی زندگی میں صحت کی اہمیت کو نمایاں کرتی ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ صحت مند جسم اور دماغ خدا کی طرف سے سب سے بڑی نعمتوں میں سے ہیں اور ان کی قدر تب ہی سمجھ میں آتی ہے جب انسان ان سے محروم ہو جائے۔
حضرت عبداللہ بن عباسi کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ”دو نعمتیں ایسی ہیں جن میں اکثر لوگ اپنا نقصان کرتے ہیں۔ یعنی ان کی قدر نہیں کرتے ایک تندرستی اور دوسری فراغت ۔‘‘(صحیح بخاری ) بلکہ یوں ہی انہیں ضائع کر دیتے ہیں۔ایک اور روایت جو اس سے زیادہ واضح ہے اور جس میں مزید کچھ نعمتوں کااضافہ ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباسi سے روایت ہے، بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’پانچ (چیزوں) کو پانچ( چیزوں ) سے پہلے غنیمت جانو ، جوانی کو بڑھاپے سےپہلے، اور صحت کو بیماری سے پہلے اور اپنی خوشحالی کو اپنی تنگدستی سے پہلے ، اور فراغت کومشغولیت سے پہلے اور زندگی کو موت سے پہلے ۔‘‘
صحت کا خیال رکھنا نہ صرف ہمارے جسم کا حق ہے بلکہ ہمارے دین کا تقاضا بھی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ’’ طاقتور مؤمن کمزور مؤمن سے بہتر اور اللہ تعالیٰ کو زیادہ محبوب ہے، لیکن دونوں میں خیر موجود ہے۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے نصیحت کی کہ جو چیز تمہارے لیے نفع بخش ہو، اُس پر توجہ دو، اللہ سے مدد مانگو، اور عاجز نہ بنو۔‘‘ (صحیح مسلم)
یہ حدیث مؤمن کی جسمانی، روحانی اور اخلاقی قوت کی اہمیت کو واضح کرتی ہے۔ لیکن آج ہم دیکھتے ہیں کہ ہم اپنی صحت کو خود اپنے ہاتھوں سے تباہ کرر ہے ہیں ۔ ہم نے کھانے پینے کو ہی زندگی کا مقصد بنا لیاہے۔ انواع و اقسام کے کھانے بنائے جاتے ہیں، دعوتیں کی جاتی ہیں۔ شام کے وقت سب کام دھندے بند ہو جاتے ہیں لیکن کھانے کے ہوٹل ، کیفے ، فاسٹ فوڈ سنٹر ،بیکریز رات گئے تک کھلے رہتے ہیں۔ایسے ایسے کھانے ایجاد کر لیے گئے ہیں  جو صحت کے لیے تو مضر ہیں ہی پیسے اور وقت کا بھی ضیاع  ہیں۔ اخباری اطلاع کے مطابق پاکستان میں غیر ملکی کافی چین شاپ کا افتتاح ہوا اور پہلے دن کی سیل کا عالمی ریکارڈ بنا۔ فاسٹ فوڈ اور ان جیسے کھانوں کی وجہ سے آج دنیا بھر میں شوگر ، بلڈ پریشر اورموٹاپے کا مرض عام ہے۔ پاکستان میں بھی شوگر کا مرض تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق، ملک میں تقریباً 3 کروڑ 30 لاکھ افراد ذیابیطس کا شکار ہیں۔ اِس تعداد کے ساتھ، پاکستان ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد کے لحاظ سے دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے۔ 
مزید برآں، انٹرنیشنل ذیابیطس فیڈریشن کے مطابق، 2021 ءمیں پاکستان میں اس بیماری نے چار لاکھ افراد کی جان لی۔ ملک میں مزید ایک کروڑ بالغ افراد میں اس مرض کی ابتدائی علامات پائی گئی ہیں، جبکہ 80 سے 90 لاکھ افراد کی تشخیص نہیں ہو پاتی، جس کی وجہ سے بروقت علاج میں تاخیر ہو جاتی ہے۔
ماہرین صحت کے مطابق، غیر صحت مند طرزِ زندگی، غیر متوازن غذا، اور جسمانی سرگرمیوں کی کمی ذیابیطس کی بڑھتی ہوئی شرح کی اہم وجوہات ہیں۔ اس کے علاوہ، ذہنی دباؤ اور ڈپریشن بھی ذیابیطس کے مریضوں میں عام ہیں، اور78 فیصد مریض ذہنی صحت کے مسائل کا شکار ہیں۔ 
اگر فوری طور پر مؤثر اقدامات نہ کیے گئے تو توقع ہے کہ 2045 ءتک ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد 6 کروڑ 20 لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔‘‘(روزنامہ دنیا 15 نومبر ، 2024ء)
اس لیے ضروری ہے کہ عوام میں آگاہی بڑھائی جائے، صحت مند طرزِ زندگی کو فروغ دیا جائے، اور ایسے کھانے اور چیزوں سے بچا جائے جو اِن موذی امراض کے پیدا ہونے یا ان کو بڑھانے کا ذریعہ ہیں اور جن کو یہ مرض لاحق ہو چکے ہیں وہ سُنتِ رسول ﷺ  کے مطابق خورد و نوش     کو یقینی بنائیں تاکہ صحت برقرار رہے ۔یہ تبھی ممکن ہے جب ہم ارادہ کرلیں کہ ہم نے زندگی سنت کے مطابق گزارنی ہے۔ نبی اکرم ﷺ کی زندگی کا ہر پہلو ہمیں سادگی، عاجزی، محبت، ہمدردی، اور شکر گزاری کی تعلیم دیتا ہے۔ آپ ﷺ کی خوراک اور طرزِ عمل آج بھی بہترین نمونہ ہیں، جنہیں اختیار کر کے ہم دنیا اور آخرت میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔
نبی کریم ﷺ کی خوراک اور طرزِ زندگی نہایت سادہ، متوازن اور روحانی برکتوں سے بھرپور تھی۔ آپ ﷺ نے ہمیشہ میانہ روی اور شکر گزاری کو اپنایا اور اپنی اُمت کو بھی اِسی کی تعلیم دی۔ آپ ﷺ کی غذا سادہ ہوتی تھی۔ عموماً کھجور، جو کی روٹی، پانی اور دودھ آپ کی خوراک کا حصّہ ہوتے تھے۔اکثر وقت کھانے کی مقدار کم ہوتی، لیکن آپ ﷺ ہمیشہ اللہ کا شکر ادا کرتے۔کبھی کبھار گوشت کھاتے، مگر زیادہ تر سبزیوں اور پھلوں پر گزارا کرتے۔ آپ ﷺ نے ہمیشہ بھوک سے پہلے کھانے کو روکا اور حد سے زیادہ کھانے سے منع فرمایا۔
بندہ مؤمن کا مقصد ِحیات اللہ کی رضا اور اس کی عبادت ہے۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ” اور میں نے نہیں پیدا کیا جنوں اور انسانوں کو مگر صرف اِس لیے کہ وہ میری بندگی کریں۔‘‘(سورۃ الذاریات: 56)
عبادت کا مطلب صرف نماز، روزہ یا ظاہری اعمال نہیں بلکہ ہر وہ عمل جو اللہ کی خوشنودی کے لیے کیا جائے،    وہ عبادت کے زمرے میں آتا ہے۔ اس میں اخلاق، معاملات اور دوسروں کے ساتھ حسنِ سلوک بھی شامل ہے۔
صحت مند جسم عبادت کے لیے قوت اور استقامت دیتا ہے۔ ایک بیمار یا کمزور شخص نہ تو اپنی عبادات دل جمعی سے کر سکتا ہے اور نہ ہی دین و دنیا کے دیگر معاملات میں بھرپور حصّہ لے سکتا ہے۔ اس لیے اسلام نے جسمانی صحت کا خاص خیال رکھنے کی تاکید کی ہے، مثلاً:صاف ستھری  اور حلال و طیب غذا کھانا ،ورزش کرنا یا جسم کو حرکت میں رکھنا،اعتدال میں رہنا (کھانے، سونے، اور دیگر معاملات میں)بیماریوں سے بچنے اور علاج کروانے کا اہتمام کرنا۔
روحانی صحت کا تعلق بھی عبادت اور اللہ کی قربت سے جڑا ہوا ہے۔ جب دل اللہ کے ذکر سے مطمئن ہوتا ہے تو جسمانی صحت پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ذکر اور دعا سے دل و دماغ پرسکون رہتے ہیں اور جسمانی صحت بھی بحال رہتی ہے۔
لہٰذا بندہ مؤمن کے لیے عبادت اور صحت دونوں ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں۔ یہ دونوں اللہ کی دی ہوئی امانتیں ہیں، جن کی حفاظت اور بہتر استعمال ہماری ذمہ داری ہے۔