……تیر ِعناد
عامرہ احسان
زندگی نہایت تیز رفتار ہو چکی ہے۔ لمحہ لمحہ بدلتے مناظر۔ دنیا سکڑ کر ایک ہتھیلی میں سما گئی۔ خبروں کی یلغار امڈی چلی آتی ہے۔ ایسے میں رمضان کی مبارک ساعتیں ہم مسلمانوں کے لیے تعمیرِ ذات، کردار سازی، حقیقی زندگی کے لیے بھر پور تیاری کے مواقع،رحمتیں، برکات لیے ہوئے ہیں۔ خود کفالت کا ایک نظام فرد فرد کے لیے۔ شعورِ ذات کو قرآن کی کامل و اکمل رہنمائی میں جلا بخشو۔ اپنی چوکیداری، تربیت، تزکیے، ضبط نفس کے نظام کو خود مضبوط کرو۔ اپنے محاسب خود بنو۔ اللہ نے جو نور پھونکا تھا روزِ ازل، سال بھر میں دھندلا گیا تھا، ان مبارک ساعتوں میں اسے روشن تر کر دو تاکہ اس مقام کو پا سکو کہ:’ مومن کی فراست سے ڈرو وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے!‘ عبادات نتیجہ خیز ہوں۔ نماز، تراویح،سجدہ ریزیاں، بدی اور فحش سے روکنے والی ہوں۔ روزہ، للہیت، خدا خوفی، ہدایت کا سامان بنے۔ قریب و مجیب رب کا قرب عطا کرنے والا ہو۔ صابر، ثابت قدم، ضبط ِنفس والا بنا دے۔
ایک روزہ ہمارا ہے اور ایک رمضان میں بھی بے رحم دنیا اور بے حس امت کے بیچ اہل غزہ کا ہے! امداد بند ہے۔ جھوٹے معاہدے کرنے والی طاقتوں کے ہاتھوں۔ ایک پلیٹ پانچ افراد کو لقمہ لقمہ دے! مرغی کا پر خریدنے کی استطاعت سے صاف پانی، ہسپتال، دوا سے محروم! غم اور خوف تو یہ ہے کہ فلسطینیوں کے ترجمان ابو عبیدہ نے سرکاری طور پر ہم (امت) پر فرد ِجرم اللہ کے حضور عائد کر دی ہے: ’تمہارے فلسطینی بھائیوں نے تو اپنے روزے پاک کرلیے پاکیزہ ترین خون کی دھاروں سے۔ رب تعالیٰ کی خاطر! محمدﷺ کے راستے پر چلتے۔اللہ کے بدترین ظالم دشمنوں کے ہاتھوں۔ تم کم از کم ان کی پشت پناہی سے ہی اپنے روزے پاک تو کر لو! اقوامِ عالم میں تمہارا کوئی ٹھکا نہ نہ ہوگا، جب تک ارضِ مقدس قابض قوتوں سے پاک نہ ہو جائے۔ تم اپنے رب سے کیا کہو گے؟ دشمن کا ہاتھ تمھارے گھروں، تمھارے گریبانوں تک بھی پہنچے گا۔ خدا نخواستہ!‘
8 مارچ، یومِ نسواں پر بھی عورت کے حقوق، تحفظ کے حوالے سے ہمارے ہاں پروگرام، مظاہرے ہوئے۔ غزہ کی مظلوم ترین عورت کا کوئی ذکر نہ تھا! برابری کا مطالبہ تو زبردست رہا۔ مگر چونکہ یہ مغرب کی استحصال زدہ، کھلونا بنی عورت کے ایجنڈوں کے تحت ہے لہٰذا تصور ہی جدا ہے۔ وہاں واقعتاً عورت مظلوم ہے۔ جہاںامریکی صدر، سپر پاور کا سپر لیڈر عورت کے استحصال کے بعد اسے خاموش رہنے کی قیمت ادا کر دے۔ عدالت بھی مجبوراً صدر کے مقام کے پیش نظر احتساب نہ کرے تو عجب کیا! البتہ ہماری تو کہانی ہی جدا ہے۔ 8 مارچ رمضان میں آکر ہمیں یاد دلاتا ہے کہ نزولِ قرآن کی اس رات میں جو کچھ عطا ہوا، اس میں قرآن، رسالت، امت، ایک مکمل نظامِ زندگی انصاف اور توازن کے ساتھ!ہمارا سب سے بڑا اعزاز تو یہ ہے کہ امت کا آغاز ہماری ماں سیدہ خدیجہ ؓ سے ہوا! بے مثل، عظیم الشان سیرت و کردار کی حامل۔ رہتی دنیا تک کی عورت کے لیے ہر روپ میں قائدانہ شان کی حامل!
خاتم الانبیاءﷺکے شایانِ شان،بیوی،رئیسہ خاتون مگر اسلام کی خاطر شعب ابی طالب کی سختیوں میں صبر و استقامت کا پیکر، تربیت اولاد کا حاصل اعلیٰ سیرت بیٹیاںؓ! نبیﷺ کو سکینت بخش، خدمت کی پیکر ،رفاقت دینے پر اللہ سے جبریل امینؑ کے ذریعے پُر سکون جنت کے محل کی بشارت پانے والی۔ یہ وہ نمونۂ عمل ہے جس سے امت کی عورت مالا مال ہے! جسے فلسطین کا بہادر ترجمان ابو عبیدہ خراج ِتحسین پیش کرتا ہے یومِ نسواں پر :’اس دن اگر کسی کا خصوصی ذکر ہو تو وہ فلسطینی عورت ہے، جس نے اس نفاق زدہ دنیا میں بے پناہ جدوجہد کی ہے۔ ہر فلسطینی عورت میری ماں اور میری بہن ہے۔ اللہ کی طرف سے سلامتیاں نازل ہوں ان پر جنھوں نے دنیا کے چہرے سے (جھوٹ، فریب کا) نقاب الٹ دیا جو یہ دعویٰ کرتی ہے کہ وہ عورت کے حقوق کی محافظ ہے۔ رحمتیں نازل ہوں ان 13 ہزار غزہ کی پاکیزہ روحوں پر جو مجرم صہیونی ہاتھوں نے وحشیانہ طریقے سے شہید کیں۔‘
امریکہ اس وقت ٹرمپ، مسک کی گھمن گھیریوں میں ہے۔ سبھی حیران، پریشان، ویران ہوئے بیٹھے ہیں۔ ہر قدم تنقید اور احتجاج کی لہر اٹھتی ہے۔ غزہ پر نظریں گاڑے، سرکاری اکاونٹ پر جو ناشائستہ، بے رحمانہ ’ٹرمپ غزہ‘ وڈیو چلی، اس نے صدر کی اوقات بتادی۔ اسے نہایت غیر مہذب (ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جنرل سیکرٹری نے) قرار دیا۔ یہ تبصرہ بھی رہا کہ ٹرمپ میں انسا نیت نام کی کوئی چیز نہیں، وہ صرف پیسہ اور سرمایہ کاری جانتا ہے۔
امت کے لیے یہ امر نہایت افسوس ناک اور باعث الم ہے کہ وہ سعودی عرب جا رہا ہے ایک کھرب ڈالر کی ڈیل کے لیے۔ امت مسلمہ کا یہ پیسہ امریکی معیشت سنوارے گا۔ بشمول امریکی فوجی سازوسامان کی خریداری کے۔ غزہ کی تعمیر نو، یا رمضان میں سحری افطاری سے محرومی دور کرنے کے لیے نہ سیاسی دباؤ، نہ معاشی پشت پناہی! (یادر ہے کہ 3 مارچ کو خلافت عثمانیہ ٹوٹے 100 برس گزر گئے! اب ہم نام نہاد جمہوریتوں اور بادشاہتوں کے گرداب میں ہیں۔ ’لاکہیں سے ڈھونڈ کر اسلاف کا قلب و جگر!‘)
مسک کے بھانڈے بھی پھوٹ رہے ہیں اور امریکیوںکی صلواتیں سنتا جی بھر بددعائیں سمیٹ رہا ہے۔ سیکرٹری آف سٹیٹ سے الجھاؤ کی کہانیاں مزید ہیں جن کا بظاہر ٹرمپ انکاری ہے! امریکی پیسہ بچانے کا ذمہ دار، ہر ادارے سے نوکریاں اور مراعات ؍ امداد ختم کرنے والا ای لون مسک کیا یہ ذمہ داری مفت نبھا رہا ہے؟ امریکہ کی محبت میں؟سب کمیٹی نے بھانڈا پھوڑا: ’مسک اپنے معاوضے میں8 ملین ڈالر روزانہ کے حساب سے وصول کر رہا ہے۔ دوسری طرف امریکی سوشل سیکورٹی ہمارے عوام کو کیا دیتی ہے؟ 65 ڈالر! ضرورت ہے ان ارب پتیوں کی جیبیں ٹٹولنے کی جو ٹیکس ادا نہیں کرتے!‘ (یہ جمہوریت ہے، جو ہمارے ہاں بھی کچھ مختلف نہیں!) ای لون ٹرمپ کے گلے کی چھچھوندربن گیا ہے، نہ اگلے بن پڑے نہ نگلے۔ اس نے بہت سے جھوٹ ٹرمپ کے منہ میں ڈلوائے۔ مثلاً یہ کہ بہت سے لوگ 100 سال سے زائد عمر میں سوشل سیکورٹی وصول کر رہے ہیں حالانکہ یہ سراسر جھوٹ ہے۔ یہ بھی کہا کہ 150سال سے زائد عمر والوں کو بھی ادائیگی ہو رہی ہے۔ حالانکہ 115 سال عمر پر خود بخود بند ہو جاتی ہے۔ بچت مہم میں سائنسی اداروں کی، یونیورسٹیوں کی امداد بند؍ مناصب ختم ؍ کٹوتیاں کر دی گئیں۔ ہر طرف احتجاج کا سماں اور مظاہرے ہمہ نوع جاری ہیں۔ سائنس اور تعلیم امریکہ کی پہچان اور معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے اور یہ احمقوں کا ٹولہ اسی کے درپے ہے!
خود ای لون کو معاشی تھپیڑے بھی پڑ رہے ہیں اور مقبولیت، نفرت اور ضد میں بدل رہی ہے۔ جرمنی میں ٹیسلا گاڑی خریدنی لوگوں نے بند کر دی، سفید فام جنونیوں کی حمایت ای لون کی طرف سے ہونے پر۔ مسک کا ذاتی پروگرام مریخ پر انسانوں کو بھیجنے والے راکٹ کا، آٹھویں مرتبہ تباہ ہو گیا۔ (مہینہ پہلے ہی ساتویں مرتبہ جل گرا تھا خلا میں!) امریکہ کی سائنس پر کٹوتیاں کرنے والے کو لینے کے دینے پڑ گئے۔مسک کا X بھی دنیا کے بیشتر حصوں میں اچانک معطل ہو گیا!
پاکستان امریکہ کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا، اس کے 13 فوجیوں کو ہلاک کرنے والا افغان پکڑوا کر۔ ٹرمپ نے زبانی کلامی شکریہ تو ہمارا ادا کر دیا۔ مگر ری پبلکن ہاتھی نے فوراً ہی کھانے کے دانتوں کا وار بھی کر دیا۔ ہمارے (اور افغانوں کے لیے بھی) وارننگ جاری کردی گئی کہ ٹرمپ سفری بندش ہم پر عائد کرنے کو ہے۔ لہٰذا امریکہ کا سفر اختیار نہ کریں۔ اپنے شہریوں کو امریکہ نے پاکستان میں متنبہ کر دیا کہ سیکورٹی خطرات ہیں۔ساتھ ہی ایک پاکستانی سفیرکوامریکی ویزا/ مکمل کاغذات، سفارتی استثناء کے باوجود لاس اینجلس ائیر پورٹ سے ہی نکال باہر کیا۔ اب ہم حیرت زدہ منہ تک رہے ہیں۔ ہم نے 20 سال امریکی جنگ میں ملکی معیشت تباہ کی۔ تعلیم، حیا اور اخلاقیات کا جنازہ نکال ڈالا، ان کی خوشنودی کے لیے۔ لاکھ جانوں کی قربانی دی۔ ساری خدمتیں سمیٹ کر…لو وہ بھی کہہ رہے ہیں یہ بے ننگ و نام ہیں!… افغانستان کو ان کی خوشنودی کرتے دشمن بنا لیا۔ قبائلی علاقوں سے آپریشنز کرکے اپنی آبادی خواروزار کی۔ خندہ پیشانی سے 400 ڈرون حملے برداشت کیے۔ امریکی نکل گئے، ہمیں ایک دلدل میں چھوڑ گئے۔ قربانیاں جاری ہیں ۔ اللہ ہمیں اس آزمائش سے نجات دے۔ دوست دشمن کی پہچان عطا فرمائے۔ عالمِ اسلام میں قائدانہ کردار ادا کرنے کی توفیق عطا ہو۔ (آمین) جو امریکہ، یورپ، کینیڈا کا نہ بنا کیا وہ ہم گندم گوں مسکین پاکستانیوں کا بنے گا؟ ’وہ آقا ہے دوست نہیں‘ بہ زبانِ ایوب خان!
انہی محلوں سے برسنے لگے اب تیرِ عناد
جن کے دروازوں پہ تم جاتے تھے سائل بن کر