اداریہ
رضاء الحق
اسلامو فوبیا کب ختم ہوگا؟
نائن الیون کے ’ڈرامے‘ کے بعد مسلمانوں اور اسلام کے خلاف دنیا بھر میں نفرت اور ان کے بارے میں ادارہ جاتی سطح پر بدگمانی اور خوف وبائی حد تک ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پھیلایا گیا۔ ایک بیانیہ تیار کر کے اُسے آگے بڑھایا گیا جو مسلم معاشروں اور ان کے مذہب کو تشدد اور دہشت گردی سے جوڑتا ہے۔ اسلام سے خوف اور مسلمانوں کے ساتھ تعصب پر مبنی یہ بیانیہ انتہاپسندانہ پروپیگنڈے تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ دنیا بھر خصوصاً مغربی ممالک، بھارت اور اسرائیل میں اِسے ذرائع ابلاغ، علمی شعبوں، پالیسی سازوں اور ریاستی مشینری کے بعض حصّوں میں بھی قبولیت حاصل ہوگئی۔ پھر یہ کہ اکثر مسلم ممالک جو دورِ حاضر میں پالیسی سازی کے لیے مغرب کا ہی رُخ کرتے ہیں، اُنہوں نے بھی اِسے اپنے ہاں ریاستی سطح پر اپنا لیا۔ گویا مغرب نے اللہ کے دین اور مسلمانوں دونوں سے خوف اور نفرت پیدا کرنے کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کام کیا گیا ہے۔ اگرچہ اسلام دینِ فطرت اور ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے لیکن یہ نہ صرف طاغوتی قوتوں کے لیے ہر دور میں ناقابل قبول رہا ہے بلکہ انفرادی اور اجتماعی سطح پر نفسانی خواہشات اور مادرپدر آزادی کے خواہاں افراد اور معاشروں میں بھی اِسے ناپسندیدگی کا سامنا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا ہے :’’ دین میں کوئی جبر نہیں ہے۔‘‘ (البقرۃ:256) یعنی کسی بھی شخص کو اسلام میں داخل ہونے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔اللہ کی طرف سے ہدایت آ جانے کے بعد بھی اگر کوئی شخص اسلام میں داخل نہیں ہوتا تو یہ اُس کا اور اللہ کا معاملہ ہے۔ کسی فرد، ادارے یا ریاست کو اُسے زبردستی مسلمان بنانے کی ہرگز اجازت نہیں۔ حضرت ابوہریرہh سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ہر بچہ فطرت (اسلام) پر پیدا ہوتا ہے، پھر اُس کے ماں باپ اُسے یہودی،نصرانی یا مشرک بناتے ہیں۔‘‘(جامع ترمذی )
دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ ایک مرتبہ اسلام میں داخل ہو جانے کے بعد اُس میں پورے کا پورا داخل ہونے اور رہنے کا حکم ہے۔ (البقرہ: 208) ایسا نہیں ہے کہ اسلام کی اُن باتوں کو تو اختیار کر لیا جائے جن میں سہولت محسوس ہو اور دل بھی اُن پر آمادہ ہو۔ جب کہ تھوڑی مشکل یامشقت کی بات ہو تو اُس سے اعراض کر لیا جائے۔ اس کی مثال اس طرح سے دی جا سکتی ہے کہ آپ کسی بہت اچھی شہرت کے حامل تعلیمی ادارے میں داخلہ لے لیتے ہیں مگر اُس تعلیمی ادارے میں آنے جانے، پڑھنے لکھنے، بات چیت کرنے کے جو قواعد و ضوابط ہیں، اُن پر عمل نہیں کرتے تو پھر سختی سے اُن قواعد و ضوابط پر عمل کرایا جاتا ہے۔ جب آپ اُن قواعد و ضوابط پر عمل پیرا ہو جاتے ہیں تو سکون میں رہتے ہیں۔ جو لوگ اُس تعلیمی ادارے میں داخلہ حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں،وہ اُس کے ڈسپلن کو ’’بہت سخت اور ظالمانہ‘‘ خیال کرتے ہیں، کچھ ایسی ہی صورتِ حال اسلام اور مسلمان کے حوالے سے بھی ہے ۔ اگرچہ آج کا مسلمان عمومی طور پر اسلام کا صحیح مظہر نہیں ہے۔ لیکن کیا کیا جائے کہ اسلام اور مسلم کا تعلق ایسا ہے کہ ’’لا عین و لا غیر‘‘۔ مسلمان جو کرے گا چاہے وہ اسلامی تعلیمات کے برعکس ہی کیوں نہ ہو، غیر مسلم اُس کے عمل کو اسلام سے ہی جوڑیں گے۔ بہرحال اعراض کرنے والوں کو اسلامی نظم کے تحت لانے کے لیے ضابطےتقریباً ساڑھے چودہ صدیاں قبل ہی طے کردیئے گئے تھے۔ پھر یہ کہ اللہ کے کلام اور سنتِ نبویﷺ میں باطل کے خلاف اقدام کو بھی اہتمام کے ساتھ واضح کیا گیا ہے۔ لہٰذا باطل قوتیں تو جانتے بوجھتے خود کو بچانے کے لیے اسلام سے خوف رکھتی ہیں اور مسلمانوں سے نفرت کرتی ہیں۔ 1990ء کی دہائی کا آغاز صدر جارج ایچ بش(بش سینئر) نےسوویت یونین کی شکست و ریخت کے بعد نیو ورلڈ آرڈر کا نعرہ لگاکر کیا اور اگلے دس سال تک اسلام اور مسلمانوں کو دنیا کا دشمن قرار دینے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا گیا۔ جس کا عروج 2001ء میں نائن الیون کی صورت میں سامنے لایا گیا۔ اُس کے بعد مسلمان ممالک کو نشانہ بنایا گیا، اسلام کو دہشت گردی کے ساتھ نتھی کرنے کی کوشش کی گئی اور مسلم معاشروں میں مرد و خواتین کو دہشت گرد اور انتہا پسند قرار دیا گیا۔
مسلمانوں اور مسلم ممالک دونوں میں دو انتہائیں دیکھنے میں آئیں، جنہوں نے بھی نقصان کیا۔ ایک طرف کچھ جذباتی قسم کے لوگوں نے جہاد، قتال اور خلافت کے نام کو بدنام کیا۔ دوسری طرف مغرب زدہ ذہنوں، سیکولر لبرل طبقوں اور مغرب کی امداد پر پلنے والی این جی اوز نے مغرب کا بیانیہ نافذ کرنے کا علم اُٹھایا اور مسلم ممالک میں عوامی سطح پرفکری و عملی انتشار پیدا کیا ۔ عوام کو یہ بتایا گیا کہ کیونکہ مغرب ناراض ہے اِس لیے اُسے منانے کی خاطر اپنے دین میں کچھ ردوبدل اور نرمی کی ضرورت ہوگی۔ ہمارے نزدیک اسلاموفوبیا کو تقویت دینے میں مؤخر الذکر نے اوّل الذکر سے زیادہ کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
2019ء میں جب خبر آئی کہ نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میںجمعہ کے اجتماع کے دوران دو مساجد میں یکےبعد دیگرے ایک شخص نے فائرنگ کرکے پچاس سے زیادہ مسلمانوں کو شہید کردیا جبکہ سو سے زیادہ مسلمان زخمی ہوگئےتو پاکستان کے اُس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے اعلان کیا کہ وہ مغرب میں پھیلنے والی اسلام کے خلاف نفرت کے سدباب کے لیے کچھ کریں گے۔ پھر اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 75 ویں اجلاس میں جب اُنہیں خطاب کرنے کا موقع ملا تو اپنی تقریر میں مسلمانوں کے دل میں قرآنِ پاک اور نبی کریمﷺ کے مقام پر گفتگو کی اور مطالبہ کیا کہ جنرل اسمبلی اسلاموفوبیا سے نبٹنے کے لیے رائے شماری کرائے اور اس کے خلاف ایک عالمی دن مقرر کرے۔15 مارچ 2022ء کو اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نےاو آئی سی کی جانب سے اسلاموفوبیا کے سدباب کا دن ٹھہرانے کی قرار داد پیش کی تو یورپی یونین کے ممالک اور بھارتی مندوبین نے مخالفت میں تقاریر تو کیں مگر کسی بھی ملک نے اِس قرار داد کےخلاف ووٹ نہیں دیا۔ لیکن اُس کے بعد مسلم ممالک نے اِس پر پہرہ نہیں دیا اور دن تو اپنی جگہ قائم رہا لیکن نہ کشمیر میں بھارتی ظلم ختم ہوا اور نہ مغرب میں مسلمانوں کے خلاف نفرت اور حملے۔ بلکہ 7 اکتوبر 2023ء کو اسرائیل نے غزہ پر وحشیانہ بمباری کا آغاز کیا۔ ساڑھے تیرہ ماہ کے دوران50 ہزار سے زائد فلسطینی مسلمان عورتوں، بوڑھوں، بچوں کو شہید کر دیا گیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ پروپیگنڈا ایک ایسا ہتھیار ہے جس سے سرحدوں پر لڑنے والی افواج اور میدانِ جنگ میں لڑنے والے سپاہیوں کے ساتھ ساتھ گھروں میں بیٹھے حضرات،خواتین اور بچے بھی متاثر ہوتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ پروپیگنڈا کے ذریعے مغربی دنیا میں پھیلائی گئی اسلام سے نفرت و خوف نے پوری دنیا میں مسلمانوں کو بہت نقصان پہنچایا۔ یورپ اور امریکہ میں آباد ہونے والے مسلمان تو باقاعدہ زیرِ عتاب رہے ہیں اور اُنہیں ہراساںکرنے کا سلسلہ آج بھی جاری ہے ۔ عوامی مقامات پر اُن کے ساتھ غیر مسلموں کا رویہ توہین آمیز ہوتاہے۔ اِس دوران کئی پُر تشدد واقعات میں مسلمانوں کو اُن کے مذہب کی وجہ سے عوامی سطح پر نشانہ بنایا گیا۔ حجاب، مساجد اور دیگر شعائرِاسلام کے خلاف مغرب میں کئی غیر مسلم تنظیموں اور انتہا پسندافراد نے کھل کراپنی نفرت کا اظہار کرنے کے لیے ہر طرح کے ذرائع استعمال کیے۔ نہ صرف تحریری مواد لکھنا شروع کردیا بلکہ سرکاری سرپرستی اور آشیربادکے ساتھ قرآنِ پاک کی بے حرمتی کی گئی اور صاحبِ قرآن ﷺ کے گستاخانہ خاکے بنائے گئے (معاذ اللہ) اور اِسے مغرب کی اظہارِ رائے کی آزادی قرار دے دیا گیا ۔ دنیا بھر کے مسلمان تہذیب یافتہ کہلوانے والے مغربی ممالک کی اِن جاہلانہ حرکتوں پر معترض ہوئے اور اُنہیں انتہا پسند قرار دیا گیا!
اسلام کے خلاف نفرت کا اظہار جو پہلے تشدد کے ذریعے یا تحریری طور پر ہوتا تھا،اب سماجی رابطے کی ویب سائیٹس پر بھی آچکا ہے،لوگ مسلمانوں کے نام پرجعلی اکاؤنٹس بنا کر توہین مذہب اور اہانتِ رسول ﷺ کے حوالے سے مواد شیئر کر رہے ہیں جو مسلمانوں کے لیے یقیناً اتنا ہی تکلیف دہ ہے جتنا فرانسیسی جریدے چارلی ابیڈو میں شائع ہونے والے گستاخانہ خاکے یا ملعون رشدی اور ملعونہ تسلیمہ نسرین کی کتابیں۔ مملکتِ خداداد پاکستان نے بھی یہ دن دیکھنا تھا کہ سوشل میڈیا پر فحش مواد (تصاویر / ویڈیوز) پر اسلام کی مقدس ہستیوں کے نام لکھ کر توہین کا ایک طوفان کھڑا کر دیا جائے۔ اِس گھناؤنے شیطانی عمل کی ہمارے ملک کا سیکولر، لبرل اور ملحد و دین بےزار طبقہ کھل کر پشت پناہی کر رہا ہے۔ آج ضرورت اِس امر کی ہے کہ غیر مسلموں کو صحیح معنوں میں مسلمان بن کر دکھایا جائے۔ یعنی ہمیں اسلام کا حقیقی نمائندہ بننا اور عملی نمونہ پیش کرنا ہے۔ جب مسلمان اللہ کی کتاب اور اُس کے آخری رسول ﷺ کی اطاعت کریں گے اور ختمِ نبوت پر صحیح معنوں میں پہرہ دینے کے ساتھ ساتھ رسول اللہ ﷺ کی سیرت کا عملی نمونہ بن جائیں گے تو غیر مسلموں کے دل و دماغ میں ڈالے گئے بہت سے خدشات اور خوف دور ہو جائیں گے۔ جب مسلمان اسلام کے نظام کو عملی طور پر نافذ و قائم کریں گے تو اُن گروہوں اور ممالک کے خلاف عملی اقدام بھی کیے جائیں گے جو اسلاموفوبیا کے پشت پناہ ہیں۔ حزب اللہ ہوں گے تو حزب الشیطان کے سرکچلے جائیں گے۔ تب اسلاموفوبیا ختم ہوگا۔ ان شاء اللہ!