رمضان، قرآن اور پاکستان
شجاع الدین شیخ
پاکستان کے مسائل کا حل :
لیلۃ القدر میں قائم ہونے والی
مملکت ِخداداد میں
نظام خلافت کے قیام
کی طرف عملی پیش قدمی سے ہی ممکن ہے!!!
مسلمانا ن پاکستان ! 1940 ء میں قراردادِ لاہور منظور ہونے کے بعد صرف سات سال کے قلیل عرصہ میں پاکستان کا قائم ہو جانا یقیناً ایک معجزہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اِس معجزہ کی پشت پر ’’پاکستان کا مطلب کیا: لا الٰہ الا اللہ‘‘ کا نعرہ تھا جس نے انگریز کی حاکمیت اور ہندو کی اکثریت کو شکست ِ فاش سے دوچار کر دیا تھا ۔تشکیلِ پاکستان کے تاریخی واقعات کو مرحلہ وار دیکھیں تو اُس سال ستائیس رمضان المبارک کی نصف شب کے قریب قیامِ پاکستان کا اعلان خالصتاً ’’کُن فَیکون‘‘ کا مظہر محسوس ہوتا ہے۔ کوئی ذی ہوش اِس حقیقت کا انکار نہیں کر سکتا کہ شب ِ قدر کی مبارک ساعت میں پاکستان کے قیام کا اعلان صرف اور صرف مشیت ِ ایزدی تھی۔ اس لحاظ سے پاکستان کو بجاطو رپر مملکت ِخداداد کہا جاتا ہے۔
• عزیزا ن وطن! ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اللہ تعالیٰ کے اس حکم: ’’وہ لوگ کہ اگر ہم انہیں دنیا میں حکومت دے دیں تو نماز کی پابندی کریں اور زکوٰۃ دیں اور نیک کام کا حکم کریں اوربرے کاموں سے روکیں‘‘ (سورۃ الحج :41) کے مطابق مملکت ِخداداد پاکستان میں اسلام کے عادلانہ نظام کا فی الفور نفاذ کیا جاتا لیکن بدقسمتی سے عوام اور حکمران دونوں قیامِ پاکستان کے بعد اپنے اصل ہدف سے دور ہوتے چلے گئے اور عوامی اور حکومتی دونوں سطحوں پر عملی زندگی میں اسلام کے عملی نفاذ کی طرف پیش رفت نہ ہوئی۔ افسوس صد افسوس کہ ہم دُنیوی نظاموں اور طرزِ حیات کی طرف کھنچتے چلے گئے اور ہماری منزل اسلام نہ رہی۔ جس سے دنیا میں بھی ذلیل و رسوا ہوئے اور اللہ رب العزت کی ناراضگی بھی مول لے لی۔ مسلمانانِ پاکستان نے اللہ تعالیٰ کی اس واضح ہدایت: ’’اور سب مل کر اللہ کی رسی مضبوط پکڑو اور پھوٹ نہ ڈالو‘‘[سورۃ آل عمران، آیت:103] پرعمل درآمد نہ کیا۔ عملی زندگی میں انفرادی اور اجتماعی سطح پر صراطِ مستقیم پر چلنے کے لیے احکاماتِ قرآنی کو اپنا امام بنانے کی ضرورت تھی۔ اس کے حکم پر آگے بڑھا جاتا اور اس کے روکنے پر رکا جاتا۔ ہم مصنوعی روشنیوں کے ذریعے عزّت ووقار کا راستہ ٹٹولنے کی کوشش کر تے رہے ہیں اور فطری روشنی کے مینار قرآن مجید پر ریشمی جزدانوں کے بے شمار غلاف ڈالتے رہے ہیں اور غیر شعوری طو رپر کوشاں رہے کہ حق کو دبیز ریشمی پردوں میں چھپا دیا جائے۔
مسلمانا ن پاکستان ! اسلام کے عادلانہ نظام کو اپنانا تو دو رکی بات ہے‘ ہم بنیادی انسانی اخلاقیات سے بھی عاری ہو چکے ہیں۔اپنے معاشرے پر نگاہ ڈالیں‘ ہماری کوئی کل سیدھی نہیں۔ ظلم‘ نا انصافی‘ کرپشن‘ خیانت‘ جھوٹ‘ بدیانتی اور منافقت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دے رہا۔ یعنی لوڈ شیڈنگ سے اگر قوم ظاہری و باہری طور پر اندھیروں میں ڈوبی ہوئی ہے تو اِن باطنی بیماریوں سے مسلمانانِ پاکستان کا باطن سیاہ ہوچکا ہے۔ اُن کے ضمیر پر مُردنی چھائی ہوئی ہے اور ارواح مضمحل ہوچکی ہیں‘ جو اجتماعی بے حسی کا سبب بنی ہیں۔ مقتدر طبقات کی لوٹ مار اور دولت اور وسائل کی اس غیرمنصفانہ تقسیم نے طبقاتی خلیج کو بہت وسیع کر دیا ہے۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں جو نزلہ و زکام کے علاج کے لیے یورپ میں ہسپتال بک کرواتے ہیں اور اپنے کتوں کے لیے ایئرکنڈیشنڈ کمرے تعمیر کرواتے ہیں‘ دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو بنیادی انسانی ضروریات سے محرومی کے باعث بھوک اوربیماری کے ہاتھوں موت کو گلے لگالیتے ہیں۔
• عزیزان وطن ! ہماری پون صدی کی تاریخ باہمی سر پھٹول کی افسوس ناک داستان ہے۔ سیاسی سطح پر ہم ایک دوسرے سے دست و گریبان ہی رہے اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا گیا۔ کئی سیاسی لیڈروںسمیت چند مذہبی سیاسی رہنماؤں کی گفتگو اسلام کے اعلیٰ و ارفع معیار تو درکنار کسی طور پر ایک انسانی معاشرے کے معیارات پر بھی پورا نہیں اترتی۔ اقتدار کی رسہ کشی سیاست دانوں کو ذاتی دشمنی اور عناد میں مبتلاکرچکی ہےجس کا خمیازہ عوام بھگت رہی ہے۔انانیت کی روش نے ملکی سالمیت کو شدید خطرات سے دوچا رکردیا ہے۔ پھر یہ کہ مذہبی سطح پر ہم بدترین فرقہ واریت اور تقسیم در تقسیم کا شکار ہوگئےجس کا قوم نے بدترین منافرت اور بدامنی کی صورت میں خمیازہ بھگتا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہم سیاسی اور معاشی سطح پر تو مکمل طور پر مغلوب ہوگئے۔ البتہ آغاز میں ہم نے معاشرتی سطح پر کچھ مزاحمت کرنے کی کوشش کی لیکن اب اس حوالے سے بھی اغیار کے حملوں سے ہم مسلسل پسپا ہو رہے ہیں لیکن اغیار کےخوفناک حملوں کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا اور وطن عزیز کی قوتِ مدافعت مزید کمزور پڑتی جا رہی ہے جس سے ملک کے استحکام، بقاء اور سلامتی کو شدید خطرہ لاحق ہے۔
• مسلمانان پاکستان! نام نہاد جمہوریت کے فریب نے ہمیں اجتماعی طورپر منتشر کیا اور قو م کے ساتھ کھلواڑ بھی۔ ہر الیکشن میں ایک دو درجن سیاسی کارکن اپنی جانیں ہار جاتے ہیں‘لیکن انہیں خبر بھی نہیں ہوتی کہ جنہیں وہ اپنی آزادی اور حقوق کے علمبردار اور قوم کے نمائندے سمجھ رہے ہیں وہ درحقیقت عالمی سامراج کے کٹھ پتلی ثابت ہوں گے۔ بے چارے عوام جنہیں الیکشن سے قبل’’ عوام کی حکومت‘ عوام کے لیے‘‘ کا سلوگن پڑھایا جاتا ہے اب یہ تک پوچھنے کا اختیار بھی نہیں رکھتے کہ کیا یہ مینڈیٹ اس لیے دیا گیا تھا
w کہ سودی معیشت کو جاری اور عالمی ساہوکاروں سے قرضے لے لے کر ملک کو عالمی سامراج کا غلام بنا دیا جائے؟
w مہنگائی اور ٹیکسوں کے پہاڑ تلے عوام کو روند دیا جائے ؟
w آزادی ٔ نسواں کے نام پر خاندانی نظام کوتلپٹ کردیا جائے یا ماؤں‘ بہنوں‘ بیٹیوں کو چوک چوراہوں میں کھڑا کردیا جائے؟
w ٹرانس جینڈر قانون بنا کر معاشرتی اقدار کو مغربیت کے پاؤں تلے روند دیا جائے؟
ان سب سوالوں کا جواب نفی میں ہےتو پھر یہ فیصلے کس کے اشارے پر ہو رہے ہیں ؟ ہر حکومت جانتی ہے کہ ایسے اقدامات محض قومی اقدار و نظریات کے خلاف ہی نہیں بلکہ ملکی اساس کے بھی متضاد ہیں۔ایک طرف ملک میں اسلام کے احکامات کی خلاف ورزی اور ان کے خلاف قانون سازی ‘ مذہبی شعائر و رسومات پر پابندیاں اور دوسری طرف ویلنٹائن ڈے‘ عورت مارچ‘ ہولی‘ دیوالی‘ کرسمس اور دیگر غیر اسلامی تہوار و تہذیب کی حوصلہ افزائی کیا معنی رکھتا ہے ؟
عزیزان وطن ! حقیقت یہ ہے کہ مغربی جمہوریت کی بنیاد اس دجالی فلسفہ پر ہے کہ منظر عام پر نظام کچھ اور نظر آئے لیکن درپردہ کچھ اور ہو۔ حکمران چاہے وہ جمہوری ہوں یا آمر‘ان کا ہر جائز و ناجائز حکم ماننے پر مجبور ہیں۔یہ قوتیں اپنے دجالی ایجنڈے کو پوری دنیا پر مسلط کرنے لیے آزاد ہیں۔ ان کے راستے میں اگر کوئی رکاوٹ ہے تو صرف نظامِ خلافت ہے۔ لہٰذاعالمی سامراج اپنی پروردہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ذریعے مختلف مقامات پر دہشت گردی کے واقعات کروا کر نہ صرف اسلام اور نظامِ خلافت کو بدنام کر رہا ہے بلکہ حکمرانوں کو مجبور کرکے ایسی قانون سازیاں بھی کروا رہا ہے کہ نظامِ خلافت کی آواز سر نہ اُٹھا سکے۔ لہٰذا یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ مسلمان جب تک نظامِ خلافت کے لیے متحرک اور متحد نہیں ہوجاتے وہ عالمی سامراجی قوتوں کے چنگل سے قطعی طور پر آزاد نہیں ہوسکتے۔ عالمی سامراجی قوتیں کہیں فوجی ڈکٹیٹروں کے ذریعے اور کہیں نام نہاد جمہوری حکمرانوں کے ذریعے عالم اسلام پر مسلط رہیں گی اوران کے ذریعے اسلام مخالف قانون سازیاں ہوتی رہیں گی۔ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم سے ایک طبقہ بھوک‘ اَفلاس اور غربت کی وجہ سے سسک سسک کر مرتا رہے گا اور دوسری طرف طبقہ اشرافیہ کی تجوریاں بھرتی رہیں گی۔ لہٰذا مسلمانوں کی نجات نہ جمہوریت میں ہے‘ نہ فوجی مارشل لاءمیں اور نہ ہی بادشاہت میں‘ بلکہ حقیقی آزادی اور نجات کا راستہ صرف اور صرف اسلام کے عادلانہ نظام بالفاظ دیگر نظام خلافت کے قیام میں ہے۔
• عزیزان وطن !یہ بات بھی انتہائی قابل توجہ ہے کہ ہمارے کرتوتوں اور قومی جرائم کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کے مظاہر دن بدن سامنے آر ہے ہیں، کبھی سیلاب ، کبھی طوفانی بارشیں، کبھی سیاسی انتشار کی وجہ سے ملکی سالمیت کو لاحق خطرات تو کبھی معیشت کی تنگی اور کبھی زلزلوں کے جھٹکے! وجہ یہی کہ ہم نے اللہ تعالیٰ سے کئے گئے عہد کی خلاف ورزی کی اور کلمہ کے نام پر حاصل کی گئی مملکت خداداد میں اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ دین اسلام کو نافذ کرنے سے گریز اور فرار کی راہ اختیار کی۔
• لیکن اے مسلمانانِ پاکستان! اب بھی پانی سر سے نہیں گزرا۔ اب بھی ہوش کے ناخن لیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نظریہ پاکستان کو عملی تعبیر دی جائے اور ملک میں اسلام کے عادلانہ نظام کو قائم و نافذ کیا جائے۔ یاد رہے کہ نفاذِ دین کا مطلب محض چور کے ہاتھ کاٹنا، زانی کا سنگسار کرنا، قاتلوںسے قصاص لینا وغیرہ ہی نہیں بلکہ اسلام کے عادلانہ نظام کا مکمل نفاذ ہے جس میں تمام مسلمان حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی باعزت شہری کی حیثیت سے کر سکیں اور اقلیتوں کے جان و مال اور عزت کو تحفظ حاصل ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ اقامت دین کی جدوجہد کا اصل حاصل پاکیزہ، فلاحی اور عادلانہ نظام کا قیام ہے جس کے لئے منہج انقلاب نبوی ﷺ سے رہنمائی لیتے ہوئے ایک پر امن، منظم ، انقلابی تحریک برپا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
• آئیے!ماہ رمضان کے آخری عشرہ کی مبارک ساعتوں، شب قدر بالخصوص ستائیس رمضان المبارک کو اللہ تعالیٰ اور رسول ﷺکی طرف رجوع کرنے کا عہد کریں اور پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے لیے تن من دھن لگا دیں۔ یہی ایک صورت ہے کہ وہ پاکستان جو پون صدی پہلے شب ِ قدر میں معرضِ وجود میں آیا تھا اُسے بازیافت کیا جا سکےجس سے نہ صرف مملکت ِخداداد پاکستان کی بقا اور سلامتی یقینی ہو جائے گی بلکہ اُسے استحکام بھی نصیب ہو جائے گا۔
اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو۔ آمین!