کارِ تریاقی
دولت ِحرمت ِانسان ہوئی ہے نایاب
عامرہ احسان
ایک دور تھا جب امریکہ پاکستانیوں کے خوابوں کی دنیا تھی۔ امریکی شہریت ایک اعزاز جانا جاتا تھا۔ امریکہ سے وفاداری کا یہ حلف الفاظ اور روح میں سورۃ التوبۃ: آیت 111 سے متصادم ہے۔ مگر اب یہ نیا امریکہ ہے۔ جہاں سفید فام ہی صرف امریکی ہو گا! کبھی سبز کی جگہ نیلے پاسپورٹ کا حامل ہونا، سر بلند کر دیا کرتا تھا! پاکستان لوٹتا تو (الا ماشاء اللہ) اپنے آزاد، خود مختار ملک کی تحقیر میں کوئی کسر نہ ُاٹھا رکھتا۔ مگر پھر موسم بدلتا چلا گیا۔ بیس سال ہم نے امریکہ کی چاکری میں گزارے، مگر کِکّراں تے انگور چڑھایا ہر گچھا زخمایا کے مصداق لہولہان، ویران ہو رہے! آج وہی امریکہ جو عدل و انصاف، آزادیٔ اظہار، مساوات، حقوقِ انسانی کا دیوتا گردانا جاتا تھا۔ یہ صرف پتھرائے ہوئے جھوٹے دعوے اور نعرے ثابت ہوئے۔ پہلے دہشت گردی کے نام پر اٹھائی جنگ جس میں صرف دو بڑی اور ایک چھوٹی بلڈنگیں اور 3 ہزار افراد، امریکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی پر ضرب لگی، تو جواباً بلا تحقیق، افغانستان، عراق، شام، یمن ، مشرق وسطیٰ کے ممالک درہم برہم کر دیئے۔ اینٹ سے اینٹ بجادی۔ وہ دن اور آج کا دن۔ غزہ کے سبھی مناظر امریکی عظمت کے سارے دعوؤں کا ایکسرے ہیں! تاریخ عالم کے سبھی نما رود، فراعنہ، ہلا کو، چنگیز، ہٹلر کا خمیرملا کر گوندھو تو نیا متعفن کردار ٹرمپ، مسک، نیتن یا ہو، صہیونی کردار وجود میں آتے ہیں اور اس سب کے تماش بین گونگے شیاطین جنھوں نے ڈیڑھ سال مظلوم، مقبوضہ قوم کے ننھے بچے بچیاں، حاملہ عورتیں،تہس نہس ہوتے دیکھے، وہ سب بھی کچھ کم تو نہیں!
تاریخ کا نیا سفر! امریکہ کی دریافت، اس پر قبضہ، مقامی آبادی زندہ درگور کرنے سے شروع ہوا ہے۔ یہ تاریخ افریقہ سے سیاہ فام غلام لا کر ظلم و جبر کی داستانوں سے گزارکر 28 اگست 1963 ء تک پہنچی۔ مارٹن لوتھر کنگ جونیئر (سیاہ فام ) کی تقریر جو واشنگٹن میں آزادی اور ملازمتوں میں برابری کے لیے شعلہ بیانی تھی: ’میرا ایک خواب ہے‘… کا عنوان تھا۔ امریکہ سے نسل پرستی کے خاتمے کی پکار! سیاہ فام اوباما اور کونڈو لیزا رائس، صدار توں وزارتوں تک پہنچے۔ مگر پھر اچانک ٹرمپ اور ای لون مسک نئے امریکی انقلاب کے ہرکارے آگئے!یوں تو ٹرمپ کے حواریوں نے 6 جنوری 2021ء میں، (جو ’فار رائٹ دہشت گردی‘ کہلائی)۔ الیکشن ہارنے پر کیپٹل بلڈنگ واشنگٹن پر 2500ٹرمپ کے حامیوں نے چڑھائی کرکے سفید فام برتری کا پورا پیغام دے ڈالا۔ امریکہ نے کھلی آنکھوں سے سفید فام برتری اور صہیونیت کی بقا، قتل و غارت گری کے حق میں ووٹ ڈال کر ٹرمپ لابٹھایا۔ جمہوریت کا یہ ڈراپ سین تھا! جنوبی افریقہ کے سفیر ابراہیم رسول نے ایک ویبی نار میں کڑواسچ کہہ دیا کہ ٹرمپ اقدامات (تارکین وطن نکالنے )میں تیزی کی وجہ، امریکہ میں سفید فام آبادی کم ہوتے جانے کی بنا پر ہے۔ ٹرمپ انتظا میہ تپ اٹھی اور غیر معمولی اقدام میں سفیر کو ٹرمپ اور امریکہ سے نفرت رکھنے والا قرار دے کر نکال دیاکہ یہ ہمارے عظیم ملک میں نہیں رہ سکتا! ’عظیم ملک‘ کی تنگ نظری قدم قدم آشکارا ہے!
اب دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کا عنوان ’سفید فام برتری‘ ہی ہے۔ روس، یوکرین جنگ ختم کرنے کی کوشش اسی لیے ہے کہ دونوں طرف سفید فام مر رہے ہیں۔ اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کا نسلی صفایا بھی اسی ضمن میں ہے۔ تارکین وطن کا نکالا جانا بھی اسی لیے ہے کہ یہ کالے، پیلے، گندمی، امریکی سفید فام آبادی کو گدلا کر رہے ہیں۔
دوسرا ہدف مسلمان ہیں۔ فلسطین میں قتل ِعام کی شدت و وحشت آمدِدجال، قدس کی جگہ ہیکل سلیمانی کی راہ ہموار کرنے کو ہے۔ پورا شام(اصلاً لبنان، شام، اردن، فلسطین پر مشتمل) اسرائیلی، امریکی ہدف ہے۔ بش جو نیئر نے 2001 ء میں بطور رند بادہ خوار سچی بات اُگل دی تھی کہ یہ صلیبی جنگ ہے۔ وہ آج بھی جاری ہے۔ علامتیں پوری ہیں۔ امریکی طلبہ اس سے لاعلم رکھے گئے تھے۔ سواب فلسطینی نژاد امریکن (الجیرین) محمود خلیل کے تما م تر قانونی کاغذات مکمل ہونے پر بھی امریکی قانونی روایات کے خلاف جس طرح وہ اٹھایا، لاپتہ کیا گیا، طلبہ اس پر سیخ پا ہیں۔ یہ فلسطینی، کولمبیا یونیورسٹی کا گریجویٹ ملک بھر کی یونیورسٹیوں میں فلسطینی قتل ِعام پر کیمپ لگانے اور مظاہروں کے اہتمام میں قیادت کا مقام رکھتا تھا۔ باوجود یکہ وہ امریکی گرین کارڈ رکھتا ( مستقل رہائشی) اور امریکی شہری بیوی کا شوہرتھا مگر اُسے مجرم تارک وطن کی طرح ہتھکڑی لگا کر، وکیل سے رابطے کی سہولت کی نفی کرکے ہزاروں میل دور لوزیانا جیل میں لے جا پھینکا۔ اور اب ملک بدر کرنے کے واضح امکانات ہیں جسے فی الوقت ایک جج نے بمشکل روکا ہے۔ باوجودیکہ سیاسی گفتگو قانوناً، امریکہ میں آئینی طور پر روا ہے مگر اب غیر سفید فام کو اپنی زبان بند رکھنی پڑے گی۔ اس پر یونیورسٹیوں اور دانش و فہم رکھنے والے طبقے میں شدید ردِعمل، ریلیاں، احتجاج جاری ہے۔ سو پاکستانی ہوش کے ناخن لیں گرین کارڈ کی جگہ سبز پاسپورٹ کو غنیمت جانیں! یہ آپ کا اپنا ہے! بلوچ اس کے پرزے نہ اُڑائیں۔ بھارت آپ کواستعمال کر کے بے گھر، بے وقعت کر کے چھوڑ دے گا!
اس وقت بھی کمال ہے کہ مغربی دنیا ہی فلسطین پر ٹرمپ اور اسرائیلی پالیسیوں کے خلاف شدید رد عمل دے رہی ہے۔ ایک برطانوی ہے جو فلسطین پر متوجہ کرنے کو 17 گھنٹے برہنہ پا اونچے ٹاور (بگ بین) پر شدید سردی میں جان جوکھوں میں ڈالے کھڑا رہا ہے۔ اللہ انھیں ایمان سے نوازے۔ (آمین) دوسری طرف غزہ میں رمضان خوراک، پانی، ضروریات زندگی کی شدید ترین کمی میں قطار اندر قطار برتن رکھے منتظر ہے۔ سرحد کے اس پار عرب دنیا عیش و طرب میں ڈوبی ہے۔ خوراک کا کتنا حصہ ضائع ہو کر کوڑ ا دانوں کا لقمہ بنتا ہے۔ جب عام مسلمان اپنی بے بسی اور غزہ کا صبر دیکھ کر چلاتے ہیں تو دنیا کے فورمز پر بیٹھ کر زبانی جمع خرچ کرتے عرب ممالک قرار دادوں، وعدوں سے تھپک دیتے ہیں۔ منہ میں لقمہ ڈالنا مسلمان کے لیے ’ٹیرر فنانسنگ‘ کہلاتی ہے۔ عرب لیڈر اپنی زکوٰۃ ہی سے بھوک کے ماروں کا کوئی اہتمام کر دیں امریکہ اسرائیل دوستی اور کھربوں ڈالر کی وہاں سرمایہ کاری کے عوض!
ٹرمپ اور اسرائیل اہل غزہ کوبے دخل کرنے کے ارادے سے باز نہیں آرہے۔ مگر یہ فلسطینیوں کی بلند پایہ عزیمت اور دنیا بھر کے دیگر ممالک کی دردمندی کہہ لیجیے یا مظلومیت میں حصہ دار بننے کا خوف جس سے ہر مرتبہ ان فرعونوں کو منہ کی کھانی پڑتی ہے۔ صومالیہ، صومالی لینڈ اور سوڈان کو بھی فلسطینی بسانے کو بہت سے لالچ دے کر تیار کرنے کی کوشش کی گئی مگر سفارتی سطح ہی پر کو رے جواب مل گئے۔ رائٹر، اے پی کے مطابق اخفاء کے وعدوں پر جو حقائق کھلے تو صومالیہ نے ایسے کسی بھی منصوبے کو سختی سے رد کر دیا جو فلسطینی عوام سے اپنی آبائی سرزمین پر امن سے رہنے کا حق سلب کرے۔ (وزیر خارجہ، احمد معلم)۔ سوڈان نے بھی رائٹر کے مطابق، ایسے کسی بھی پلان کو نا قابل قبول بتایا۔ صومالی لینڈ نے بھر پور لالچ بھری معاشی، سفارتی پیش کش کو مکمل رد کر دیا۔ اسے مشرق وسطیٰ میں بھی سرخ لکیر قرار دیا گیا۔ اس تجویز کے غبارے سے باقی ہوا حماس نے نکال دی ٹرمپ کا شکریہ ادا کر کے پیشگی، غزہ پلان سے پیچھے ہٹ جانے کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے ۔
اسرائیل ادھر شام کے سر پر سوار ہے، گریٹر اسرائیل اور دمشق کا (احادیث کے آئینے میں )آئندہ مرکزی مقام ہونے کی بنا پر۔ شام کو وہ غیر مسلح، فلسطین کی طرح بےیار و مددگار یکا و تنہا دیکھنا چاہتا ہے۔ اقلیتوں کے ساتھ مل کر شام کا گھیراؤ مقصود ہے۔ اگر چہ شام میں آئین طے پا جانا، اقلیتی بغاوت کی کوشش کچل دینا اور کردوں سے مصالحت مثبت اقدامات ہیں۔ بشار قوت کا خاتمہ فی نفسہٖ ایک بڑی کامیابی ہے۔
اللہ کی طرف سے تھپیڑے مزید ہیں۔ پوری وسطی امریکی ریاستیں خوفناک بگولوں، گردباد شدید طوفانوں کی زد میں ہیں۔ 42 ہلاکتیں ۔ درجنوں زخمی۔ 50 گاڑیاں (کچھ دکھائی نہ دینے سے) ٹکرا کر 8 لوگ کینساس میں ہلاک ہو گئے۔ درخت ٹوٹ گرے۔ بجلی کی تاریں گر گئیں۔ عمارت تباہ۔ ’ہمارے کان خوفناک تیز آواز سے پھٹ رہے ہیں ہم نے ایسا طوفان نہیں دیکھا۔‘ (لوگوں کا کہنا) ڈھائی لاکھ گھروں میں بجلی غائب۔ ہنگامی حالت کا نفاذ، ٹیکساس، اوکلا ہوما، کینساس میں مزید طوفان تلے کھڑے ہیں۔ ٹرمپ منہ تک رہا ہے! ایک کے بعد ایک عذاب ۔ معیشت پہلے ہی اندر سے کھوکھلی ہو چکی ہے جنگ بازی میں۔ یہ غیر متوقع تباہیاں مزید ہلکان کریں گی۔ مظلوموں کا خون مہنگا تو پڑے گا ہی!غزہ کو ساحلی عشرت گاہ بناتے ٹرمپ کو امریکہ ہی میں غزہ نما تباہ کاریوں سے دو چار ہونا پڑا! غزہ میں اسرائیل جنگ بندی معاہدے سے منحرف،بمباریوں میں سینکڑوں شہید کر چکا ہے۔ امت بے بسی،بے وقعتی اور بے حسی کا شکار ہے۔مظلوم فلسطینیوں کے لیے صرف اللہ ہی سے بدری مدد کی التجا ہے۔
دولتِ حرمتِ انسان ہوئی ہے نایاب
ظلم کی جنس ہے بازار میں سستی دیکھو