پیامِ عید
عید الفطر، مسلمانوں کے لیے شکرانے کا دن
فرید اللہ مروت
عیدکا لفظ ’’عود‘‘ سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں ’’بار بار‘‘ آنا۔ چنانچہ اس دن کو عید اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ دن بار بار یعنی ہر برس آتا ہے۔ ’’الفطر‘‘ کے معنی روزہ کھولنے کے ہیں۔ اس لحاظ سے عید الفطر اس عیدکو کہتے ہیں جو فرزندانِ توحید رمضان المبارک کے روزے کا فرض ادا کرنے کی خوشی میں شوال کی پہلی تاریخ کو مناتے ہیں۔ گویا عید الفطر روزوں کی بخیر و خوبی تکمیل کی تقریب مسرت ہے۔سیماب اکبر آبادی نے عیدکے بارے میں کیا خوب کہا ہے۔ ؎
ہنستی ہوئی صبح روزِ عید آئی ہے
لے کے نئے جذبات سعید آئی ہے
یہ خوشخبری روزہ داروں کے لیے
روزے جو گئے ان کی رسید آئی ہے
انسانی تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ ہرقوم کے ہاں سال میں کچھ ایسے دن ملتے ہیں جو اُن کے لیے مسرت و شادمانی کے دن ہوتے ہیں۔ ہر قوم اپنی عید کے لیے پہلے ہی سے تیاری کرتی ہے۔ اور پھر ان عید کے دنوں کو خاص اہتمام کے ساتھ مناتی ہے۔ یہودی دس محرم کو ’’پشاخ‘‘ مناتے ہیں۔ اس کے علاوہ ’’شودس‘‘، ’’یوم کپور‘‘ اور ’’سکوت‘‘ وغیرہ اُن کے خوشی کے دن ہیں۔ عیسائیوں کے ہاں ’’کرسمس‘‘ (مہینہ میلادِ مسیح) اور ’’ایسٹر‘‘ جشن کے ایام کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ہندوئوں کے ہاں بسنت، لوہڑی، اور ہولی دیوالی ایّامِ خوشی کی حیثیت رکھتے ہیں۔
حدیث میں عید کے دنوں کو ایامِ اکل و شرب یعنی کھانے پینے کے دنوں سے یاد کیا جاتا ہے۔ عید سے مراد وہ دن ہے جس میں مسرت و شادمانی حاصل ہو۔
قرآن مجید میں عید کا ذکر ان الفاظ میںہے: {رَبَّـنَـآ اَنْزِلْ عَلَـیْنَا مَـآئِدَۃً مِّنَ السَّمَـآئِ تَـکُوْنُ لَنَا عِیْدًا0} (المائدہ:114) ’’اے ہمارے پروردگار! ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما کہ ہمارے لیے وہ (دن) عید (خوشی) قرار پائے۔‘‘
نبی کریم ﷺ جب ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لائے تو اہلِ مدینہ کو سال کے دو دنوں میں (لہو و لعب) خوشیاں مناتے دیکھا۔ پوچھا: یہ کیسے دن ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ زمانہ ٔ جاہلیت میں ہم ان دو دنوں میں کھیل تماشا کرتے تھے۔ ارشاد ہوا: اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے ان سے بہتر دو دن مقرر فرمادیئے ہیں۔ ایک عید الاضحی اور دوسرا عید الفطر (ان دنوں میں تم اللہ تعالیٰ کی کبریائی و عظمت بیان کرکے دلوں کو سکون دو اور آپس میں میل ملاقات اور ایک دوسرے کو تحفے تحائف دے کر خوشیاں حاصل کرو) (رواہ ابو دائود)
مسلمانوں اور غیر مسلموں کے تہواروں میں بنیادی فرق یہ ہے کہ غیر مسلم اپنی’ عید‘ منانے کے لیے ہر قسم کے دنیاوی سازو سامان، شراب و کباب، نغمہ و سرود، عیش و عشرت سے دل کو عارضی سکون پہنچاتے ہیں اور اُس دن اپنے آپ کو تمام اخلاقی اور مذہبی پابندیوں سے آزاد سمجھتے ہیں۔ جب کہ مسلمان اِس کے برعکس ہر جشن اور خوشی اپنے مولا و مالک کی رضا اور سنت نبوی ﷺ کی پیروی کرتے ہوئے مناتے ہیں۔ مسلمانوں کے لیے عید کا دن اللہ کے اس عظیم احسان پر کہ انہیں اسلام جیسا دین اور قرآن جیسی کتاب ملی اور ملّتِ ابراہیمی کا پیروکار اور امام الانبیاءؑ کے اُمتی ہونے کا شرف ملا، شکرانے کا دن ہے۔ چنانچہ وہ نماز عید ادا کرکے اجتماعی طور پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں اور اس کے دین کو سربلند رکھنے کا عہد کرتے ہیں۔
عید الفطر کے دن اللہ تعالیٰ کی طرف سے اہلِ ایمان کے لیے عام بخشش کا اعلان ہوتا ہے۔ مسلمان ماہِ رمضان پورا مہینہ روزے رکھ کر، نماز تراویح ادا کرکے اور اللہ کے گھروں میں اعتکاف بیٹھ کر اللہ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں اور اپنے خالق و مالک کو خوش کرنے کی جدو جہد کرتے ہیں، پورے تیس دن عبادت میں گزار کر یکم شوال کو اللہ کے سامنے اکٹھے ہوتے ہیں، عبادتوں کے قبولیت کی دعا کرتے ہیں، اپنی کوتاہیوں پر ندامت کا اظہار کرتے ہیں اور اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے گناہ معاف کرکے اُن پر انعامات کی بارش فرماتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:’’اللہ تعالیٰ رمضان میں ہر روز افطار کے وقت ایسے دس لاکھ گناہ گاروں کو جہنم سے خلاصی مرحمت فرماتے ہیں جو (اپنی سیاہ کاریوں کی وجہ سے) جہنم کے مستحق ہوچکے تھے۔ پھر جب رمضان کا آخری دن آتا ہے، اُس دن اللہ پورے رمضان میں جتنے لوگوں کو معافی مل چکی ہوتی ہے، اتنے ہی گناہ گاروں کو معاف کردیتا ہے۔جب عید الفطر کی رات ہوتی ہے تو اس کا نام (آسمانوں پر) لیلۃ الجائزہ (انعام کی رات) سے لیا جاتا ہے اور جب عید کی صبح ہوتی ہے تو حق تعالیٰ شانہ ٗ فرشتوں کو(مسلمانوں کے) تمام شہروں میں بھیج دیتے ہیں۔ وہ زمین پر اُتر کر تمام گلیوں اور راستوں کےسِروں پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور ایسی آواز سے پکارتے ہیں جس کو جِنّ اور انسان کے سواساری مخلوق سن سکتی ہے۔ محمد ﷺ کی اُمت کے لوگو! اپنے گھروں سے نکلو اور اس رب کے سامنے حاضر ہوجائو جو بہت زیادہ عطا کرنے والا ہے اور بڑے سے بڑے گناہ کو معاف کردینے والا ہے۔ پھر جب لوگ عید گاہ میں حاضر ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے پوچھتے ہیں اس بندئہ مزدور کا کیا حق بنتا ہے جو اپنا کام پورا کرلے۔ فرشتے عرض کرتے ہیں، یا اللہ اس کا حق یہ بنتا ہے کہ اسے اس کی مزدوری پوری پوری دے دی جائے۔ باری تعالیٰ فرماتے ہیں: فرشتو! گواہ رہنا میں نے ان بندوں کو رمضان کے روزوں اور تراویح کے بدلے میں اپنی رضاو مغفرت عطا کردی۔ اور پھر اللہ تعالیٰ (اپنے بندوں سے) فرماتے ہیں، اے میرے بندو! مجھ سے مانگو۔ مجھے میری عزت و جلال کی قسم، آج کے اس اجتماع میں تم اپنی آخرت کے لیے جو کچھ مانگو گے، عطا کروں گا اور دنیا کے بارے میں جو سوال کرو گے، اس میں تمہاری مصلحت کو مد نظر رکھ کر پورا کروں گا۔ میری عزت کی قسم کہ جب تک تم میرا خیال رکھو گے میں تمہاری لغزشوں کو معاف کرتا رہوں گا۔ مجھے میری عزت و جلال کی قسم میں کفار کے سامنے تمہیں رسوا نہیں کروں گا۔ اب بخشے بخشائے اپنے گھروں کو لوٹ جائو۔ تم نے مجھے راضی کردیا اور میں تم سے راضی ہوگیا۔‘‘ (رواہ البیہقی)
ایک اور حدیث میں حضورﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص بیدار رہا عیدین کی دونوں راتوں میں طلب ثواب کے لیے اُس کا دل نہ مرے گا، اُس دن جس دن سب دل مُردہ ہوں گے۔‘‘ (رواہ ابن ماجہ)
عید الفطر تشکر اور خوشی کا دن ہے۔ اس لیے اس دن اچھا کھانا پکانے اور اچھا لباس پہنے اور غرباء و مساکین کی امداد کرنے کا حکم ہے۔عید کے دن صاحب نصاب صدقۂ فطر بھی ادا کریں جو اُن پر واجب ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ صدقہ ٔفطر روزوں کو لغو اور گندی باتوں سے پاک کرنے کے لیے اور مسکینوں کی روزی کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔ (یاد رہے صدقہ ٔ فطر نماز عید سے پہلے ادا کردیا جانا چاہیے) (رواہ ابو دائود)
ایک مرتبہ عید کے دن آپؐ گھر سے مسجد کی طرف جارہے تھے۔ راستے میں ایک جگہ کچھ بچوں کو کھیلتے دیکھا جو نئے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ بچوں نے سلام کیا تو آپؐ نے جوا ب دیا۔ کچھ آگے تشریف لے گئے تووہاں ایک بچے کو اُداس بیٹھے دیکھا۔ آپؐ اس کے قریب رُک گئے اور پوچھا تمہیں کیا ہوا کہ اُداس اور پریشان نظر آرہے ہو؟ اُس نے روتے ہوئے کہا کہ اے اللہ کے محبوب، میں یتیم ہوں، میرا باپ نہیں ہے جو میرے لیے کپڑے لادیتا، میری ماں نہیں ہے جو مجھے نہلا کر نئے کپڑے پہنا دیتی۔ اس لیے میں یہاں اکیلا اُداس بیٹھا ہوں۔ آپؐ اُسے لے کر اپنے گھر تشریف لے گئے اور ام المومنین حضرت عائشہ kسے فرمایا: اس بچے کو نہلا دو‘‘ اتنے میں آپؐ نے اپنی مبارک چادر کے دو ٹکڑے کردیئے۔ کپڑے کا ایک ٹکڑا اُسے تہبند کی طرح باندھ دیااور دوسرا اس کے بدن پر لپیٹ دیا گیا۔ پھر اس کے سر پر تیل لگا کر کنگھی کی گئی۔ جب وہ بچہ تیار ہو کر آپ ؐ کے ساتھ چلنے لگا تو آپؐ نے نیچے بیٹھ کر اسے اپنے کندھے پر بٹھا لیا۔ آپؐ نے بچے کومسجد میں اپنے ساتھ منبر پر بٹھایا اور پھر اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر فرمایا: ’’جو شخص یتیم کی کفالت کرے گا اور محبت و شفقت سے اُس کی سر پر ہاتھ پھیرے گا، اُس کے ہاتھ کے نیچے جتنے بال آئیں گے، اللہ تعالیٰ اُس کے نامہ ٔاعمال میں اتنی ہی نیکیاں لکھ دے گا‘‘۔ مزید فرمایا: ’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، وہ اس کو مصیبت کے وقت تنہا نہیں چھوڑتا۔ جو شخص اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرتا ہے۔ جو شخص کسی مسلمان کی مشکل دور کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کے بدلے قیامت میں اسے سختی سے دور فرمائے گا۔‘‘
ہمیں بھی چاہیے کہ خوشی کے ان لمحات میں اپنے اَڑوس پڑوس میں غریبوں، بیوائوں، ناداروں اور یتیموں کو اپنی خوشی میں شامل کریں۔ انہی حقوق کی رعایت و پاسداری کو مثالی معاشرت کہتے ہیں۔
عید کے دن کی سنتیں
1۔ صبح کو بہت جلد اٹھنا
2۔ شرع کے مطابق اپنی آرائش کرنا
3۔ غسل کرنا 4۔ مسواک کرنا
5۔ حسب ِاستطاعت عمدہ کپڑے پہننا (نئے کپڑے ضروری نہیں، موجود کپڑوں میں جو اچھے ہوں)
6۔ خوشبو لگانا 7۔ عید گاہ جلدی جانا
8۔ عید گاہ جانے سے پہلے کوئی میٹھی چیز کھانا
9۔ عید گاہ جانے سے پہلے صدقہ فطر ادا کرنا
10۔ عید کی نماز عید گاہ میں پڑھنا۔
11۔ ایک راستہ سے عید گاہ جانا اور دوسرے راستہ سے واپس آنا۔
12۔ عید گاہ جاتے ہوئے راستہ میں آہستہ آہستہ ’’اللّٰہ اکبر، اللّٰہ اکبر، لا اِلٰہ الا اللّٰہ واللّٰہ اکبر، اللّٰہ اکبر و للّٰہِ الحمد‘‘کہتے ہوئے جانا۔
13۔ سواری کے بغیر پیدل عید گاہ جانا(نور الایضاح)
عید الفطر کے تقاضے
رمضان المبارک کا مہینہ انسان کے تزکیہ ٔ نفس کا مہینہ ہے۔ رمضان میں ہم اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتے ہوئے صبح سے لے کر شام تک اپنا مُنہ بند رکھتے ہیں اور اپنی آنکھیں، کان اور دماغ کو لغو باتوں سے دُور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ گویا رمضان کا مہینہ ایک ریفریشر کورس کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر کوئی اس مہینہ میں اللہ تعالیٰ کے دیئے گئے احکامات کی پیروی کرتا ہے اور حقیقی معنوں میں روزہ رکھنے کا حق ادا کرتا ہے، وہ عید کی حقیقی خوشیوں کا حقدار ہے۔ اللہ نے ہمیں رمضان کی صورت میں ریفریشرکورس کروا کر ہم پر احسان کیا۔ اور رمضان کے روزے رکھنے کی توفیق دی اور عید الفطر کی شکل میں ہمیں خوشی کا دن نصیب کیا۔
ہم نے اگر عید کا مقصد فقط نئے کپڑے پہننا، ملنا جلنا، عیاشی کرنا، فضول خرچی کرنا اور آوارہ گردی کرنا بنا لیا ہےتو یہ مسلمانوں کی عید الفطر نہیں بلکہ غیر مسلموں جیسا کوئی تہوار ہوگا۔ جس طرح غیر مسلموں کے ہاں عید کو محض دُنیاوی لذتوں کا حصول ا ور اس دن اپنے آپ کو تمام اخلاقی اور مذہبی پابندیوں سے آزاد سمجھنا ہوتا ہے۔
نبی کریم ﷺ نے ایک مناسب حد تک عید کے دن خوشی کے اظہار کی بھی اجازت دی ہے بشرطیکہ اس میں کسی گناہ کا ارتکاب نہ ہو۔ بخاری شریف کی ایک حدیث کا مفہوم ہے۔ حضرت عائشہkفرماتی ہیں کہ ان کے پاس عید کے دن انصار کی بچیاں دف بجا کر کچھ اشعار گا رہی تھیں کہ نبی اکرم ﷺ تشریف لے آئے لیکن آپؐ نے انہیں منع نہیں فرمایا۔ تھوڑی دیر کے بعد حضرت ابوبکرصدیق ؓ تشریف لائے اور انہوں نے ان بچیوں کو منع کیا تو آپؐ نے فرمایا،اے ابوبکرؓ انہیں گانے دو، ہر قوم کی ایک عید کا دن ہوتا ہے اور آج ہماری عید ہے۔ اس طرح عید کے دن کچھ حبشی ڈھالوں اور برچھیوں سے کھیل رہے تھے، تو میں نے رسول اللہ ﷺسے درخواست کی، یا آپ ؐنے خود فرمایا کیا تو تماشا دیکھنا چاہتی ہے؟ تو میں نے کہا ہاں! تو آپؐنے مجھے اپنے پیچھے کھڑا کیا میرا مُنہ آپ ﷺکے کان مبارک کے قریب تھا، آپؐنے فرمایا کہ اے بنی ارفدہ (حبشیوں کا لقب)! کھیلو کھیلو، یہاں تک کہ جب میں اُکتا گئی تو آپؐنے فرمایا بس؟ تو میں نے کہا جی ہاں! آپؐ نے فرمایا تو چلی جا۔‘‘
اگر ہم عید کے دن اپنا احتساب کریں تو معلوم ہوگا کہ ہم میں سے اکثر نوجوان عید کے دن ایسی سرگرمیوں میں مشغول ہوتے ہیں گویا رمضان المبارک کے خاتمے پر انہوں نے سکھ کا سانس لیا ہے۔ اور غیر مسلموں کو یہ دکھاتے ہیں گویا ہم رمضان المبارک کی قید سے آزاد ہوگئے ہیں۔ حقیقی مسلمان تو رمضان المبارک کے خاتمہ پر افسوس کا اظہار کرتا ہے کہ آج وہ ماہِ مبارک اختتام پذیر ہوا جس میں اللہ تعالیٰ کی رحمتیں برستی تھیں۔ ایک نیکی کا ثواب سات سو گنا تک عطا ہوتا تھا۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ رمضان المبارک کے بعد بھی گیارہ مہینے اپنے ان معمولات کو جاری رکھیں اور اپنے پروردگار کوراضی رکھیں۔
عید کے دن نبی کریمﷺ کی دعا
’’اے اللہ! ہم آپ سے پاک صاف زندگی اور ایسی ہی عمدہ موت طلب کرتے ہیں۔ خدایا ہمارا لوٹنا (عید کی نماز سے) رسوائی اور فضیحتی کانہ ہو۔ خدایا ہمیں اچانک ہلاک نہ کرنا اور نہ اچانک پکڑنا اور نہ ایسا کرنا کہ ہم حق ادا کرنے اور وصیت کرنے سے بھی رہ جائیں۔ خدایا!ہم تجھ سے حرام اور سوال سے بچنے ، غنا، بقا، ہدایت اور دین و دنیا میں انجام کی بہتری طلب کرتے ہیں اور ہم تیری پناہ چاہتے ہیں، شک سے، نفاق سے یعنی انتشار اور جدا جدا ہونے سے، دین کے کاموں میں ریاکاری اور دکھاوے سے۔ اے دلوں کو پھیرنے والے ہمارے دل ہدایت کے بعد ٹیڑھے نہ کرنا اور ہمیں اپنی خاص رحمت عطا فرمانا، بے شک تو بہت کچھ دینے والا ہے۔‘‘ (رواہ طبرانی)