فلسطین! فلسطین!
عامرہ احسان
فلسطین اکتوبر 2023 ء سے مارچ 2025 ء تک قیامتوں سے گزرا۔ درمیان میں چند دن جنگ بندی کے گزار کر 18 مارچ سے اسرائیل اور امریکہ نے تمام بین الاقوامی جنگوں، ہلاکتوں، سفاکیوں کا ریکارڈ توڑ دیا۔ امریکہ اپنے تمام نئے ایجاد کردہ ہتھیار، AI (مصنوعی ذہانت) آزما کر دیوانگی کی ہر حد پار کر چکا۔ ہاتھ اسرائیل کے ہیں اور ہلاکت خیزامریکی اسلحہ خوفناک مناظر دنیا کو دکھا رہا ہے۔ پوری دنیا سے حکمر ان زنانہ ’ہائے، اوئی، اف اللہ، ایسے تو نہ کرو شرارتی اسرائیل‘ نوعیت کی ڈپٹیاں لگاتے اور پھر ’ٹیرف‘ (امریکی معاشی تجارتی تماشا) سے نمٹنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔
فلسطین میں رفح پورا تباہ کر کے غزہ سے کاٹ کر 1948ء، 1967ء کی جغرافیائی حیثیت پر اسے اسرائیل کے ساتھ ملا رہا ہے۔ 27 مارچ کو امریکی ہولو کاسٹ میموریل کونسل کے ممبر مارٹن اولا ئیز (جسے ٹرمپ نے یہ ذمہ داری سونپی ہے) نے کہا: شاید ہمیں غزہ میں مزید شہری قتل کرنے کی ضرورت ہے۔ امریکہ سے سبق سیکھو، کس طرح اُس نے جاپان پر ایٹم بم گرایا۔ ہمیں سیدھی صاف بات کرنی چاہیے کہ غزہ کے لوگ مجموعی طور پر خود قصور وار ہیں۔ وہ بنیادی طور پر بد، کھوٹے، خراب ہیں اور انھیں اس کی قیمت ادا کرنی چاہیے۔ ’یروشلم پوسٹ‘ پر یکم فروری کو شائع پوسٹ میں دو معصوم ترین اجڑے بچے، ایک کی گود میں اپنا واحد سرمایہ بلی کا بچہ اور ساتھ کھڑی ننھی بہن ہے تینوں، بد، کھوٹے افراد اور بلونگڑا بھی! یہ ہیں جن کا صفحۂ ہستی سے مٹایا جانا اسرائیلی اور امریکی اعلیٰ اخلاق و کردار کے مجسموں کو محفوظ تر کر دے گا!
70 فی صد ایسے قتل کر دئیے جانے والے عورتیں اور بچے ہیں۔ یہ جنونی انسانیت دشمنی، گلی سڑی بدبودار نسل پرستی ہے فلسطین کے خلاف۔ انتہا کیا ہے؟ دھماکے کی وہ شدت جس سے بستر پر پڑی حاملہ عورت کا پیٹ پھٹا اور بچہ اچھل کردور جاپڑا۔ دھماکوں کی شدت، کالے سیاہ دھوئیں کے ساتھ اُڑتی دو لاشیں جو سیاہ آسمان تک اڑ کر واپس دھوئیں کے بادلوں میں جاگریں۔ لرزتے کیمرے سے تصویر لیتی کی چیخ اور سسکیاں نمایاں۔ طبی عملہ،15 ارکان اور ایمبولینسوں سمیت دنیا بھر میں پھیلے جنگی قوانین کے اداروں سے ماوراء (یہ سب یوں تو افغانستان میں بھی ہوا مگر وہ بے چارے دیسی، دیہاتی ملاّ ’دہشت گرد‘ تھے!) مار ڈالے، اجتماعی قبر میں دبا دئیے۔ مگر!
جو چپ رہے گی زبانِ خنجر لہو پکارے گا آستیں کا
سولہو چیخ اُٹھا۔ راز کھل گئے۔جوں کسی کان پر پھر بھی نہ رینگی۔ کچھ بیانات، پوسٹیں اور ٹائیں ٹائیں فش۔ صحافیوں کے ٹینٹ (یہ بھی جنگی قواعد میں تحفظ پاتے ہیں، مگر امریکہ، اسرائیل مکمل مستثنیٰ !) پر بم مار کر آگ بھڑکا دی۔ زندہ جلا دئیے۔
یہ منظر جس میں ننھا پھول بچہ گرتی عمارت کے ملبے تلے دبنے والا تھا۔ کتے نے لپک کر اُسے منہ میں پکڑا کھینچ کر نکال لیا۔ اولائیز! کتے تیتوں اُتے! بلکہ ہم سبھی زبانی جمع خرچ والوں سے زیادہ دردمند۔ بھوک، فاقے؟ کنٹینر خوراک سے لَدے کھڑے ہیں، اسرائیل امریکہ کی اجازت نہیں، مصر، اردن غلام ہیں۔ سو لوگ بھوک کی آخری حدپرمضطر ،پوچھ رہے ہیں فتویٰ …کیا ایسے میں ہم بلی کھا سکتے ہیں؟ قرب وجوار میں اماراتی سفیر رمضان میں اسرائیلیوں کے ساتھ لا منتہا ڈشوں کی افطاری اُڑا ر ہا تھا۔ ویڈیوز جاری ہو کر زخموں پر نمک چھڑک رہی تھیں۔ قیامتوںمیںسے ایک عورت چلائی: وامعتصماہ! ہائے معتصم باللہ! تم کہاں ہو اس وقت …کی پوری کہانی ہماری سنہری تاریخ سے روشن ہو گئی۔
عباسی خلیفہ معتصم باللہ دربار میں تھا کہ ایک شخص آیا اور کہنے لگا …’اے امیر المومنین!میں عموریہ سے آرہا ہوں۔ وہاں میں نے عجب معاملہ دیکھا۔ ایک موٹے سے عیسائی شخص نے مسلمان باندی کو کھینچ کر تھپڑ دے مارا۔ باندی نے بے چارگی سے آپ کو آواز دی: اے خلیفہ معتصم! تم اِس وقت کہاں ہو۔ عیسائی نے سنا، استہزائیہ ہنسا: تم معتصم کو پکار رہی ہو وہ تمھیں کیونکر جواب دے گا؟ کیا وہ تمھاری مدد کو تیز ترین گھوڑے پر چڑھ کر آئے گا؟ عورت کو پکڑا اور دوسرے گال پر بھی تھپڑ جڑ دیا‘۔ معتصم باللہ کا چہرہ غصے سے تپ اُٹھا۔ پوچھا عمور یہ کسی طرف ہے۔ جواب پا کر اسی طرف منہ کرکے پکارا: لبیک! مسلم خاتون ( اگر چہ باندی، مسکین غریب مگر مسلم تھی) میں نے تمھاری پُکار سن لی ہے۔ معتصم اُس کا جواب دے گا۔ اسی لمحے 12 ہزار تیز ترین گھوڑے، (طیارے، ڈرون نہ تھے!) فوج لیے لپکا صرف ایک باندی پر ہاتھ اُٹھانے کی جرات کا جواب دینے کو! قصہ مختصر محاصرہ کیا، شہر فتح کرکے وہ مجرم تلاش کیا جس نے مارا تھا۔ ’عین اسی جگہ لے چلو جہاں تم نے مارا تھا‘۔ مسلم باندی کو بھی بلوا کر وہیں کھڑا کر کے پوچھا۔ اے خاتون! معتصم تمھاری مدد کو آیا؟ اثبات میں حیرت زدہ مسلمہ نے سر ہلایا۔ اور پھر سب نے بچشم سر دیکھا کہ باندی کو حکم ہوا ویسا ہی تھپڑ اِسے مارو جیسا اِس نے مارا تھا۔ یہ ماضی کے عرب تھے۔ آج ہم صرف 2 ارب ہیں۔ اور اب غم سے گھلنے والے انھیں ’حمارات‘ کہنے لگے ہیں! یہ مسلمان عورت پر صرف ہاتھ اُٹھانے کا بدلہ دیا رومیوں کو۔ آج رومی شہر پر شہر، ملکوں پر ملک اجاڑا گئے، ادھر سوال صرف اتنا ہے: الیس منکم رجل رشید کوئی ایک…؟ کوئی ایک بھی بھلا آدمی نہیں۔ پورا غزہ اجڑ چکا۔ آبادیاں رُل رُل کر ختم ہونے کو آگئیں تو فتویٰ ٔ جہاد بالآخر جاری ہوا۔ قدس اور انبیاء کی سرزمین کے لیے تو یہ 1948 ء ہی سے لاگو تھا! مگر اسے بھی پیغامِ پاکستان، اردن، مصر…کی رعایت سے صرف ریاست ہی کی ذمہ داری قرار دیا۔ ریاستیں؟ السیسی کی حکمرانی یا نام بہ نام سبھی کو لے لیجیے۔ حتیٰ کہ کویتی شیخ نبیل العوضی نے ٹی وی پر عبداللہ بن ابی، رئیس المنافقین کے کچھ حوالے دے کر مسلمانوں، حکمرانوں کو آئینہ دکھا دیا تو ان کی شہریت منسوخ کردی گئی!مبارک ہو شیخ، پہلے بھی باذن اللہ منسوخ زمینی شہریتوں کے عوض ایک شیخ جنتی شہریت پا چکے!
ابو عبیدہ، شیرِ حماس نے تو اکتوبر 2024 ء میں اُمّت کو پکارا تھا۔’ صرف دعاؤں پر اکتفا نہ کرو۔ اپنے قدموں سے دشمن روند ڈالو۔ فلسطین تمھیں پکار رہا ہے۔ عراق، یمن، تیونس، الجزائر، ترکی، غرض ہر مسلم ملک کا نام لے کر پکارا تھا کہ قدس تمھیں پکار رہا ہے۔ مقدس شہر کی نصرت کو نکلو۔‘
مغربی دنیا کے عوام نہایت غیر معمولی غیورردِ عمل ان ڈیڑھ سالوں میں دیتے رہے۔ مسلمانوں کو شرمسار کرنے والا ۔حتیٰ کہ اب بھی برطانوی گورا جسے پولیس مظاہرے سے گرفتار کر رہی ہے، چلا چلا کر کہہ رہا ہے۔ ’ڈرو مت، باہر نکلو! فلسطین کے لیے نکلنا ایک اعزاز اور سعادت ہے! بیس ہزار بچے مار دئیے۔ (حالانکہ وہ خود بچےپیدا نہیں کرتے، ہمارے بچوں کے لیے اتنے حساس؟ زندہ باد! اللہ ایمان عطا فر مائے!) ڈرومت ۔ فلسطین کی آزادی تک نکلتے رہو‘۔ ادھر غزہ کا ایک لڑکا نو عمر…ملبے سے بچوں کی چھوٹی چھوٹی ہڈیاں اکٹھی کرتا، انھیں ایک کاغذ میں محبت سے لپیٹ کر مٹی ہٹا کر اس میں دفن کر دیتا ہے۔ دل کا عالم کیا ہوگا؟ یہ ننھے بچوں کی ہڈیاں نہیں غزہ میں دفن ہوتی غیرتِ مسلم ہے!
اہل ِمغرب کی قربانیاں لائق ستائش و دعا ہیں کہ اللہ انھیں ایمان سے مالا مال کرے۔ اب کہیں جاکر پاکستان، بنگلہ دیش، ترکی و دیگر مسلم ممالک میں بڑے بڑے قابل ِذکر جلوس نکلے ہیں۔ مگر جان لیجیے۔ یہ جمہوری تماشے ہیں۔ ڈیڑھ سال دنیا کا ہر حربہ مغربی نوجوانوں نے تہذیب اور جمہوریت کے دائرے میں رہ کراستعمال کر دیکھا۔ آج غزہ ختم ہو رہا ہے خدانخواستہ! علاج اس کا وہی آبِ نشاط انگیز ہے ساقی! جامِ شہادت کا ذوق! غزہ آج بھی فاتح ہے۔ اسرائیل ناکام، امریکہ در بدر خاک بسر! ملک میں افراتفری۔ عالمی ساکھ دونوں کی تباہ۔
اسرائیل میںجنگ کے خلاف بھرپور مظاہروں کے ساتھ ساتھ افواج اور اداروں کے اندر سے لاوہ پھٹ رہا ہے۔ ایک ہزار ایئر فورس کے پائلٹوں کے دستخط شدہ کھلے خط کے بعد، جس کی میڈیا میں بہت تشہیر ہوئی، ایسی درخواستوں کا سلسلہ بڑھتا چلاجا رہا ہے۔معطلی کی دہمکیوں سے بے خوف ہزاروں دستخط کر چکے ہیں۔ جس میںآرمرڈ کور، نیوی، فوجی ڈاکٹر ، گریجو ئٹ کیڈٹ، تعلیمی ماہرین، جاسوسی اداروں کے ممبران ،دیگر یونٹوں اور ایلیٹ فورس والے بھی شامل ہیں۔ انہوں نے جنگ کے فوری خاتمے اور یر غمالیوں کی واپسی کا تقاضا کیا ہے اپنے دستخطوں کے ساتھ۔بعض درخواستوں میںاس جنگ کو غیر ذمہ دارانہ، بلا جواز قرار دیا کہ فوجیوں کی جانیں، معصوم فلسطینیوں کی جانیں گنوائیں۔ فوجی مرنے والوں کی بڑھتی تعداد پر شدید تنقید کی۔ سبھی اسے نیتن یاہو کی اپنی حکومت بچانے کی جنگ قرار دے رہے ہیں! اسرائیلی تاریخ کا یہ بدترین اندرونی انتشار ہے !یہ ہے جمہوریت کا اصل چہرہ جو بھیانک تر ہوا جا رہا ہے! ایسے میں مسلم نوجوان اپنی ذمہ داری پہچانیں!
ہو تری خاک کے ہر ذرے سے تعمیرِ حرم
دل کو بیگانۂ اندازِ کلیسائی کر