اہل ِ غزہ کی پکار اور ہمارا کردار
شجاع الدین شیخ ، امیر تنظیم اسلامی پاکستان
{وَمَا لَــکُمْ لَا تُـقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَآئِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَـقُوْلُوْنَ رَبَّــنَــآ اَخْرِجْنَا مِنْ ہٰذِہِ الْقَرْیَۃِ الظَّالِمِ اَہْلُہَاج وَاجْعَلْ لَّــنَا مِنْ لَّـدُنْکَ وَلِــیًّاج وَّاجْعَلْ لَّــنَا مِنْ لَّدُنْکَ نَصِیْرًا(75)} (النساء)’’اور تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم قتال نہیں کرتے اللہ کی راہ میں‘اور ان بے بس مردوں‘ عورتوں اور بچوں کی خاطر جو مغلوب بنا دئیے گئے ہیں‘جو دُعا کر رہے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار‘ ہمیں نکال اِس بستی سے جس کے رہنے والے لوگ ظالم ہیں۔اور ہمارے لیے اپنے پاس سے کوئی حمایتی بنا دے‘ اور ہمارے لیے خاص اپنے فضل سے کوئی مددگار بھیج دے۔‘‘
’’ فلسطین اور اُمّت مسلمہ کی ذِمّہ داری‘‘ جیسے موضوع پر غور و فکر کرنے اور کوئی اجتماعی لائحہ عمل طے کرنے کے لیے آج ہم یہاں اکٹھے ہوئے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ یہ انتہائی دقیق ، تفصیل طلب اور کثیر الجہتی موضوع ہے۔
اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی توفیق سے اس اہم ترین معاملے پر چند باتیں انتہائی مختصر انداز میں آپ کی خدمت میں پیش کرنا مقصود ہے :
ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل کی 77 سالہ تاریخ فلسطینی مسلمانوں کے قتل ِ عام، نسل کشی اور درندگی و بہیمیت سے لَت پَت ہے۔ جبکہ مسلمانوں کے نزدیک اِس خطہ کی اہمیت کیا ہے ؟اہل علم سے پوشیدہ نہیں اور اِس کی وضاحت کی احتیاج نہیں ۔
اسرائیل کے اہداف :
آخر یہود جو فلسطین پر ناجائز قبضہ جما کر بیٹھے ہوئے ہیں؟ وہ کیوں غزہ میں قتل و غارت کر رہے ہیں؟ حقیقت میں اُن کا ہدف صرف غزہ ہے ہی نہیں بلکہ لبنان، شام، عراق، اردن ،مصرکا ڈیلٹا اور مدینہ تک سعودی عرب کا شمالی حصہ بھی ان کا ہدف ہے ۔وہ اس پورے علاقہ میں گریٹراسرائیل قائم کرنا چاہتے ہیں جیسا کہ نیتن یا ہو نے ایک حالیہ بیان میں کہا ہے کہ اُن کے پیشِ نظر پورے مشرقِ وسطیٰ کے نقشہ کو تبدیل کرنا ہے۔
آپ حضرات کو بخوبی معلوم ہے کہ یہود تحریف شدہ ’’تورات ‘‘اور’’تالمود ‘‘کی تعلیمات کی بنیاد پر اپنے مسایاح کا انتظار کر رہے ہیں، جو اصل میں حضور اکرمﷺ کی حدیث کے مطابق دجال ہوگا۔گویا یہود کے نزدیک ’’مسایاح‘‘ (جو درحقیقت دجال ہوگا)نے ابھی آنا ہے ، اس دجّال کی عالمی حکومت قائم کرانے کے لیے یہود کا ایجنڈا درج ذیل ہے:
1) آرمیگا ڈان یعنی ’’اَلمَلحَمَۃُ العُظمیٰ ‘‘ایک بڑی جنگ برپا کرنا
2) اس کے نتیجہ میں گریٹر اسرائیل کا قیام
3) مسجد اقصیٰ اور قُبَۃ الصَخرَہ (گنبدِ سنگ The Dome of Rock) کو منہدم کر کے ان کی جگہThird Temple تعمیر کرنا۔
4) اس تھرڈ ٹیمپل (Third Temple) میں تختِ داؤدی لا کر رکھنا اور اس پر دجّال کی تاج پوشی کرنا۔
اس پس ِمنظر میں غزہ کی صورتحال آپ سب کے سامنے ہے۔
اسرائیل اور پاکستان:
اسرائیل گریٹر اسرائیل کے قیام میں اپنے راستے کی رکاوٹ صرف پاکستان کو سمجھتا ہے جیسا کہ بن گوریان 1967ء میں پیرس میں ایک تقریب میں اس بات کا اظہار بھی کر چکا ہے۔
تمام عرب ممالک اُس کے زیرِنگیں آ چکے ہیں، کچھ کو امریکہ و اسرائیل مل کر تباہ کر چکے، باقی رہے سہےایک ایک کر کے ’’طَوْعًا وَ کَرْهًا‘‘ اس کے ساتھ تعلقات بڑھا رہے ہیں۔کچھ سفارتی سطح پر اُسے تسلیم کر چکے ہیں اور کچھ تسلیم کرنے کے لیے تیار بیٹھےہیں۔ ان کو بخوبی معلوم ہے کہ ایٹمی صلاحیت رکھنے والا پاکستان( جو قائم ہی اسلام کے نام پر ہواہے) اور خراسان سے کالے جھنڈوں والے لشکر نکلیں گے جو امام مہدی ؑکے ساتھ مل کر صہیونی ریاست کا قلع قمع کرنے میں اہم کردار ادا کریں گے۔
بقولِ اقبال؎
میر عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے
میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے
ہم اہلِ پاکستان فلسطین کی موجودہ صورتحال میں کیا کر سکتے ہیں؟
اس سلسلے میں ہماری نظر میں درج ذیل کام کرنا اشد ضروری ہیں:
ہنگامی صورتحال کے پیش نظر اسرائیل کے معاشی بائیکاٹ اور اس کے خلاف عملی و عسکری اقدامات کے لیے بھر پور کو ششوں کی ضرورت ہے ۔ تمام اکابرینِ دین اور عمائدین ِملت صرف ون پوائنٹ ایجنڈا ’’غزہ بچاؤ‘‘ کے لیے باہم مل کر ایک متفقہ فورم بنائیں ۔ ہماری نگا ہ میں درج ذیل اقدامات ملکی اور امت کی سطح پر مفید ہوں گے۔ان شاء اللہ تعالیٰ :
1) پاکستان میں تمام مساجد میں نمازوں میں دعاؤں خصوصاًقنوتِ نازلہ کا اہتمام کیا جائے، اور اللہ تعالیٰ سے اس یہودی فتنہ کے خاتمہ کے لیے خاص طور پر دعا کی جائے۔
2) اسرائیل کے ناپاک عزائم، اُمّت ِمسلمہ کا مستقبل اور اس پس منظر میں خاص طور پر پاکستان کو درپیش خطرات سے عمومی آگاہی خطابات جمعہ، خصوصی اجتماعات اور سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز پر دی جائے۔(سوشل میڈیا فورمز کو خصوصی اہمیت دی جائے۔)
3) تمام مکاتب فکرکے علماء کی جانب سے جہاد کا ایک متفقہ فتویٰ جاری ہونا چاہیے اور عالمی سطح پربھی اِس نوع کا فتویٰ حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔ یعنی اسرائیل کے خلاف عسکری و معاشی (جانی و مالی) جہاد حکومتی سطح نیز فرداً فرداً ہر مسلمان پر حسب ِاستطاعت فرض ہے۔
4) تمام اکابرین اور عمائدینِ ملت کا ایک وفد صدرِ پاکستان، وزیر اعظم ، آرمی چیف، سینیٹ کے چیئرمین، اور قومی و صوبائی اسمبلیوں کے اسپیکر حضرات سے بھی ملاقات کرکے اُن کے سامنے اپنا موقف رکھے کہ پاکستان کو غزہ کے معاملے پر ایک سخت اور واضح موقف اختیار کرنا چاہیے۔ نیزحکومت پاکستان دوسرے ممالک کی حکومتوں اور مقتدر طبقات سے رابطہ کر کے اِس بات کو آگے بڑھائے۔ اس ضمن میں مسلمانوں کے دینی مرکزمکّہ مکرمہ میں کوئی اجلاس / کانفرنس بلا کر متفقہ طور پر لائحہ عمل طے کیا جائے تو ان شاءاللہ اس کے زیادہ بہتر اثرات ہوں گے۔
5) حکومتِ پاکستان پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ اسرائیلی سہولت کار کمپنیوں کی مصنوعات کا معاشی بائیکاٹ کرے۔ ان مصنوعات کی درآمد بند کی جائےاوراسرائیل نواز کمپنیوں کے کاروبار بند اور ان کے کاروباری لائسنس منسوخ کیے جائیں۔(بلاشبہ معاشی بائیکاٹ نے ان کمپنیوں کو متاثر کیا ہے اور وہ اس کا توڑ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لہٰذا اس کام کو آگے بڑھانےکی ضرورت ہے )۔
6) تمام اکابرین اور عمائدین ِملت کا ایک نمائندہ وفد مسلمان ممالک کے سفراء سے ملاقات کرے اور اُن کے سامنے درج ذیل نکات رکھے جائیں:
i. اسلامی برادری کی رشتہ کی بنیاد پر مظلوم مسلمانوں کی داد رسی کے لیے عملی اقدامات ہماری دینی ذِمّہ داری ہے۔
ii. تمام مسلم ممالک UNO کا دوہرا اورمنافقانہ معیاراجاگر کریں جس نے اپنے آپ کو امریکہ کی کنیز ثابت کردیا ہے اور اس سے علیحدگی اختیار کرنے کا اعلان کریں۔
iii. اس ضمن میں ہمیں OIC کو فعال کرنے کی ضرورت ہے۔ علاوہ ازیں 34 ممالک کی مشترکہ فوج جس کے سربراہ ہمارے سابقہ آرمی چیف ہیں، اس کو بھی OIC کے تحت فعال کیا جائےکیونکہ مسلمانان فلسطین کی مدد اور مسجد اقصیٰ کی حفاظت کے لیے عسکری ا قدامات بھی OIC کے چارٹر کا حصّہ ہے۔
iv. مسلم ممالک کو باہم مل کرآپس میں ایک مشترکہ اقتصادی ، دفاعی اور اقدامی معاہدہ کرنا چاہیےجس میں پاکستان کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے۔مسلم ممالک اندرونی طور پرخاصی حد تک خود کفیل ہیں ۔اگر وہ باہم تعاون کریں تو مغربی استعمار اور اس کی معاشی جکڑ بندی کا بآسانی مقابلہ کرسکتے ہیں۔
v. یہی اقدامات اسرائیل اور مغربی استعماری قوتوں کو مسلمانوں کا استحصال کرنے سے روک سکیں گے۔
7) علماء کرام اور دینی تناظیم ’’ اسرائیلی عزائم اور اُمّت ِمسلمہ کا مستقبل‘‘اور ’’اسرائیل کے قیام کی تاریخ ‘‘کے متعلق نوجوانوں اور بچوں کو آگاہی دینے کا اہتمام کریں ۔
8) طلبہ میں جوشِ جہاد اور شوقِ شہادت پیدا کرنے کے لیے تعلیمی اداروں کے مالکان اور سربراہان کو راغب کیا جائے۔
9) ایسی کمپنیوں کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے جو بالواسطہ یا بلا واسطہ اسرائیل کی مدد کرتی ہیں ،اور جو دکاندار ایسی اشیاء رکھتے ہوں اُن سے خریداری سے اجتناب اور دینی غیرت کے تقاضے کی طرف اُن کو توجہ دلائی جائے۔
10) پاکستانی سرمایہ کاروں کو راغب کیا جائے کہ وہ ایسی مصنوعات کے متبادل مارکیٹ میں لانے کے لیے سرمایہ کاری کریں۔
11) عوام الناس سے غزہ کے مسلمانوں اور تحریک مزاحمت کے لیے مالی امداد کی اپیل کی جائے۔
12) فلسطین کے مسلمانوں پر بے انتہا ظلم و ستم کے خلاف ہمیں اجتماعی سطح پر بڑے پیمانے پر مظاہرے کرنے چاہئیں تاکہ پوری دنیا کو معلوم ہو سکے کہ مسلمان متحد ہیں اور ایک دوسرے کے درد کو محسوس کرتے ہیں۔ نیز یہ مسلمانانِ فلسطین کی بھی دل جوئی اور ہمت بڑھانے کا باعث ہوگا۔
13) اللہ کے دین کے غلبے کے لیے جدوجہد جاری رکھی جائے۔پاکستان نہ صرف عطیۂ خدا وندی ہے بلکہ بقول ڈاکٹر اسرار احمد مرحومؒ اسرائیل کے توڑ ہی کے لیے وجود میں آیا ہے ۔دونوں ممالک ایک نظریہ کی بنیاد پر وجود میں آئے ہیں اور شاید اسی لیےاللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے ہمیں ایٹمی صلاحیت سے بھی نوازا ہے۔تاہم ہنود و یہود کے خلاف بھی ہم تبھی ڈٹ کر کھڑے ہوسکتے ہیں جبکہ ایک طرف تو ہم سب آپس میں متحد و متفق ہوں ، ملک میں بھائی چارہ کی فضا قائم ہو ، آپس کی نفرتیں ختم ہوں اور دوسری طرف نظریہ ٔپاکستان ’’ایک ہو ںمسلم حرم کی پاسبانی کے لیے‘‘ کو عملی تعبیر دے کر اسلام کو نافذ و غالب کرنے کی جدوجہد کریں۔ پچھلے 77سال سے ہم نے اس سے جو غفلت برتی اور نفرتوں کے بیج بوئے، اُن پر صدق ِ دل سے انفرادی و اجتماعی توبہ کریں اور اللہ کی طرف واپس پلٹیں۔ جس طرح عالم کفر مسلمانوں کے مقابلے میں ’’الکفر ملۃ واحدہ ‘‘بنا ہوا ہے اسی طرح ’’الْمُؤْمِنَ لِلْمُؤْمِنِ كَالْبُنْيَانِ يَشُدُّ بَعْضُهُ بَعْضًا‘‘کے مصداق جسد ِ واحد بن کر اورمل جل کر دشمنوں کی سازشوں کا مقابلہ کیا جائے۔ تاہم ہماری اور عالم اسلام کی کامیابی مشروط ہے دین کے غلبہ کے لیے جدوجہد کے ساتھ بفحوائے الفاظ ِقرآنی : { اِنْ تَنْصُرُوا اللہَ یَنْصُرْکُمْ وَیُثَبِّتْ اَقْدَامَکُمْ(7)} (محمد)
اور اللہ کی مدد یہی ہے کہ ہم اللہ کے دین کو غالب کرنے کی جدوجہد میں اپنا تن،من،دھن لگا دیں تبھی ہم دنیا وآخرت میں سرخرو ہوسکیں گے۔
بہر حال قیامت سے قبل اللہ تعالیٰ کا دین کل روئے زمین پر غالب ہو کر رہے گااور ہنود و یہود اور مشرکین سب مغلوب اور ذلیل وخوار ہوکر رہیں گے۔
ان شاء اللہ تعالیٰ۔جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
{ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ لا وَلَوْکَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ(33)} (التوبہ) ’’وہی تو ہے جس نے بھیجا ہے اپنے رسول ؐ کوالہدیٰ اور دینِ حق دے کر تا کہ غالب کردے اسے کل کے کل دین (نظامِ زندگی) پر‘خواہ یہ مشرکوں کو کتنا ہی ناگوار گزرے۔‘‘
اور جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے بشارت عطا فرمائی ہے:((إِنَّ اللَّهَ زَوَى لِي الْأَرْضَ، فَرَأَيْتُ مَشَارِقَهَا وَمَغَارِبَهَا، وَإِنَّ أُمَّتِي سَيَبْلُغُ مُلْكُهَا مَا زُوِيَ لِي مِنْهَا،)) (سنن ترمذی)
((لَا يَبْقَى عَلَى ظَهْرِ الْأَرْضِ بَيْتُ مَدَرٍ وَلَا وَبَرٍ إِلَّا أَدْخَلَهُ اللَّهُ كلمة الاسلام بعز عَزِيز أَو ذل ذليل إِمَّا يعزهم الله عز وَجل فَيَجْعَلُهُمْ مِنْ أَهْلِهَا أَوْ يُذِلُّهُمْ فَيَدِينُونَ لَهَا ))(رواہ احمد )
اللہ تعالیٰ ہمیں ہدایت پر استقامت عطا فرمائے۔آمین!