ہم پر گھر کی خواتین کا شکریہ ادا کرنا واجب ہے جنہوں نے اپنی ذمہ داری
ادا کر کے گھر کے مردوں کے لیے دن کے روزے اور رات کے
قیام کا معاملہ آسان بنایا۔
میراث کے جو حصے اللہ نے مقرر کر دئیے، وہ اللہ کی حدود ہیں اُنہیں ہر
صورت ادا کرنا ہو گا۔
ٹیکنالوجی کا استعمال حرام نہیں لیکن آج اس کا غالب استعمال غلط
ہو رہا ہے۔(شجاع الدین شیخ)
حجاب کے حوالے سے لوگوں کی باتوں کی بجائے روزِ قیامت
اللہ تعالیٰ کی پکڑ کو مدنظر رکھیں۔
خصوصی پروگرام’’ امیر سے ملاقات‘‘ میں
امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ کے رفقائے تنظیم و احباب کے سوالوں کے جوابات
میزبان :آصف حمید
سوال: رمضان المبارک کا مہینہ گزر گیا، الحمد للہ اور اس مرتبہ تو ایسا لگا کہ بہت ہی تیزی سے گزر گیا۔اس حوالے سے کچھ فرمائیں؟
امیر تنظیم اسلامی: جامع ترمذی کی ایک روایت کا مفہوم ہے کہ قیامت سے قبل وقت اتنی تیزی سے گزرے گا کہ سال مہینے کے برابر، مہینہ ہفتے کے برابر، ہفتہ ایک دن کے برابر، اور ایک دن ایک ساعت کے برابر معلوم ہوگا تو یہ وہی معاملہ معلوم ہوتا ہے (واللہ اعلم!)۔ پھر یہ کہ عید کے موقع پر بعض میسجز موصول ہوتے ہیں جن میں ایک پیغام اہمیت کا حاصل ہے۔ شکریہ ہر ماں کا، ہر بیوی کا، ہر بہن کا جنہوں نے کچن اور گھر کے انتظامی معاملات کو سنبھالا جس سے گھر کے مردوں کو اپنے معمولات انجام دینے میں سہولت ہوئی، روزہ رکھنے میں سہولت، افطار میں سہولت، قیام اللیل اور دورۂ ترجمہ قرآن کی محافل میں وقت لگانے کی سہولت۔ ان تمام کا شکریہ ادا کرنا ہم پر واجب ہے۔ ان کے لیے بشارت بھی ہے۔ ایک سفر کا معاملہ تھا جس میں اللہ کے رسول ﷺ کے پاس کچھ لوگ آئے جو جہاد کے سفر سے واپس آئے تھے، تو ان کے اجر و ثواب کو بہت سے لوگوں نے بیان کیا۔ تو حضور ﷺ نے فرمایا جس کا مفہوم ہے کہ ان کے گھوڑوں کو پانی جس نے پلایا تھا، جس نے انہیں کھلایا تھا، ان کے گھوڑوں کی رکھوالی جس نے کی تو جتنا اجر جہاد میں عملاً شریک ہونے والوں کا ہے اتنا ہی اجر ان کے لیےبھی ہے جو اُن کی سواریوں کو سہولت فراہم کر رہے تھے۔
سوال: ڈاکٹر اسرار احمد ؒ کے نام سے بہت سے چینلزسوشل میڈیا پر چل رہے ہیں جو آفیشل نہیں ہیں۔ لیکن اِن میں ڈاکٹر صاحبؒ کا کنٹینٹ استعمال ہو رہا ہے اور بعض اوقات یہ دیکھا گیا ہے کہ یہ اصلی نہیںہوتا بلکہ کچھ ویڈیوز تو ایسی بھی سامنے آئی ہیں جن سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اُنہیں اے آئی کے ذریعے بنایا گیا ہے۔ پھر کچھ لوگ ایسی ویڈیوز کاسیاسی فائدہ حاصل کرنے کی بھی کوشش کرتے ہیں ۔ یہ فرمائیں کہ ہمارا اِس حوالے سے طرزِ عمل کیا ہونا چاہیے؟ (محمد عامر ، لاہور)
امیر تنظیم اسلامی: یہ بڑا اہم سوال بھی ہے اور اس سے بڑا مسئلہ بھی ہے۔ہمارے استادبانی تنظیم اسلامی محترم ڈاکٹر اسراراحمدؒ اُس وقت ٹیلی ویژن پر آتے تھے جب اکثر علماء حضرات ٹیلی ویژن کے استعمال کو درست نہیں سمجھتے تھے اور بعض تو حرام تک سمجھتے تھے۔لیکن پھر دور بدلااور اب ٹی وی چھوڑیں سوشل میڈیا کا بھی استعمال شروع کر دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ بھی فضل ہوا کہ اس وقت جو دستیاب ٹیکنالوجی تھی ڈاکٹر صاحبؒ نے اُس کو علی وجہ البصیرت استعمال کیااور اِس کے دلائل سنتِ رسول ﷺ سے بھی دیئے۔ڈاکٹر صاحبؒ نے شریعت کی حدود میں رہتے ہوئے اور جو منکرات میڈیا کے استعمال کی وجہ سے آ جایا کرتے ہیں، ان سے اجتناب کرتےہوئے اُن ذرائع کا استعمال کیا۔ آج جب مختلف مکاتب فکر کے علماء سے ملاقات ہوتی ہے تو وہ اپنے بعض اختلافات کے باوجود اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ڈاکٹر صاحبؒ کو قرآن حکیم کی خدمت، دین کے جامع تصور کو عام کرنے،نظامِ خلافت کے قیام کی جدوجہد کا نعرہ بلند کرنے کی خاص توفیق عطا فرمائی تھی۔ البتہ آج دور سوشل میڈیا کا ہے اور سوشل میڈیا پر دجل جس سے لفظ دجال بھی نکلا ہے یعنی دجل بمعنی دھوکہ، فریب، اُس کا معاملہ بہت زیادہ ہے۔ حالیہ ماہِ رمضان میں بھی اور اس سے قبل بھی چند ویڈیوز ہمارے نگاہوں سے گزریں جن کو دیکھتے ہی معلوم ہو جاتا تھا کہ اصل نہیں ہیں۔ جب مجھ جیسا بندہ جو آئی ٹی کا ماہر نہیں اور اے آئی کی گہرائی کو نہیں سمجھتا وہ بھی آپ کو بتا دےکہ فلاں ویڈیو صریحاً جھوٹ ہے یعنی ڈاکٹر اسرار صاحبؒ کو اور ایک دوسری مرحوم شخصیت حکیم سعید صاحب کو پیش کیا گیا ہے اور دونوں کے ساتھ ایک اہم شخصیت بھی ہے تو دھوکہ بھی سمجھ میں آگیا اور یہ بھی واضح ہوگیا کہ ویڈیو جھوٹ پر مبنی ہے۔ لیکن یہ بات صرف ڈاکٹر اسرارؒ صاحب تک محدود نہیں رہے گی اور صرف اہلِ دین تک محدود نہیں رہے گی بلکہ سیاست دان،حکمران، مقتدر طبقے اور سماجی شخصیات بھی نہیں بچیں گی۔ یہ بھی خدشہ ہے کہ ایسا دجل خدانخواستہ گھروں میں داخل ہو جائے گا اور گھر کا بڑا یا دوسرا کوئی فرد بھی اِس سے نہیں بچے گا۔اِس حوالے سے ایک اصولی بات ہمارے سامنے رہے کہ اگرچہ ٹیکنالوجی کا استعمال حرام نہیں لیکن آج اُس کا غالب استعمال غلط ہو رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ حدود کے نفاذ میں علماء نے چار ایسے گواہوں کو پیش کرنے کا حکم دیا ہے جو اُس واقعہ کو بنفس نفیس ہوتا دیکھیں۔ اِس میں ویڈیو اور امیج کی بنیاد پر حد نہیں لگے گی۔ ویڈیو اور امیج کو اضافی شہادت کے طور پر تو استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن بنیادی فیصلہ چار عادل گواہوں کی دی ہوئی گواہی کی بنیاد پر ہی ہوگا۔ایسے معاملات میں فقہاء کی بصیرت پر داد پیش کرنا بنتا ہے۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ اے آئی کے ذریعے جھوٹ پھیلانا، لوگوں کی عزتوں کو اُچھالنا اورایسے دجالی کھلواڑ اور دھوکہ کس قدر آسان ہو چکے ہیں۔ اللہ محفوظ رکھے۔ اگلی بات سوشل میڈیا پر مونیٹائزیشن سے کمائی کا معاملہ ہے۔ مونیٹائزیشن کے بارے میں ہمارا مؤقف واضح ہے کہ یہ انتہائی مشکوک ہے۔ مونیٹائزیشن کے باعث بہت سی خرافات بھی آرہی ہیں جنہیں اپنے سر کیوں لیا جائے۔ پھر پیسہ کمائیں گے تو یہ آمدن کس نوعیت کا کنٹینٹ بنانے اور کہاں سے آئے گی۔ ویڈیو میں اگر صریحاً جھوٹ ہے، تہمت و بہتان ہے اور حقائق کو غلط پیش کیا جا رہا ہے تویہ سب کبیرہ گناہ ہیں جس سے بچنا لازم ہے۔ ہم تو نصح و خیر خواہی کے جذبے سے کہیں گے کہ بھائی ڈاکٹر اسرار صاحبؒ یا کسی اور شخص کی جھوٹی ویڈیوز بنا کر اپنی آخرت کیوں خراب کر رہے ہو؟ لہٰذا اس حوالے سے تو ہمیں بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ دوسری بات یہ ہے، اور مجھے یہ کہنے کی اجازت دیجئے کہ جو لوگ اپنے کسی سیاسی مفاد کے لیے ڈاکٹر صاحبؒ کی ذات کو استعمال کرتے ہیں چاہے حکمران ہوں، مقتدر طبقے ہوں، اپوزیشن ہوں یا عوام اور ڈاکٹر صاحبؒ سے غلط بات منسوب کر کے اپنے مخالف کے خلاف استعمال کرتے ہیں تو اُنہیں خیال رکھنا چاہیے کہ اُن کی ایسی حرکتوں سے نقصان دین کا ہو رہا ہے۔ کیونکہ دنیا ڈاکٹر صاحبؒ کو پاکستان کے علاوہ بھارت، بنگلہ دیشن اور کئی مغربی ممالک میں رہائش پذیر پاکستانی بھی سنتے ہیں، گویا دنیا کی ایک تہائی آبادی جو اُردو بولنے اور سمجھنے پر قادر ہے، اُنہیں دھوکہ دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حالانکہ اُن سب کے سامنے ڈاکٹر صاحبؒ کی ایک حیثیت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اُن سے قران کی خدمت کا کام لیا۔ الحمدللہ! دنیا ایسی شخصیت کی خدمات کو جانتی ہے۔ لہٰذا بعض سوشل میڈیا انفلونسرز نے اُنہیں کمائی کا دھندا اور ذریعہ بنا لیا ہے۔معاذاللہ! یہ وہ شے ہے جس کی ہم شدید مذمت کرتے ہیں۔ ہمیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ ٹیکنالوجی کا استعمال جیسے بڑھ رہا ہےویسے ہی ٹیکنالوجی کا غلط استعمال بھی بہت زیادہ بڑھ رہا ہے۔ ڈاکٹر صاحبؒ کے کلپس کو غلط انداز میں پیش کرنے والے اِس بات کو سمجھیں کہ اگر کوئی ایسی ویڈیو یا ایسا کنٹینٹ ڈاکٹر اسرار صاحبؒ سے محبت کرنے والوں کے سامنے آتا ہے تو یقیناً وہ یہ بات سمجھ جاتے ہیں کہ ڈاکٹر اسرار صاحبؒ ایسا نہیں کہہ سکتے تھے لہٰذا یہ غلط بات اُن کی طرف منسوب کی جا رہی ہے اور ڈاکٹر صاحبؒ کے قائم کردہ دو ادارے انجمن خدام القرآن اور تنظیم اسلامی کی شاخیں ملک بھر میں بلکہ بیرونِ ملک بھی موجود ہیں۔ ایسا غلط کنٹینٹ دیکھ کر اگر کوئی شک پیدا ہو جائے تو خدارا آپ ہم سے رابطہ کیجیے۔ اِن سب پلیٹ فارمز پر بھی ہمارے آفیشل پیجز موجود ہیں اور تنظیم اسلامی و انجمن خدام القرآن کے رابطہ نمبر بھی ہیں۔ ہم رابطہ کرنے والوں کی اصل کنٹینٹ کے حوالے سے راہنمائی کریں گے۔ جعلی ویڈیو چاہے اے آئی کے ذریعہ بنائی گئی ہو یا ڈاکٹر صاحبؒ کی کسی تقریر سے ایک دو جملے نکال کرباقی مکسنگ کے ذریعے دجل پھیلایا گیا ہے تو وہ رابطہ کرنے والوں کو اصل صورتِ حال کے حوالے سے ثبوت فراہم کر دیں گے۔ باقی اپنی سطح پر بھی تنظیم اسلامی اور انجمن خدام القرآن اِن غلط حرکتیں کرنے والوں کے خلاف مناسب کاروائی کرتی ہے۔
میزبان: اس وقت تقریباً ایک لاکھ سے زیادہ ایسے چینلز موجود ہیں جو ڈاکٹر صاحبؒ کا کنٹینٹ استعمال کر رہے ہیں۔ ان میں سے غلط استعمال کرنے والوں میں سے بہت سوں کو تو ہم نے روکا ہے اور یہ معاملہ چلتا رہتا ہے۔ جیسے ہی ایسا کوئی کیس ہمارے علم میں آتا ہے تو ہم قانونی طریقہ کار اختیار کر کے ان کو روکتے ہیں۔ ہمارا مدعایہ ہے کہ آپ بغیر اشتہار کے اور مواد کو تبدیل کیے بغیر ڈاکٹر صاحبؒ کے کلپس کو دین کی خدمت کی نیت سے استعمال کرنا چاہتے ہیں تو ہم آپ کے چیلنز کو نہیں روکیں گے۔ لیکن جب ہمیں یہ معلوم ہوگا کہ وہ اس کو اشتہارات کےاستعمال سے کمانے کا ذریعہ بنا رہے ہیں، تھمب نیل غلط لگا رہے ہیں یا کنٹینٹ کے اندر تبدیلی کر رہے ہیں تو ہم اُن چیلنز کو سٹرائک کرتے ہیں۔
امیرتنظیم اسلامی: یہاں یہ بات بہت اہم ہے کہ جو لوگ ڈاکٹر صاحبؒ کے کنٹینٹ کو استعمال کرکے کمائی کا ذریعہ بناتے ہیں، اُنہیں ہم اِس لیے بھی سٹرائک کرتے ہیں کہ بھائی! ڈاکٹر صاحبؒ نے اپنے خطابات و دروس قرآن کو دین کی خدمت کے لیے دیئے جس سے ہم نے آج تک ایک پیسہ نہیں کمایا، تو آپ کیوں کما رہے ہیں؟ بنیادی طور پر سٹرائک کرنا تو اِس لیے ہے کہ دین کی بات کو غلط انداز میں پیش کر کے بدنام نہ کیا جائے۔ دوسرا یہ کہ ڈاکٹر صاحبؒ نے اپنے دور میں کسی نوعیت کے کنٹینٹ کو کبھی کاپی رائٹ نہیں کرایا کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ دین کا کام پھیلے اور مخلوق خدا کو فائدہ پہنچے۔ ہم نے تو صرف ایک اہتمام کیا ہے کہ ڈاکٹر صاحبؒ کے کنٹینٹ کو بدل کر یا غلط مطلب پہنا کر پیش کرنے سے روکا جائے۔ اِس کے علاوہ آج بھی بہت سے لوگ ہم سے اجازت مانگتے ہیں جن میں سیٹلائٹ چینلز بھی شامل ہیں کہ اُنہیں استعمال کے لیے ڈاکٹر اسرار صاحبؒ کا کنٹینٹ دیا جائے تو ہم درج بالا تمام شرائط کے ساتھ بخوشی ان کو اجازت دیتے ہیں ۔
سوال:آج کے پُرفتن دور میں جب قرآن شریف کو حدیث سے علیحدہ کرنے کی سازش کی جا رہی ہے تاکہ حدیث کی اہمیت کو کم سے کم کیا جا سکے۔جب کہ ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ قرآن شریف اور حدیث پر بحیثیت مجموعی عمل ہی کے ذریعے دین کی ترویج و تبلیغ اور اقامت ہو سکتی ہے۔ ہماری تنظیم قرآن شریف کی ترویج وتبلیغ اور دعوت کے لیے ہر پلیٹ فارم کا بہترین طریقے سے استعمال کر رہی ہے لیکن یہ دیکھا گیا کہ جب حدیث کی ترویج و تبلیغ کی بات آتی ہے تو ہمارے یعنی کہ تنظیم اسلامی کے پاس کوئی ایسا پلیٹ فارم نہیں ہے جہاں سے عام طبقے بالخصوص نوجوانوں کے لیے احادیث مبارکہ کی تعلیم کا بندوبست کیا جا سکے۔کیا یہ وقت نہیں ہے کہ ہم اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم اور دیگر ذرائع سے حدیث مبارکہ کی اہمیت اور اس کی تبلیغ و ترویج کا بندوبست کریں؟ ( محمد عبید یار خان، سعودی عرب)
امیرتنظیم اسلامی: ماشاءاللہ!بڑا اچھا سوال ہے اللہ ان کو جزائے خیر عطا فرمائے ۔تنظیم اسلامی کے پلیٹ فارم سے ہمارا ایک بہت بڑا فورم ماہِ رمضان میں دورۂ ترجمہ قرآن کا ہوتا ہے۔ اس سال مجھے بھی سعادت ملی اور کم و بیش ڈیڑھ سو مقامات پر رفقائے تنظیم کو یہ ذمہ داری ادا کرنے کی اللہ نے توفیق دی۔ بہت سے مقامات جو قرآن کریم میں ہیں جن سےحجتِ حدیث کا ثبوت ملتا ہے ہم اُن کو واضح انداز میں پیش کرتے ہیں۔ بانیٔ محترم ڈاکٹر اسرار صاحبؒ اور تنظیم اسلامی کے اکابرین جن میں سے بعض دنیا سے چلے گئے ہیں وہ بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے۔ ہم بھی ان مقامات کو بڑے اہتمام کے ساتھ پیش کرتے ہیں تاکہ یہ بات واضح رہے کہ دین قرآن جمع سنت و اُسوۂ رسول ﷺکانام ہے۔ تنظیم اسلامی اور ملک بھر میں قائم قرآن اکیڈمیز کے تحت جو رجوع الی القرآن کورسز ہوتے ہیں اُن میں بھی ایک عنوان مطالعہ حدیث کا ہوتا ہے۔ پھر اربعین نووی سمیت منتخب احادیث کا مطالعہ بھی کرایا جاتا ہے۔ بعض مقامات پر ریاض الصالحین جو احادیث کا ایک معروف مجموعہ ہے اُس کا بھی مطالعہ کروایا جاتا ہے۔ بانیٔ تنظیم ڈاکٹر اسرار صاحبؒ نے باقاعدہ خطابات جمعہ میں اربعین نبوی کا مطالعہ کرایا جس کی ویڈیوز اور آڈیوز بھی دستیاب ہیں اور وہ کتابی شکل میں بھی دستیاب ہے۔ اِن سب میں دین کے حوالے سے حجتِ حدیث پر کلام موجود ہے۔ تنظیم اسلامی کے رفقاء بھی اُسرہ کی سطح پر بھی تذکیر بالحدیث کا اہتمام کرتے ہیں۔ عوامی خطابات کے مواقع پر بھی اس کا تذکرہ آتا ہے۔ہمارے ایک بزرگ ساتھی تھے چوہدری رحمت اللہ بٹر صاحبؒ وہ تربیتی کورسز اور دیگر مواقع پر نمازوں کے بعد حدیث کا بیان بھی کیا کرتے تھے۔ اُن کی بیان کی ہوئی احادیث کا مجموعہ بھی شائع ہوچکا ہے۔ اسی طرح خواتین کے لیے بھی بعض مجموعۂ حدیث شائع کیے ہوئے ہیں۔ لہٰذا تنظیم اسلامی و قرآن اکیڈمیز میں یعنی ہمارے لٹریچر، کورسز اور بیانات میں احادیث کا تذکرہ اور ان کا بیان ہوتا ہے۔ البتہ ایک حدیث کا وہ مطالعہ ہوتا ہے جو تفصیل شرح کے ساتھ اور باریک بینی کے ساتھ درسِ نظامی میں کیا جاتا ہےاور وہ ملک بھر کے مدارس میں جاری ہے۔ الحمدللہ!
سوال: ہمارے ہاں بہنوں کو وراثت میں حق دینے کا کوئی تصور موجود نہیں ہے۔ اگر بہنوں نے یہ کہا ہے کہ مجھے وراثت میں حصّہ نہیں چاہیے تو اس روایت کے تحت ہے جو ہمارے ہاں چلی آ رہی ہے۔ اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ ( بختاور، کراچی)
امیرتنظیم اسلامی: وراثت کے بارے میں ایک معاملہ تو یہ ہے کہ اِس کے مسائل انتہائی مشکل ہیں اور ہم بھی جب دورۂ ترجمہ قرآن میں سورۃ النساء کی اُن آیات کا درس دیتے ہیں جن کا تعلق وراثت کے مسائل سے ہے تو سامعین کو یہی کہتے ہیں کہ اِن کی تفاصیل معلوم کرنے کے لیے کسی جید مفتی سے رابطہ کریں۔البتہ درس میں یہ ضرور بتایا جاتا ہے کہ جو اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کے بتائے ہوئے احکام کی پاسداری کرے گا، اُس کے لیے جنت ہے اور جو ان سے روگردانی کرے گا اس کے لیے جہنم ہے۔البتہ میراث کا معاملہ اِس قدر اہم ہے کہ قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ نے اِسے انتہائی تفصیل سے بیان کیا ہے اور اِنہیں حدود اللہ قرار دیا ہے۔ سوال میں دوسری بات یہ تھی کہ بہنیں وراثت میں اپنا حصّہ روایت کے مطابق معاف کر دیتی ہیں تو یہ قرآنی احکامات کی خلاف ورزی اور حرام ہے جس کی احادیث میں بڑی سخت وعیدیں آئی ہیں۔ مشہور حدیث ہے کہ جو کسی کی زمین پر قبضہ کر لے وہ گویا جہنم کے انگارے لے رہا ہے تو اب اگر بہنوں کا حصہ مارا جا رہا ہے، بیٹیوں کا حصہ مارا جا رہا ہے، بیوہ بھاوج کا حصہ مارا جا رہا ہے، یا وراثت سے متعلق قرآن و حدیث کے احکامات میں ذرا برابر بھی کمی بیشی کی جارہی ہے تو یہ سب جہنم کے انگارے ہیں ۔
مختصر یہ کہ میراث کے جو حصے اللہ نے مقرر کر دیئے ہیں وہ اللہ کی حدود ہیں اور اُنہیں ہر صورت ادا کرنا ہوگا۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ اپنے حصے کی ملکیت حاصل کرنے کے بعد بھائی یا بہن خود اپنی مرضی سے کسی دوسرے کوہبہ کر دے۔ اس کا کوئی تعلق میراث سے نہیں ۔ میراث کا معاملہ تو مرنے والے سے ہے جس کے چھوڑے ہوے ترکہ کے حصے اللہ تعالی نے مقرر فرما دیے ہیں۔
سوال: انشورنس کے حوالے سے اسلامی نقطہ نظر کیا ہے؟ (عمران بٹ)
امیرتنظیم اسلامی: تمام علماء کا اتفاق ہے کہ جو انشورنس ہمارے ہاں چل رہی ہے وہ غرر اور دھوکے کی بنیاد پر ہے اور ان کی ساری بنیادسود پر ہے ۔ لہٰذا اس سے بچنا چاہیے۔
سوال:ہماری ایک بہن جو ڈاکٹر ہیں اُن کا لاہور سے سوال ہے کہ میں نیکی کرنا چاہتی ہوں لیکن بعض مصروفیات یا تھکن کی وجہ سے تسلسل برقرار نہیں رہتا چند ہفتوں بعد جوش و خروش کم ہو جاتا ہے۔ کیسے معلوم ہو کہ میری نیکی صحیح ہے اور اس استقامت کو برقرار رکھنے کا کیا طریقہ ہے؟
امیرتنظیم اسلامی: دو تین بہت بنیادی باتیںہیں۔ نمبر ایک اعمال کی قبولیت کے لیے اللہ سے دعا کرنی چاہیے۔ حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ نے ہمیں یہ دعا سکھائی ہے:
ربناتقبل منا انک انت السمیع العلیم۔
دوسری بات یہ ہے کہ اعمال میں حسن پیدا کیا جائے اس کے لیے بھی دعا اللہ کے رسول ﷺ نے سکھائی ہے۔ آپ ﷺ ہر نماز کے بعد یہ دعا پڑھا کرتے تھے:
اللھم اعنی علی ذکرک وشکرک وحسن عبادتک۔
اے اللہ! میری مدد فرما اپنے ذکر کے لیے اور اپنے شکر کے لیے اور اپنی عمدہ عبادت کے لیے۔
اس نوعیت کی عبادت اکیلے آدمی کے لیے بڑی مشکل ہوتی ہے۔ اگر ماحول سازگار میسر آجائے تو بڑی آسانی ہو جاتی ہے۔ کیونکہ ماحول کی برکت سے سبھی لوگوں کے لیے نیکی میں آگے بڑھنا نسبتاً آسان ہو جاتاہے۔ مثلا ایک آفس میں اگر 20لوگ کام کررہے ہیںتو 20 کے 20 ظہر کی نماز میں نظر آ جاتے ہیں۔ اگر چھٹی کا دن ہو تو اور وہ آفس میں نہ ہوں تو بمشکل ایک یا دو نماز کے لیے مسجد جاتے ہیں۔ ڈاکٹر اسرار احمدؒ بھی فرماتے تھے کہ اس دجالی دور میں جہاں نیکیوں پر استقامت مشکل اور برائی کی راہیں کھلی ہوئی ہیں، وہاں ہمیں ’’سوسائٹی ود ان سوسائٹی‘‘ بنانی ہے۔ بقول شاعر؎ اپنی دنیا آپ پیدا کر اگرزندوں میں ہے ۔ رمضان المبارک کے دوران کیونکہ ماحول بنا ہوا تھا لہٰذا نیک اعمال پر استقامت بھی نسبتاً آسان تھی۔ اب رمضان المبارک چلا گیا ہے تو وہ ماحول نہیں ہے۔ لہٰذا ہمیں ایسا ماحول اب خود بنانا ہوگا جس کے لیے بہترین طریقہ یہ ہے کہ کسی دینی اجتماعیت سے جڑیں۔ وہاں سیکھنے سکھانے کا عمل جاری رہتا ہے اور نیکی کےکام کرنے اور برائی کے کاموں سے بچنے کی یاد دہانی بھی ہوتی رہتی ہے۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ دین کے معاملے میں اپنے سے اوپر والوں کو دیکھو اور دنیا کے امور میں اپنے سے نیچے والوں کو دیکھو۔ جب میں دین میں اپنے سے اوپر والے کو دیکھوں گا تو اپنی موجودہ نیکی پر میں مطمئن نہیں ہوں گااور مزید آگے بڑھنے کا شوق بھی پیدا ہوگا۔یہاں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ فرائض و واجبات پر عمل اور حرام و ممنوعات سے بچنا تو ہر حال میں لازم ہے اور یہ دین کی بیس لائن ہے۔یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی امتحان میںپاسنگ مارکس حاصل کر لینا ۔ اس کے بعد جو مزید محنت کرے گا اُسے بہتر اجر ملے گا لیکن یہ بھی واضح رہے کہ ایسی نفلی عبادات میں بہرحال گنجائش موجود ہے کہ کبھی کمی بھی ہو سکتی ہے۔
سوال: حجاب شروع کرنے میں بھی ہچکچاہٹ محسوس ہوتی ہے۔ کئی سالوں سے جاب پر ہوں یہ خیال آتا ہے کہ لوگ کیا کہیں گے اگر اچانک حجاب لیناشروع کر دوں؟
امیرتنظیم اسلامی: ایسے تمام مواقع پر ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ اللہ کیا چاہتا ہے اور قیامت کے دن اس حوالے سے کیا پوچھے گا تو انشاءاللہ اندر سے جواب آئے گا نہیں مجھے یہ کام کرنا ہے۔ لوگوں کی پرواہ کرنے کی بجائے اہمیت اس چیز کی ہوگی کہ جواب اللہ تعالی کودیناہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ جب انہوں نے دینی پروگرام میں امیر تنظیم اسلامی سے سوال کیا ہے تو یقیناً ان کی دین کی طرف رغبت تو موجود ہوگی۔ایسے میں یہ بات تقویت کا باعث ہوگی کہ وہ اکیلی معاشرے میں حجاب نہیں کریں گی بلکہ اس قوم کی ہزاروں بہنیں، بیٹیاں حجاب کر رہی ہیں جن میں ڈاکٹرز بھی ہیں، میڈیکل سٹاف بھی ہیں۔ پھر اسی معاشرے میں ہزاروں کی تعداد میں ایسی خواتین ہیں جو عبایا بھی لیتی ہیں۔ میں تو ان کو سلوٹ کرتا ہوں کہ کراچی کی جون جولائی کی گرمی اور لاہور میں جولائی، اگست کے حبس میں بھی اللہ کی بندیاں اللہ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے حجاب کرتی ہیں، عبایا لیتی ہیں اور نقاب بھی کرتی ہیں۔ ہماری بہن کو تھوڑی سی ہمت پکڑنے کی ضرورت ہے۔ اس کائنات میں سب سے پاکیزہ خواتین وہ ہیں جو رسول اللہ ﷺکے گھرانے میں تھیں۔ حضرت بی بی فاطمۃ الزہراؓ کی چادر اور اُم المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ کے لباس کا تذکرہ بخاری شریف میں آتا ہے۔ ان کو سامنے رکھیں تو معاملات آسان ہو جائیں گے۔ انشاءاللہ!
tanzeemdigitallibrary.com © 2025