اداریہ
رضاء الحق
سود کی نحوست! (1)
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی عبادت کے لیے پیدا فرما کر بطور آزمائش دنیا میں بھیجا تو اس کا رزق و دیگر ضروریاتِ زندگی پیدا کیں اور ان ضروریات و رزق کے حصول اور باہم تبادلے کے جائز طریقے بھی بتائے تاکہ ہر انسان بآسانی اپنا رزق و دیگر ضروریات حاصل کر کے اپنے رب کی بندگی کا حق ادا کر سکے۔ دوسری طرف کاروبار اور باہمی لین دین کے وہ تمام طریقے ممنوع اور حرام قرار دئیے جن کے نتیجے میں وسائل اور ضروریاتِ زندگی پر کسی مخصوص گروہ یا طبقے کی اجارہ داری قائم ہو جائے۔ اگر معاملہ اس کے برعکس ہو جائے تو انسان ظلم وستم اور غربت و افلاس کی چکی میں پس کر اپنی زندگی کے اصل مقصد یعنی عبادتِ رب اور حصولِ رضائے الٰہی سے ہی غافل ہو جاتا ہے۔ ان حرام کردہ طریقوں میں سب سے مکروہ اور گھنائونا طریقہ سود (رِبا) ہے۔
سود انسانیت کے لیے انتہائی مہلک ہے۔ اس سے معاشرہ تباہ ہو جاتا ہے۔ سودی نظام بظاہر جتنا بھی پھلتا پھولتا نظر آئے درحقیقت معیشت کو تباہ کرنے والا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ’’جو مال تم سود پر دیتے ہو تاکہ لوگوں کے مال میں جا کر (تمہارا سرمایہ) بڑھتا رہے وہ اللہ کے ہاں نہیں بڑھتا‘‘ (سورہ روم: آیت39)۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرۃ کی آیت 276 میںیہ فیصلہ سنا دیا کہ بے شک اللہ تعالیٰ سود کو مٹائے گا اور صدقات کو بڑھائے گا۔ اس بات کی مزید وضاحت نبی اکرم ﷺ نے یوں فرمائی کہ ’’سود کا انجام قلت (کمی) ہے، اگرچہ کتنا ہی زیادہ کیوں نہ ہو‘‘ (مسند احمد)۔سود کے لین دین کے بارے میں حتمی اور قطعی حکم سورۃ البقرۃ کی آیات 278 - 279 میں نازل ہوا:’’اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور چھوڑ دو جو کچھ سود میں سے باقی رہ گیا ہے اگر تم مومن ہو۔ پھر اگر نہیں چھوڑتے تو اللہ اور اسکے رسول سے جنگ کے لیے تیار ہو جاؤ اور اگر توبہ کرتے ہو تو تمہارے لیے ہے تمہارا اصل مال، نہ تم کسی پر ظلم کرو اور نہ کوئی تم پر ظلم کرے۔‘‘ سودی نظام کے باعث معاشرے میں غربت کے ساتھ ساتھ بے حیائی، عیاشی اور بدمعاشی کا طوفان برپا ہو جاتا ہے اسی لیے نبی اکرم ﷺ نے ان تینوں برائیوں کا اکٹھے ذکر کیا اور فرمایا: ’’قیامت کے قریب سود خوری، زناکاری اور شراب نوشی پھیل جائے گی‘‘ (طبرانی)۔ اسی طرح نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ’’جس قوم میں سود اور زنا پھیل جائیں، وہ اللہ کے عذاب کی مستحق ہو جاتی ہے‘‘ (مستدرک حاکم)۔حضرت جابرؓ سے مروی ہے:نبی کریمﷺ نے سود کھانے ،سود کھلانے،لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی ہے اور فرمایا: یہ سب گنا ہ میں برابر کے شریک ہیں(مسلم)۔اِس کے علاوہ بھی شناعتِ رِبا کے حوالے سے احادیث کے خزانے میں لاتعداد جواہر موجود ہیں۔
15 جولائی 1948ء کو سٹیٹ بینک آف پاکستان کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم محمدعلی جناح کایہ بیان ریکارڈ کا حصّہ ہے۔ انہوں نے فرمایا (ترجمہ و تلخیص):
’’میں اشتیاق اور دلچسپی سے معلوم کرتا رہوں گا کہ آپ کی ’’مجلسِ تحقیق‘‘ بینکاری کے ایسے طریقے کیونکر وضع کرتی ہے جو معاشرتی اور اقتصادی زندگی کے اسلامی تصورات کے مطابق ہوں۔مغرب کے معاشی نظام نے انسانیت کے لیے لاینحل مسائل پیدا کر دئیے ہیں اور اکثر لوگوں کی یہ رائے ہے کہ مغرب کو اس تباہی سے کوئی معجزہ ہی بچا سکتا ہے۔ مغربی نظام افرادِ انسانی کے مابین انصاف کرنے اور بین الاقوامی میدان میں آویزش اور چپقلش دور کرنے میں ناکام رہا ہے، بلکہ گزشتہ نصف صدی میں ہونے والی دو عظیم جنگوں کی ذمہ داری سراسر مغرب پر عائد ہوتی ہے۔ مغربی دنیا صنعتی قابلیت اور مشینوں کی دولت کے زبردست فوائد رکھنے کے باوجود انسانی تاریخ کے بدترین باطنی بحران میں مبتلا ہے۔اگر ہم نے مغرب کا معاشی نظریہ اور نظام اختیار کیا تو عوام کی پُرسکون خوشحالی حاصل کرنے کے اپنے نصب العین میں ہمیں کوئی مدد نہیں ملے گی۔ اپنی تقدیر ہمیں منفرد انداز میں بنانی پڑے گی۔ ہمیں دنیا کے سامنے ایک مثالی معاشی نظام پیش کرنا ہے جو انسانی مساوات اور معاشرتی انصاف کے سچے اسلامی تصورات پر قائم ہو۔ایسا نظام پیش کر کے گویا ہم مسلمان کی حیثیت میں اپنا فرض سرانجام دیں گے۔ انسانیت کو سچے اور صحیح امن کا پیغام دیں گے۔ صرف ایسا امن ہی انسانیت کو جنگ کی ہولناکی سے بچا سکتا ہے، اور صرف ایسا امن ہی بنی نوع انسان کی خوشی اور خوشحالی کا امین ہو سکتا ہے۔‘‘
جناب قائد کا یہ پالیسی بیان اپنے مفہوم اور مدّعا میں بالکل واضح اور غیرمبہم ہے۔ پاکستان کے مرکزی مالیاتی ادارے کا سنگ بنیاد رکھتے ہوئے اس اصولی مؤقف کا اظہار اس امر کا غماز ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی آئینی تاریخ اور سود کی حرمت کا مسئلہ بالکل آغاز ہی سے پہلو بہ پہلو رہا ہے۔
موجودہ حالات کی بات کریں تو اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان اس وقت اپنی تاریخ کے ایک مشکل اور نازک ترین دور سے گزر رہا ہے۔ ایک طرف اسلام دشمن بیرونی قوتیں پاکستان کی سالمیت کو نقصان پہنچانے کی بھرپور کوشش کر رہی ہیں تو دوسری طرف ملک کے اندر سیاسی اور معاشی بحران، مہنگائی اور لوٹ کھسوٹ، کرپشن اور دہشت گردی نے عوام کا جینا دوبھر کیا ہواہے اور ملک کی معاشی جڑیں مکمل طور پر کھوکھلی ہو چکی ہیں۔ ہم کشکول اُٹھائے IMF اور دیگر ممالک سے بھیک مانگتے پھر رہے ہیں۔ دنیا بھر میں چرچا ہو رہا ہے کہ پاکستان میں سری لنکا بلکہ غزہ جیسے معاشی حالات ہو گئے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ اس سال بھی پاکستان کی آزادی کا 78واں یوم بڑے طمطراق سے منایا جائے گا۔ لیکن کیا یہ ایک تلخ حقیقت نہیں کہ اسلام کے نام پر حاصل کیے جانے والے ملک میں اسلامی نظام کا نفاذ تو کجا، شریعت محمدیﷺ کی علی الاعلان دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں اور ملکی معیشت کو سود سے پاک کرنے کی بجائے ہر سطح پر سودی معیشت کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ گویا ہم نے بحیثیت قوم اللہ اور اُس کے رسولﷺ کے ساتھ جنگ چھیڑ رکھی ہے۔ اسی طرح کئی احادیث مبارکہ جن میں سے بعض کا ذکر پہلے آ چکا، اُن میں سود میں ملوث افراد اور معاشروں کیلئے دنیا و آخرت کی شدید ترین وعیدیں آئی ہیں۔ہم اللہ کا لاکھ شکر ادا کرتےہیں کہ اُس نے ہمیں اُمتِ محمدیﷺ میں پیدا فرمایا اور پھر کم از کم ہدف کی حد تک پاکستان جیسے واحد نظریاتی اور اسلامی ایٹمی ملک سے نوازا۔ جس میں قراردادِ مقاصد منظور کی گئی۔ اگرچہ وطن عزیز میں نظریۂ پاکستان کی تعبیر و تشریح کے اعلیٰ ترین ریاستی ادارہ اسلامی نظریاتی کونسل جو 1973ء کے آئین کے تحت معرضِ وجود میں آیا، اُس سے قبل 1960ء کی دہائی میں اسلامی نظریہ کی مشاورتی کونسل قائم کر دی گئی تھی جس نے ملک سے سودی معیشت کے مکمل خاتمہ پر خاطر خواہ کام بھی کیا۔ لیکن 26 مئی 1980ء کو وفاقی شرعی عدالت کے قیام کے بعد سود کے خلاف باقاعدہ قانونی جدوجہد کا آغاز ہوا۔ آگے بڑھنے سے قبل ضروری ہے کہ2022ء کے فیصلے کا مختصر سا پس منظر بیان کر دیا جائے تاکہ قارئین ماضی کے پورے عدالتی عمل سے بخوبی واقف ہو جائیں۔
28 اپریل 2022ء (بمطابق 26 رمضان المبارک1443ھ) کو وفاقی شرعی عدالت نے اپنے معرکۃ الاراء فیصلے میں مروجہ ہر قسم کے سود(بشمول بنک انٹرسٹ) کو ربا اور حرام مطلق قرار دیا۔عدالت نے قرار دیا کہ ’’سود کو انٹرسٹ (Interest) کہا جائے یا نفع، یا کسی قانون میں اسے کچھ اور کہا گیا ہو، اس کی تمام صورتیں حرمتِ سود کے زمرے میں آتی ہیں۔ قانون اور بنکاری صنعت میں اس کی کوئی بھی اصطلاح مستعمل ہو، سب حرام ہیں‘‘۔ اس تفصیل میں سود کا ایک اور انگریزی نام ’یوژری‘ (Usury) بھی شامل ہے۔ گویا وفاقی شرعی عدالت نے یہ فیصلہ سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بینچ کے 23 دسمبر 1999ء کے فیصلے کے تسلسل میں سنا دیا۔ اس سے قبل بھی وفاقی شرعی عدالت نے مرحوم جسٹس تنزیل الرحمٰن کی سربراہی میں14نومبر1991ء کو بنک انٹرسٹ کو ربا قرار دے کر اس کے حرامِ مطلق ہونے کا فیصلہ دیا تھا ،جس کے خلاف دائر کی گئی اپیل کو نمٹاتے ہوئے 1999ء میں سپریم کورٹ کے شریعت ایپلٹ بینچ نے 1991ء کے فیصلہ کی توثیق کر دی لیکن مختلف حیلے بہانوں سے 2022ء تک اس پر عمل درآمد نہ کیا گیا۔جنرل مشرف کی حکومت نے سپریم کورٹ کاشریعت اپیلٹ بینچ تحلیل کر کے نیا بینچ بنادیا، جس میں نئے جج تھے اور اُن میں بعض ’’روشن خیال‘‘ حضرات بھی شامل تھے۔ بینچ میں سماعت کے دوران پہلے سے طے شدہ کئی امور پر گفتگو کا آغاز نئے سرے سے ہوا۔ یوں سماعت کا دورانیہ بڑھتا گیا، حالانکہ اپیل میں تفصیل کے بجائے چند متعین نکات پر بحث ہوا کرتی ہے۔ طویل سماعت کے دوران میں سابق اصل بینچ کی دی گئی ڈیڑھ سالہ مدتِ مہلت ختم ہوگئی۔ لہٰذا حکومت کو قوانین میں ترمیم کے لیے اس نئے بینچ نے ایک سال کا مزید وقت دیا۔ یہ وقت ختم ہونے کے قریب پہنچا تو بینچ نے کچھ نکات کی نشاندہی کرتے ہوئے اس ہدایت کے ساتھ مقدمہ وفاقی شرعی عدالت کو واپس بھیج دیا کہ ’’اِن نکات کو ازسرنو دیکھا جائے‘‘۔
بالآخر 28 اپریل 2022ء کو وفاقی شرعی عدالت نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔ گویا وفاقی شرعی عدالت کی جانب سے 20سال بعد سود ی نظام کے خاتمہ کے خلاف 2002ء کے فیصلہ کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کو نمٹا دیا۔ عدالت نے سود کے لئے سہولت کاری کرنے والے تمام قوانین اور شقوں کو غیر شرعی قرار دے دیا۔ فیصلہ میں انٹرسٹ ایکٹ 1839ءکو بھی غیر شرعی قرار دے دیا۔خلاف شریعت قرار دئیے گئے تمام قوانین کو یکم جون 2022 ءسے ختم کرنے اور ملکی معیشت کو ہر نوع کے سود سے پاک کرنے کا حکم دیا۔ عدالت نے یہ بھی حکم دیا کہ 31 دسمبر 2022ء تک سود سے پاک معاشی نظام کی تشکیل کے لیے پارلیمان تمام ضروری قانون سازی مکمل کرلے۔عدالت نے فیصلے میں 31 دسمبر 2027 ءتک تمام قوانین کو اسلامی اصولوں کے مطابق ڈھالنے کا حکم بھی دیا۔ گویا ملکی معیشت کو اسلام کے اُصولوں کے مطابق ڈھالنےکا نقشہ فراہم کر دیا گیا۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے پر فی الفور عمل کرنا شروع کر دیتی تاکہ 31 دسمبر 2027ء تک ملک سے سود کی نحوست بھی ختم ہو جاتی اور معاشی نظام کو اسلامی تعلیمات کے مطابق ڈھالنے کا عمل بھی پورا ہو جاتا۔ لیکن ہوا یہ کہ حکومت اور سٹیٹ بینک دونوں نے لیت و لعل سے کام لیا اور مختلف حیلے بہانے بنا کر اس معاملے کو لٹکانے اور ٹالنے کی کوشش میں مصروف رہے۔ زبانی جمع خرچ سے آگے بڑھ کر کوئی عملی اقدام دکھائی نہیں دیا۔ اِسی دوران بعض نجی بینکوں اور چند افراد نے ذاتی حیثیت میں وفاقی شرعی عدالت کے 28 اپریل 2022ء کے فیصلے کو چیلنج کر دیا اور یوں اس فیصلے کے خلاف ’’خود کار‘‘ حکم امتناعی (سٹے آرڈر) مل گیا۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلہ کو آئے 1091 دن گزر چکے ہیں اور جب تک سپریم کورٹ کا شریعت ایپلٹ بینچ فیصلہ کے خلاف دائر کی گئی اپیلوں کی سماعت نہیں کرتا، معاملہ ایک مرتبہ پھر لٹکا ہوا ہے۔ (جاری ہے) ظظظ
]نوٹ: ندائے خلافت کے آئندہ شمارے میں پاکستان سے سود کی نحوست کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے اور ملکی معیشت کو اسلامی اصولوں کے مطابق استوار کرنے پر بات ہوگی۔ ان شاءاللہ![
tanzeemdigitallibrary.com © 2025