(خصوصی رپورٹ) ’’فلسطین اور اُمّت ِمسلمہ کی ذِمّہ داری‘‘ - ادارہ
10 /
خصوصی رپورٹ
’’فلسطین اور اُمّت ِمسلمہ کی ذِمّہ داری‘‘
مجلس ِاتحاد اُمّت ِپاکستان کے زیراہتمام قومی کانفرنس اسلام آباد میں
امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ حفظ اللہ کا خصوصی خطابمرتب: مرتضیٰ احمد اعوان
سب سے پہلے میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ امت کے درد کومحسوس کرتے ہوئے آج پوری امت کاگلدستہ سٹیج پر اور اس آڈیٹوریم میں موجود ہے۔میں تمام منتظمین کاشکریہ ادا کرتاہوں جنہوں نے اس قوم کو بیدار کرنے کے لیے آج کی اس فلسطین کانفرنس کااہتمام کیا ہے۔ دینی جماعتوں کے رہنما، علماء و مفتیانِ کرام کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جو سٹیج پر ہمارے ساتھ یہاں موجود ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ڈیڑھ برس میں ہم نے کانفرنسز، خطابات، مظاہرے بہت کرلیے اور قرارد ادیں بھی پاس کیں، خطوط بھی لکھے اور اشتہارات بھی شائع کیے لیکن غزہ کی ساٹھ ہزار شہادتیںاور ایک لاکھ سے زیادہ معذورین یازخمی مسلمان شایدہمیں جگا نہ سکے۔یہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے ۔ لیکن بہرحال لایکلف اللہ نفسا الا وسعھاکے مصداق ہم اپنی وسعت کے مطابق مقدور بھر ذمہ دار ہیںکہ اپنے مظلوم بھائیوں، بہنوں، بچوں، بوڑھوں کے حق میں اور ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل کے خلاف آواز کو بلند کیاجائے ۔
مقولہ مشہور ہے ’’لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے ۔‘‘ دو اہم ترین کام ہم نے کرنے ہیں ۔ ایک معاشی بائیکاٹ کا معاملہ اور دوسرا عسکری طور پر اقدامات کا معاملہ۔ معاشی بائیکاٹ سے ہماری مراد وہ تمام اسرائیل نواز مصنوعات ہیں جن کی آمدن ہمارے بھائیوں ، بہنوں، بچوں اور بوڑھوں کو شہید کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔اس بائیکاٹ کے لیے عوام کو بھی کھڑا ہونے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ اگر غزہ کے مسلمان سخت امتحان سے گزر رہے ہیں اور کامیاب ہو رہے ہیں تو امتحان ہمارا بھی ہو رہا ہے کہ ہم غیرتِ دینی کا مظاہرہ کرتے ہیں یا نہیں۔ حد تو یہ ہے کہ پی ایس ایل کی سپانسر شپ بھی انہی کی جانب سے ہے کہ جن کی آمدن اسرائیل استعمال کرتا ہے۔ تو عوام کو بھی مزید شعور دینے اور بیدار کرنے کی ضرورت ہے البتہ اس سے آگے بڑھ کر حکومتِ پاکستان سے مطالبہ ہے کہ قانون سازی کی جائے کہ وہ تمام کمپنیز جو ایسی مصنوعات تیار کر رہی ہیں جن کی آمدن اسرائیل استعمال کرتا ہے اُن کے لائسنس منسوخ کیے جائیں اور ریاستی سطح پر اُن کے بیچنے اور استعمال کرنے پر پابندی لگائی جائے بلکہ اِن کمپنیوں کو بین کیا جائے۔ علماء کرام سےگزارش ہے کہ ایک وفد تیار ہو جو صدرِ مملکت، وزیراعظم ، مقتدر حلقوں اور نیشنل و صوبائی اسمبلی کے سپیکرز سے ملاقات کرے اور ان کے سامنے دو ٹوک انداز میں یہ بات رکھی جائے کہ بے حمیتی کو چھوڑیں اور اُمّت کے دردکو محسوس کر کے آواز کو بلند کریں۔ پاکستان اِس اہم فرض کو ادا کرنے میں ایک مرکزی کردار ادا کر سکتا ہے۔ 1967 ء کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد بن گوریان نے کہا تھا کہ ہمارا اصل دشمن پاکستان ہے۔ نیتن یاہو بھی کہتاہے کہ اس کو پاکستان کی ایٹمی صلاحیت اور عسکری قوت کھٹکتی ہے۔ پاکستان آج بھی مرکزی کردار ادا کرنے کی کوشش کر سکتا ہے۔ علماء کرام اور اکابرین کا وفد ملک کے نظم و نسق کو چلانے والے ذمہ داران سے ملاقات کرے اور اُن کو مجبور کریں کہ وہ امت کی سطح پر آواز بلند کریں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ اس وقت جب مسجد ِاقصیٰ کی حرمت کی پامالی ہو رہی ہے تو حرم مکہ میں جمع ہو کر بیت اللہ کے پاس بیٹھ کر اُمّت کے حکمرانوں کو ہم آمادہ کریں کہ وہ اس ظلم کے خلاف نہ صرف آواز بلند کرنے کی کوشش کریں بلکہ عملی اقدامات کا بھی فیصلہ کریں۔اس سے آگے بڑھ کر او آئی سی جس کے چارٹر میں لکھا ہے کہ فلسطین کے مسلمانوں کی مدد کے لیے اور مسجد ِ اقصیٰ کی حفاظت اور اہلِ فلسطین کے لیے صرف اخلاقی اور مالی مدد ہی نہیں، بلکہ اس سے آگے بڑھ کر عسکری مدد بھی کی جائے۔ 1973ء میں ہم نے اپنے پائلٹس کو بھیجا جنہوں نے مصر کے اڈوں کو استعمال کر کے اسرائیل کے طیاروں کو گرایا اور اپنے اہداف کو پورا کیا۔1973ء میں ہمارے پائلٹس جاسکتے تھے تو آج ہمارے عسکری ادارے کیوں کھڑے نہیں ہوتے؟ ماضی میں 34 ممالک کی ایک فوج تیار کی گئی جس کے سربراہ ہمارے ماضی کے ایک آرمی چیف تھے۔ آج وہ فوج کدھر ہے؟ دینی قیادت سیاسی مقاصد کے لیے اور حکومتوں کو لانے اور گرانے کے لیےاسلام آباد میں دھرنے بھی دیتے ہیں، اب ہمیں اسرائیلی ظلم اور درندگی کے خلاف کھڑا ہونا چاہیے۔
اب وقت ِقیام ہے اور ہمیں دشمن کو جواب دینا ہے اور اُمّت کو بیدار کرنا ہے۔ صرف باتیں نہیں عملی خصوصاً معاشی اور عسکری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔