رمضان المبارک کے بعد بھی رب کی رضا کی زندگی گزارو!
مولانا محمد یوسف خان
حضرت عبد اللہ بن عمر وؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’اے لوگو! وہی اعمال اختیار کرو جن کی تمہیں طاقت ہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ(تمہارے اعمال سے) اس وقت تک نہیں تھکتا جب تک تم خود(نیکیوں سے) نہ تھک جائو۔ اور بے شک اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب وہ عمل ہے جو ہمیشہ کیا جائے، اگرچہ وہ کم ہی کیوں نہ ہو۔‘‘(متفق علیہ)
رمضان میں ہر وقت ہمارے ذہن میں اللہ تعالیٰ کی ذات کا استحضار رہا، حرام کھانے سے رکے رہے، نمازوں کی پابندی کی، قرآن کریم کی تلاوت کرتے رہے، جھوٹ غیبت سے بچتے رہے، صدقات کیے، لوگوں کو روزے افطار کروائے، غریبوں میں راشن تقسیم کیے، اب ہمیں چاہیے کہ ہم رمضان کے بعد بھی اللہ کی پسندکی اُس زندگی کو جاری رکھیں اور اس کے خلاف زندگی نہ گزاریں۔
حرام سے بچنے کے لیے اسی ارادی اورقوت ایمانی کو استعمال کریں جس کے ذریعہ رمضان میں حلال کھانے اور پینے سے رکے رہے۔
رمضان میں اللہ جل شانہ انسان کو جو قوت ارادی اور قوت ایمانی عطا کرتا ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بہت سے ایسے نوجوان جو زندگی میں کبھی بھی گناہ نہیں چھوڑتے وہ بھی بند کمروں کے اندر روزے سے رہے اور انہوں نے کچھ کھایا پیا نہیں، اگر اُن سے پوچھا جائے کہ کیوں نہیں کھاتے تو جواب ہوتا ہے کہ میں نے روزہ رکھا ہوا ہے۔ میں نے نیت کی ہوئی ہے میں صبح سے شام تک نہ کچھ کھائوں گا نہ پیوئوں گا۔
یہی وہ تربیت ہے جو اللہ جل شانہ رمضان میں ہماری کرنا چاہتے ہیں۔ گویا اللہ جل شانہ فرما رہے ہیں کہ اے بندے! دیکھ تو قوتِ ارادی اور قوتِ ایمانی استعمال کرنے سے حلال کھانے سے رُک سکتا ہے تو اِس وقت ارادی اور قوتِ ایمانی کو استعمال کر کے باقی گیارہ مہینے بھی حرام سے رک سکتا ہے۔
٭ہر وقت یہ تصور کہ اللہ دیکھ رہا ہے:
رمضان کے انیتس تیس دن اللہ جل شانہ روزہ دار کی یہ تربیت فرماتے ہیں کہ وہ ہر وقت یہ تصور کرے کہ اللہ دیکھ رہا ہے۔رمضان میں روزہ دار کئی دفعہ کمرے میں اکیلا بھی ہوتا تھا، کھانے پینے کی چیزیں موجود ہوتی تھیں ، لیکن روزہ دار اُس میں سے کچھ کھاتا تھا نہ پیتا تھا اگرچہ اس نے روزہ رکھا ہوتا تھا، لیکن کوئی دیکھ تو نہیں رہا تھا، کھا لیتا ، پی لیتا، لیکن اگر روزے دار سے پوچھا جائے کہ کیوں نہیں کھایا بند کمرے میں تو وہ چاہے کتنا ہی گیا گزرا گناہگار ہو وہ کہتا ہے کہ اللہ دیکھ رہا ہے۔
کاش کہ اس تصور کی تربیت کو روزہ دار باقی گیارہ مہینوں میں حرام کاموں سے بچنے کے لیے بھی استعمال کر لے کہ جب حلال کھانا سامنے رکھا ہو اتھا، پھل سامنے رکھا ہوا تھا، اس نے صرف اس وجہ سے بند کمرے میں نہیں کھایا اور نہ ہی پیا کہ اللہ دیکھ رہا ہے چنانچہ اللہ کی طرف سے کی گئی ایک مہینہ کی اس تربیت کو رمضان کے بعد بھی باقی رکھنے کی کوشش کی جائے۔
٭کھانے پینے میں رمضان کی تربیت کو جاری رکھنا:
اللہ نے رمضان میں انتیس تیس دن تک سحری اور افطاری کے اوقات کے ذریعہ روزہ دار کی دو کھانوں کے دوران دقفہ کرنے کی تربیت کی۔
کتنے لوگ ہیں کہ اس عادت کی وجہ سے ان کے معدے کا نظام ٹھیک ہو گیا، اُن کا بلڈپریشر اعتدال میں آگیا، اور اُن کی شوگر کا نظام ٹھیک ہو گیا۔ ڈاکٹر حضرات توروک ٹوک کر تھک جاتے ہیں، کہ چالیس سال کے اوپروالے حضرات دو کھانوں کے درمیان تھوڑا سا وقفہ کر لیں۔ یہ انسان وقفہ کرنا بھی سیکھ گیا۔ اب اس عادت کو رمضان کے بعد بھی جاری رکھیں تاکہ صحت بھی محفوظ رہے اور انسان خوب عبادت کر سکے اور معاشرے کا مفید فرد بن سکے۔
٭جلدی بیدار ہونے کی عادت:
اللہ نے رمضان میں جلدی جاگنے کی توفیق عطافرمائی جس کی وجہ سے تہجد کی نماز اور مسجد میں باجماعت نماز کی بھی توفیق مل جاتی تھی وہ نماز جس کی فضیلت قرآن کریم کی کئی آیات اور آپﷺ کی کئی احادیث مبارکہ میں واردہے، قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ اپنے محبوب بندوں کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
{کَانُوْا قَلِیْلًا مِّنَ الَّـیْلِ مَا یَہْجَعُوْنَ(17) وَبِالْاَسْحَارِ ہُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ (18)} (الذاریات)
’’رات کا تھوڑا ہی حصّہ ہوتا تھا جس میں وہ سوتے تھے۔ اور سحری کے اوقات میں وہ استغفار کرتے تھے۔‘‘
ایک اور جگہ ارشاد ہے:
{وَالَّذِیْنَ یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّہِمْ سُجَّدًا وَّقِیَامًا(64)}
(الفرقان) ’’اور وہ لوگ راتیں بسر کرتے ہیں اپنے رب کے حضور سجدے اور قیام کرتے ہوئے۔‘‘
ایک اور جگہ ارشاد ہے:
{اِنَّ نَاشِئَۃَ الَّــیْلِ ہِیَ اَشَدُّ وَطْاً وَّاَقْوَمُ قِیْلًا(6)}(المزمل)’’یقیناً رات کا جاگنا بہت مؤثر ہے نفس کو زیر کرنے کے لیے‘اور بات کو زیادہ درست رکھنے والا ہے۔‘‘
چنانچہ رمضان میں اللہ تعالیٰ نے جب اپنے محبوب بندوں میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائی تو اب اس کو آئندہ زندگی میں باقی رکھنے کوشش کرنی چاہیے۔
٭نمازیں پابندی سے ادا کرنے کی عادت:
رمضان میں جب نمازیں پابندی سے ادا کرنے کی عادت بن گئی تو اب اس کو بھی باقی رکھا جائے ، کہ نماز کو پابندی سے ادا کرنا اُن لوگوں کا وصف ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے کامیاب قرار دیا ہے اور اُن کو جنت کا وارث قرار دیا ہے اور ایک آیت میں اُن کے لیے جنت میں اکرام و اعزاز کا وعدہ فرمایا ہے، جیسا کہ کامیاب مؤمنین کی صفات بیان کرتے ہوئے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
{وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَلٰی صَلَوٰتِہِمْ یُحَافِظُوْنَ (9) اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْوٰرِثُوْنَ(10) الَّذِیْنَ یَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَ ط ہُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَ(11)}(المؤمنون)
’’اور وہ جو اپنی نمازوں کی پوری محافظت کرتے ہیں۔یہی لوگ ہیں جو وارث ہوں گے۔ وہ وارث ہوں گے ٹھنڈی چھائوں والے باغات کے‘ اس میں وہ ہمیشہ ہمیش رہیں گے۔‘‘
ان آیات کی تفسیر میں تفسیر مدارک اور تفسیر خازن میں لکھا ہے کہ اِس سے مراد وہ لوگ ہیں جو نمازوں کو اُن کے وقتوں میں، ان کی شرائط و آداب کے ساتھ پابندی سے ادا کرتے ہیں۔
چنانچہ جب رمضان میں یہ عظیم عادت بن گئی تو انسان کو چاہیے کہ اس کو رمضان کے بعد بھی جاری رکھے۔
٭قرآن حکیم کی تلاوت کرنے کی عادت:
رمضان میں قرآن حکیم کی تلاوت کرنے کی عادت بن گئی جس میں اللہ نے انوا وبرکات کے ساتھ بہت بڑا ثواب رکھا ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے:
حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا:’’جو شخص قرآن کا ایک حرف پڑھے گا تو اس کے لیے اُس حرف کے عوض ایک نیکی ہے جو دس نیکیوں کے برابر ہے میں یہ نہیں کہتا کہ’’الم‘‘ ایک حرف ہے، بلکہ الف ایک حرف ہے، لام ایک حرف ہے، اورمیم ایک حرف ہے۔‘‘(سنن الترمذی)
جب اللہ نے رمضان میں اس عظیم عمل کی عادت بنا دی تو چاہیے کہ رمضان کے بعد بھی اس کو باقی رکھیں۔
٭جھوٹ ، غیبت سے بچنے کی عادت:
رمضان میں جھوٹ ، غیبت سے بچنے کی بھی عادت بن جاتی ہے۔غیبت زبان پر آتے آتے رہ جاتی ہے کہ روزہ ہے کہ کہیں روزہ خراب نہ ہو جائے، اسی طرح کئی مرتبہ کسی بات میںجھوٹ بولنے کی نوبت آتی ہے لیکن انسان یہ سوچ کر جھوٹ سے رک جاتا ہے کہ روزہ ہے کہیں میرے روزہ کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ اور یہ دونوں گناہ کبیرہ گناہوں میں سے ہیں، اور قرآن مجید میں ان پر سخت وعید آئی ہے، جھوٹ بولنے والے پر سورہ آل عمران کی آیت61 میں لعنت کی گئی ہے اورغیبت کرنے کو سورہ حجرات کی آیت12 میں اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے سے تعبیر کیا گیا ہے۔
چنانچہ جب اللہ نے رمضان میں ان دونوں کبیرہ گناہوں سے بچنے کی عادت اپنانے کی توفیق عطا فرما دی تو اب ہمیں اس عادت کو رمضان کے بعد بھی جاری رکھنا چاہیے۔
٭دوسروں کو کھلانے کی عادت:
رمضان المبارک میں لوگوں کو روزہ افطار کروا کر دوسروں کو کھلانے کی عادت بن گئی ہے جو کہ بہت بڑا نیکی کا عمل ہے، اللہ جل شانہ نے بھوکے کو کھانا کھلانے اور پیاسے کو پانی پلانے کی نسبت اپنی ذات کی طرف فرمائی ہے جیسا کہ حدیث مبارکہ کا ایک حصہ ہے کہ قیامت کے دن اللہ جل شانہ فرمائیں گے: ’’ اے آدم کے بیٹے، میں نے تجھ سے کھانا مانگا تو تو نے مجھے نہیں کھلایا۔ وہ کہے گا: اے میرے رب ، میں کیسے آپ کو کھانا کھلاتا؟ آپ تو رب العالمین ہیں! اللہ تعالیٰ فرمائے گا: ’’کیا تو یہ نہیں جانتا تھا کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا تو تو نے اُسے کھانا نہیں کھلایا! کیا تو یہ نہیں جانتا تھا کہ اگر تو اُسے کھانا کھلاتا تو اُس کا اجر مجھ سے پاتا! اے آدم کے بیٹے، میں نے تجھے سے پینے کو کچھ مانگا تھا تو نے مجھے نہیں پلایا تھا! وہ کہے گا: اے میرے رب میں کیسے آپ کو پلاتا؟ آپ تو رب العالمین ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا تو یہ نہیں جانتا تھا کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے پینے کو کچھ مانگا اور تو نے اُسے نہیں پلایا۔ کیا تو یہ نہیں جانتا کہ اگر تو اُسے پلاتا تو اُس کا اجر مجھ سے پاتا۔‘‘ (صحیح مسلم)
چنانچہ اللہ نے رمضان میں ہمیں جو دوسروں کو کھلانے کی توفیق عطا فرمائی اور ہمیں اس کی عادت ہو گئی ہے تو اس کو رمضان کے بعد بھی باقی رکھنے کی کوشش کی جائے۔
٭کانوں، دل اور نگاہ کی حفاظت کی عادت:
جس طرح رمضان میں آنکھ ، کان اور دل کو گناہوں کی آلودگی سے بچایا ہے اسی طرح آئندہ رمضان تک ان کو گناہوں سے بچانا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْئُوْلًا(36)} (بنی اسرائیل)’’یقیناً سماعت‘ بصارت اور عقل سبھی کے بارے میں باز پُرس کی جائے گی۔‘‘
اس آیت کی رو سے انسان کی آنکھ جو دیکھتی ہے انسان سےا س کے بارے میں سوال ہو گا، کان جو سنتے ہیں اس کے بارے میں پوچھ ہو گی اور دل جو کینہ، بغض، نفرت اور عداوت رکھے گا اس کے بارے میں بھی انسان کو جواب دینا ہو گا۔ انسان کا دل بھی ذمہ دار ہو گا، انسان کے کان جو باتیں سنتے ہیں بھی ذمہ دار ہوں گے۔ چنانچہ رمضان میں انسان کو اللہ توفیق دیتا ہے اور وہ کئی چیزوں کو صرف اِس وجہ سے دیکھنا چھوڑ دیتا ہے کہ رمضان ہے ابھی نہیں دیکھنی ، کئی دفعہ گانا اور موسیقی کی طرف رغبت ہوتی ہے لیکن انسان رک جاتا ہے یہ سوچ کر کہ روزہ خراب ہو جائے گا اسی طرح دل میں نیکیوں اور عبادتوں کی برکت سے کینہ، بغض ونفرت کے جذبات ماند پڑجاتے ہیں اور انسان پر اچھے جذبات کا غلبہ ہوتا ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ رمضان کے بعد بھی ان عادات اور جذبات کو برقرار رکھا جائے۔
٭گناہ کبیرہ کرنے کی عادت:
رمضان میں انسان کی گناہ کبیرہ سے بچنے کی تربیت ہو جاتی ہے اب انسان کو چاہیے کہ اسی عادت کو برقرار رکھے اور جو بڑے بڑے گناہ ہیں ان سے اپنے آپ کو بچائے رکھے، کیونکہ گناہ صغیرہ کو تو اللہ تعالیٰ توبہ کے بغیر مختلف اعمال کی وجہ سے ہی معاف فرما دیتا ہے۔ جیسے وضو کرنے سے ہاتھوں چہرے وغیرہ کے گناہوں کا معاف ہونا حدیث سے ثابت ہے۔
لیکن کبیرہ گناہ توبہ و استغفار کے بغیر معاف نہیں ہوتے جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
{اِنْ تَجْتَنِبُوْا کَبَآئِــرَ مَا تُنْہَوْنَ عَنْہُ نُـکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ وَنُدْخِلْکُمْ مُّدْخَلًا کَرِیْمًا(31)} (النساء) ’’اگر تم اجتناب کرتے رہو گے اُن بڑے بڑے گناہوں سے جن سے تمہیں روکا جا رہا ہے‘تو ہم تمہاری چھوٹی برائیوں کو تم سے دور کر دیں گے‘اور تمہیں داخل کریں گے بہت باعزت جگہ پر۔‘‘
اور اگر وہ گناہ کسی انسان کے حق سے متعلق ہو تو پھر اُس بندے کا حق ادا کرنا لازم ہے اور اگر حق ادا نہ کر سکے تو اس سے معافی مانگنا لازم ہے اس لیے کہ حقوق العباد توبہ واستغفار سے معاف نہیںہوتے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو رمضان المبارک کی طرح باقی زندگی عبادات کرنے اور گناہوں سے بچ کر گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!