نقطہ نظر
اے اللہ، پاکستان کی حفاظت فرما!
ابو موسیٰ
حالات حاضرہ کے حوالے سے اس وقت میری نظر میں اہم ترین نہیں بلکہ واحد مسئلہ پاک بھارت کشیدگی ہے جو ایک کھلی جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے۔ جو بعدازاں غزہ بلکہ مشرق وسطیٰ کا حصہ بن جائے گی۔بھارت دھمکیوں پر اترا ہوا ہے اور پاکستان کی طرف سے بھی سرعت کے ساتھ جواب آں غزل کا اہتمام ہو رہا ہے۔ میں اس حوالے سے جو بھی گزارشات کروں گا اس کا اختتام یا حاصل ِتحریر آغاز ہی میں عرض کر دیتا ہوں اور وہ یہ کہ اس وقت ساری قوم کو متحد ہو کر اپنی فوج کی پشت پر کھڑا نظر آنا چاہیے۔ اس لیے ہرگز نہیں کہ ہمیں خاکی وردی سے محبت ہے بلکہ اس لیے کہ جس ریاست کو مملکت خداداد کہا جاتا ہے، جس کی جڑ بنیاد اور اساس اسلام ہے، اس کی سلامتی کا مسئلہ ہے۔ یقیناً جذبہ اور نظریہ پر ایمان پاکستان کی سلامتی کے حوالے سے انتہائی اہم ہی نہیں ناگزیر بھی ہے۔ لیکن ہر دور میں افراد کو ہی میدان میں اترنا پڑتا ہے۔ آج سائنس اور ٹیکنالوجی کے جدید دور میں پیشہ ور فوج جو جدید اسلحہ کو استعمال کرنے کی اہلیت رکھتی ہو وہی کسی ریاست کا دفاع کر سکتی ہے۔ عام آدمی کے پاس اس حوالے سے کچھ نہیں ہوتا، وہ صرف دعا کر سکتا ہے۔ فوج کا دست و بازو بنتے ہوئے ہمیں کچھ اپنے دل کی باتیں بھی کرنا ہوں گی۔ بقول شاعر ؎
خوگر حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے۔
ہمارا اس حوالے سے یہ مطالبہ ہونا چاہیے کہ اے وردی والو! خدا کے واسطے، خدا کے واسطے اپنی آئینی حدود میں رہنا سیکھ لو۔ اچھی بات تو اپنے دشمن سے بھی سیکھ لینے میں کوئی ہرج نہیں سمجھنا چاہیے۔ بھارت میں اس کشیدگی کے حوالے سے جو لائحہ عمل بنانے کے لیے وزیراعظم نریندر مودی کی صدارت میں میٹنگ ہوئی ہے، اس میں نہ آرمی چیف شامل تھا ،نہ کوئی دوسرا فوجی افسر۔ فیصلہ کابینہ کرے گی، فوج کو عمل درآمد کرنے کا کہا جائے گا۔ اسے کہتے ہیں سویلین سپریمیسی اور پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی میں جرنیلوں کی کیا حیثیت اور رول ہوتا ہے، اس کی وضاحت سے شرمندگی کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔ یہ بات آپ سب جانتے ہیں، پاکستان کا سکیورٹی سٹیٹ بننا تو چارونا چار قبول کیا جاتا اور کسی حد تک شاید justify کیا جاسکے مگر اسے جرنیل سٹیٹ کیوں بنا دیا ہے۔ خدارا اصلاح کر لیجئے۔ قوم دشمن سے جنگ کے وقت آپ کی پشت پر عام دیوار نہیں سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑی ہوگی۔
اب آئیے پہلگام میں سیاحوں کے قتل عام کی طرف، جس نے پاکستان اور بھارت کو جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا۔ میں کوشش کروں گا کہ اس حوالے سے پاکستان کی خارجہ پالیسی کا کھل کر ذکر کروں اور داخلی حالات کا بھی تذکرہ کروں جو بالواسطہ ہی نہیں بلا واسطہ بھی وجہ ہے کہ بھارت فالس فلیگ کے ذریعے ہر قسم کی جارحیت کرتا نظر آرہا ہے۔
دیکھیے تین سال سے ہم ایک طرح کی خانہ جنگی کا شکار ہیں۔ دنیا بھر میں یہ غیر تحریری اصول موجود ہے کہ ایک گھر میں مسلسل لڑائی جاری ہو تو ہمسائے دستک دیتے ہیں اور ان کا اس روز روز کی لڑائی سے فائدہ اٹھانا فطری نہ سہی منطقی ضرور ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کمزور ہونا طاقتور کو مداخلت اور اس سے آگے بڑھ کر مسلط ہونے کی دعوت دینے کے مترادف ہے۔ گھر کی اس لڑائی کی اصل وجہ کیا ہے؟ کیوں سیاسی عدم استحکام بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے؟ کیوں معاشی ترقی کے دعوے کھوکھلے ثابت ہو رہے ہیں؟ کیوں بیرونی سرمایہ کاری بڑے بڑے دعووں کے باوجود عملی طور پر صفر ہے؟ اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ حکومت سازی کے حوالے سے اکثریتی عوامی رائے کو پاؤں تلے کچل دیا گیا ہے اور دوسری یہ کہ ظلم نے عدل کو ملیا میٹ کر دیا ہے۔ آپ کو دوسری جنگ عظیم کے موقع پر چرچل کے لندن ہائی کورٹ میں جانے اور چیف جسٹس سے یہ سننے کے بعد کہ ہماری عدلیہ عوام کو انصاف دے رہی ہے، اس موقع پر چرچل کا یہ نعرہ مارنا کہ ہماری عدلیہ عوام کو عدل فراہم کر رہی ہے لہٰذا جنگ ہم جیتیں گے۔ میں مزید تفصیل میں نہیں جاتا۔ قصہ مختصر عوامی خواہشات کو اگر بے دردی سے کچل دیا جائے گا اور عدل کے حوالے سے ہماری ریٹنگ دنیا میں پسماندہ ممالک سے بھی کم تر ہو جائے گی تو ریاست کا کمزور ہونا لازم ہے اور دشمنوں میں گھری ریاست اگر کمزور ہوگی تو دشمن اخلاقی تقاضے کیا عالمی قوانین کو بھی پاؤں تلے روند کر آپ پر حملہ آور ہو جائیں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عالمی سطح پر تمام تر قوانین اور ضابطوں کے شور شرابے میں ابھی تک جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا معاملہ چل رہا ہے۔ گویا ہم پر جو دشمن حملہ آور ہو رہا ہے بلکہ ہو چکا ہے وہ درحقیقت
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفا جاتکا معاملہ ہے،اس کے سوا کچھ نہیں۔ ستم بالائے ستم ہم نے گھر کی لڑائی میں فتح یاب ہونے کے لیے ایسی خارجہ پالیسی ترتیب دی ہے کہ دشمن کا دشمن یعنی چین جسے دوست ہونا چاہیے، وہ بھی ہم سے خوش نہیں کیونکہ گھر کی لڑائی میں مکمل فتح کے لیے امریکہ کی بھرپور اور غیرمعمولی حمایت ناگزیر تھی۔ اس کے بغیر اس لڑائی میں ہمارے پاؤں اکھڑ جاتے لیکن جس امریکہ کا سہارا ہم لیے ہوئے تھے اس نے پہلگام کے واقعے پر بھارت کا بھرپور ساتھ دینے کا واضح اعلان کیا ہے۔
شمال مغرب میں افغانستان ہے جس سے ہم نے امریکہ کو خوش کرنے کے لیے بدترین سلوک کیا۔ کبھی افغان مہاجروں کو فوراً پاکستان سے نکل جائو، ہمیں نظر نہ آئواور کبھی راستے بند کر کے اسے مالی سطح پر نقصان پہنچایا۔ راقم نے آغاز ہی میں عرض کیا تھا کہ مسلط شدہ حکومت صرف امریکہ کو خوش کرنے کے لیے افغانستان کے ساتھ بد سلوکی کر رہی ہے۔ ہمیں اس وقت پُرو افغانستان اور پُرو افغان طالبان باقاعدہ ایک مہم چلانا چاہیے جو کوئی اثر دکھاتی نہ دکھاتی ریکارڈ پر یہ بات رہتی لیکن میری آواز نقار خانے میں طوطی کی آواز ثابت ہوئی اور کوئی شنوائی نہ ہوئی۔ بہرحال ریاستی سطح پر اب افغانستان دشمنی کے نقصانات سامنے آئے ہیں تو نائب وزیراعظم صاحب بھاگم بھاگ افغانستان پہنچے ہیں۔فارسی کا ایک محاورہ ہے ’’آنچہ دانا کند کند ناداں۔ لیک بعد از خرابیٔ بسیار۔‘‘ میرے پاس کوئی مصدقہ اطلاع ، نہیںلیکن سننے میں آیا ہے کہ افغانستان کی حکومت نے ٹکاسہ جواب دیا ہے۔ بنگلہ دیش سے بھارت کی کشیدگی پر تعلقات کی بڑی چھلانگیں لگائی گئی تھیں۔ انہوں نے تعلقات کے لیے تین شرائط رکھ دی ہیں۔ 1971ء کے واقعات پر معافی مانگو اور علیحدگی کے وقت ہمارا ساڑھے چار ارب ڈالر کا حق تھا وہ ادا کرواور بہاریوں کو پاکستان لے کر جائو لہٰذا اب ہمارے ہاں قبرستان جیسی خاموشی ہے۔ ایران کا رول تو شروع سے ہی دوستانہ نہیں ہے۔ میں ایران سے یہ توقع کرتا ہوں کہ وہ کسی بُرے وقت میں پاکستان کی پیٹھ میں خنجر گھونپ سکتا ہے۔ مجھے صرف ایک بات کی توقع ہے کہ چین پاکستان سے ناراض ہونے کے باوجود اپنے ملک کے مفاد میں یہ نہیں چاہے گا کہ بھارت جنگ کی صورت میں پاکستان پر کوئی واضح تسلط حاصل کر سکے۔
جہاں تک پاکستان اور بھارت کا ایک دوسرے کے خلاف اقدام کے اعلانات کا تعلق ہے تو عرض ہے کہ سفارتی عملہ نکالنا تو رسمی کارروائی ہے، فضائی بندش matter کرے گی لیکن اس میں بھی بھارت سے زیادہ پاکستان کو نقصان ہوگا۔ بھارت کی مالی حالت ایسی ہے کہ وہ خسارہ برداشت کر جائے گا۔ ہماری نیّا تو پہلے ہی ڈوب رہی ہے۔ بہرحال بھارت کا اصل، انتہائی سنگین اور پاکستان کے لیے تشویش ناک قدم سندھ طاس معاہدے کی یکطرفہ معطلی ہے۔ میں سمجھتا ہوں اس حوالے سے دونوں ممالک اپنے عوام کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ مئی سے لے کر ستمبر تک تو پانی اتنا زیادہ ہوگا۔ گرمی سے پہاڑوں کی برف پگھلے گی۔ برسات کا موسم اپنا رنگ دکھائے گا لہٰذا بھارت کو پاکستان کی طرف اس کے ضرورت سے بھی زیادہ پانی چھوڑنا پڑے گا۔ سیلاب کا خطرہ ہوگا۔ البتہ اگر برسات میں زیادہ بارشیں نہ ہوئیں تب ستمبر میں بھارت پانی میں رکاوٹ ڈال کر پاکستان کو نقصان پہنچا سکتا ہے لیکن تب بھی بھارت کے پاس ایسا انفراسٹرکچر نہیںہے جیسا کہ اس کے وزیر کہہ رہا ہے کہ پاکستان کو ایک بوند نہیں جانے دیں گے۔ یہ محض بھڑک بازی ہے البتہ کافی حد تک پانی روک کر پاکستان کو نقصان پہنچایا جائے گا جو پہلے سے پانی کی کمی کے شکار پاکستان کے لیے انتہائی نقصان دہ ثابت ہو گا۔ البتہ پاکستان کا بھی یہ کہنا کہ اگر بھارت نے سندھ طاس معاہدہ ختم کیا تو ہم عالمی عدالت(I.C.J) میں جائیں گے یہ پاکستان کا بھولپن اور عالمی صورت حال سے بے خبری ہے اِس لیے کہ اگرچہ پاکستان کا کیس تو مضبوط ہو گا لیکن وہاں بھی نادیدہ عالمی قوتوں کا حکم چلتا ہے ۔ وہ کیس کو مختلف بہانوں سے اتنا لٹکائیں اور مؤخر کریں گے کہ پاکستان کو شدید نقصان کا سامنا ہو گا اور پاکستان بدترین معاشی ابتری کا شکار ہو گا۔ پھر یہ کہ کیا بھارت میں پاکستان کے خلاف اٹھا ہوا طوفان صرف سندھ طاس معاہدہ ختم کرنے سے تھم جائے گا۔ میری رائے میں بھارت کے عوام اور وہاں کے دوسرے سٹیک ہولڈرز پاکستان کے خلاف کوئی عسکری جارحیت کیے بغیر مطمئن نہ ہو ں گے۔
راقم کی رائے میں زمینی یا فضائی سطح پر بھارت آزاد کشمیر کو فوکس کرے گا اور اگر مودی کوئی ایسی جارحیت نہیں کرتا تو بھارت میں اس کی سیاست دفن ہو جائے گی اور پہلا نتیجہ تو اُسے بہار میں ہونے والے الیکشن میں ہی مل جائے گا جو بھارت کے کچھ نہ کرنے پر منفی ہو گا اور اگر بھارت عسکری برتری دکھانے میں کامیاب ہوا تو نتائج اُس کے حق میں ہوں گے۔ میری رائے میں امریکہ پاکستان کی ریاست کے ٹھیکے داروں سے ایسی بات منوانے کی بھرپور کوشش کرے گا جس سے بھارت کی بالادستی ثابت ہو سکے لیکن ایسی صورت میں ہمارے کرتا دھرتوں کی پاکستان میں کیا پوزیشن بنے گی۔ پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا بار بار وہ کلپ دکھا رہا ہے جب 2019 ء میں بھارتی فضائیہ سے یہ توقع تھی کہ وہ کوئی کارروائی کرے گی تو عمران خان اس میں کہہ رہا ہے کہ اگر بھارت نے ہماری سلامتی کے حوالے سے چھوٹا سا قدم بھی اٹھایا تو ہم سوچیں یا غور نہیں کریں گے بلکہ فوری منہ توڑ جواب دیں گے۔ پھر جب بالاکوٹ میں بھارتی فضائیہ نے پے لوڈ گرایا جس میں ہمارے چند درخت اور ایک کوا شہید ہو گیا تو پاکستان نے ان کے دو طیارے گرائے جس پر ابھی نندن کا وہ جملہ بڑا مشہور ہوا تھا کہ پاکستانی چائے fantastic تھی۔ بہرحال جنگ جیتنے کے حوالے سے حتمی اور آخری بات یہ ہے کہ قوم فوج کی پشت پر ہو اور ملک میں عدل وانصاف کا بول بالا ہو۔ بدقسمتی سے اِس وقت دونوں چیزوں کا فقدان ہے۔ اللہ خیر کرے اور ہماری کوتاہیوں کے باوجود ہمارا بھرم رکھ لے ۔ آمین یا رب العالمین!
tanzeemdigitallibrary.com © 2025