(یوم مزدور) مزدور کے حقوق قرآن و حدیث کی روشنی میں - محمد سلمان عثمانی

11 /

مزدور کے حقوق قرآن و حدیث کی روشنی میں


محمد سلما ن عثمانی

اسلام میں مزدوروں کے بہت سے حقوق ہیں جنہیں اسلام نے انتہائی اہمیت کے ساتھ بیان کیا ہے، مزدور ہی اس قوم کا اثاثہ ہیں جو روزانہ تازہ کماکر اپنے بچوں کا پیٹ پالتا ہے،کسی بھی ملک، قوم اورمعاشرے کی ترقی میں مزدور وں کا کردار بہت اہم ہوتا ہے، مگر سب سے زیادہ حق تلفی بھی انہی کی کی جاتی ہے۔ سرمایہ دار اور جاگیردار طبقے مزدور کا استحصال کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں اور مزدور اسے اپنا مقدر سمجھ کر صبر کر لیتے ہیں۔
ہمارے سماج میں مزدوروں کا وجود ہے، جسے ہمیں تسلیم کرنا چاہیے۔ مزدوری ہر کوئی کرتا ہے، مگر سب کے درجات الگ ہوتے ہیں۔ ہر مزدور اپنے میدان میں اپنی بساط بھر مزدوری کرتا ہے اور اجرت حاصل کرکے اپنے اہل و عیال کی کفالت کرتا ہے۔ اسلام نے محنت کو بڑا مقام عطا کیا ہے اور محنت کرنے والے شخص کی بڑی حوصلہ افزائی کی ہے، نبی کریم ﷺنے فرمایا: خود(حلال وطیب) کمانے والا اللہ تعالیٰ کا دوست ہوتا ہے (طبرانی)یہ فرما کر محنت کی قدرو قیمت اجاگر فرما دی۔ نیز آپ ﷺکا فرمان ہے کہ کسی نے اپنے ہاتھوں کی(حلال و طیب) کمائی سے بہتر کوئی کھانا نہیں کھایا (بخاری) آپﷺ کو مزدوروں کے حقوق کا اس حد تک پاس تھا کہ وصال سے قبل آپﷺ نے اپنی امت کے لیے جو آخری وصیت فرمائی وہ یہ تھی کہ نماز کا خیال رکھو اور ان لوگوں کا بھی جو تمہارے زیر دست ہیں (مسنداحمد، ابو داؤد) آپ ﷺ نے مزید فرمایاتین قسم کے لوگ ایسے ہیں جن سے قیامت کے دن میں خود جھگڑوں گا۔ ان میں سے ایک وہ ہو گا جس نے کسی سے کام کروایا۔ کام تو اس سے پورا لیا مگر اسے مزدوری پوری ادا نہ کی۔(بخاری)
ایک مرتبہ آپ ﷺ نے ایک شخص سے مصافحہ کرتے وقت اس کے ہاتھوں پر کچھ نشانات دیکھے، وجہ پوچھی تو اس نے بتایا روزی کمانے میں محنت مشقت کرنے کی وجہ سے، تو آپ ﷺنے اس کا ہاتھ چوم لیا۔ مزید ارشاد فرمایا:مزدور کو اس کا پسینہ خشک ہونے سے قبل اس کی مزدوری ادا کر دو (ابن ماجہ)جو کوئی غیر آباد زمین کو آباد کرے تو وہ اسی کی ہے (گویا اس کی محنت نے اس کو مالکانہ حقوق عطا کر دئیے) (احمد، ترمذی، ابو داؤد) اجرت مزدور کا حق ہے، قرآن حکیم میں آتا ہے ’’جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے تو ان کے لیے ختم نہ ہونے والا (دائمی) اجر ہے۔‘‘معاہدئہ ملازمت (چاہے معاہدات واضح ہوں یا مضمر)کے جدید تصورات کی پیش گوئی کرتے ہوئے نبی کریمﷺ نے مزدور کو کام کی اجرت مقرر کیے بغیر بھرتی کرنے اور کام کروانے سے منع کیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’اور دودھ پلانے والی ماؤں کا کھانا اور پہننا دستور کے مطابق بچے کے باپ پر لازم ہے۔‘‘
محنت و مزدوری اللہ کے نبیوں کی سنت بھی ہے۔ کم و بیش تمام انبیائے کرام نے مزدوری کو اپنا معاش بنایا۔ حضرت آدم ؑ نے زمین کاشت کرکے غلہ حاصل کیا۔ حضرت نوح ؑ بڑھئی کا کام کرتے تھے۔ حضرت داؤد ؑ زِرہ ساز تھے اور اپنے ہاتھ کے ہنر سے گزربسرکرتے۔ حضرت ادریس ؑ درزی کا کام کرتے تھے۔ حضرت موسیٰ ؑ نے10سال تک حضرت شعیب ؑ کی بکریاں چرائیں۔ پیارے نبیؐ اور اللہ کے آخری رسول حضرت محمدﷺنے بھی بکریاں چرائیںاور تجارت بھی کی۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ’’اللہ نے کوئی نبی نہیں بھیجا، جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں۔‘‘ صحابہ کے استفسار پر حضورﷺ نے فرمایا۔ ’’میں بھی مکے والوں کی بکریاں چند قیراط پر چرایا کرتا تھا۔‘‘ ( بخاری)
محنت و مزدوری کی عظمت و اہمیت کی دلیل یہ ہے کہ خود رب کائنات، مالک ارض و سماء، محنت کش، مزدور کو اپنا دوست قرار دے رہا ہے۔ ایک موقع پر اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا :’’بیشک اللہ روزی کمانے والے کو دوست رکھتا ہے۔‘‘ (طبرانی)
نبی کریمﷺ نے فرمایا : ’’ایک ملازم (مرد/عورت) کم از کم درمیانے درجہ کے عمدہ کھانے اور کپڑوں کا حقدار ہے۔‘‘ اور ’’کسی جان کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہ دی جائے‘‘ اور یہ کہ مقرر کردہ اجرت ان (مزدوروں) کی بنیادی ضروریات کے لیے کافی ہو‘‘ ایک اور موقع پر نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’تمہارے ہاں کام کرنے والے ملازمین تمہارے بھائی ہیں، اللہ تعالیٰ نے انہیں تمہاری ماتحتی میں دے رکھا ہے، سو جس کا بھی کوئی بھائی اس کے ماتحت ہو اسے وہی کھلائے جو وہ خود کھاتا ہے اور وہی پہنائے جو وہ خود پہنتا ہے۔‘‘
تاریخی مطالعے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حضرت عمر ؓ نے فوجی جوانوں کے لیے اجرت مقرر فرمائی تھی اس اجرت پر دوران ملازمت مختلف معیارات جیسا کہ مدت ملازمت، بہترین کارکردگی اور علمی قابلیت کو مدنظر رکھتے ہوئے نظر ثانی کی جاتی،حضرت ابو رافع ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے ایک اونٹ قرض لیا، پھر جب آپ ﷺ کے پاس صدقے کے اونٹ آئے، تو مجھے رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ میں اس شخص کا قرض ادا کر دوں جس سے چھوٹا اونٹ لیا تھا۔ میں نے کہا: میں تو اونٹوں میں چھ سال کے بہترین اونٹوں کے سوا کچھ بھی نہیں پاتا تو رسول اللہ ﷺنے فرمایا:’’اسی میں سے اسے دے دو، کیونکہ لوگوں میں بہتریں وہ انسان ہیں جو قرض ادا کرنے میں سب سے اچھے ہیں۔‘‘(موطا امام مالک، جامع ترمذی)
حضرت عوف بن مالک ؓ کہتے ہیں کہ نبی کریمﷺ کے پاس جس دن مال فئے آتا آپ اسی دن اسے تقسیم کر دیتے، شادی شدہ کو دو حصے دیتے اور کنوارے کو ایک حصہ دیتے، تو ہم بلائے گئے، اور میں عمار ؓ سے پہلے بلایا جاتا تھا، میں بلایا گیا تو مجھے دو حصے دئیے گئے کیونکہ میں شادی شدہ تھا، اور میرے بعد عمار بن یاسر h بلائے گئے تو انہیں ایک حصہ دیا گیا۔‘‘ (مسند احمد)
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ جل شانہُ فرماتا ہے : ’’میں قیامت کے دن تین قسم کے شخصوں کا مد مقابل ہوں گا: ایک وہ شخص جو میرے نام پر وعدہ کرکے عہد شکنی کرے، دوسرے وہ شخص جو آزاد کو بیچے پھر اس کی قیمت کھائے، تیسرا وہ شخص جو مزدور سے کام لے اوراس کی مزدوری نہ دے۔‘‘
ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ اجرت دونوں کے بارے میں رہنمائی موجود ہے، اس میں کم سے کم اجرت کی تو وضاحت کر دی گئی ہے تاکہ کسی مزدور کی بنیادی ضروریات کما حقہ پوری ہوسکیں۔کم و پیش1400 سال بعد انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے میں ’’انصاف پسند اور مناسب معاوضہ‘‘ کی بات کی گئی ہے۔ اسلام کا موقف ہے کہ ملازمین کو اتنی تنخواہ ملنی چاہیے کہ اس سے بتقاضائے بشری اس کی اور اس کے خاندان کی تمام ضروریات پوری ہو سکیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں اسلام کے مطابق مزدورں کے حقوق ادا کر نے کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین یا رب العالمین!