حج کی اہمیت و فضیلت
ابومحمد
تمام تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے محکم ترین شریعت نازل فرمائی اور نہایت ہی انوکھے اور نرالے انداز سے کائنات کو تخلیق بخشی۔ میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی اس بندئہ مومن جیسی حمد بیان کرتا ہوں جو اپنے دل، زبان اور عمل کے ساتھ اللہ کی شکر گزاری میں مصروف ہو اور شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں، وہ اکیلا ہے، کوئی اس کا شریک نہیں اور وہی معبود برحق ہے۔ یہ بھی شہادت دیتا ہوں کہ محمدﷺ اس کے امین اور برگزیدہ بندے اور رسول ہیں۔
اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو اس کے احکام کی تعمیل اور منہیات سے اجتناب کرو۔ یاد رکھو کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے بیت الحرام خانہ کعبہ کا حج فرض قرار دیا ہے اور اسے اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک اہم رکن بتایا ہے۔ حج بیت اللہ کی خوب ترغیب دی گئی ہے اور اس پر اجر عظیم اور ثواب کثیر کا وعدہ بھی فرمایا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے بھی حج کی تعلیم دی ہے اور اس کے بے پناہ اجر و ثواب بیان فرمائے ہیں۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’ایک عمرہ دوسرے عمرہ تک کے گناہوں کے لیے کفارہ ہے اور حج مبرور کا جنت کےسوا کوئی صلہ نہیں۔‘‘(متفق علیہ)
لہٰذا! بندہ مومن کے لیے ضروری ہے کہ وہ اخلاص، حسن ِنیت اور رسول اللہ ﷺکے اتباع کے جذبہ کے ساتھ اس مقدس فریضہ کی ادائیگی کا ارادہ ر کھے اور اس کا آرزو مند ہو۔
دوسری حدیث میں آپﷺ نے فرمایا:
’’جس شخص نے اللہ کے لیے حج کیا اور پھر نہ فحش گوئی کی، نہ بدکار ہوا تو وہ اپنے گناہوں سے اس دن کی طرح پاک و صاف ہو گیا جس دن اس کی ماں نے اسے جنا تھا۔‘‘(متفق علیہ)
اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے حج کی فضیلت بیان فرمائی ہے اور اس بندئہ صادق کا اجر و ثواب ذکر کیا ہے جو رب تعالیٰ کے حکم اور اس کے خلیل ابراہیم ؑ کی دعوت پر لبیک کہتا ہوا اخلاص کے ساتھ اور اجر و ثواب کی نیت سے اس مقدس فریضہ کی ادائیگی کے لیے رخت سفر باندھے کہ اللہ کے نزدیک اس بندہ کا ثواب جنت ہے اور گناہوں سے وہ اس طرح پاک ہو جاتا ہے جس طرح اس کی ماں نے اسے پاک وصاف جنا تھا۔ وہ روئے زمین پر اس نوزائیدہ بچہ کی مانند بے گناہ چلتا پھرتا ہے جس نے کوئی برا کام کیا ہے، نہ کسی گناہ کا مرتکب ہوا ہے اور نہ ہی اس بچہ سے کسی گناہ کا تصور کیا جا سکتا ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ایک مسلمان رب العالمین کے اس عظیم انعام کے حصول کے لیے پوری کوشش کرے ، ممکن ہے وہ اس اجر عظیم کو پالے اور اللہ کے نزدیک اس کے حج کو شرف ِقبولیت حاصل ہو جائے۔
حج میں ایسے بے شمار بڑے بڑے فائدے ہیں کہ بہت سے لوگ اس کا تصور بھی نہیں کرتے، چنانچہ حج سے حکم الٰہی کی تعمیل ہوتی ہے۔ندائے خلیل اللہ ابراہیم ؑ پر لبیک کہا جاتا ہے، فرمان الٰہی ﴿ کے مطابق اور رسول اللہ ﷺ کی سنت کی اتباع میں بیت اللہ کا طواف کیا جاتا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا تھا:
’’لوگو! تم مجھ سے حج کے مناسک سیکھ لو۔‘‘
حج کے ذریعہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ ؑ کے حالات زندگی اور ان کی یہ دعا یاد کی جاتی ہے جو بلد حرام کے سلسلہ میں انہوں نے کی تھی:
{وَاِذْ قَالَ اِبْرٰہِیْمُ رَبِّ اجْعَلْ ہٰذَا الْبَلَدَ اٰمِنًا وَّاجْنُبْنِیْ وَبَنِیَّ اَنْ نَّعْبُدَ الْاَصْنَامَ(35)} (ابراہیم) ’’اور یاد کرو جب کہا ابراہیم ؑنے :اے میرے ربّ اس شہر (مکّہ) کو بنا دے امن کی جگہ اور بچائے رکھ مجھے اور میری اولاد کو اس سے کہ ہم بتوں کی پرستش کریں۔‘‘
حج میں مقام ِابراہیم کے پاس نماز ادا کی جاتی ہے جس مقام کو اللہ تعالیٰ نے امن و سلامتی کے اس مقدس شہر میں منجملہ دیگر نشانیوں کے ایک واضح نشانی قرار دیا ہے اور اس کی بابت یہ ارشاد فرمایا ہے:
{وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰہٖمَ مُصَلًّی ط}(البقرۃ:125) ’’اور (ہم نے حکم دیا کہ) مقامِ ابراہیم ؑکو اپنی نماز پڑھنے کی جگہ بنا لو۔‘‘
حج کے ذریعہ مسلمانوں کو ان کی وحدت اور یہ حقیقت یاد دلائی جاتی ہے کہ یہی بیت اللہ ہے جو روئے زمین میں بسنے والے تمام مسلمانوں کا قبلہ ہے اور یہی وہ گھر ہے جس کی طرف رخ کر کے ایک دن اور رات میں پانچ مرتبہ فرض نماز یں ادا کی جاتی ہیں۔
حج میں رسول اللہ ﷺ کے ان احوال و واقعات کو یاد کیا جاتا ہے جب ابتدائے بعثت میں اس بیت اللہ کے پاس آپؐ اللہ کی عبادت و بندگی میں مشغول ہوتے اور لوگوں کو اللہ کی توحید اور بندگی کی دعوت دیتے تھے۔ ساتھ ہی آپؐ کا وہ بے مثال صبر و مجاہدہ اور ضبط و متحمل بھی یاد کیا جاتا ہے جس کا ثبوت آپؐ نے اس وقت پیش فرمایا تھا جب مشرکین آپؐ کو اذیتیں پہنچاتے، آپؐ کا اور آپؐ کے اصحاب کا استہزاء و تمسخر کرتے۔ سجدہ کی حالت میں کندھے پر گندگی کا بوجھ ڈال دیتے، چیلنج کرتے اور آپؐ کی رسالت پر ایمان لانے والوں کو طرح طرح کے عذاب میں مبتلا کرتے تھے۔ لیکن ان سب کے باوجود آپؐ کی دعوت و تبلیغ کا سلسلہ تیز سے تیز تر ہوتا جا تا ، رب العالمین پر بھروسا اور اس کی نصرت و تائید پر آپؐ کا ایمان و یقین بڑھتا جاتا اور آلام و مصائب سے رہائی اور کشائش کی امید قوی ہوتی جاتی تھی، چنانچہ یہ سب کچھ آپؐ کو حاصل ہوا اور اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی بھر پور مدد فرمائی۔
اسی طرح بندہ مومن جب اپنے کپڑے اتار کر احرام کے کپڑے زیب تن کرتا اور سر کو کھلا رکھ چھوڑتا ہے۔ مشاعر حج اور عرفات کے میدان میں اللہ سے گریہ وزاری کرتا ہے، قربانی کا جانور ذبح کرتا اور رمی جمرات کرتا ہے اور ذکر الٰہی کے لیے منٰی کے اندر قیام پذیر ہوتا ہے تو اس کے یہ تمام حالات رب تعالیٰ کی عبودیت و بندگی کا مظہر ہوتے ہیں اور اس کے اس فرمان کی طرف اشارہ ہوتا ہے:
{یٰٓـاَیُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنْثٰی وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْاطاِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللہِ اَتْقٰىکُمْ ط} (الحجرات:13)
’’اے لوگو! ہم نے تمہیں پیدا کیا ہے ایک مرد اور ایک عورت سے‘اور ہم نے تمہیں مختلف قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کر دیا ہے تا کہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔یقیناً تم میں سب سے زیادہ با عزّت اللہ کے ہاں وہ ہے جو تم میںسب سے بڑھ کر متقی ہے۔‘‘
حج میں اس مقدس ترین مقصد کی تکمیل کا اشارہ ملتا ہے جس کے لیے کائنات کی تخلیق عمل میں آئی ہے اور وہ مقصد اللہ تعالیٰ کی عبادت و بندگی ہے جیسا کہ ارشاد ہے:
{وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ (56)} (الذاريات)’’اور مَیں نے نہیں پیدا کیا جنوں اور انسانوں کو مگر صرف اس لیے کہ وہ میری بندگی کریں۔‘‘
اللہ تعالیٰ کی عبادت و بندگی ہی وہ بنیادی مقصد ہے جس کے لیے جن وانس کی تخلیق ہوئی اللہ رب العالمین نے انہیں عبث یا محض دنیا کو آباد رکھنے، زندگی گزارنے اور ایک دوسرے کے او پر اپنی فوقیت و بالادستی کا مظاہرہ کرنے کے لیے نہیں بلکہ اس لیے پیدا کیا ہے کہ یہ دنیا آخرت کی کھیتی ہو اور اہل ایمان اور اصحاب تقویٰ کے لیے تجارت گاہ۔ چنانچہ فرمایا:
{وَلَدَارُ الْاٰخِرَۃِ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ اتَّقَوْاطاَفَلَا تَعْقِلُوْنَ(109)}(يوسف:109) ’’اور یقیناً آخرت کا گھر بہتر ہے اُن لوگوں کے لیے جو تقویٰ کی روش اختیار کریں ۔ تو کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟‘‘
لہٰذا اللہ سے ڈرو اور جب تک قید حیات میں ہو اعمال صالحہ کا ذخیرہ جمع کرتے رہو تاکہ اللہ تعالیٰ کے اس وعدہ کے مستحق بن سکو جو اس نے رسول اللہ ﷺکی زبان مبارک سے فرمایا ہے:
’’حج مبرور کا جنت میں کوئی دوسرا بدلہ نہیں۔‘‘
وہ شخص بڑا ہی باسعادت ہے جسے اللہ تعالیٰ حج بیت اللہ کی توفیق دے دے اور اس کا حج قبول فرما کر اس کے گناہ سے درگزر کر دے۔ وہ نفس بھی بڑا مبارک ہے جسے بیت اللہ تک پہنچنے کی سعادت حاصل ہو اور وہ اس کا طواف کرے اور اس حرم امن میں نماز ادا کرے جو پوری دنیا کے مسلمانوں کی اجتماع گاہ ہے۔ مسلمان دنیا کے کونے کونے سے اس مقدس مقام پر حاضر ہوتے ہیں تاکہ فریضہ حج ادا کریں اور اللہ تعالیٰ کے گھر میں اللہ سے عہدوپیمان کی تجدید کریں۔ ساتھ ہی وہ اس مقام مقدس میں بیٹھ کر اللہ رب العالمین سے گناہ و معصیت کے کاموں سے دور رہنے اور اللہ کا تقرب حاصل کرنے کا بایں طور عہدوپیمان کرتے ہیں کہ اس کی اطاعت و بندگی کریں گے، عمل اسی کے لیے انجام دیں گے، اس کے سوا کسی سے لو نہیں لگائیں گے۔ استفادہ و فریاد اسی سے کریں گے، اس کے آگے جھکیں گے، اس سے امید و بیم رکھیں گے، اس کو پکاریں گے، اس پر اعتماد و توکل کریں گے اور اس کے سوا کسی کو معبود و پروردگار نہیں جانیں گے، جیسا کہ ارشاد ہے:
{اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ وَیَکْشِفُ السُّوْٓئَ وَیَجْعَلُکُمْ خُلَفَآئَ الْاَرْضِ ط ئَ اِلٰہٌ مَّعَ اللہِ ط قَلِیْلًا مَّا تَذَکَّرُوْنَ(62)}(النمل:62) ’’بھلا کون ہے جو سنتا ہے ایک مجبور و لاچار کو جب وہ اُس کو پکارتا ہے اور (اُس کی) تکلیف کو دور کرتا ہے؟اور جو تمہیں جانشین بناتا ہے زمین میں؟کیا کوئی اور معبود بھی ہے اللہ کے ساتھ( ان کاموں میں شریک)؟ بہت ہی کم نصیحت ہے جو تم لوگ حاصل کرتے ہو۔‘‘
کعبۃ اللہ کی اس مقدس سر زمین پر اللہ رب العالمین کے حضور کھڑے ہونا بڑی عظمت کی بات ہے ارشاد الٰہی ہے:
﴿{جَعَلَ اللہُ الْـکَعْبَۃَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ قِیٰمًا لِّلنَّاسِ}(المائدئہ:97) ’’اللہ نے کعبے کو‘ جو کہ بیت الحرام ہے ‘ لوگوں کے قیام کا باعث بنا دیا ہے‘‘
کعبۃ اللہ حضرت ابراہیم ؑ کی یاد گار ہے جس نے اس کی بنیاد رکھی اور اسے تعمیر کیا۔ اللہ رب العالمین نے فرمایا:
’’جب ابراہیم اور اسماعیل بیت اللہ کی بنیاد یں اونچی کر رہے تھے (تو دعا کئے جاتے تھے کہ) اے پروردگار! ہم سے یہ خدمت قبول فرما بے شک تو سننے والا اور جاننے والا ہے۔ اے پروردگار! ہم کو اپنا فرمانبردار بنائے رکھنا اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک گروہ کو اپنا مطیع بنائے رہنا اور ہمیں ہمارے طریق عبادت بتا اور ہمارے حال پر (رحم کے ساتھ) توجہ فرما، بے شک تو توجہ فرمانے والا مہربان ہے۔‘‘(البقرہ:127،128)
لوگو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور اس کی شکر گزاری کرو جو اُس نے تم کو دین اسلام کی رہنمائی فرمائی، نبی کریمﷺ کے اتباع کی توفیق دی اور بیت الحرام تک پہنچنے اور کعبہ مشرفہ کے پاس حاضر ہونے کی سعادت عطا کی، جہاں دعائیں قبول ہوتی ہیں، آرزؤوں کی تکمیل ہوتی ہے، مرتبے بلند ہوتے ہیں اور گناہ معاف کئے جاتے ہیں۔ جی ہاں وہ ایسی مقدس جگہ ہے جہاں آنکھوں سے بے ساختہ اشک جاری ہوتے ہیں، لغزشوں کی بخشش اور دلوں کا تزکیہ ہوتا ہے، یہی وہ بابرکت جگہ ہے جہاں دنیا کے گوشے گوشے سے آئے ہوئے مسلمان باہم ملتے اور ایک دوسرے سے متعارف ہوتے ہیں۔ ان کے رنگ و نسل، زبان و اسلوب، لباس و معیشت اور حالات تو مختلف ہوتے ہیں مگر مقصد ایک ہوتا ہے وہ اپنے پروردگار کی رحمت کے خواہاں اور اس کے عذاب سے خائف وتر ساں ہوتے ہیں۔ ان کے دل اسی ذات واحد کی یاد سے معمور ہوتے ہیں اس کے سوا کسی اور کو وہ معبود تسلیم کرتے ہیں نہ پروردگار مانتے ہیں۔
مسلمانو! لہٰذا اس عظیم نعمت پر اللہ رب العالمین کا شکر ادا کرو اور قول و عمل اورہر اعتبار سے اس کے مخلص بندے بن جاؤ۔