ہمیں کیا ہو گیا ہے؟؟
خالد نجیب خان
گزشتہ دنوں لاہور میں ایک کانفرنس منعقد ہوئی ، موضوع تھا’’ غزہ میں کیا ہو رہا ہے اور ہمیں کیا ہو گیا ہے؟‘‘
تقریب کے میزبان تو ناسازی طبع کے باعث تشریف نہیں لا سکے تھے مگر کانفرنس میں دیگر درجنوں اساتذہ،علما ء دین ، مشائخ اور سیاستدانوں کی باتیں سننے کاموقع ملا۔خیال تھا کہ یہاں سے ہی کوئی نقطہ مل جائے گا کہ جس پر چل کر ملت اپنا سفر درست سمت میں شروع کردے مگر یہ خیال ،خیالِ خام ہی رہا۔ایک موقع پر نقیب مجلس کو پیغام بھیجا کہ پانچ منٹ کے لیے مائیک اور روسٹرم مجھے بھی عنایت کریں تو رسمی اور مایوس کن باتوں کے سوا بھی شاید حاضرین کو کچھ دیا جاسکے ۔ روسٹرم اور مائیک تو نہ ملا، یقیناً اس میں اُن کی کوئی مصلحت ہوگی، مگر واپس آکر کاغذقلم مل گیاتواُن خیالات کو قلم بند کردیا جو مائیک و روسٹرم کے متقاضی تھے۔
غزہ میں کیا ہو رہا ہے؟ یہ بات تو کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ ڈھکی چھپی اگر ہے تو شایدہمارے نام نہاد حکمرانوں سے۔ یہ کہنا کہ ہمارے میڈیا کو اِس کی خبر نہیں ہے، درست خبر نہیں ہے۔ کیونکہ اُن کی توزبان ہی بند کی جا چکی ہے یا پھر یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہاں یعنی غزہ میں جو کچھ اور جتنا زیادہ ہو رہا ہے صحافتی ڈیفینیشن کے مطابق اِس خبرمیں اب کوئی خبریت نہیں ہے۔ کیونکہ کہا جاتا ہے کہ جب کتا انسان کو کاٹتا ہے تو اِس میں خبریت نہیں ہے مگر جب انسان کتے کو کاٹے تو اِس میں خبر ہے۔اور ایسا ہی ہے کہ جب بھی کہیں کسی صہیونی کو کوئی نقصان پہنچتا ہے ، میڈیا پر اُس کی خبر آجاتی ہے۔
بہرحال ’’غزہ میں کیا ہو رہاہے ؟‘‘سے زیادہ اہم موضوع یہ ہے کہ’’ہمیں کیا ہو گیا ہے؟‘‘اِس سوال کا جواب اگر ہمیں مل جائے اور اس کا تدارک کر دیا جائے تو شاید ہمیں مسئلے کا حل مل بھی جائے گا۔ ہمیں یہ ہوا ہے کہ ہم اِس انتظار میں ہیں کہ کوئی آئے اور آ کر ہمیں بچائے ۔
ہم اپنے حکمرانوں کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ وہ کچھ کریں جبکہ وہ کچھ نہیں کر رہے۔ ہم عربوں کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ وہ کچھ کریں مگر وہ کچھ نہیں کر رہے۔ ہم ایم بی ایس کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ وہ کچھ کریں، مگر وہ اس حوالے سے کچھ نہیں کر رہے۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں؟
اِس کا سادہ جواب یہ ہے کہ وہ پہلے سے کیے ہوئے بین الاقوامی معاہدوں کے پابند ہیں اور وعدوں کی زنجیروں کو توڑنا اُن کے بس کی بات نہیں ہے ۔ہمیں یہ ہو گیا ہے کہ ہم اُن کی طرف دیکھ رہے ہیں اور اُن سے توقعات لگا کر بیٹھے ہیں کہ جو خود زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔
غزہ میں کیا ہو رہا ہے؟
اس بات کا احساس اگر کسی کے دل میں پیدا ہو جاتا ہے تو یہ بھی بڑی سعادت ہے، بڑی نیکی کا جذبہ ہے اور اللہ کے نزدیک یقیناًاِس کا بڑا اجر ہے اور جس کسی کے دل میں یہ خیال پیدا نہیں ہوتا وہ یقیناًاِس نیکی اور اجر سے محروم ہے۔ کیا ہمارے لیے یہ اجر یا احساس رکھنا ہی کافی ہے؟ ہرگز نہیں!
ہمارے ہاں بے شمار مسائل ہیں،آج ہم لوگوں میں سے شاید ہی کوئی ایسا ہو جو لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے ، یا یہ کہہ لیں کہ غیر اعلانیہ لوڈ شیڈینگ سے پریشان نہ ہو یا کسی کو پینے کا صاف پانی میسرآنے میں دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑتا ہو۔ علاج کے حوالے سے اُسے تمام سہولیات حاصل ہوں۔ اُس کو اپنی جان اور مال کا مکمل تحفظ حاصل ہو ۔ اپنے گھر سے دفتر یا دکان پر جانے کے لیے اُسے ریاست کی طرف سے ٹرانسپورٹ کی مکمل سہولت حاصل ہو ۔ یہ تمام وہ چیزیں ہیں جو ہمیں حاصل ہونی چاہیں مگر حاصل نہیں ہیں مگر ہم کسی نہ کسی طرح سے اپنی حیثیت کے مطابق اپنی جیب سے خرچ کر کے اِن مسائل کا حل نکال ہی رہے ہیں کیونکہ ہم اِن کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔
جبکہ اصولاً توہمیں انتظار کرنا چاہیے تھا کہ حکومت خود یہ سب کچھ ہمیں فراہم کرے مگر ہم نے کچھ دیر انتظار کرنے کے بعد خود سے بندوبست کر لیا۔غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے تو ہم نے پاور جنریٹر لگوا لیے یا سولر پینلز کا بندوبست کر لیا ۔صاف پانی کے لیے گھر پر فلٹریشن پلانٹ لگوا لیا۔جان اور مال کی حفاظت کے لیے نجی سیکورٹی گارڈز رکھ لئے۔ریاستی ٹرانسپورٹ نہیں ہے تو ہم نے اپنی ذاتی گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں رکھ لی ہیں ۔یہ سب کچھ ہم نے صرف اس لیے کیا ہے کہ اپنی چار دن کی عمر دراز کے لیے آسانی حاصل کر سکیں۔
دوسری طرف مسجدِ اقصیٰ ہے، جس کا تحفظ ہمارے خیال میں حکومتوں کی ذمہ داری ہے مگر وہ اپنا فرض ادا نہیں کر رہیں تو کیا ہمیں ہاتھ اٹھا لینے چاہیں کہ ہم کچھ نہیں کر سکتے، حالانکہ اِس کا اجر ہماری آخرت کی ابدی زندگی کو سنوارنے والا ہے۔
اہلِ غزہ کے لئے ہم دعائیں کرتے ہیں مگر ہماری دعائیں قبول نہیں ہورہیں ۔
ہماری دعائیں قبول کیوں نہیں ہورہیں؟
اِس لیے کہ ہم ویسے ہیں ہی نہیں جن کی دعائیں قبول ہوا کرتی ہیں۔ بد قسمتی سے ہم مسلمان تو ہیں مگر ایمان ہمارے اندر داخل نہیں ہوسکا ہے۔
سورۃ الحجرات کی آیت 14 میں فرمایا گیا ہے کہ: ’’یہ بدو کہہ رہے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں،اے نبی ﷺ کہہ دیجئے ،تم ہرگز ایمان نہیں لائے ہو بلکہ تم یوں کہو کہ ہم مسلمان ہو گئے ہیں۔ ‘‘
توہمیں خود اپنا جائزہ لینا چاہیے کہ ہم حقیقت میںمومن ہیں یا صرف کلمہ گو مسلمان ہیں۔
اِن حالات میں یقیناً ہم یہ کر سکتے ہیں کہ ہم خود کو بدلیں، کسی کا انتظار نہ کریں،قرآن سے اِس طرح سے جڑ جائیں کہ ہمارا اُٹھنا، بیٹھنا،سونا جاگنا،معاشرت ،معاملات ، سیاست،معیشت غرض ہر شے قرآن کے مطابق ہو جائے۔ گویا بس خود کو اِس طرح سے بدل لیں کہ ہمارا بدلہ ہوا روپ اللہ کو پسند آ جائے۔ جب ہر شخص اپنے آپ کو اِس انداز میں بدل لے گا تو یقینا ًپوری قوم ہی ایسی بدلی ہوئی قوم بن جائے گی جس کا بدلہ ہوا روپ اللہ تعالیٰ کو پسند آ جائے گا ۔ایسے میں قوم کے حکمران اور مقتدر حلقے بھی ایسے ہوں گے جو مسجدِاقصیٰ کے تحفظ کے لیے سیدنا عمر فاروق ؓ اور صلاح الدین ایوبی ؒ کا کردارادا کریں گے ۔ پھر اللہ کی نصرت بھی آئے گی ۔اس کے ساتھ ساتھ اہلِ غزہ کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں ،اہلِ غزہ کے دشمنوں کو اپنا دشمن بھی سمجھیں اور اپنی طرف سے اُن دشمنوں کو کوئی مالی فائدہ خواہ ایک پیسے کا ہی ہو نہ پہنچائیں۔
جو لوگ یہ خیال کر رہے ہیں کہ اِن موجودہ حالات میں اللہ تعالی کی نصرت آ جائے گی تو وہ جان لیں کہ قیامت آ جائے گی، اِن حالات میں اللہ کی نصرت نہیں آئے گی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ وہ اُس کی ہی مدد کرتا ہے جو خود اپنی مدد کرتے ہیں ۔