(دین و دانش) دوستی اللہ کے لیے، دشمنی اللہ کے لیے - مولانا عبداللہ

10 /

دوستی اللہ کے لیے، دشمنی اللہ کے لیے

مولانا عبد اللہ

سیدنا انس ؓ سےروایت ہے کہ امام الانبیاء ﷺ  نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص میں تین خصلتیں ہوں گی۔ وہ ایمان کی مٹھاس کو پالے گا۔
1۔وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے دنیا کی ہر چیز سے بڑھ کر محبت کرتا ہو۔
2۔ وہ جس شخص سے بھی محبت کرتا ہو، محض اللہ کی (رضا) وجہ سے کرتا ہو۔
3۔ کفر سے نجات پانے کے بعد دوبارہ کفر میں لوٹنے کو اسی طرح ناپسند کرتا ہو جیسے آگ میں پھینکے جانے کو ناپسند کرتا ہے۔
ایمان کی حلاوت (مٹھاس ) کا معنی یہ ہے کہ انسان کو عبادت کرنے میںاور اللہ تعالی کے دین کی خاطر مشقت اُٹھانے میں اور نبی اکرم ﷺ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے میں لذت حاصل ہو۔ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے میں اور اس کے احکام کی مخالفت ترک کرکے اللہ اور اس کے رسول کی محبت کو دنیا اور دنیا کے تمام لوگوں کی محبت پر ترجیح دے۔
امام الانبیاءﷺ کا ایک ارشاد گرامی ہے:      ’’تم میں سے کوئی شخص اُس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اُس کے نزدیک اُس کی اولاد اُس کے والد اور تمام لوگوں سے محبوب نہ ہوجائوں۔ ‘‘( رواہ مسلم) اس حدیث میں ایسے شخص کے ایمان سے انکار کیا گیا ہے جو دنیا کے تمام لوگوں سے بڑھ کر نبی اکرمﷺ سے محبت نہیں رکھتا۔
قرآن مجید میں ارشا دباری ہے: 
 ’’ (اے نبی ﷺ !ان سے)کہہ دیجیے کہ اگر تمہارے باپ ‘تمہارے بیٹے‘ تمہارے بھائی‘تمہاری بیویاں (اور بیویوں کے لیے شوہر)‘تمہارے رشتہ دار اور وہ مال جو تم نے بہت محنت سے کمائے ہیں ‘اور وہ تجارت جس کے مندے کا تمہیں خطرہ رہتا ہے ‘اور وہ مکانات جو تمہیں بہت پسند ہیں ‘( اگر یہ سب چیزیں) تمہیں محبوب تر ہیں اللہ‘ اُس کے رسول(ﷺ) اور اُس کے راستے میں جہاد سے ‘تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ سنا دے۔اور اللہ ایسے فاسقوں کو راہ یاب نہیں کرتا۔‘‘(التوبہ:24)
میرے پیغمبر !آپ کہہ دیجئے کہ اگر تمہارے ماں باپ،تمہاری اولاد، تمہارے بھائی، تمہاری بیویاں، تمہارے رشتہ دار، تمہاراکمایا ہوا مال، تمہاری تجارت جس میں نقصان سے تم ڈرتے رہتےہو اور تمہارے پسندیدہ مکان (یہ سب چیزیں )تمہیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہیں تو اللہ کے حکم (عذاب)کا انتظار کرو اور اللہ تعالی نافرمانوں کو ہدایت نہیں دیتا۔
اس آیت میں آٹھ ایسی چیزوں کو شمار کیا گیا ہے جن کے ساتھ بندے کو فطری اور قدرتی محبت ہوتی ہے۔ ان چیزوں کے مقابلے میں تین محبتوں کو رکھا گیا ہے،اللہ ، رسول اور جہاد فی سبیل اللہ ۔پھر ایسے لوگوں کو عذاب الٰہی کے انتظار کرنے کا کہا گیا جو آٹھ چیزوں کی محبت کو ان تین چیزوں کی محبت پر ترجیح اور فوقیت دیتے ہیں۔
اس مضمون کے آغاز میں جس حدیث کو بیان کیا گیا ہے اس میں دوسری چیز جو ایمان کی لذت و مٹھاس کے پانے کے لیے ضروری قرار دی گئی ہے وہ ہے بندے کا کسی سے محض اللہ کی رضا کے لیےمحبت کرنا یعنی الحب للہ۔ دین میں اس کی بڑی اہمیت ہے۔ نبی اکرمﷺ نے مختلف مواقع پر ایسے شخص کے لیے توصیفی کلمات ادا فرمائے ہیں ۔ ایک حدیث میں ارشاد نبوی ہے:’’اللہ رب العزت قیامت کے دن آوازلگائے گا؟’’ کہاں ہیں وہ لوگ جو میری عظمت کی وجہ سے آپس میں محبت کرتے تھے۔ آج میں ان کو اپنے (عرش کے ) سایہ کے نیچے جگہ دوں گا ۔‘‘ (رواہ المسلم )
ایک موقع پرارشاد فرمایا :’’ اللہ رب العزت کہتا ہے میں نے اپنی محبت کو اُن دو آدمیوں کے لیے اپنے ذمہ کرم پر واجب اور لازمی ہےجو میری وجہ سے آپس میں محبت کرتے ہیں اور میری وجہ سے ہم مجلس ہوتے ہیں۔‘‘ (مشکوٰۃ)
  ایک مرتبہ نبی اکرمﷺ نے حضرت ابوذر ؓ سے پوچھا:((یا اباذر ای عری الایمان اوثق )) ’’اے ابوذر!ایمان کا کون سا کڑا زیادہ مضبوط ہے؟‘‘ ابوذر ؓ نے کہا اللہ اور اس کارسول بہتر جانتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ((الموالات فی اللہ والحب فی اللہ والبغض فی اللہ))’’ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا محض اللہ کی رضا کےلیے،ایک دوسرے سے محبت کرنا اور بغض رکھنا محض اللہ کی رضا کےلیے(یہ ایمان کا سب سے مضبوط کڑا ہے۔‘‘(مشکوٰۃ )
حضرت ابوذرؓ سے مروی ہے کہ ایک دفعہ  امام الانبیاءﷺ نے پوچھا :((اتدرون ای الاعمال احب الی اللہ تعالٰی ))’’اعمال میں سے کون سا عمل  اللہ رب العزت کو زیادہ پسند اور محبوب ہے؟‘‘ ایک صحابیؓ نے کہا:’’ نماز اورذکر سب سے محبوب عمل ہے۔‘‘ایک  دوسرے صحابی نے کہا:’’ جہاد فی سبیل اللہ سب سے پسندیدہ عمل ہے۔‘‘ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:’’ (یہ اعمال بھی پسندیدہ ہیں) اللہ کی نگاہ میں سب سے پسندیدہ عمل ہے اللہ کی رضا کےلیےکسی سے محبت کرنا اور اللہ ہی کے لیےکسی سے دشمنی اور بغض رکھنا۔‘‘ (مشکوٰۃ)
     حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ’’جنت میں یاقوت سے بنے ہوئے  ستون ہیں، اُن کے اوپر زبرجد کے بالاخانے ہیں۔ یہ ان لوگوں  کو ملیں گے جو ایک دوسرے سے محض اللہ کی رضا کے لیے  محبت کرتے ہیں اور اللہ کی رضا کے لیے ہم مجلس ہوتے ہیں ۔ ‘‘(مشکوٰۃ)
ان تمام ارشادات ِ نبویہ سے یہ حقیقت واضح ہوئی کہ للہیت کا یہ تعلق ، اللہ کے لیے محبت، یہ مقدس انداز جس حد تک بھی کسی جگہ موجود ہے وہ ایک ایسی قیمتی شے ہے جس کی قیمت کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔ آج جب کہ انسان کی محبت اور نفرت کے جذبات نفس اورمفاد پرستی کے غلیظ راستے پر سرگرداں ہیں۔ آج جب کہ دو حقیقی بھائی ایک دوسرے کو اس وقت تک سینے سے لگانے کو تیار نہیں جب تک اس کے نتیجے میں ذاتی مفادات کو تقویت پہنچنے کا کوئی پہلو نہ نکل آئے ۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ ہماری تمام تر زوال رسیدگی کا اصل سبب اور ہمارے درمیان اندوہناک انتشار و پراگندگی اور اختلاف کا بنیادی باعث صرف اورصرف یہی ہے کہ ہماری محبت اور ہماری نفرت کے اسلامی معیار بدل چکے ہیں۔
محبت ونفرت کے جذبات کا مرکز اب للہیت کے سوا ہر چیز ہے۔ ہر وہ نقصان ہمیں افسردہ وپریشان کردیتا ہے جس سے ہماری مفاد پرستی پر آنچ آتی ہو۔ ہر وہ چیز ہمیں مشتعل کردیتی ہے جس سے ہمارے نفس کے وقار کو دھچکا لگنے کا اندیشہ ہو۔ ہر وہ عمل ہمارے دل میں مسرت کی گد گدی پیدا کردیتا ہے جس سے ہمارے پندار کو تسکین ملتی ہو، مگر ہماری آنکھوں کے سامنےاسلامی احکامات کی دھجیاں اُڑائی جا رہی ہوںتوہم اس طرح خاموشی سے دیکھتے ہوئے گزرجاتے ہیں جیسے ہماری رگوں میں زندگی کی کوئی رمق ہی موجود نہیں ہے۔ حلقہ احباب میں بیٹھ کر ہم محفل کی رونق سے لطف اندوز ہوتےہیں مگر مسجد کے ویران درودیوار کو دیکھ کر ہمارے ہونٹوں سے کبھی آہ نہیں نکلی۔ ایک باپ ایک ساعت کے لیے یہ برداشت نہیں کرسکتا کہ اُس کی اولاد اس کی منشا کے خلاف کوئی حرکت کرے مگر یہی باپ اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے کہ اس کی اولاد اللہ اور رسولﷺ کے احکام کو قدموں تلے روند رہی ہے۔لیکن یہ بات اُس کے جذبات کو برانگیختہ نہیں  کرتی ۔ ایک دوست دوسرے دوست کی موت پر اور ایک عزیزدوسرے عزیز کی جانکنی پر آنسو بہائے بغیر نہیں رہ سکتا لیکن ہم دن رات یہ سنتے ہیں کہ بے دینی کا سیلاب کئی لوگوں کو بہاکر لے گیااور فلاں مقام پر شرک وکفر کی آندھی نےہزاروں مسلمانوں کے ایمان و یقین کی جان نکال کر رکھ دی ہے ۔مگر یہ خبریں او ریہ مشاہدے ہماری غیرت ملی اور ایمانی جذبات میں کوئی سنسنی، کوئی کپکپی پیدا نہیں کرتے۔ آج کیسے کیسے فتنے ہیں جو اسلام کا چراغ گل کرنے کے لیے باطل کی آندھیاں اُٹھا رہے ہیں ، کیسے کیسے خطرات ہیں جو حق کو نیچا دکھانے کے لیے ہر اُفق سے نمودار ہورہے ہیں ۔ کہیں امام الانبیاءﷺکی مبارک سنت سے بغاوت ہو رہی ہے ، کہیں کتاب اللہ کے معنی ومفہوم میں تحریف کی مہم چلائی جارہی ہے ، کہیں شرک کی وباسے توحید کو دبانے کی کوششیں ہورہی ہیں، بدعات ورسومات کے زور سے سنت کو مٹانے کی سعی جاری ہے، کہیں معصوم بچوں کے ناپختہ ذہنوں میں مغربی افکار گھسیڑنے کی چالیں چلی جارہی ہیں ، کہیں مذہب کا قلع قمع کرنے کے لیے لامذہبیت اور الحاد و دہریت کا عفریت اپنے خون آشام جبڑے کھولے کھڑا ہے۔ ہر طرف اور  ہر سو کفر وشرک ، بدعات رسومات، الحاد بے دینی، بے پردگی ونیم برہنگی فحاشی وبے حیائی کی ہوائیں چل رہی ہیں ۔ سیکولرازم کےداعی صرف اسلام کے خلاف کمر کس چکے ہیں۔ مگر اتنے پُر خطر حالات میں ہم رات بھر پائوں پسار کرمیٹھی نیند سوتے ہیں اور تمام دن دنیائے فانی کی     بے اعتبار چند روزہ زندگی کو سنوارنے کے لیے اس طرح گم رہتے ہیں کہ الحب للہ اور البغض للہ کے جذبات کو ہمارے وجود میں سر اٹھانے کا معمولی سا موقع بھی نہیں ملتا۔
وہی انسان جو دنیا کے نام پر محبت ونفرت کے پورے جذبات کے ساتھ زندگی گزارتا ہے ،دین کا نام سنتے ہی اس طرح بے حس وحرکت ہوجاتا ہے جیسے جامد لاش ہو۔ معلوم ہوتا ہے ہمارے اندر دینی حس دھیرے دھیرے دم توڑرہی ہے جس کا دوسرا حسین نام الحب للہ اور البغض للہ ہے۔
نماز عشاء کے وتروں میں نیند کی آغوش میں جانے سے پہلے جب بندہ اپنے پروردگار سے یہ عہد وپیمان کرتا ہے کہ تیرے نافرمان بندوں سے میں ترک تعلق کرتا ہوں تو وہ اسی عظیم حقیقت کا عہد کررہا ہو تا ہے کہ اس کی محبت ونفرت ، دوستی ودشمنی ،دلچسپی اور سرد مہری کی بنیاد للہیت اور صرف للہیت پرہوگی۔ وہ صرف اس سے جڑے گا جو اس کے رب سے جڑا ہو ہوگا ،وہ اس سے کٹ جائے گا جس نے اپنے عظیم محسن ومولا سے کٹ کر غیر وں سے رشتہ جوڑا ہوگا۔