اللہ کا بندہ بننے کےچند بنیادی تقاضے
(قرآن و حدیث کی روشنی میں )
مسجد جامع القرآن قرآن اکیڈمی لاہور میں امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ حفظ اللہ کے2 مئی 2025ء کے خطاب جمعہ کی تلخیص
خطبہ ٔمسنونہ اور تلاوتِ آیاتِ قرآنی کے بعد!
خطابِ جمعہ کا ایک اہم مقصد تذکیر یعنی یاد دہانی ہے۔ قرآن حکیم میں خود اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم ﷺ کو ارشاد فرمایا:
{وَّذَکِّرْ فَاِنَّ الذِّکْرٰی تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِیْنَ(55)} (الذاریات :55)’’اور آپ تذکیر کرتے رہیے‘ کیونکہ یہ تذکیر اہل ایمان کے لیے بہت فائدہ مند ہے۔‘‘
لہٰذااس سنت پر عمل پیرا ہوتے ہوئے آج یاددہانی کے طور پر چند باتیں عرض کرنا مقصود ہیں ۔
اللہ کے ساتھ تعلق
اللہ تعالیٰ نے اپنا پہلا تعارف جو ہمارے سامنے رکھا وہ سورہ فاتحہ کی پہلی آیت ہے :
{اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ0}’’کُل شکر اور کُل ثنا اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار اور مالک ہے۔‘‘
کسی شے کو ابتدا سے لے کر انتہا تک ایک ایک حاجت کو پورا کرتے ہوئے درجہ بدرجہ پروان چڑھانا اور منزل مقصود تک پہنچا نا ربوبیت ہے۔ اسی تناظر میں یہ لفظ ماں باپ کے لیے بھی استعمال ہواہے ، جیسا کہ :
{وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًا(24)} (بنی اسرائیل :24)’’اور دعا کرتے رہو : اے میرے رب ان دونوں پر رحم فرما جیسے کہ انہوں نے مجھے بچپن میں پالا۔‘‘
ماں باپ پالنے کا ایک ذریعہ ہیں لیکن ماں باپ کو پیدا کرنے والا، ان کے دل میںاولاد کے لیے محبت ڈالنے والا اور ہماری پرورش کے لیے ان کو وسائل عطا کرنے والا اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہے۔ رب حقیقی تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہی ہے۔ لہٰذا ارشاد فرمایا:
{وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّـلّٰہِ ط}(البقرہ :165) ’’اور جو لوگ واقعتاًصاحب ِایمان ہوتے ہیں ان کی شدید ترین محبت اللہ کے ساتھ ہوتی ہے۔‘‘
ماں باپ سے محبت فطری ہے لیکن سب سے بڑھ کر محبت اللہ تعالیٰ سے ہونی چاہیے ۔ اسی طرح سب سے بڑھ کر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس نے ہمیں بے انتہا نعمتیں عطا کیں ۔ سورۃ الرحمٰن میں اللہ تعالیٰ31 مرتبہ فرماتا ہے:
{فَبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ (16)} ’’تو تم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں اور قدرتوں کا انکار کرو گے؟‘‘
اور دو مرتبہ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے :
{وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوْہَاط}(النحل :18) ’’اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گنو تو اُن کا احاطہ نہیں کر سکو گے۔‘‘
ہمیں سارا کچھ بظاہر مفت میں مل گیا ہے اس لیے اس کی قدر نہیں ہےورنہ بجلی کا بل چند مہینےجمع نہ کرائیں تو بجلی کاٹ دی جاتی ہے ۔بچے کی اسکول فیس دو مہینے جمع نہ کرائیں توبچے کو سکول سے نکال دیا جاتاہے ۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں کا استعمال ہم مال ِ مفت دل ِ بے رحم کے مصداق کرتے چلے جارہے ہیں ۔ کیا اللہ کا شکر ہم پر واجب نہیں ہوتا ؟ روزِ حساب اللہ پوچھے گا ضرور :
{ثُمَّ لَتُسْئَلُنَّ یَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِیْمِ(8)}(التکاثر)
’’پھر اس دن تم سے ضرور پوچھا جائے گا نعمتوں کے بارے میں۔‘‘
آج کل ایک بڑا عجیب جملہ لوگوں کی زبان پر ہوتا ہے کہ گزارا نہیں ہوتا۔ایسا وہ لوگ بھی کہتے نظر آتے ہیں جن کے پاس ٹھیک ٹھاک پیسہ ، کاروبار ، بینک بیلنس ہوتا ہے ۔ یہ ناشکری کے کلمات ہیں ۔ ان لوگوں کو بھی تو دیکھیں جن کو کھانے کے لیے دو وقت کی روٹی میسر نہیں ہے ، رہنے کو چھت اور پہننے کو نیا لباس نہیں ہے ۔ جن کے ہاتھ ، پیر ، آنکھ ، کان نہیں ہیں ۔ حضور ﷺ کی بہت پیاری حدیث ہے کہ اس شخص کی طرف دیکھو جو تم سے نیچے ہے اور اس شخص کی طرف نہ دیکھو جو تم سے اوپر ہے ،یہ زیادہ لائق ہے کہ تم اللہ کی اس نعمت کو حقیر نہ جانو جو تم پر ہے۔ علماء نے اس کا مفہوم یہ بتایا ہے کہ دین کے معاملےمیں تم اپنے سے اوپر والے کو دیکھو کہ نیکی میں رغبت بڑھے اور تکبر سے محفوظ رہو اور دنیا کے معاملے میں اپنے سے نیچے والوں کو دیکھوتاکہ ناشکری سے بچو ۔ کراچی کےایک کالج میں ہم درس دینے گئے تو انہوں نے موضوع رکھا ہوا تھا :’’ ڈپریشن اور اضطراب‘‘ ۔ ایسے مسائل آج کل معاشرے میں عام ہیں کہ ڈپریشن ، اضطراب ، ٹینشن ، فرسٹریشن وغیرہ بڑھ رہے ہیں۔ ہم نے کالج کے طلبہ سے پوچھا کہ آپ لوگوں کے مسائل کیا ہیں ؟ کسی نے جی پی اے کا مسئلہ بتایا، کسی نے آنے والے امتحانات کو وجہ ٹھہرایا ،کسی نے کہامقابلہ بہت سخت ہے ، بہت محنت کرنا پڑتی ہے ۔ میں نے پوچھا : آج غزہ کے بچوں کے جو مسائل ہیں ان کو دیکھ کر آپ کو اپنے یہ مسائل مسائل لگتے ہیں ۔ انہوں نے کہا نہیں ۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے اپنی خواہشات اس قدر بڑھا لی ہیں کہ ہمیں اللہ کی موجودہ نعمتوں کا احساس ہی نہیں ہوتا ۔ جب ہم حاصل شدہ نعمتوں کا احساس کرتے ہوئے اللہ کا شکر ادا کریں گے تو ساری ٹینشن اور ڈپریشن ختم ہو جائے گی اور اللہ تعالیٰ مزید بھی ہمیں عطا کرے گا ۔ اللہ نے مجھے اور آپ کو مسلمان بنایا، محمد مصطفی ﷺ کا اُمتی بنایا، قرآن جیسا کلام عطا کیا، دین مکمل کر کے عطا کیا ۔یہ کتنی بڑی نعمتیں ہیں۔اسی لیے اللہ کے نبی ﷺ نے ہر نماز کے بعد یہ دعا مانگنا سکھائی :
((اَللّٰہُمَّ اَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ ))’’ اے اللہ ! اپنے ذکر اور شکر اور اچھی عبادت پر ہماری مدد فرما ۔‘‘
تنہائی میں بیٹھ کر اگرہم اللہ کے انعامات اور احسانات پر غور کریں اور اپنے طرز عمل کا بھی جائزہ لیں تو یقیناً ہم شرمسار ہوں گے اور اللہ کا شکر بجا لائیں گے ۔ اگلی بات اس سے جُڑی ہوئی ہے ۔
موت کو یاد رکھنا
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں تین مرتبہ فرماتاہے :
{کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِط} ’’ہر ذی نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے‘‘۔(آل عمران :185، الانبیاء : 35، العنکبوت:57)
اللہ کا انکار کرنے والے مل جائیں گے لیکن موت کا انکار کرنے والا کوئی نہیں ملے گا ،ہم سب کو پتہ ہے کہ موت آنی ہے ، لیکن کیا ہم سب کو یقین ہے کہ موت آنی ہے؟کیا ہم سب تیار ہیں اس کے لیے ؟ہر نماز کی ہر رکعت میں ہم دہراتے ہیں :
{مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِo}’’(اللہ)جزا و سزا کے دن کا مالک و مختار ہے۔‘‘
لیکن کیا ہم حساب کے لیے تیار ہیں ؟ کیا ہمارے معاملات درست ہیں ؟روزانہ ہم جنازے اُٹھتے دیکھتے ہیں ، جنازوں میں شریک بھی ہوتے ہیں، مرنے والوں میں بچے بھی شامل ہوتے ، جوان بھی ، بوڑھے بھی ۔ کیا گارنٹی ہے کہ ہم 100 برس سے پہلے نہیں مریں گے ؟قرآن میں اللہ نے یہود کے بارے میں فرمایا کہ یہ چاہتے ہیں کہ ان کی عمریں ہزار برس کی ہوجائیں ۔ وجہ یہی تھی کہ وہ مرنے کے لیے تیار نہیں تھے کیونکہ کرتوت ایسے تھے کہ اللہ کو منہ دکھانے کے قابل نہیں تھے۔ اللہ سے محبت اگر دل میں ہوگی تو اللہ سے ملاقات کا شوق بھی ہو گا ، معاملات بھی درست ہوں گے ، اعمال اور کردار بھی بہتر ہوں گے ۔ لہٰذا پہلا اور دوسرا نکتہ آپس میں جُڑے ہوئے ہیں ۔ اللہ ہمیں موت کا یقین عطا کرےاور تیاری کی توفیق عطا فرمائے، آمین !
خود کو اور گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچاؤ
سورہ تحریم کی آیت نمبر 6 میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے :
{یٰٓــاَیـُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْآ اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا}’’اے اہل ایمان! بچائو اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اُس آگ سے‘‘۔
آج کے دور کی بات ہے ایک غیر مسلم کو اللہ نے ہدایت دی اور وہ ایمان لے آیا ۔ اب اس کی پہلی فکر یہ تھی کہ اس کے بیوی بچے بھی مسلمان ہو جائیں کیونکہ اسے معلوم تھا کہ اگر ایمان نہیں لائیں گے تو جہنم کے دردناک عذاب سے دوچار ہوں گے ۔ لہٰذا اس نے قائل کرنے کے لیے کہا : دیکھو بچو! مجھے اس بات کی کوئی فکر نہیں ہے کہ تم بڑے ہو کر کتنے ڈالرز کماتے ہو ، یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔ ہمارا اصل اور سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم کہیں جہنم کی آگ میں نہ چلے جائیں ۔ایک کھرب پتی نو مسلم سے پوچھا گیا : اپنے بچوں کے مستقبل کے بارے میں آپ کیا سوچتے ہیں ؟ اس نے کہا مجھے صرف یہ فکر ہے کہ روز محشر اللہ تعالیٰ کہہ دے :
{ارْجِعِیْٓ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً(28) فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْ (29) وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ (30)}(الفجر) ’’اب لوٹ جائو اپنے رب کی طرف اس حال میں کہ تم اس سے راضی‘ وہ تم سے راضی۔توداخل ہو جائو میرے (نیک) بندوں میںاور داخل ہو جائو میری جنت میں!‘‘
ہم پیدائشی مسلمان ہیں، اس لیے ہمیں اسلام کی قدر نہیں ہے اور نہ ہی ہمیں اسلامی تقاضوں کی اہمیت کا اندازہ ہے۔ ہم سب کو معلوم ہے کہ نماز باجماعت فرض ہے لیکن کتنے فیصد لوگ باجماعت نمازوں میں آتے ہیں ، فجر کی نماز میں کتنے فیصد لوگ ہوتے ہیں ؟پھر یہ کہ اکثر بڑے بوڑھے لوگ ہی باجماعت نمازوں میں نظر آتے ہیں ۔ کیا آپ نہیں چاہتے کہ باقی گھر والے بھی جنت میں جائیں ؟ پھر ہمارا دعویٰ ہے کہ ہمیں اپنے گھروالوں سے بہت محبت ہے ۔ ہم اپنے بہن بھائیوں ، بیوی بچوں کے ساتھ مخلص ہیں ۔ ذرا گرمی ہو جائے تو ان کے لیے روم کولر اور اے سی کا انتظام کرتے ہیں۔ کیا ان کو جہنم کی آگ سے بچانا ضروری نہیں ہے؟ یہ کیسا اخلاص ہے ؟بچے کی انگلش ذرا کمزور ہو تو فکر ہو جاتی ہے ، اسے نماز پڑھنا نہیں آتی ، قرآن پڑھنا نہیں آتا تو کیا ہمیں فکر ہوتی ہے ؟اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا : آگاہ ہوجاؤ! تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ باپ ہے تو اولاد کے بارے میں، شوہر ہے تو بیوی کے بارے میں، آقا ہے تو غلام کے بارے میں، حکمراں ہے تو رعایا کے بارے میں سوال ہوگا۔
اپنے گھر والوں کی صحت ، تعلیم اوردیگر سہولیات کا خیال رکھنا حلال کمائی سے اور حلال ذرائع سے ضروری ہے ،مگر ان کو جہنم کی آگ سے بچانا بھی ہماری ذمہ داری ہے اور اس کے بارے میں روز محشر ہم سب کو جواب بھی دینا ہے ۔ ہم اپنا جائزہ لیں کہ ہماری ترجیحات کیا ہیں ؟اگر اللہ کو راضی کرنا، ہماری ترجیح اول ہوگی تو ہمارا عمل بھی اس کا ثبوت پیش کرے گا ۔ ڈاکٹر اسراراحمدؒ بہت ہی انوکھی بات کہتے تھے کہ اگر کسی شخص کی اصل شخصیت کو دیکھنا ہوتو دیکھو کہ وہ اپنی اولاد کو کن کاموں میں لگا رہا ہے ؟ داڑھی ، جبہ و دستار تو ہر کوئی اختیار کر سکتاہے مگر عمل سے پتا چلتا ہے کہ دین پر عملاً کون ہے ؟اس آئینے میں ہم سب اپنا جائزہ لیں، تنہائی میں بیٹھ کر سوچیں کہ ہم اپنی اولاد کو جہنم کی آگ سے بچانے کے لیے کیا کر رہے ہیں ؟۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتاہے :
{وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَاتَّبَعَتْہُمْ ذُرِّیَّتُہُمْ بِاِیْمَانٍ اَلْحَقْنَا بِہِمْ ذُرِّیَّـتَہُمْ}(الطور:21)’’اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور ان کی اولاد نے بھی ان کی پیروی کی ایمان کے ساتھ‘ ہم ملا دیں گے ان کے ساتھ ان کی اس اولاد کو‘‘
کسی پیشے یا کسی بھی دیگر بنیاد پر نہیں بلکہ ایمان اور اعمال کی بنیاد پر گھر والے جنت میں ایک دوسرے سے مل سکیں گے ۔ ایمان بنیادی چیز ہے مگر ایمان لانے کے بعد ایمان کے تقاضوں کو پورا کرنا بھی ضروری ہے ۔ مفت میں تو آج بچوں کو تعلیم نہیں مل سکتی ۔ اللہ کی جنت اتنی سستی نہیں ہے کہ بغیرکچھ کیے مل جائے۔ اس کے لیے نیک اعمال کی ضرورت ہے ۔ ایک دانا شخص نے کہا : دنیا کی فکر اتنی کرو جتنا دنیا میں رہنا ہے اور آخرت کی فکر اتنی کرو جتنا آخرت میں رہنا ہے ۔
آج بہت سے لوگ اولاد کے بارے میں شکایت کرتے ہیں کہ نافرمان ہے ، کتنے ہی لوگوں کو شکایت ہے کہ بیوی نیک نہیں ہے ۔ دراصل ہم جو بوتے ہیں وہی کاٹتے ہیں ۔ پہلے ہم خود نیک بن جائیں تو اولاد کو بھی نیک بنانے کی کوشش کریں گے اور بیوی کو بھی نیک بنا سکیں گے۔ لیکن اگر خود ہی اللہ کی نافرمانی کے راستوں پر گامزن ہیں تو پھر اولاد اور بیوی کو سیدھی راہ پر کیسے لائیں گے ؟اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا:مرنے کے بعد بندے کا اعمال نامہ بند ہو جاتا ہے ، البتہ تین کام ایسے ہیں جن کا ثواب بندے کو مرنے کے بعد بھی ملتا رہتا ہے : ایک صدقہ جاریہ ، دوسرا نافع علم اور تیسری نیک اولاد۔ اولاد کی تعلیم و تربیت ایسے کریں کہ وہ نیک بن جائے ۔ یہی سب سے بڑی سرمایہ کاری ہے ۔
ایک بہت بڑا فتنہ جو ہماری اولادوں کی دنیا اور آخرت تباہ کر دینے والا ہے ، وہ سمارٹ فون ، انٹر نیٹ کا بے جا استعمال ہے ۔ آج گھروں میں سکرین بھی لگی ہوئی ہیں ، ٹیبلٹس بھی ہیں ، سمارٹ فون بھی ہیں ، ہمیں معلوم ہی نہیں ہوتا کہ بچے کیا دیکھ رہے ہیں ، کیا سیکھ رہے ہیں اور ان کی ذہنی تربیت کس طرح ہورہی ہے ۔ اگر اللہ اس فتنے سے نہ بچانا چاہے تو ہم نہیں بچ سکتے ۔ ایک کالم نگار نے بڑی عجیب بات لکھی ۔ ہم مسلمانوں کا دعویٰ ہے کہ ہم اپنے نبی ﷺ سے بہت محبت کرتے ہیں ۔ فرض کریں آج اگر اللہ کے رسول ﷺ ہمارے گھر میں آنا چاہیں تو ہم کیا کریں گے ؟ کیا ہمارے گھر انہیں دکھانے کے قابل ہیں ؟ ہماری دیواروں پر پینٹنگز کونسی ہیں ؟ ٹی وی پر کیا چل رہا ہے ؟ سمارٹ فونز پر کیا دیکھا جارہا ہے ؟ ہماری بک شیلف میں کتابیں کونسی ہیں ؟ کمپیوٹر ، لیپ ٹاپ میں کیا کچھ موجود ہے ؟ ہمارے فیس بک ، واٹس ایپ میں کیا کچھ ہے؟ کسی زمانے میں سکول سے کریکٹر سرٹیفیکیٹ لینا پڑتا تھا۔ آج سمارٹ فون کی سرچ ہسٹری سے پتا چل جاتا ہے کہ کریکٹر کیسا ہے ؟فیس بک ، یوٹیوب وغیرہ خود ہی وہ چیزیں سامنے لے آتے ہیں جو ہم دیکھنا چاہتے ہیں ۔ اب تو بات بے حیائی سے بھی آگے بڑھ کر توہین مذہب اور توہین رسالت تک جا پہنچی ہے، حکومتیں پریشان ہیں کہ اس فتنہ سے اپنی نسلوں کو کیسے بچائیں ؟اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا : ’’جب تم میں حیاہی نہ رہے تو جو چاہو کرو۔‘‘ یعنی حیا نہ رہی تو پھر انسان انسانیت سے گرتا ہی چلا جاتا ہے ۔
ذرا تنہائی میں بیٹھ کر سوچیں کہ ہماری ترجیحات کیا ہیں ؟ کیا ہم اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو منہ دکھانے کے قابل ہیں ؟ کیا ہمارے اعمال ایسے ہیں کہ ہم خود یا ہمارے گھر والے جنت میں جا سکیں ۔ اللہ کے رسول ﷺ فرماتے تھے :
((استفت قلبک ))’’اپنے دل سے فتویٰ لو ۔ ‘‘
خود اپنے اندر کا مفتی بتا دے گا کہ ہم کتنے پانی میں ہیں ، کیا ہم جنت میں جانے کے قابل ہیں ؟اگر جواب ہاں میں ہوتو فبہا ورنہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی اصلاح کرنے کی توفیق عطافرمائے ۔ آمین !
اُمت کی فکر
اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتاہے :
{اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ }(الحجرات:10) ’’یقیناًتمام اہل ِایمان آپس میں بھائی بھائی ہیں ۔‘‘
مسئلہ چاہے غزہ کا ہو ، کشمیر کا ہو ، سنگیانگ کا ہو ، بھارت کے مسلمانوں کا ہو ، میانمار کے مسلمانوں کا ہو ، ہم سب بھائی ہیں ، یہ ہم سب کا مسئلہ ہے ۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے مسلمانوں کے جو مسائل ہیں وہ بھی ہمارے مسائل ہیں ۔ ہم یہی یاددہانی کروائیں گے کہ ایمان کے رشتہ کو مضبوط کیے بغیر ہمارے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ جب ایمان کا رشتہ مضبو ط ہوگا تو ہمارے درمیان بھائی چارہ بھی مضبوط ہوگا اور امت ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر ناقابل شکست بن جائے گی اور دشمنوں کے ہر وار کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوگی ۔ بصورت دیگر ہم آپس میں ہی ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بن جائیں گے تو اسرائیل کے خلاف یا انڈیا کے خلاف کیسے لڑ پائیں گے ؟ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرتا ہے :
{وَالَّذِیْنَ مَعَہٓٗ اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآئُ بَیْنَہُمْ } (الفتح :29) ’’اور جو ان کے ساتھ ہیں‘ وہ کافروں پر بہت بھاری اور آپس میں بہت رحم دل ہیں‘‘۔
اگر ہم دشمن کے خلاف اکٹھے ہو جائیں تو شاید آپس میں بھائی چارہ بھی قائم ہو جائے ۔ اللہ کےرسول ﷺ نے فرمایا : تم ایک جسم کی مانند ہو ، ایک حصے میں تکلیف ہوگی تو پورا جسم درد محسوس کرے گا ۔ آج اگر ہم سوچ رہے ہیں کہ میں اور میرے گھر والے مزے میں ہیں ، ہماری زندگی اچھی گزر رہی ہے، باقی امت کے ساتھ جو مرضی ہے ہوتا رہے تو پھر ہمیں اپنے ایمان کے دعویٰ پر نظر ثانی کرنی چاہیے ۔ یہ مملکت خداداد جس کو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا ۔ اللہ نے اسے چھپڑ پھاڑ کر ایٹمی صلاحیت دے دی لیکن آج اگر غزہ میں دم توڑتے مسلم بچوں کی پکار پر ہم توجہ نہیں دے رہے تو آخرت میں اللہ کو کیا جواب دیں گے ؟احادیث میں خراسان کا ذکر ہے کہ یہاں سے اہل ایمان کے لشکر امام مہدی کی نصرت کو جائیں گے ۔ یہود و ہنود اس بات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں ۔ اسی لیے وہ اس خطہ کو جنگ میں جھونک کراور یہاں کے مسلمانوں کو آپس میں لڑوا کر مصروف رکھنا چاہتے ہیں تاکہ دجال کے لشکر ( اسرائیلی فوج ) کے مظالم سے توجہ ہٹائی جا سکے ۔ ہمیں ان باتوں کو سمجھنا پڑے گا۔ سیدھی سی بات ہے ہمارے اپنے اندر کے اختلافات کو دور ہونا چاہیے ، نفرتوں کو ختم کرنا چاہیے ۔ ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کرنا چاہیے اور قوم کو کلمہ طیبہ کی بنیاد پر متحد کرنا چاہیے ۔ ہم محض اسلحہ کی بنیاد پر دشمن کو شکست نہیں دے سکتے۔ اس کے لیے اللہ کی مدد ضروری ہے ۔ فرمایا :
{یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰہَ یَنْصُرْکُمْ وَیُثَبِّتْ اَقْدَامَکُمْ(7)} ’’اے اہل ِایمان! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا اور وہ تمہارے قدموں کو جما دے گا۔‘‘(محمد:7)
اللہ کی مدد تب آئے گی جب ہم اس کے دین کے مددگار بن جائیں گے ۔ اللہ کے دین کو اپنی زندگیوں میں ، گھروں میں، معاشرے میں ، ریاست میں ، سیاست میں ، عدالتوں میں ، بازاروں میں نافذ کرنے والے بن جائیں گے ۔ پھر اللہ کی مدد ہمارے ساتھ ہوگی تو دشمنوں کا مقابلہ بھی کریں گے۔ یہ اُمت بہت بڑی اُمت ہے اس کا ویژن بہت بڑا ویژن ہے اور وہ اللہ کی دھرتی پر اللہ کے نظام کو قائم کرنا ہے۔ اس بڑے مشن کو اپنا مشن بنا لیں گے تو چھوٹے چھوٹے مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سچا اُمتی بننے اور اللہ کے رسول ﷺ کے مشن کو اپنانے والا بنا دے ۔ آمین !