(نقطۂ نظر) اگر بھارت میں جمہوریت ہے تو… - ابو موسیٰ

10 /

اگر بھارت میں جمہوریت ہے تو…

ابو موسیٰ

سانحہ پہلگام کو بنیاد بنا کر بھارت نے جو لڑائی پاکستان پر مسلط کی تھی اِس میں پاکستان اللہ کے فضل و کرم سے کامیاب اور فتح مند ہوا جبکہ بھارت کو شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا، راقم بھارت کی شکست کو کبھی شرمناک نہ کہتا بلکہ شاید مزید نرمی اختیار کرتے ہوئے صرف یہ کہہ دیتا کہ اِس لڑائی میں پاکستان کا پلڑا بھاری رہا ہے۔ اِس لیے کہ پاکستان کی بعض دفاعی عمارتوں کو بھی کافی نقصان پہنچا ہے لیکن جس امر نے مجھے بھارت کے لیے شرمناک شکست کے الفاظ استعمال کرنے پر مجبور کیا وہ یہ تھا کہ بھارت نے لڑائی کے آغاز ہی میں جس ڈھٹائی سے خوفناک اور احمقانہ جھوٹ بولے اُس کی بہت کم مثال ملتی ہے۔ اگرچہ کسی نے درست کہا ہے کہ جنگ میں پہلا قتل سچ کا ہوتا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ پاکستان نے بھی اپنے نقصانات کے حوالے سے کچھ جھوٹ بولا ہے، لیکن بھارت کے احمق میڈیا نے تو صرف اور صرف جھوٹ ہی کا سہارا لیا۔
وقتی طور پر بیرون ملک پاکستانی بہت پریشان ہوئے جب اُنہوں نے سنا کہ اسلام آباد خدانخواستہ تباہ ہوگیا، لاہور میں کوئی نظر نہیں آرہا اور کراچی کی بندرگاہ تباہی کا شکار ہوگئی ہے وغیرہ وغیرہ۔ بھارت کو یہ معلوم ہونا چاہیے تھا کہ سچ میں اگر جھوٹ کی ملاوٹ کی جائے تو اِس کو دنیا کسی حد تک ہضم کر لیتی ہے، لیکن یہ احمقانہ سوچ ہے کہ صد فی صد جھوٹ بھی تسلیم کیا جا سکتا ہے۔ اب بھارت دس روزہ فتح کا جشن منانے کا اعلان کرکے اپنی بے شرمی پر مہرتصدیق ثبت کر رہا ہے۔ پنجابی کہاوت ہے: ’’جنے لالئی لوئی اُودھا کی کرے کوئی‘‘ یعنی جو بے شرمی کی تمام حدود کراس کر جائے اُس کا کوئی علاج نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اِس لڑائی میں پاک فضائیہ کی کارکردگی انتہائی قابل تحسین تھی۔ 10مئی بروز ہفتہ چند گھنٹوں میں ہی فضاؤں میں پاکستان کو واک اوور مل چکا تھا پاکستان نے پانچ طیارے گرائے جن میں دو رافیل تھے۔ رافیل آج تک کبھی کسی dog fight یا combat میں تباہ نہیں ہوا تھا، حقیقت میں یہ رافیل کی کمتری نہیں تھی بلکہ بھارتی پائلٹ ہی نالائق اور نکمے تھے اور پاکستان کے پائلٹوں کے ذہن و قلب میں جذبہ شہادت کار فرما تھا اور یہ میرے اللہ کا خصوصی فضل تھا۔ مارکیٹ میں فوری طور پر رافیل کے شیئر گر گئے جو مسلسل گرتے جا رہے ہیں۔ نااہل اور بزدل بھارتیوں نے یہ زیادتی صرف رافیل بنانے والے فرانسیسی کمپنی سے نہیں کی بلکہ روس کے S-400 دفاعی نظام کو بھی کافی حد تک ناکارہ کروا لیا۔ پاک فضائیہ کے شاہینوں نے انتہائی نیچی پرواز کرکے خود کو راڈار سے محفوظ کیا اور S-400 جیسے زبردست دفاعی نظام کا دھڑن تختہ کر دیا۔
بہرحال وہ امریکی صدر ٹرمپ جو کہہ رہا تھا کہ یہ دونوں (پاکستان اور بھارت) ہزار سال سے لڑ رہے ہیں یہ جانیں اور اِن کا کام، امریکہ کا کوئی لینا دینا نہیں۔ وہ امریکہ بیج میں آیا اور سیز فائر ہوگئی۔ پاک بھارت تصادم میں جو حقیقت کھل کر سامنے آئی وہ یہ تھی کہ جنگ کم از کم 80، 90 فیصد اب زمین سے فضاؤں کو منتقل ہو چکی ہے۔ فضاؤں کا فاتح پھر زمین پر کارروائی آگے بڑھاتا ہے۔ پھر یہ کہ دشمن پر سائبر حملہ بھی آج کے دور کا اہم ہتھیار ہے پاکستان نے اِس ہتھیار کو بھی بڑی خوبی اور مہارت سے استعمال کیا۔ یہی کچھ غزہ میں ہو رہا ہے، اسرائیل کو مشرقِ وسطیٰ کی فضاؤں پر مکمل کنٹرول حاصل نہ ہوتا تو حماس زمین پر اُس کی وہ درگت بناتا کہ تاریخ بالکل برعکس نقشہ دکھا رہی ہوتی۔ البتہ ایک بار پھر پاکستان سفارتی اور مذاکراتی سطح پر امریکہ سے وہ بات منوانے میں ناکام رہا جو اِس کا حق تھا۔ راقم یہ تو ہرگز نہیں کہتا کہ سیز فائر کے لیے مسئلہ کشمیر کے حل کی شرط رکھی جاتی اِس لیے کہ یہ تو پون صدی پرانا مسئلہ ہے اِسے سیز فائر کے لیے بطور شرط تو نہیں رکھا جا سکتا تھا البتہ سندھ طاس معاہدہ جسے بھارت نے پہلگام دہشت گردی کا عذر لنگ تراش کر معطل کر دیا تھا اُس کی بحالی کے بغیر سیز فائر ہونا ہماری سفارتی ناکامی ہے۔ صرف اتنا طے کر دینا کافی تھا کہ دونوں ممالک کے معاملات 22 اپریل سے پہلے کی سطح پر لائے جائیں گے۔ صدر ٹرمپ اگرچہ کشمیر پر ثالثی کا ذکر کر رہا ہے لیکن بھارت کہتا ہے کہ صرف اُس کشمیر پر بات ہوگی جو پاکستان کے قبضہ میں ہے۔ گویا بھارت کی نیت کا فتور اور اُس کی شرانگیزی کو فی الحال کوئی افاقہ نہیں ہوا۔ قارئین نے نوٹ کیا ہوگا کہ راقم آغاز سے ہی اِس تصادم کو جنگ نہیں لڑائی کہہ رہا ہے گویا یہ ایک battle تھی war نہیں تھی۔ البتہ اِس لڑائی نے ایک بڑی جنگ کا راستہ دکھا دیا ہے۔ آگے کیا ہونے جا رہا ہے اور راقم کو اِس خطے میں کیا ہوتا نظر آ رہا ہے۔
اِس پر بات کرنے سے پہلے قارئین کی خدمت میں ایک پرانا واقعہ پیش کرنا چاہوں گا۔ جس سے آج کے عالمی حالات کے حوالے سے بانیٔ تنظیم اسلامی اور مؤسس انجمن خدام القرآن ڈاکٹر اسرار احمدؒ کی سوچ اور معاملہ فہمی کا اندازہ ہوتا ہے۔ اِس بات کو کتنا عرصہ گزرا ہے یہ تو اچھی طرح یاد نہیں البتہ یہ معلوم ہے کہ قرآن آڈیٹوریم ابھی بمشکل مکمل ہوا تھا۔ بہت سا کام ابھی نامکمل تھا۔ اندازاً 40 سے 45 برس پہلے کی بات ہے۔ محترم ڈاکٹر صاحب نے مجیب الرحمٰن شامی صاحب کو مدعو کیا، وہ واحد مقرر تھے دوران گفتگو ڈاکٹر صاحب نے شامی صاحب سے پوچھا کہ آپ کے نزدیک پاکستان کا دشمن نمبر 1 یعنی اوّلین دشمن کون ہے، بھارت یا امریکہ؟ شامی صاحب نے حیرت سے جواب دیا، ڈاکٹر صاحب ظاہر ہے بھارت ہے تو ڈاکٹر صاحب مسکرائے اور فرمایا، ہرگز نہیں امریکہ پاکستان کا بھارت سے بڑا دشمن ہے۔ پاکستان کی تاریخ کا باریک بینی سے مطالعہ کیجیے، آپ ڈاکٹر اسرار احمد ؒ کی سوچ پر مہر تصدیق ثبت کریں گے۔ 1965،1971ءاور کارگل کی جنگیں ہوں یا نائن الیون جیسی صہیونی واردات امریکہ نے کیسے دوستی کا لبادہ اوڑھ کر پاکستان کی پیٹھ میں خنجر گھونپا۔ سیٹو اور سنٹو جیسے معاہدات پاکستان سے کیے اور ہند چین سرحدی جھڑپوں کا عذر تراش کر بھارت میں اسلحہ کے ڈھیر لگا دیے اِ ن تمام واقعات کو ذہن میں رکھیں اور حالیہ پاک بھارت تصادم، آگے کیا صورت اختیار کرے گا، اُس پر راقم کے تبصرہ پر غور کریں۔ البتہ اِس بات کو بھی ذہن میں رکھیں کہ کل یا اگلے لمحے کیا ہوگا یہ تو حقیقت میں اللہ رب العزت کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ لیکن انسانوں کے تجربے اور اندازے ہوتے ہیں جن پر آنے والے وقت کے حوالے سے وہ بات کرتے ہیں۔ البتہ یہ صرف اندازے اور رائے ہوتی ہیں جس کے غلط ہونے کے بھی امکانات ہوتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ سانحۂ پہلگام کس نے کیا، اِس کے بارے میں حتمی طور پر تو کچھ نہیں کہا جاسکتا البتہ امریکہ نے اِس کا بھرپور فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ اِس پاک بھارت تصادم کو مشرقِ وسطیٰ کی صورتِ حال سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ 1967ء کی جنگ میں فتح کا جشن مناتے ہوئے اُس وقت کے اسرائیلی وزیراعظم بِن گوریان نے کہا تھا کہ یہ عرب بیچارے ہمارا کیا مقابلہ کریں گے ہمارا اصل مقابلہ تو پاکستان سے ہے۔ یاد رہے اُس وقت پاکستان ابھی ایٹمی قوت نہیں بنا تھا اور حال ہی میں نیتن یاہو نے بھی پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کے حوالے سے بات کی ہے۔ عربوں کو اپنے حوالے سے راہِ راست پر لانا اسرائیل کے بائیں ہاتھ کا کام ہے۔گریٹر اسرائیل کے راستے میں صرف پاکستان حائل ہو سکتا ہے۔ اگرچہ موجودہ حکمران تو اِس حوالے سے سوچ بھی نہیں سکتے وہ تو بالواسطہ طور پر اسرائیل کی مدد کو بھی تیار نظر آتے ہیں لیکن کل کلاں اِن کے ذہن میں تبدیلی آسکتی ہے یا پاکستان کا کوئی نیا حکمران اسرائیل کو للکار سکتا ہے۔ لہٰذا آگے بڑھنے سے پہلے اسرائیل اور اُس کے سرپرستوں کے لیے پاکستان کے ایٹمی دانت توڑنے لازم ہیں۔
راقم کی رائے میں پہلگام سانحہ جو کیا گیا یا کرایا گیا، اِس میں اسرائیل کے محافظ امریکہ نے انوکھا رول ادا کیا۔ آغاز ہی میں اپنی لاتعلقی کا اعلان کر دیا۔ بھارت کے لیے بڑا دھچکا تھا لیکن اُس وقت تک بھارت سمجھتا تھا مجھے امریکہ کی کیا ضرورت ہے میں خود پاکستان کو ناکوں چنے چبوا دوں گا۔ درحقیقت امریکہ کا صدر ٹرمپ مستقبل کی جنگ میں پاکستان کے حوالے سے جاننا چاہتا تھا کہ وہ کتنے پانی میں ہے۔ اِس جنگ کو اسرائیل آگے بڑھانے کے لیے جو کچھ کرے گا۔ امریکہ اُس کا گارڈ اور سرپرست بن کر ساتھ چلے گا۔اصل بات یہ ہےکہ پاکستان کی عسکری مہارت کی دنیا میں عرصہ سے دھوم تھی۔ امریکہ پاکستان کی جنگی قوت کے حوالے سے اپنے علم الیقین کو عین الیقین کا تجربہ کروانا چاہتا تھا۔ اس لیے کہ چھوٹے سے چھوٹے دشمن سے بھی نمٹنے کے لیے اِس کی قوت کا صحیح اندازہ لگانا جنگی حکمتِ عملی کا عین تقاضا ہے۔
راقم کا نصف صدی پرانا یہ مؤقف ہے کہ امریکہ کو اسرائیل کا تحفظ اپنی کسی ریاست کے تحفظ سے زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ حالیہ پاک بھارت تصادم درحقیقت مغرب اور چین کی ٹیکنالوجی کی پراکسی جنگ تھی۔ امریکہ نے سمجھ لیا ہے کہ اگر چین اقتصادی جن بننے کے ساتھ عسکری قوت بھی بڑھاتا چلا گیا تو پھر آنے والے وقت میں چین کو روکنا مشکل ہو جائے گا۔ راقم کی رائے میں پاک بھارت تصادم درحقیقت ایک ایسی فلم کا ٹریلر تھا جو اب ایک دو سال میں لانچ کر دی جائے گی۔ اُس کے لیے ضروری تھا کہ دیکھا جائے کہ کون کہاں کھڑا ہے، پھر اِس کے مطابق سٹریٹیجی بنائی جائے۔
پاک بھارت تصادم کے حوالے سے راقم فریقین کی خدمت میں چند گزارشات پیش کرنا چاہتا ہے۔ پہلی بات یہ کہ دونوں سمجھیں کہ امریکہ اور یورپ اگلی عالمی جنگ کے لیے ایشیا کو میدان کار زار بنانا چاہتے ہیں تاکہ جنگ کا اصل نقصان جنوبی ایشیا کو ہو ۔ لہٰذا پاک بھارت اِس کا ایندھن بننے سے بچیں۔ بھارت اگر دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کو بچائے جمہور ہو گا تو جمہوریت چلے گی ویسے تو مودی ہند وتوا کے شوق میں جمہوریت کا جنازہ نکالنے پر تلا نظر آتا ہے۔اگر بھارت میں جمہوریت ہے تومودی استعفیٰ دے ۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے زمینی حقائق کے مطابق چین نے پاکستان کو بہت سہارا دیا ہے اور پاکستان کے سقراط، بقراط جان لیں کہ امریکہ کبھی پاکستان کا ساتھ نہیں دے گا۔ اس فتح میں پاکستانی قوم کا تمام اختلافات بھلا کر فوج کی پشت پر کھڑا ہونا ،نے ایک کلید رول ادا کیا۔ وہ جنہیں انتشار پسند ٹولہ اور ڈیجیٹل دہشت گرد کہہ کر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے جا رہے تھے، اُنہوں نے اپنے زخم بھلاکر سوشل میڈیا پر بھارت کی وہ درگت بنائی کہ DG ISPRاُن کی تعریف کرنے پر مجبور ہوئے۔ اِس باہمی سوچ نے فتح کا راستہ بنایا ہے۔ پریشانی یہ ہے کہ فارم47 کی حکومت کوP.T.I اور فوج کی قربت کسی صورت قبول نہیں، یہ اُن کی حکومتی موت کا سامان ہے۔ لہٰذا بڑے بڑے عہدہ داروں کی طرف سے مخالفانہ بیانات آنا شروع ہو گئے ہیں۔ راقم صرف ایک بات واضح کر دینا چاہتا ہے کہ مستقبل کا تصادم جو اصل جنگ ہو گی اُس میں اگر قوم میں اتفاق و اتحاد نہ رہا تو خاکم بدھن نتیجہ برعکس ہو سکتا ہے جو ہر سطح پر تباہ کن ہو گا۔اصل ضرورت اِس امر کی ہے کہ نظریۂ پاکستان کی عملی تکمیل کی طرف بڑھا جائے اور پاکستان کو صحیح معنوں میں اسلامی، فلاحی، جمہوری ریاست بنایا جائے۔ یہی باہمی اتفاق کا ذریعہ بھی بنے گا اور پاکستان آئندہ جنگ میں بھی کامیاب و کامران ہو گا۔ ان شاء اللہ!