کشیدگی سے جنگ بندی تک
ابو عمر
22 اپریل 2025ء کوپہلگام میں سیاحوں پر ہونے والے حملوں ، جس میں 24ہندوئوں کے ساتھ ایک عیسائی اور ایک مسلمان شہری بھی ہلاک شدگان میں شامل تھے، کے صرف 10منٹ بعد ہی ہندوستانی میڈیا اور سیاستدانوں نے پاکستان کے خلاف ایف آئی آر کاٹ دی تھی ۔ آر ایس ایس، جو خودایک دہشت گرد تنظیم ہے، کے ہاتھ 27فروری 2002ءکے گودھرا ٹرین گجرات کے ریل کے حادثہ سے لے کر 26نومبر 2008ءکے بمبئی حملوں کے فالس فلیگ آپریشن تک سے رنگے ہوئے ہیں، نے خود ایک منصوبہ بنایا جس کا اصل مقصد 26فروری 2019ء کی تاریخ دہرانا تھا، اُس وقت بھی ہندوستان نے 14 فروری کو ہونے والے پلوامہ حملہ کے بعد بالا کوٹ میں ایک کوا مار کر اپنی برتری ثابت کرنے کی کوشش کی تھی ۔
لیکن یہ مئی 2025ءتھا نہ کہ فروری 2019ء۔ اپنی تمام تر داخلی حماقتوں کے باوجود پاک فوج کا دفاعی نظام جو فروری 2019ءکے واقعہ کے بعد نہ صرف یہ کہ چوکناتھا بلکہ 27فروری 2019ءکی طرح جواب دینے کے لیے ایک مزید دن بھی انتظار کرنےکو بھی تیار نہ تھا ۔ 2019 ء میں پاکستان نے ہندوستان کو رواداری اور دوستی کا پیغام دیا تھاجس کا اظہار اگلے ہی روز وزیر اعظم پاکستان نے اسمبلی کے فلور پر ہندوستانی پائلٹ کی رہائی کا حکم دےکر کیا ۔ اس پیغام، کو جو حد درجہ خلوص اور نیک نیتی پر مبنی تھا،کو ہندوستان نے پاکستان کی کمزوری و بزدلی پر محمول کیا اورمزید متکبر ہوگیا۔ اسی وجہ سے 5 اگست 2019ءکو ہندوستان نے اپنے ملک میں آرٹیکل 370اور 35A کو ختم کردیا جس کاجواب پاکستان کی حکومت نے ہر جمعہ کو 30منٹ کاخاموش مظاہرہ کرکے اہل کشمیر کو یہ پیغام دیا کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔بعض تجزیہ نگاروں کی نظر میں یہ سب کچھ ایک سوچا سمجھا منصوبہ تھا جس کا علم حکومت پاکستان کو جولائی 2019ءمیں براہ راست صدر امریکہ کے ذریعہ ہوچکا تھا۔ اس کے باعث اہل ِمقبوضہ و آزاد کشمیر شدید مایوسی کا شکار ہوئے۔ حالانکہ وہ جو نعرے لگایا کرتے تھے کہ’’پاکستان سے رشتہ کیا: لا الٰہ الااللہ‘‘اس کے بعد انہوں نے خود ہی ایک اور انتفاضہ شروع کر دیا۔
22اپریل 2025ءکے بعد سے ہی پاکستان کی فوج ذہنی طورپر تیارتھی کہ ہندوستان کوئی بڑی کارروائی کرسکتا ہے۔ ہندوستان نے 23اپریل کو پہلے قدم کے طور پر سندھ طاس معاہدہ یکطرفہ طور پر ختم کرنے کا اعلان کردیا تھا ،یہ بھی ایک اعلان جنگ تھا۔ اس کے بعد 6اور7مئی کی درمیانی رات کو جب صبح 4بجے کے وقت پاکستان اور چین کا مشترکہ دفاعی نظام حرکت میں آتا ہے جس کا علم حکومت پاکستان کو سفارتی ذرائع سے دیا جاتا ہے ۔ اس کے فوری بعد پاکستانی فضائیہ، چینی سیٹلائٹز اور AWACS کے تعاون سے، ایک ’’سینسر فیوژن مجموعہ‘‘ اپنا کام شروع کردیتا ہے۔ آغاز میں اس صبح ہونے والے واقعہ کو ایک ڈاگ فائٹ قرار دیا گیا جس میں ہندوستان کے 89طیارے اور پاکستان کے 26طیارے موجود تھے۔ اِن میں سے کسی نے اپنی سرحد پار نہیں کی بلکہ جو کچھ اس کے بعد ہوا وہ صرف ایک فضائی جھڑپ ( ڈاگ فائٹ) نہ تھی بلکہ یہ ایک گھات تھی، ایک انکشاف تھا، جس نے بھارت کی فضائی برتری کا وہ فسانہ توڑ ڈالا، جو برسوں سے پھیلایا گیا تھا اور اس کے ساتھ مغربی طاقتوں کا یقین بھی ٹوٹ گیا کہ وہ جب چاہیں پاکستان میں داخل ہوسکتے ہیں۔
بعینہ اہل پاکستان کا یہ یقین بحال ہوگیا کہ ہماری ایٹمی صلاحیت محفوظ ہے ۔ ہندوستان ہی کا غرور نہیں ٹوٹا بلکہ فرانس، امریکہ اور مغربی طاقتوں کو بھی شکست فاش ہوئی ہے۔ ہندوستان نے فرانس سے 26رافیل طیارے حاصل کرکے اس بات کا عزم کیا تھا کہ وہ جب چاہے پاکستان کی ا س فضائی برتری کو خاک میں ملاسکتا ہے جس کا سامنا اُسے 1965ءاور 2019 ءمیں آزاد کشمیر میں ہوچکا تھا۔ لیکن بھارت نہ جانتا تھا کہ اس کی سرحد کے پار کیا موجود ہے۔ اُسے پاکستانی J-10C لڑاکا طیارے، چینی ساختہ اور خاموش قاتل میزائل PL-15 ، جو 200 کلومیٹر تک مار کرنے والے، آواز کی رفتار سے پانچ گنا تیزErieye ریڈارز سے پالا پڑا۔ اس مرتبہ ہندوستان نے صرف پاکستانی پائلٹس نہیں دیکھے بلکہ انہوں نےوہ مکمل فضائی جنگی نظریہ دیکھا، جو سکردو سے پسنی تک پھیلا ہوا تھا۔اور رافیل؟ وہ تو سمجھ ہی نہ پائے کہ کیا ہو گیا۔ وہ Spectra EW نظام، جو اُسے بچانے کے لیے بنایا گیا تھا، مکمل طور پر ناکام ہو گیا۔7مئی کے بعد بھارتی لڑاکا طیاروں پرمشتمل ائیر فلیٹ اب پاکستان کی طرف رخ نہیں کررہا بلکہ اپنی سرحد سے 300 کلومیٹر پیچھے تک محدود ہوگیا ہے۔ آج اس کے رافیل ساز کمپنی طیارے گراؤنڈ ہوچکے ہیں۔ فرانس کی رافیل کے حصص کے نرخ کم ہوگئے ہیں جبکہ چین کی دفاعی کمپنیوں کے حصص میں اضافہ ہورہا ہے۔ دنیا بھر کے دفاعی ماہرین اسے پاکستان کی فتح اور ہندوستان کی شکست قرار دے رہے ہیں۔
بعد ازاں ہندوستان پاکستان پر ایک مختلف دوسرے طریقہ سے حملہ آور ہوا اور جنگ صرف سرحدوں کی جنگ نہ رہی بلکہ پورے ملک کے اندر پھیل گئی۔ 7سے 8 مئی کے دوران 100سے زائد مرتبہ پاکستان میں ڈرون اور میزائل حملے کئے گئے ۔ اسرائیل کے فراہم کردہ ڈرون پاکستان کے اس نظام کی جاسوسی کرنا چاہتے تھے کہ کس طرح پاکستان نے ایک گھنٹہ کی اندر ان کی برسوں کی تیاری کو ملیا میٹ کرکے رکھ دیا ہے ۔ ہماری فوج نے ایک حکمت عملی کے تحت جوابی کارروائی نہ کی اس کا بھی غلط مطلب لیا گیا۔ اور اس کے بعد 9اور 10مئی کی درمیانی رات ائیر فورس کے تین ہوائی اڈوں کو نشانہ بنا کر ہمیں آزمانے کی کوشش کی گئی ۔ اس کے بعد دنیا نے ایسی جنگ دیکھی جو اس سے پہلے نہ کبھی دیکھی تھی نہ سنی۔پہلے رافیل گرائے تھے ۔ اس کے بعد سائبر حملے کر کے 70فیصد ہندوستان کی بجلی بند کر کے نظام Take Over کر لیا۔پھر منٹوں میں بھارت کی پاکستان کے خلاف استعمال ہونے والی تمام فوجی تنصیبات،اسلحہ،میزائل سٹوریج،جہاز وغیرہ اڑا دئیے۔ آخر میں دہلی کے اوپر پاکستانی ڈرونز بھیج کر ’’پیغام‘‘دیا کہ ہم ہر جگہ پہنچ سکتے ہیں۔اورساتھ میں کہا۔۔کہ یہ الفتح کا سب سے کم رینج والا میزائل استعمال ہوا ہے،اگلی بار ایسی حرکت کی تو اس سے بھی زیادہ خطرناک بڑی رینج والے میزائل تمہارے معاشی و عسکری مفادات پر ہزاروں کلو کا بارود لے کر پہنچیں گے۔ اس طرح پاکستان نے تقریباً10 گنا بڑے دفاعی بجٹ والے بھارت کو نیوکلئیر آپشن استعمال کیے بغیر ہی دنیا کا کمزور ترین ملک ثابت کر دیا۔ یہ واقعہ صرف جنوبی ایشیا ہی نہیں بلکہ پورے مشرق وسطیٰ میں طاقت کے توازن کو بدل دینے والی صبح کی پہلی کرن ہے؟جنگ کے دوران بھی پاکستان نے معاہدہ کی پاسداری کی اور اپنے F-16 ہندوستان کے خلاف استعمال نہیں کئے بلکہ JF-17 تھنڈر اور J-10C چینی طیارے اور PL-15 میزائل (200+ کلومیٹر رینج) استعمال کئے۔ اس طرح یہ ایک ہفتہ کی کشیدگی جسے شروع ہندوستان نے کیا تھا اور چار دن وہ دندناتا پھرتا رہا اس کا خاتمہ پاکستان نے صرف 3 گھنٹے 45منٹ میں کردیا ۔ یہ میزائل، ڈرون اور طیاروں کی جنگ نہیں تھی، بلکہ دو عسکری فلسفوں کی جنگ تھی۔ ایک جانب مغرب کا مہنگا، تسلط پسند ہتھیار دوسری طرف چین اور پاکستان کے اشتراک سے کم لاگت والا، مؤثر اور قابلِ اعتماد ہتھیار۔یہ پاکستان کی طرف سے ایک غیر رسمی اعلان تھا کہ مغربی ہتھیاروں کی اجارہ داری کا دور ختم ہورہا ہے۔
اس پوری جنگ کے دوران اور اس کے بعد ہمیں اللہ کا شکر بھی ادا کرنا ہے کہ جس نے پاکستان ،اس کی فوج اور عوام کی عزت رکھی اور اُنہیں فتح سے ہمکنار کیا ۔ ٹیکنالوجی ضرور چین سے آئی لیکن اس کو استعمال کرنے والے شیر دل پائلٹ پاکستان کے تھے۔ جنہوں نے کچھ عرصہ قبل قطر کے ساتھ جنگی مشقوں کے دوران رافیل طیاروں کے سسٹم کو جام کرنے کی مشق بھی کی تھی۔ پاکستان کی فوج کا نعرہ ایمان ، تقوٰی ، جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ لہٰذا ہمیں اس بات کا بھی یقین ہونا چاہیے کہ یہ جو کچھ ہوا اس کے پس منظر میں یہ نعرہ بھی ہے اور اللہ پر یقین بھی۔ ہمارے مقتدر طبقات کو یہ بات یادرکھنی ہوگی کہ فرانس کے رافیل طیارے حاصل کرنے کے باعث ہندوستان نے غرور کیا بعینہ جس طرح واجپائی نے 14مئی 1998 ءکو کیا تھا، لیکن اس کا یہ غرور خاک میں مل گیا اسی طرح اگر ہم نے چین کی ٹیکنالوجی کی بنیاد پر ہندوستان کو فضائی میدان میں شکست دی ہے تو اس پر ہمیں قطعاً تکبر کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے بلکہ اللہ کا شکر ادا کریں کہ اس کے پس منظر میں ایمان تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ کا یقین موجود ہے۔اللہ تعالیٰ ہماری فوج اور حکومت کو اس کا یقین عطا فرمائے!
دوسری اہم بات یہ کہ اس جنگ کے دوران جب ملک کے اندر قومی یکجہتی، اتحاد اور اتفاق کی فضا موجود ہونی چاہیے تھی تاکہ ہم دشمن کا مقابلہ کر سکیں، ہمارے بعض سیاسی قائدین اس وقت ذاتی بغض کے باعث حکومت کا ساتھ دینے کے بجائے سودہ بازی کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ جس سے شہ پاکر ان کے کارکنان ملک اور فوج کے خلاف سوشل میڈیا پر سرگرم تھے۔ کوئی ہندوستان کو حملہ کرنے کی دعوت دے رہا تھا ، کوئی GHQ کی لوکیشن شیئر کررہا تھا اور اور اکثر قابل ذکر لوگ فوج کے بارے میں طعنہ زنی کررہے تھے۔ یہ سب کچھ اس وقت ہورہا تھا جب مختلف شہروں میں میزائل اور ڈرون حملے ہورہے تھے ۔ ان حالات میں ہماری سیاسی جماعتوں کا ایسا رویہ اختیار کرنا یہ ثابت کرتا ہے کہ انہوں نے سانحہ1971ء سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا ۔
یہ بات بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ 2019 ءمیں جب پاکستان اسی طرح کے حالات سے گزر رہا تھا تو اس وقت کی اپوزیشن نے، جب کہ ان کے جماعت کا سربراہ جیل میں تھا، پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بھرپور شرکت کر کے حکومت کا ساتھ دیا تھا۔ اس بات کا مشورہ بھی دیا گیا تھا کہ ہمیں جوابی کارروائی کرنی چاہیے ۔ اس وقت کسی جانب سے یہ بات نہیں آئی تھی کہ پہلےہمارے سربراہ کورہا کرو پھر ہم قومی یکجہتی کی بات کریں گے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس وقت کی حکومت جو آج کی اپوزیشن ہے کی جانب سے اس طرح کے مطالبات ہورہے ہیں اور وہ قومی یکجہتی کے حصول کے لیے اس پر سودے بازی کرنے کی کوشش کر رہے تھے ۔اسی طرح اعلیٰ عدلیہ نے بھی7مئی کو جو فیصلہ سنایا ہے یہ ان کی صریحاً غلطی ہے۔ فیصلہ صحیح ہے یا غلط یہ الگ بحث ہے لیکن فیصلہ سنانے کا وقت(Timing) نہایت نامناسب ہے ۔ ہماری عدلیہ نے بے شمار مقدمات میں فیصلے محفوظ کئے ہیں جن کا اعلان کئی کئی ماہ بعد ہوتا ہے ۔ اسی طرح مقتدر حلقے بھی آئین کی پاسداری کریں اور اپنی حدود میں رہیں۔ سیاست میں مداخلت سے گریز کریں۔لیکن اس وقت ایسا فیصلہ کرنے سے اپوزیشن پارٹی کو اس بات پر مجبور کیا گیا کہ وہ حکومت سے فاصلہ اختیار کرلے لہٰذا ان عناصر پر بھی نگاہ رکھنی ہوگی کہ جب قومی یکجہتی کی ضرورت تھی اور آپس کے اختلافات بھلا کر ساتھ چلنے کا وقت تھا، عین اس موقع پر فیصلہ سنا یا جانا ایک سازش کا حصہ تھا ۔
تمام ذمہ داران یہ جان لیں کہ مملکت خداداد پاکستان اللہ سبحانہ تعالیٰ کی طرف سے معجزہ ہے جس کسی نے اس ملک کے خلاف سازش کی یا اس کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی، اللہ تعالیٰ نے خود اس کو نشان عبرت بنا دیا ۔ اللہ تعالیٰ نے اس ملک کو چھپڑ پھاڑ کر بہت سی نعمتوں سے نوازا ہے۔ جس ملک میں ہم سوئی نہیں بنا سکتے تھے وہاں ہم نے ایٹم بم بنا لیا جو صرف اس ملک کے لیے نہیں بلکہ اس امت کا اثاثہ ہے۔ فلسطین سے لے کر پاکستان تک ہونے والے یہ تمام واقعات ایک دوسرے سے مربوط ہیں اور ان تمام واقعات میں ابلیس کا اتحاد ثلاثہ( امریکہ ، ہندوستان اور اسرائیل )پاکستان کی دشمنی میں آخری حدوں کو چھو رہا ہے تاکہ وہ گریٹر اسرائیل کے منصوبے کو عملی جامہ پہنا سکیں۔ لہٰذا ہماری تمام ذمہ داران سے درخواست ہے کہ اس حوالے سے ہوش کے ناخن لیں اور آپس میں مل بیٹھیں، یہ اختلافات بعد میں بھی طے ہو سکتے ہیں اور اس وقت زیادہ اہم چیز قوم کا اتحاد ہے۔اللہ تعالیٰ ہمارے سیاست دانوں ، مقتدر طبقات اور حکومت کو عقل کے ناخن دے ۔ یہود و ہنود اس شکست پر خاموش نہیں بیٹھیں گے بلکہ پلٹ کر پھر وار کر سکتے ہیں، لہٰذا ہمیں بھی اپنی تیاری رکھنی چاہیے۔آج کی جنگوں میں جب میزائل اور ڈرون استعمال ہورہے ہیں ، اندرونی طور پر موجود ہندوستان کے جاسوس اپنا کام کر رہے ہیں اگر ہماری سیاسی جماعتوں، علماء کرام دینی جماعتوں اور مقتدر طبقات نے باہم مل کر مقابلہ نہ کیا تو ہمیں اسی انجام کا خدانخواستہ سامنا کر پڑ سکتا ہے جیسا 1971 ءمیں ہوا تھا۔