(زمانہ گواہ ہے) ’’حالیہ پاک بھارت جنگ :کیا کھویا کیا پایا؟ - محمد رفیق چودھری

10 /

اگر مذاکرات ہوتے ہیں تو بلوچستان اور خیبر پختونخوامیں بھارتی

دہشت گردی کے ثبوت کھل کر سامنے لائے جائیں : رضاء الحق

پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا اور اس کا سب سے بڑا

محافظ اللہ تعالیٰ ہے : ڈاکٹر ضمیر اختر خان

اگر مادی وسائل کے لحاظ سے دیکھا جائے تو ہم بھارت کا مقابلہ نہیں

کر سکتے مگرہمارے پاس وہ چیز ہے جو بھارت کے پاس نہیں ہے

اور وہ ہے جذبۂ ایمانی : ملک شیر افگن

’’حالیہ پاک بھارت جنگ :کیا کھویا کیا پایا؟

پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف تجزیہ نگاروں اور دانشوروں کا اظہار خیال

سوال: امریکی ثالثی کی وجہ سے حالیہ پاک بھارت جنگ بند تو ہوگئی لیکن نریندر مودی ہٹ دھرمی سے باز نہیں آرہا ۔ اپنے حالیہ خطاب میں اس نے کہا ہے کہ پاکستان کے خلاف جنگ رُکی ہے ، ختم نہیں ہوئی ۔ اس کا بیانیہ ہے کہ دہشت گردی ، تجارت اور مذاکرات ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے ۔ اس تناظر میں آپ پاک بھارت تعلقات کو مستقبل میں کس طرف جاتے ہوئے دیکھ رہے ہیں ؟
رضاء الحق: نریندر مودی کا تعلق جس جماعت یا گروہ سے ہے اس میں انتہا پسندی اور پاکستان دشمنی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ لہٰذا وہ اپنے عزائم سے باز نہیں آئیں گے ، یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن کی مخالفت کے باوجود اس نے پاکستان کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کیا لیکن اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو سرخرو کیا ، اس پر ہمیں اللہ کا شکر ادا کرناچاہیے ۔ جہاں تک ڈونلڈ ٹرمپ کا تعلق ہے تو وہ کاروباری ذہنیت کا آدمی ہے، جہاں بھی جاتاہے پہلے تجارت پر ڈیل کرتا ہے اور اس کے بعد دوسرے امور پر بات کرتاہے ۔ یورپین یونین کے ساتھ بھی اس کا یہی معاملہ چل رہا ہے ۔ نریندر مودی کے ساتھ بھی بھارت کے کاروباری لوگ ہیں جو الیکشن میں اس کے لیے پیسہ لگاتے ہیں اور اسے جتواتے ہیں لیکن نریندر مودی اب امریکہ اور اسرائیل کے کہنے پر کسی بھی حد تک جا سکتاہے ۔ لہٰذا جب تک مودی حکومت میں ہے اس وقت تک امن کی توقع نہیں کی جا سکتی ۔ وہ بلوچستان میں بھی دہشت گردی میں ملوث ہے ، مقبوضہ کشمیر میں بھی پہلگام جیسے کئی واقعات کروا چکا ہے جن کا مقصد صرف پاکستان پر الزام لگانا ہوتاہے۔ اگر مذاکرات ہوتے ہیں تو بھارت کی اس دہشت گردی کے ثبوت کھل کر پیش کیے جائیں اور سفارتی سطح پر بھی دنیا پر واضح کیا جائے کہ بھارت بلوچستان میں اور افغان بارڈر پر کس طرح دہشت گردی کو پروموٹ کر رہا ہے ۔ RSSکا نظریہ اور سوچ تو پوری دنیا کے سامنے آچکی ہے ۔ ان کی نئی پارلیمان کی عمارت پر اکھنڈبھارت کا نقشہ سرعام لگایا جاچکا ہے جو انتہا پسندانہ عزائم کی عکاسی کرتاہے جس میں پاکستان ، بنگلہ دیش ، افغانستان ، بھوٹان، نیپال اور سری لنکا سمیت کئی ممالک کو صفحہ ہستی سےمٹا کر بھارت میں ضم کرنا شامل ہے ۔ پاکستان کو سفارتی سطح پر ان کے مذموم عزائم اور مقاصد کو بے نقاب کرنا چاہیے ۔ ٹرمپ نے کشمیر کے معاملے میں ثالثی کی جو پیش کش کی ہے اس میں بھی خدشہ یہ ہے کہ وہ پاکستان اور چین کو ایک دوسرے سے دور کرنے کی کوشش کرے گا ۔
سوال:پاک بھارت جنگوں میں بھارت کی عددی برتری کے باوجود ہمیشہ پاک فضائیہ کو برتری حاصل رہی ہے ، اس کی بنیادی وجہ کیا ہے ؟
ملک شیر افگن: موجودہ ٹیکنالوجی کے دور میں جس کے پاس ایئر سپر میسی اور پوری تیاری ہوگی وہی جیتے گا کیونکہ اب کنونشنل وار کا دور نہیں رہا ، اب جہازوں کا ایک دوسرے سے آمنا سامنا ہونا ضروری نہیں ۔ ایسے میزائل آگئے ہیں جو بہت دور سے دشمن کے طیاروں کو نشانہ بنا سکتے ہیں مگر اس کے لیے آپ کے پاس جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ پوری منصوبہ بندی ہونی چاہیے ۔ دوسری اہم چیز جذبہ ہے ۔ بھارت عددی اور مادی اسباب کے لحاظ  سے ہم سے بہت آگے ہے ، جبکہ دوسری طرف پاکستان کے پاس محدودمادی وسائل ہیں ۔ لہٰذا ہم پاک فضائیہ کے جوانوں کو شروع دن سے ہی یہ سکھاتے آئے ہیں کہ ہمیں انہی محدود وسائل میں رہتے ہوئے دشمن کو شکست دینی ہے ۔ان کی عسکری تربیت بھی اسی تناظر میں کی جاتی ہے کہ ہم نے محدود وسائل کے ساتھ کیسے جنگ لڑنی ہے ۔
اگر وسائل کے لحاظ سے دیکھا جائے تو ہم بھارت کا مقابلہ نہیں کر سکتے مگر یہاں صرف ایک چیز ہمارے کام آتی ہے اور وہ ہے جذبۂ ایمانی ۔ ہمارے جوانوں میں شہادت کا جو جذبہ ہے وہ دشمن سے ٹکرانے کی قوت پیدا کرتاہے ۔ وسائل کی کمی کی وجہ سے ہی ہم نے جے ایف 17 تھنڈر بنایا کیونکہ باہر سے جو طیارے ہم منگواتے تھے ان کی مرمت کے لیے پرزے دستیاب نہیں ہوتے تھے ۔ لہٰذا ہم نے سوچا کہ ہم خود ایک طیارہ بنائیں تاکہ مستقبل میں ایسے مسائل کا سامنا نہ ہو ۔ پاک فضائیہ دنیا کی واحد ایئر فورس ہے جواس وقت خود طیارے بنا رہی ہے ۔ اس کا فائدہ آج پاکستان کو حاصل ہوا ہے ۔بے شک اس میں اللہ کی مدد ہمارے ساتھ تھی ورنہ اتنے کم وسائل کی وجہ سے ہم طیارہ نہ بنا پاتے ۔
سوال: حالیہ جنگ میں انڈیا نے کیا کھویا ہے کیا پایا ؟
رضاء الحق:بھارت میں 2025ء کے اختتام تک انتخابات ہوں گے ۔ لہٰذا نریندر مودی اور اس کی پارٹی کو ایک فائدہ یہ ہوگا کہ وہ پاکستان کے خلاف نفرت کو استعما ل کرکے ہندو انتہا پسند طبقے کا ووٹ حاصل کرے گا ، کیونکہ وہ شکست میں بھی ڈھٹائی کے ساتھ بیانیہ گھڑ نے کے ماہر ہیں ، وہ ہندو طبقے سے وعدے کریں گے کہ ہم پاکستان کو صفحہ ہستی سے مٹا دیں گے وغیرہ وغیرہ اور ہندو طبقہ ان کی بات مان لے گا ۔ دوسرا فائدہ یہ ہوا ہے کہ بھارت کو امریکہ اور اسرائیل کی طرف سے مزید مدد حاصل ہو جائے گی کیونکہ چین کے مقابلے میں بھارت کو کھڑا کرنا ان کی مجبوری ہے ۔ ان فوائد کی بنسبت بھارت کا نقصان بہت زیادہ ہوا ہے ۔ مثال کے طور پر بھارت کو زعم تھا کہ وہ اس خطہ میں ایک سپر پاور ہے لیکن حالیہ جنگ کے بعد اس کا یہ بھرم ٹوٹ گیا اور واضح ہو گیا کہ اس خطہ کی سپر پاور چین ہے جو اقتصایات اور ٹیکنالوجی میں بھارت سے کئی گنا آگے ہے ۔ بھارت کا جی ڈی پی 3 ٹریلین ڈالر ہے جبکہ چین کا جی ڈی پی 18 ٹریلین ڈالر سے بھی زیادہ ہے ۔ اسی طرح ٹیکنالوجی میں بھی چین کئی گنا آگے ہے ۔ حالیہ جنگ کی وجہ سے بھارت کو معاشی نقصان بہت پہنچا ہے اور اس کی اکانومی کو مزید نقصان ہوگا ۔ کیونکہ جنگ کی وجہ سے سرمایہ کاری کم ہوگی ، روٹس کھلے نہیں رہیں گے ، صنعت میں نمایاں کمی ہوگی اور برآمدات میں بھی کمی آئے گی ۔ بھارت نے من موہن سنگھ کی پالیسی کی وجہ سے جو ترقی کی تھی اس ترقی کا سفر رُک جائے گا ۔ پھر یہ کہ بھارت کی جنگی صلاحیت کا بھانڈا بھی بیچ چوراہے میں پھوٹ چکا ہے اور برتری کا تصور خاک میں مل گیا ہے ۔ فرانس نے رافیل طیارے دیئے تھے ، روس نے ایس 400 دفاعی سسٹم دیا تھا ، اسرائیل نے ڈرون ٹیکنالوجی فراہم کی تھی ، ان سب کا اعتماد بھی بھارت پر سے اُٹھ جائے گا اور آئندہ کے لیے وہ بھارت سے معاہدے کرنے سے پہلے سوچیں گے ۔ اسی طرح سارک ممالک میں بھارت کا جو رعب داب تھا وہ بھی ختم ہوگیا ۔ پاکستان کے علاوہ بھارت کے دیگر پڑوسی ممالک بھی بھارت کے سامنے سر اُٹھائیں گے ۔ پھر یہ کہ بھارت میں جاری علیحدگی پسند تحریکوں کو بہت زیادہ تقویت ملے گی ۔سکھوں نے تو حالیہ جنگ میں بھی کھل کر بھارت کی مخالفت کی ہے اور پاکستان کا ساتھ دیا ہے ۔ پاک بھارت تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا ہے۔ اسی طرح مغربی بنگال میں بھی بھارت کو مشکلات کا سامنا ہوگا۔ ہنری کسنجر نے کہا تھا کہ امریکہ کا دشمن تو امریکہ سے بچ سکتا ہے مگر دوست نہیں بچ سکتا ۔ اب بھارت کے اندر سے یہ آوازیں اُٹھ رہی ہیں کہ امریکہ نے بھارت کو کہیں کا نہیں چھوڑا ۔ اسی طرح BRICS میں روس ، چین ، برازیل ، جنوبی افریقہ اور بھارت شامل تھے۔ اب شاید اس سے بھی بھارت کو نکال دیا جائے ۔ بہرحال مستقبل میں بھارت کو بہت زیادہ نقصان ہونے والا ہے ۔
سوال:کیا وجہ ہے کہ موجودہ دورمیں فضائیہ کا کردار یا ایئر سپرمیسی کسی بھی جنگ میں کامیابی کا معیار بن گیا ہے ؟
ضمیر اختر خان:قرآن مجیدمیں غزوہ بدر کو اللہ تعالیٰ نے یوم الفرقان سے تعبیر فرمایاہے کیونکہ اس دن 313 مجاہدین نے کفار کے ایک ہزار کے لشکر کو شکست دی ۔ اللہ تعالیٰ نےسورۃ انفال کی آیات 17 تا 19 میں اس پر تبصرہ فرمایا ۔ اس میں ہمارے لیے بھی سبق ہے اور انڈیا سمیت تمام کفار کے لیے بھی پیغام ہے :
’’پس (اے مسلمانو!) تم نے انہیں قتل نہیں کیا‘ بلکہ اللہ نے انہیں قتل کیا‘اور جب آپؐ نے (ان پر کنکریاں) پھینکی تھیں تو وہ آپؐ نے نہیں پھینکی تھیں بلکہ اللہ نے پھینکی تھیں‘تا کہ اللہ اس سے اہل ایمان کے جوہر نکھارے خوب اچھی طرح سے۔یقیناً اللہ تعالیٰ سب کچھ سننے والا‘ جاننے والا ہےــ۔یہ تو ہو چکا ‘اور (آئندہ کے لیے بھی سمجھ لو کہ) اللہ کفارکی تمام چالوں کو ناکام بنا دینے والا ہے۔اگر تم فیصلہ چاہتے تھے تو تمہارے پاس (اللہ کا) فیصلہ آ چکا اور اگر اب بھی تم باز آ جائو تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے ‘اور اگر تم پھر یہی کرو گے تو ہم بھی یہی کچھ دوبارہ کریں گےاور تمہاری یہ جمعیت تمہارے کسی کام نہیں آ سکے گی خواہ کتنی ہی زیادہ ہو‘ اور یہ کہ اللہ اہل ایمان کے ساتھ ہے۔‘‘
حالیہ دنوں میں پاکستان پر ایک سخت آزمائش آئی ۔ اللہ نے اس میں ہمیں سرخرو کیا ، ماضی کی جتنی بھی ناکامیاں تھیں ان کو دھو دیا ہے۔ ہم پاک فوج ، خصوصاً پاک فضائیہ کو متوجہ کرنا چاہیں گے کہ وہ اس ضمن میں کریڈٹ لینے کی کوشش نہ کرے کیونکہ یہ صرف اللہ کی مدد سے ممکن ہوا ہے۔ لہٰذا چاہیے کہ ہم عاجزی اختیار کریں اور اللہ کا شکر ادا کریں ۔ اللہ کے رسول ﷺ جب فاتح کی حیثیت سے مکہ میں داخل ہورہے تھے تو آپ ﷺ نے خود کو اللہ کے سامنے اتنا جھکایا ہوا تھا کہ آپ ﷺکی داڑھی مبارک اونٹ کے کجاوہ کو چھو رہی تھی اور آپ ﷺ کی زبان پر اللہ کی حمد اور شکر کے کلمات مسلسل جاری تھے ۔ یہ ملک ہم نے اسلام کے نام پر حاصل کیا ہے، اس کی حفاظت کرنا یقیناً عالم اسباب میں ہمارے ذمے ہیں لیکن اصل میں اس کا محافظ اللہ ہے ۔ پاک فوج نے ’’بنیان مرصوص‘‘ کے قرآنی نام سے آپریشن کیا ، اللہ نے لاج رکھ لی، اسی طرح اگر اصل مقصد کی طرف پیش قدمی کریں گے، جس کے لیے یہ ملک حاصل کیا تھا تو اللہ کی کتنی مدد آئے گی اور یہ ملک کتنا مضبوط ہوگا ۔ تب نریندر مودی تو کیا پوری دنیا کی کفریہ طاقتیں بھی کچھ نہیں کر پائیں گی۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جدید ٹیکنالوجی اسباب کے لیے لحاظ سے بہت ضروری ہے اور اللہ اس کا حکم بھی دیتا ہے :
’’اور ان کے لیے جتنی قوت ہوسکے تیار رکھو اور جتنے گھوڑے باندھ سکو تاکہ اس تیاری کے ذریعے تم اللہ کے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو اور جو اُن کے علاوہ ہیں انہیں ڈراؤ۔‘‘ (الانفال :60)
اگر اسباب اور وسائل کے لحاظ سے دیکھا جائے تو بھارت ہم سے کئی گنا آگے ہے ۔ اس کے پاس رافیل تھا جس کی صلاحیت کو دنیا میں تسلیم کیاگیا تھا ۔ جدید ترین ٹیکنالوجی کے حامل اسرائیل اور امریکہ بھی بھارت کی پشت پر تھے۔ اسرائیلی ڈرون ہماری فضاؤں میں گھومتے رہے ۔ لیکن اس سب کے باوجود اللہ تعالیٰ نے پاکستان کی مدد کی اور دشمنوں کے گٹھ جوڑ کو شکست ہوئی ۔ لہٰذا اصل چیز مشین یا ٹیکنالوجی نہیں بلکہ اللہ کی مدد ہے ۔ پاک فضائیہ کو یہ برتری حاصل تھی یہ اللہ کے لیے لڑ رہے تھے اور شہادت ان کو مقصود و مطلوب تھی ۔ پاک فوج کا ماٹو بھی ایمان ، تقویٰ اورجہاد فی سبیل اللہ ہے ۔ اگر اس پر عمل ہوگا تو آئندہ بھی ان شاءاللہ ، اللہ کی مدد حاصل رہے گی اور قیامت سے پہلے عالمی خلافت میں پاکستان کا کردار نکھر کر سامنے آئے گا ۔ ان شاء اللہ !
سوال:امریکہ ایک عرصہ سے اس خطے میں بھارت کو چائنہ سے مقابلے کے لیے سپورٹ اور پروموٹ کر رہا ہے، کیا بھارت کی حالیہ شکست اور ناقص کارکردگی امریکہ کو اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کر سکے گی ؟
ضمیر اختر خان: جس طرح روس سے مقابلے کے لیے پاکستان سے بہتر اس خطہ میں کوئی ملک نہیں تھا تو امریکہ نے پاکستان کو اتحادی بنایا ، اسی طرح چین سے مقابلہ کے لیے بھارت سے بہتر امریکہ کا اتحادی اور کوئی نہیں ہو سکتا ۔ لہٰذا وہ اس کو چھوڑ نہیں سکتے ، البتہ ہو سکتا ہے کہ وہ اس کو ٹیکنالوجی اور صلاحیت میں مزید بہتر بنانے کی کوشش کریں۔ ہو سکتا ہے رافیل کے متبادل کوئی ٹیکنالوجی بھارت کو فراہم کی جائے۔
سوال: سائبر وارفیئر سے کیا مراد ہے اور حالیہ جنگ میں پاکستان نے سائبر ٹیکنالوجی سے کیا مددحاصل کی اور اس کا پاکستان کی فتح میں کتنا کردار تھا ؟
ملک شیر افگن:جب ہم نے جے ایف 17 تھنڈر طیارہ بنایا تو چین نے ہم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ بھی جے ایف 17 ائیرکرافٹ کو اپنے فلیٹ میں انڈکٹ کرے گا مگر اس نے نہیں کیا ۔ اس کی وجہ سے بین الاقوامی شوز میں جب ہم جے ایف 17 کو ڈسپلے کرتے تھے تو لوگ پوچھتے تھے کہ اس کو چین کیوں نہیں اُڑا رہا ۔ اس وجہ سے ہمارا یہ طیارہ سیل نہیں ہوتا تھا ۔ لیکن اب جے ایف 17 کی کارکردگی دیکھتے ہوئے دنیا اس کی طرف متوجہ ہوگی اور ہو سکتا ہے کئی ممالک جے ایف 17 کو خریدنے کے لیے پاکستان کے ساتھ معاہدے کریں۔ سائبر وار فیئر کی بات کریں توآج کی فضائی جنگ صرف جنگی جہازوں اور میزائلزوغیرہ تک محدود نہیں ہے بلکہ آج اس میں جیمرز، ایسکارٹس ، الیکٹرانک وارفیئر کرافٹس اور شوٹرز بھی شامل ہیں اور ان کی کارکردگی میں ایک بڑا حصہ سائبر وار فیئر کا بھی ہوتاہے ۔ ہم نے سائبر وار فیئر ٹیکنالوجی کسی سے نہیں لی ، بلکہ ہم نے خود بنائی ہے ۔ یہ وہ راز ہے جو ہم کسی سے شیئر نہیں کرتے کہ ہم دشمن کے طیاروں کو کس طرح جام کرتے ہیں ۔ ابھینندن کا طیارہ بھی ہم نے اسی طرح جام کیا تھا جس کی وجہ سے اسے پتہ ہی نہ چلا کہ وہ ہماری سرحدوں میں داخل ہو گیا ہے۔ اس ٹیکنالوجی سے ہم دشمن سے ایسی غلطیاں کرواتے ہیں جس سے وہ ہماری گرفت میں آجاتاہے ۔
سوال:حالیہ جنگ میں اللہ تعالیٰ نے پاک فوج کو جو فتح نصیب فرمائی اس کے بعد کہا جارہا ہے کہ پاک فوج نے 1971ء کی شکست کا داغ دھویا ہے ، مستقبل میں پاک فوج کو سرنڈر کرنے والی فوج کا طعنہ نہیں سننے پڑے گا ۔ کیا آپ اس رائے سے اتفاق کرتے ہیں ؟
ضمیر اختر خان:1971ء کے حالات میں اور موجودہ حالات میں جو فرق ہے اس کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے۔ اگرچہ موجودہ دور میں بھی پاکستان کے اندرونی حالات زیادہ اچھے نہیں ہیں لیکن 1971ء میں مشرقی پاکستان میں علیحدگی کی تحریک عروج پر تھی اور بھارت کو یہ برتری بھی حاصل تھی کہ اس کی سرحدیں بنگال کے ساتھ ملتی تھیں اور وہ براہ راست مداخلت کر رہا تھا جبکہ مغربی پاکستان بنگال سے بہت دور تھا۔ بنگالیوں کی اکثریت بھی پاک فوج کے خلاف ہو چکی تھی جس کی وجہ سے پاک فوج کے لیے اپنا کردار ادا کرنا مشکل ہو گیا تھا۔ بہرحال پاکستانی عوام ، فوج اور سیاستدانوں کو اس سانحہ سے سبق حاصل کرنا چاہیے اور اندرونی سطح پر جو اختلافات ہیں ، انہیں مل بیٹھ کر حل کرنا چاہیے ، تمام ادارے آئین کے دائرے میں رہ کر کام کریں ، فوج کو بھی سیاست میں ملوث نہیں ہونا چاہیے ، آئین میں اس کا جو کردار طے ہے اس پر فوکس کرے تو عوام میں اس کا اعتماد بڑھے گا اور اس کی صلاحیت بھی بڑھے گی ۔ حالیہ جنگ میں پاک فوج ، خصوصاًپاک فضائیہ نے جو کارکردگی دکھائی ہے ، اس کی وجہ سے پاک فوج کا امیج بہت بہتر ہوا ہے ، اس موقع سے فائدہ اُٹھا کر پاک فوج کو عوام کے اندر اپنا اعتماد مزید بڑھانا چاہیے اور آئندہ کے لیے ان غلطیوں کو دہرانے سے گریز کرنا چاہیے جن کی وجہ سے عوام میں فوج کو متنازعہ بنایا جاتاہے ۔
سوال:پہلگام واقعے کے بعد دو ہفتے تک بھارت پاکستان کو دھمکیاں دیتا رہا اور پھر اس نے آپریشن سندور شروع کر دیا۔ جب تک بھارت کو مار نہیں پڑی اس وقت تک امریکہ بھی خاموش تماشائی بنا رہا لیکن جیسے ہی بھارت کو نقصان پہنچا تو امریکہ ثالثی کے لیے تیار ہوگیا ۔ آپ یہ بتائیے کہ اگر انڈیا کو مار نہ پڑتی تو تب بھی امریکہ ثالثی کےلیے راضی ہوتا ؟
ملک شیر افگن:پاکستان کے سیاسی اور معاشی عدم استحکام کی وجہ سے دنیا یہ سوچ رہی تھی کہ پاکستان اندر سے کھوکھلا ہو چکا ہے اور انڈیا کا مقابلہ نہیں کر سکے گا ۔ لیکن دنیا کو معلوم نہیں کہ ہمارا فوجی جوان ہر چیز سے لا تعلق ہو کر ملک کے دفاع کے لیے تیاری کر رہاہوتاہے ۔ اسے جنگ میں اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے کا موقع ملتاہے ۔ ہماری فوج ہر قسم کے حالات کے لیے پہلے سے تیار ہوتی ہے اور اگر ہمیں دیوار سے لگایا گیا تو ہم ایٹمی طاقت بھی آزمانے سے گریز نہیں کریں گے۔
سوال: پہلگام واقعہ کے بعد نریندر مودی نے سب سے پہلا اور سب سے بڑا ایکشن یہ لیا کہ سندھ طاس معاہدہ معطل کر دیا ۔ اب چونکہ سیز فائر ہو چکا ہے ، حالات معمول پر آرہے ہیں تو کیا اس کے باوجود بھی سندھ طاس معاہدہ منسوخ رہے گا ؟
رضاء الحق:سندھ طاس معاہدہ عملی طور پر تو معطل ہی ہے۔ بھارت جب چاہتا ہے پانی روک لیتا ہے اور جب چاہتا چھوڑ دیتا ہے ۔ اب اگر مذاکرات ہوتے ہیں تو پاکستان کو اس حوالے سے بھی بات کرنی چاہیے اور خاص طور پرIMF کے قرضے کے حوالے سے بھی بات کرنی چاہیے کہ ہمارا قرض رائٹ آف کر دیا جائے ۔ لاطینی امریکہ میں اس کی مثال موجود ہے جس نے اسی طرح قرض معاف کروایا تھا ۔ اسی طرح یہ شرط بھی رکھی جائے کہ کشمیر کے خصوصی آئینی سٹیٹس کو بحال کیا جائے ۔ اس کے علاوہ ہمیں شملہ معاہدہ پر بھی نظر ثانی کرنی چاہیے ۔ جب تک آپ کے پاس طاقت نہیں ہوگی تب تک آپ کی بات نہیں مانی جائے گی ۔ مسئلہ کشمیر بھی صرف طاقت سے ہی حل ہوگا ۔
سوال:پاک بھارت کشیدگی ختم کرنے اور خطہ میں امن قائم کرنے کے لیے آپ دونوں ممالک کی حکومتوں کو کیا مشورہ دیں گے ؟
رضاء الحق:قرآن مجید میں سورۃ المائدہ کی آیت 82 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :’’یقیناً تم اہل ایمان سے دشمنی میں سب سے بڑھ کر یہود اور مشرکین کو پاؤ گے ۔ ‘‘
اس وقت انڈیا اور اسرائیل کی مسلم دشمنی کھل کر سامنے آچکی ہے ، مسلمانوں کو مٹانا ان کے عزائم میں شامل ہے ۔ لہٰذا امن کی طرف جانے والا راستہ بند ہو چکا ہے ۔ جس طرح اسرائیل مسلم ممالک پر قبضہ کرکے گریٹر اسرائیل بنانا چاہتاہے اسی طرح انڈیا بھی اکھنڈ بھارت کا خواب پورا کرنا چاہتاہے ۔ ان دونوں کے راستے میں پاکستان سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔ ڈاکٹر اسراراحمدؒ فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر بیماری کا علاج اس سے پہلے پیدا کیا ہے ۔ اسرائیل ایک بیماری ہے اور اس کا علاج پاکستان ہے ۔ احادیث میں بھی تذکرہ ہے کہ اس خطہ سے اسلامی لشکر امام مہدی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نصرت کے لیے جائیں گے اور یروشلم میں جاکر فتح کا پرچم لہرائیں  گے۔ دشمن یہ بات جانتے ہیں اسی لیے وہ پاکستان کو اندرونی اور بیرونی طور پرکمزور کرنا چاہتے ہیں ۔ ہمیں بھی مستقبل کےمنظرنامے کو مدنظر رکھ کر تیاری کرنی چاہیے ۔ سب سے اہم کام جوہمیں کرنا چاہیے وہ دین سے جڑنا ہے اور دین کے نفاذ کے لیے جدوجہد کرنا ہے کیونکہ اس خطہ میں اسلام غالب ہوگا تو پھر یہاں سے اسلامی لشکر بھی نکلیں گے اور وہ مشرق وسطیٰ میں دجال کے خلاف بھی جنگ کریں گے اوراِس خطہ میں غزوہ ہند بھی لڑیں گے ۔