اداریہ
رضاء الحق
حقیقی بُنْيَانٌ مَّرْصُوْصٌ !
گزشتہ دو تحریروں سے ہم پاک بھارت کشیدگی اور پھر جنگ کے حوالے سے خاصی گفتگو کر چکے ہیں۔ لہٰذا آج یہودوہنود کے گٹھ جوڑ اور پاک بھارت فضائی معرکوں پر مختصراً تبصرہ کر کے کچھ اصولی مباحث کا اعادہ کریںگئے۔10 مئی کی صبح نمازِ فجر کے بعد پاکستان کی مسلح افواج نے قوم کی توقعات کے عین مطابق، اللہ تعالیٰ کی خصوصی مدد اور نصرت سے بھارت کے خلاف آپریشن بُنْيَانٌ مَّرْصُوْصٌ کا آغاز کیا اور بھارت کی جانب سے مسلسل 3 رات و دن سے جاری فضائی دہشت گردی کا بھرپور جواب دیا۔ بھارت کا پاکستان پر جنگ مسلط کرنے کا مقصد گریٹر اسرائیل کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ یعنی پاکستان کو نقصان پہنچانا اور اس کے ایٹمی دانت توڑنا تھا، جس کے لیے اسرائیل نے بھارت کو ڈرونز بھی فراہم کیے۔ یہود و ہنود (مشرکین) کا وہ گٹھ جوڑ جسے سورۃ المائدۃ کی آیت 82 میں بیان فرمایا گیا ہے، 9مئی کی رات تک اپنے تئیں پاکستان کو شکست دے چکاتھا۔ لیکن اللہ کا خاص کرم ہوا کہ پاکستان نے بھارت کے طول و عرض میں میزائلوں، لڑاکا طیاروں اور ڈرونز اور سائبر حملوںکے ذریعے تہلکہ مچا دیا۔ اگر یہ کہا جائے کہ 10 مئی کے دن پاکستان کی جانب سے بھارت کو گھٹنوں کے بل گرانے میں اوّلاً اللہ کی مدد اور پھر چینی اسلحہ اور تکنیکی صلاحیت نے اہم کردار ادا کیا تو غلط نہ ہوگا۔ اصل المیہ تو یہ ہے کہ 57مسلم ممالک میں سے کسی نے بھی پاکستان کی کوئی عملی مدد نہیں کی۔پاکستان نے اپنی کارروائی میںبھارت کے روسی ساختہ ’’سخوئی‘‘ طیاروں اور براہموس میزائلوں کے اڈوں کو تباہ کر دیا۔ اللہ کی خاص مدد سے بھارت کی درجنوں اہم فوجی تنصیبات کو اس شدت سے نقصان پہنچایا کہ دشمن ناک سے لکیریں نکالتا ہوا امریکہ اور دیگر ممالک سے منتیں کرنے لگا کہ اگر پاکستان جنگ کو طول نہ دے تو ہم بھی جنگ بندی کے لیے تیار ہیں۔ بالآخر امریکہ اور دیگر چند ممالک کی ثالثی سے جنگ بندی کا معاہدہ طے پا گیا ہے۔ اگرچہ ہمارے نزدیک خطرہ ابھی ٹلا نہیں۔دشمن انتہائی عیار ہے اوربھارت اس معاہدے کی خلاف ورزی کے لیےہر ممکنہ طریقہ آزمائے گا جس میں اسرائیل اُس کی مکمل معاونت کرے گا۔امریکی صدر ٹرمپ نے تو کشمیر کے معاملے پر ثالثی کا عندیہ بھی دے دیا ہے جو درحقیقت خطے میں امریکی موجودگی کا ایک بہانہ ہے تاکہ پاکستان، افغانستان اور چین تینوں پر نظر رکھی جا سکے۔ لہٰذا پاکستان کے عوام، حکومت و اپوزیشن اور عسکری حلقوں کو ہر دم چوکنا رہنا پڑے گا۔ سورۃ الانفال کی آیت 60 میں مسلمانوں کو دی گئی رہنمائی کی روشنی میں ہمیں اپنی جنگی تیاری کو ہر حال میں مکمل رکھنا ہو گا۔ آپس کی ناچاقیوں اور ناراضگیوں کو بھلا کر ایک قوم کی مانند متحد ہونا ہوگا۔ پھر یہ کہ اس جنگ میں مصروفیت کے باعث غزہ کے مسلمانوں پر جاری اسرائیلی ظلم و ستم اور اسرائیل کے مسجدِ اقصٰی کے حوالے سے مذموم مقاصد کو ہرگز طاقِ نسیان پر نہ رکھا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کا قیام ایک معجزہ ہے جومملکتِ خداداد کی آزادی کے نو ماہ بعد قائم ہونے والی ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل جیسی موذی بیماری کا علاج ہے۔ احادیث مبارکہ میں واضح خبریں موجود ہیں کہ اسی علاقے یعنی خراسان سے لشکر حضرت مہدی کی نصرت کے لیے جائیں گے اور خراسان ہی سے سیاہ جھنڈے ایلیا ( یروشلم) کی طرف پیش قدمی کریں گے اور وہاں یہود کی دجالی حکومت کا خاتمہ کر کے اسلام کا نظامِ عدل اجتماعی نافذ کریں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ آپریشن بُنْيَانٌ مَّرْصُوْصٌ نے اپنے عسکری ہدف حاصل کر لیے ہیں۔ اب پاکستان کے تمام سٹیک ہولڈرز ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے بھرپور جدوجہد کریں تاکہ نظریاتی اور جغرافیائی دونوں سطحوں پر پاکستان حقیقی معنوں میں ایک بُنْيَانٌ مَّرْصُوْصٌ بن جائے۔
اب آتے ہیں دوسرے نکتہ کی طرف۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمانوں کی عظیم اکثریت اِس بات پر اتفاق کرتی ہے کہ جب باطل کا نظام اپنے پورے عروج پر ہوگا، مسلمانوں کو ہر طرف سے ہزیمت کا سامنا ہوگا اور المسیح الدجال کا ظہور بھی ہو چکا ہو گا تو مشیت ایزدی سے ایک نیک بندے جن کا تعارف احادیث میں مہدی اور مسلمانوں کے امام کے طور پر کرایا گیا ہے، وہ اپنی جمعیت کے ساتھ دجال کے خلاف جہاد کریں گے اور غالب گمان ہے کہ انہی کے دور میں الملحمۃ الکبریٰ کا معرکہ ہوگا جس میں لاشوں کے ڈھیر لگ جائیں گے۔احادیث کے مطابق اُس وقت مسلمان شام کی ایک مسجد میں محصور ہوں گے جبکہ دجال باہر ان کو تہہ تیغ کرنے کے لیے تیاری میں مشغول ہوگا تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ حضر ت مسیح ؑکو آسمانوں سے واپس بھیجیں گے۔ نمازِ فجر کا وقت ہوگا اور ابھی جماعت کھڑی نہیں ہوئی ہوگی۔ ایسے میں حضرت مہدی امام کے مصلی سے پیچھے ہٹیں گے تاکہ امامت عیسیٰ dکروائیں لیکن مسیح ؑ انہیں آگے کر کے
ان کی اقتدا میں نماز ادا فرمائیں گے جس سے یہ بات واضح ہو جائے گی کہ وہ نبی اکرم ﷺ کے امتی کے طور پر تشریف لائیں گے نہ کہ ایک رسول کے طور پر۔ نمازِ فجر کی ادائیگی کے بعد حضرت عیسیٰd مسجد کے دروازے کھولنے کا حکم دیں گے اور ان پر نظر پڑتے ہی دجال سر پر پاؤں رکھ کر بھاگ کھڑا ہوگا اور مقامِ لُدسے فرار ہونے کی کوشش کرے گا (جو پہلےLod ،پھر Lydda کہلاتا تھا اور آجBen-Gurion International Airport کے نام سے جانا جاتا ہے۔) وہیں پرحضر ت مسیح ابن مریم ؑ اُسےقتل کریں گے اور اس کا خون اپنے نیزے پر لوگوں کو دکھائیں گے۔ احادیث اور ان کی شرح کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا بھر کے عیسائی اسلام قبول کر لیں گے اور پھر یہود کو چن چن کر قتل کر دیا جائے گا اور شجر و حجر سب پکار اٹھیں گے کہ اے مسلم! میرے پیچھے یہودی چھپا بیٹھا ہے اسے قتل کر دو۔ (سوائے غرقد کے درخت کے جسے یہودیوں کا درخت کہا گیا ہے۔)
جب مشرق وسطیٰ میں حق و باطل کا یہ معرکہ چل رہا ہو گا تو اُسی دوران جنوبی ایشیا بھی میدانِ کارزار بنا ہو گا۔تاریخ اسلام میں آئمہ ومحدثین اور اکابر مؤرخین نے غزوئہ ہند سے متعلق احادیث کو اپنی کتب میں نقل کیا ہے، اس بات کی صریح دلیل ہے کہ غزوئہ ہند سے متعلق احادیث من گھڑت اور موضوع نہیں ہیں، اگرچہ ضعیف ضرور ہیں اور علم فقہ و اصول حدیث میں ضعیف حدیث کو فضائل بیان کرنے کی حد تک معتبر سمجھا جاتا ہے۔ علماء امت نے تواتر کی حد تک موجود ان احادیث کو اپنی کتب میں بشارت اور قیامت سے قبل واقع ہونے والی علامت کی بحث میںکثرت سے نقل کیا ہے ۔ خاص طور پر امام نسائی ؒ نے سنن نسائی میں غزوئہ ہند پر مکمل باب باندھا ہے ۔ امام بخاریؒ کے استاد امام نعیم بن حمادؒ نے کتاب الفتن میں غزوئہ ہند کے متعلق روایات کو جمع کیا ہے ۔ امام احمدؒ نے اپنی مسند میں، امام بخاریؒ نے تاریخ کبیر میں، امام بیہقی ؒ نے سنن الکبری اور دلائل النبوۃ میں، امام حاکم ؒنے مستدرک حاکم میں، امام طبرانی ؒ نے معجم الاوسط میں، امام سیوطیؒ نے جمع الجوامع میں، امام نووی ؒنے فیض القدیر میں، امام ذہبیؒ نے تاریخ الاسلام میں، امام بغدادیؒ نے تاریخ بغداد میں، امام ابن کثیرؒ نے البدایہ والنھایہ میں غزوئہ ہند سے متعلق احادیث ذکر کی ہیں۔لہٰذا تواتر کی اس حد تک پہنچی ان روایات کو موضوع کہنا محل نظر ہے۔غزوئہ ہند کے متعلق مروی احادیث میں چند درج ذیل ہیں:
ترجمہ : حضرت ثوبان ؓ جو کہ حضورﷺکے غلام تھے، ان سے روایت ہےکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’ میری امت کے دو گروہوں کو اللہ تعالیٰ دوزخ کے عذاب سے بچائے گا، ان میں سے ایک ہندوستان میں جہاد کرے گا، دوسرا حضرت عیسیٰ ؑ کے ساتھ ہوگا۔‘‘(مسنداحمد)
ترجمہ: ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ہم سے غزوئہ ہند کے بارے میں وعدہ فرمایا ہے ۔ سو اگر میں شہید ہوگیا تو بہترین شہیدوں میں سے ہوں گا اگر واپس آگیا تو میں آزاد ابو ہریرہ ؓ ہوں گا۔ ‘‘(سنن النسائی)
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہند کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: یقیناً تمہارا ایک لشکر ہند سے جنگ کرے گا،اور اللہ ان مجاہدین کو فتح دے گا۔ حتیٰ کہ وہ حکمرانوں کو بیڑیوں میں جکڑ کر لائیں گے ۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے گا۔ پھر جب وہ واپس لوٹیں گے تو ابن مریم ؑ کو شام میں پائیں گے ۔ تو حضرت ابوہریرہ ؓ نے فرمایا : اگر میں نے وہ غزوہ پایا تو اپنا نیا اور پرانا سب مال بیچ کر اس میں شرکت کروں گا، جب ہمیں اللہ تعالیٰ فتح دے دے گا تو ہم واپس آئیں گے اور میں ایک آزاد ابوہریرہ ہوں گا جو شام میں آئے گا تو وہاں عیسی بن مریم ؑ سے ملاقات کرے گا۔یارسول اللہ ﷺاس وقت میری شدید خواہش ہوگی کہ میں ان کے قریب پہنچ کر انہیں بتاؤں کہ مجھے آپؐ کی صحبت کا شرف حاصل ہے۔حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ پھر رسو ل اللہ ﷺ مسکرائے۔‘‘(کتاب الفتن؛نعیم بن حماد)
اس حوالے سے علامہ عبید اللہ سندھیؒ نے حدیث کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ حدیث میں عام مسلمانوں سے غزوئہ ہند کے متعلق وعدہ کیا گیا ہے نا کہ مسلمانوں کے کسی خاص گروہ سے، اسی وجہ سے بعض حضرات نے اپنے مبلغ علم کی بنیاد پر مختلف مصداق ٹھہرائے ہیں ۔مثال کے طور پربلاذریؒ کی تحقیق کے مطابق ہندوستان پر مہم جوئی کا آغاز حضرت عمرؓ کے دور میں ہوا اس کے بعد حضرت عثمان ؓ کے دور میں بعض مسلمان جاسوس کو ہند پر حملہ سے قبل وہاں کی صورتِ حال کا جائزہ لینے کے لے بھیجا گیا، البتہ جنگ کی نوبت نہیں آئی، تاہم حضرت علی ؓ کے عہد میں جنگ ہوئی جس میں آپ کو کامیابی ہوئی۔(فتوح البلدان: ص420)
بعض حضرات نے محمد بن قاسمؒ اور محمود سبکتگینؒ کی ہندوستان کے علاقوں میں جو لڑائی ہوئی اس کو غزوئہ ہند کا مصداق ٹھہرایاہے۔(فیض السمائی: 2 / 360 )
لہٰذا اس غزوہ (یعنی ہند) کے حقیقی مصداق کے بارے میں کوئی صریح نص نہیں ہے کہ یہ کب ہوگا، اور اسے یقینی طور پر متعین بھی نہیں کیا جاسکتا، تاہم حضرت ثوبان ؓ کی مذکورہ روایت سے اشارہ ملتاہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ کے آسمان سے نزول فرمانے کے زمانے کے قریب ’’ہند‘‘ میں غزوئہ ہوگا، اس میں شریک مسلمانوں کی جماعت کی خاص فضیلت بیان کی گئی ہے۔ لیکن اسے قطعی طور پر ’’غزوۂ ہند‘‘ کا واحد مصداق نہیں کہا جاسکتا۔ دراصل ان احادیث میں اللہ کے دین کی سر بلندی کے لیے حتی الوسع اپنی کوشش صرف کرنے کی ترغیب ہے اور اس کا وقوع کب ہوگا یہ بات دین کے مقاصد میں سے نہیں۔ نہ اس پردین کا کوئی حکم موقوف ہے۔واللہ تعالیٰ اعلم!
حقیقت یہ ہے کہ صرف غزوۂ ہند ہی نہیں بلکہ دورِ فتن و ملاحم سے متعلق اکثر احادیث مبارکہ میں آئندہ پیش آنے والے واقعات کے حوالے سے حقیقی مصداق اور معین وقت کے بارے میں صریح نص نہیں ملتی۔ دجال کا ظہور کب ہو گا، حضرت مہدیؑ کب تشریف لائیں گے، حضرت عیسیٰdکب آسمان سے زمین پر واپس تشریف لائیں گے، دابۃ الارض کب زمین سے برآمد ہوگا، سورج مغرب سے کب طلوع ہوگا، یاجوج و ماجوج کون ہیں اور کب نکلیں گے... ان سب کو اور اس نوعیت کی بیشتر دیگر احادیث کے حقیقی مصداق اور ان کے وقوع پذیر ہونے کے وقت کو مصلحتاً پوشیدہ رکھا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تو اپنا دین غالب کرنے کا اٹل فیصلہ فرمایا ہوا ہے:’’ وہی تو ہے جس نے بھیجا ہے اپنے رسول (ﷺ) کو الہدیٰ اور دین حق دے کرتا کہ غالب کردے اسے کل کے کل دین (نظام زندگی) پر خواہ یہ مشرکوں کو کتنا ہی ناگوار گزرے۔‘‘ (سورہ التوبہ: 33)۔
ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ اس امتحان میں ہماری کارکردگی کیسی رہتی ہے ۔لہٰذا سمجھنے اور پھر کرنے کا اصل کام یہ ہے کہ ایسے حالات و واقعات پیدا کیے جائیں کہ خراسان کا علاقہ بھی تشکیل پا جائے اور مسلمانوں کے کم از کم ایک ملک میں ایسا حقیقی اسلامی نظام قائم ہو جس کے عوام وقت آنے پر حضرت مہدیؑ کی نصرت کے لیے سر پر کفن باندھ کر نکل پڑیں۔یاد رہے کہ سنن ابن ماجہ کی ایک حدیث میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے منقول ہے کہ ہم رسول اللہﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، اتنے میں بنی ہاشم کے چند نوجوان آئے، جب نبی اکرمﷺ نے انہیں دیکھا، تو آپ ﷺ کی آنکھیں بھر آئیں، اور آپؐ(کے چہرہ مبارک) کا رنگ بدل گیا، میں نے عرض کیا: ہم آپؐ کے چہرے میں ہمیشہ کوئی نہ کوئی ایسی بات ضرور دیکھتے ہیں جسے ہم اچھا نہیں سمجھتے (یعنی آپؐ کے رنج سے ہمیشہ صدمہ ہوتا ہے)، آپﷺ نے فرمایا: ’’ہم اس گھرانے والے ہیں جن کے لیے اللہ نے دنیا کے مقابلے آخرت پسند کی ہے، میرے بعد بہت جلد ہی میرے اہل بیت مصیبت، سختی، اخراج اور جلا وطنی میں مبتلا ہوں گے، یہاں تک کہ مشرق کی طرف سے کچھ لوگ آئیں گے، جن کے ساتھ سیاہ جھنڈے ہوں گے، وہ خیر (خزانہ) طلب کریں گے، لوگ انہیں نہ دیں گے تو وہ لوگوں سے جنگ کریں گے، اور (اللہ کی طرف سے) ان کی مدد ہوگی، پھر وہ جو مانگتے تھے وہ انہیں دیا جائے گا، (یعنی لوگ ان کی حکومت پر راضی ہو جائیں گے اور خزانہ سونپ دیں گے)، یہ لوگ اس وقت اپنے لیے حکومت قبول نہ کریں گے یہاں تک کہ میرے اہل بیت میں سے ایک شخص کو یہ خزانہ اور حکومت سونپ دیں گے، وہ شخص زمین کو اس طرح عدل سے بھر دے گا جس طرح لوگوں نے اسے ظلم سے بھر دیا تھا، لہٰذا تم میں سے جو شخص اس زمانہ کو پائے وہ ان لوگوں کے ساتھ (لشکر میں) شریک ہو، اگرچہ اسے گھٹنوں کے بل برف پر کیوں نہ چلنا پڑے۔‘‘ (سنن ابن ماجہ) لہٰذا ہم اہلِ مشرق حقیقی معنوں میں بُنْيَانٌ مَّرْصُوْصٌ بنیں۔حالیہ واقعات نے یہ تو ثابت کر دیا ہے کہ یہود و ہنود کا گٹھ جوڑ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے۔ ضرورت ایک ایسےحقیقی اسلامی ملک کی ہے جو اس گٹھ جوڑ کے راستے کی رکاوٹ بن جائے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اشیاء کی اصل حقیقت کو سمجھنے اور حق کا ساتھ دینے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
tanzeemdigitallibrary.com © 2025