تمام بڑی دینی جماعتوں کی نمائندگی پر مشتمل ایک اسٹیرنگ کمیٹی تشکیل
دی جائے جو وزیراعظم اور مقتدر حلقوں سے ملاقات کرکے اہل غزہ کے
مسائل سے آگاہ کرے اور انہیں عملی کارروائی کی ترغیب و تشویق دے ۔
انڈیا کو موثر جواب دینے کے لیے قومی یکجہتی اور ہم آہنگی ضروری ہے،
لیکن اس کے ساتھ ساتھ اہل غزہ کو بھی فراموش نہ کیا جائے۔ ہمیں ایک قوم بنانے والی
واحد شے کلمہ طیبہ ہے ،اس کے نفاذ کی عملی جدوجہد اللہ کی مدد کا باعث ہوگی ۔
کم از کم اب تو ہمیں امریکہ کی خاطر اپنے دوستوں کو دشمن بنانے کا سلسلہ
بند کردینا چاہیے !
خصوصی پروگرام’’ امیر سے ملاقات‘‘ میں
امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ کے رفقائے تنظیم و احباب کے سوالوں کے جوابات
میزبان :آصف حمید
مرتب : محمد رفیق چودھری
سوال: 10 اپریل2025ء کو تمام دینی جماعتوں کے علماء ایک مشترکہ کانفرنس میں شریک ہوئے اور متفقہ فتویٰ جاری کیا کہ مسلم حکومتوں پر اسرائیل کے خلاف جہاد فرض ہو چکا ہے۔ لہٰذا اب زبانی کلامی باتوں سے آگے بڑھ کر اسرائیل کے خلاف عملی اقدامات کیے جائیں۔ آپ بھی اس کانفرنس میں شریک تھے اور آپ جانتے ہیں کہ اس طرح کی کانفرنسز ہوتی رہتی ہیں لیکن حکومت ٹس سے مس نہیں ہوتی ۔ تمام دینی جماعتیں خود بھی صرف فتاویٰ اور کانفرنسز سے آگے بڑھ کر عملی طور پر حکومت پر دباؤ کیوں نہیں ڈالتیں ۔ حالانکہ 22 کروڑ عوام فلسطین کا درد رکھتے ہیں ۔ دینی جماعتیں عوام کو متحد کرکے حکومت پر دباؤ ڈال سکتی ہیں ۔ کیا اللہ پوچھے گا نہیں کہ اتنی بڑی قوت ہونے کے باوجود فلسطینی مسلمانوں کی مدد کیوں نہ کی ؟تنظیم اسلامی کا موقف ہے کہ جب 2 لاکھ کارکن اس کے پاس ہو جائیں گے تو اس کے بعد اقدام ہوگا ۔ یہ 2 لاکھ دوسری دینی جماعتوں کے پاس بھی ہیں وہ بھی کام آسکتے ہیں ؟ (فرحان ، کراچی)
امیر تنظیم اسلامی:ایک اُصولی بات قرآن حکیم میں سورۃ البقرہ کی آخر میں بیان ہوئی ہے ۔
{لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلاَّ وُسْعَہَا ط} ’’اللہ تعالیٰ نہیں ذمّہ دار ٹھہرائے گا کسی جان کو مگر اس کی وسعت کے مطابق۔‘‘
اسی طرح اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :’’تم میں سے جو شخص منکر کو دیکھے اس پر لازم ہے کہ اسے اپنے ہاتھ سے بدل دے اور اگر اس کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اپنی زبان سے روکے۔ اگر اس کی بھی طاقت نہ رکھتا ہو تو اپنے دل سے (اسے برا سمجھے اور اس کے بدلنے کی مثبت تدبیر سوچے) اور یہ سب سے کمزور ایمان ہے۔‘‘(صحیح مسلم)
اصولی بات یہ ہے کہ جس قدرجس کے پاس استطاعت ہے وہ اس قدر ذمہ دار اور اسی قدر رب کے سامنے جوابدہ ہے ۔ مجھ سمیت ہر مسلمان جائزہ لے کہ وہ اس ضمن میں کیا کر سکتاہے ۔ وہ بھی اگر ہم نہیں کر رہے تو ہم مجرم ہیں ۔ مثال کے طور پر ایک خاتون ِ خانہ ہے وہ بطور والدہ اپنے بچوں پر دینی اعتبار سے محنت کر سکتی ہے ، بیوی ہے تو اپنے شوہر پر محنت کر سکتی ہے کہ وہ باہر نکل کر دین کی دعوت اور نفاذ کی کوشش کرے ،منکرات کے خلاف آوازاُٹھائے ، ایک استاد ہے تو وہ اپنے شاگردوں پر اس حوالے سے محنت کر سکتا ہے ۔ لہٰذا جو جہاں جہاں جتنی اتھارٹی رکھتا ہےوہ اس کا مکلف ہے ۔ ہم نے تنظیم اسلامی کے پلیٹ فارم سے جو استطاعت میں تھا وہ کیا ، ہم نے مظاہرے بھی کیے ، سیمینار بھی منعقد کروائے ، پریس ریلیز بھی جاری کرتے ہیں ، سوشل میڈیا پر بھی مہم چلاتے ہیں ، خطبات جمعہ میں بھی حکومت اور عوام کومتوجہ کرتے ہیں ، اسرائیل نواز کمپنیوں کی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم کو بھی عام کیااور خود بھی اس پر کاربند رہے، اہم حکومتی ، سیاسی شخصیات اور مقتدر حلقوں کو خط لکھ کر انہیں بھی جھنجوڑنے کی کوشش کی۔ گزشتہ دنوں ہم نے فلسطین کاز کے حوالے سے کرنے کے 13 کاموں کی فہرست مرتب کی اور اسلام آباد کانفرنس میں بھی اس کو علماء کے سامنے پیش کیا ۔ اس کو ہم نے تمام دینی جماعتوں اور حکومتی اداروں اور اہلکاروں تک پہنچانے کی کوشش کی ہے ۔ مجلس اتحاد امت میں بھی ہم نے شریک ہوکر ان 13 نکات کو پیش کیا ۔ یہ کام ہمارے اختیار میں ہیں ، ہم نے کیے ہیں ۔ حکومت اور مقتدر حلقوں کےپاس قوت بھی ہے ، زیادہ اختیار بھی ہے وہ اگر چاہیں تو بہت کچھ کر سکتے ہیں ۔ ہم نے توجہ دلائی ہے کہ تمام بڑی دینی جماعتوں کی نمائندگی پر مشتمل ایک سٹیرنگ کمیٹی تشکیل دی جائے جو وزیراعظم ، صدرمملکت ، مقتدر حلقوںاور تمام سٹیک ہولڈرز سے ملاقات کرکے انہیں فلسطین کاز کے حوالے سے متوجہ کرے ۔اگر دینی سیاسی جماعتیں اپنے سیاسی حقوق منوانے کے لیے سڑکوں پر آسکتی ہیں ،حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے دھرنے دے سکتی ہیں تو اُمت کے مشترکہ مسئلہ پر کیوں نہیں نکل سکتیں ؟فضا بھی فلسطین کے حق میں ہے ، لوگ دل میں جذبہ بھی رکھتے ہیں ۔ وہ لوگوں کو اپنے ساتھ ملا کر حکومت پر دباؤ ڈال سکتے ہیں ۔ 57 مسلم ممالک مل کر سفارتی ، معاشی سطح پر بہت بڑا پریشر اسرائیل پر ڈال سکتے ہیں ۔ پاکستان کو اللہ نے ایٹمی صلاحیت دی ہے ، ہم یہ نہیں کہتے کہ اسرائیل پر حملہ کردے ، کم ازکم اسرائیل کو سخت تنبیہ تو کر سکتے ہیں ۔
اگلی بات یہ ہے کہ ہم اس حوالے سے صرف دوسروں پر تنقید نہ کریں بلکہ اپنے بس میں جو ہے اس کو بھی کرنے کی کوشش کریں ۔ اگر سوچ یہ ہو کہ امت کو نقصان پہنچتاہے تو پہنچتا رہے ،بس اپنے معاملات ٹھیک رہیں تو پھر ہمیں اُمتی ہونے کے دعویٰ پر نظر ثانی کرنی چاہیے ۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتاہے :
{اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ}’’یقیناً تمام اہل ِایمان آپس میں بھائی بھائی ہیں ۔‘‘
اللہ کے پیغمبرﷺ نے فرمایا: ’’اُمت ایک جسم کی مانند ہے، ایک حصے میں اگر تکلیف ہوتو پورا جسم درد محسوس کرتا ہے۔‘‘ حماس کے سابق سربراہ شہید یحییٰ سنوار نے کہا تھا کہ غزہ کا مسئلہ بہت سے لوگوں کو بے نقاب کر دے گا ۔ یہ صرف اہل غزہ کا امتحان نہیں ہے بلکہ پوری اُمت کا بھی امتحان ہے ۔ اہل غزہ تو اس امتحان میں کامیاب ہیں لیکن ہمیں اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہیے کہ ہم اس امتحان میں کہاں کھڑے ہیں ۔ دنیا عمل کا میدان اور آخرت نتائج کا میدان ہے۔
سوال: میں جامعہ کراچی کی طالبہ ہوں اور تنظیم اسلامی اور ڈاکٹر اسراراحمدؒ کی فکر سے اتفاق کرتی ہوں، لیکن میرا سوال یہ ہے کہ اگر جمعیت طلبہ کا نصب العین بھی رضا الٰہی کا حصول اور اس کے نظام کی بندگی کو قائم کرنا ہے تو کیا یہ ممکن نہیں کہ بحیثیت طالبہ دعوتِ دین کے لیے جمعیت میں شمولیت اختیار کی جائے یا ان کے دروسِ قرآن میں شرکت کی جائے۔(خاتون،کراچی)
امیر تنظیم اسلامی: جماعت اسلامی اور تنظیم اسلامی کے درمیان صرف منہج اور طریقہ کار میں اختلاف ہے لیکن منزل بہرحال اقامت دین کی جدوجہد ہے۔آج بھی ملت اور دین کے مختلف ایشوز پر ہم یک آواز ہو جاتے ہیں ۔ جیسا کہ انسداد سودکا عدالتی کیس جماعت اسلامی اور تنظیم اسلامی نے مل کر لڑا۔ اسی طرح فلسطین کاز پر ہم ایک دوسرے کی مدد بھی کرتے ہیں ، ایک دوسرے کے پروگرامز میں بھی جاتے ہیں ۔ اگر جمعیت طلبہ جامعہ کراچی میں دروس قرآن یا دعوت دین کے پروگرامز کا انعقاد کرتی ہے تو اس میں شرکت کرنا چاہیے ۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ البتہ خواتین کا سڑکوں پر آکر مظاہروں میں شرکت کرنا دینی وقار اور مزاج سے مطابقت نہیں رکھتا ۔ اس سےگریز کرنا چاہیے ۔ تنظیم اسلامی کے زیر اہتمام بھی پورے کراچی میں خواتین کا نظم موجودہے ، وہاںالحمدللہ دروسِ قرآن کے حلقے ہوتے ہیں، عربی گرائمر کلاسز، سیرت النبی ﷺ کی کلاسز ،تجوید کی کلاسز کا اہتمام ہوتا ہے۔ ہماری کوئی بھی بہن اگر ان کلاسز یا درروس قرآن کے حلقوں میں شرکت کرنا چاہے تو وہ تنظیم اسلامی کے شعبہ خواتین سے رابطہ کر سکتی ہیں ۔
سوال:امیرتنظیم اسلامی اپنے رفقا ءکے لیے جناح کیپ اور شیروانی ڈریس کوڈ کی ہدایت کیوں نہیں دیتے ؟(خاتون )
امیر تنظیم اسلامی: بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسراراحمدؒ نے اس بات کی حوصلہ شکنی کی ہے کہ تنظیم کے رفقاء اپنے آپ کو نمایاں کرنے یا منفرد نظر آنے کے لیے کوئی مخصوص لباس پہنیں ، جیسا کہ اکثر مذہبی جماعتوں کے لوگ اپنے حلیے یا لباس سے پہچانے جاتے ہیں ۔ ہم اس تفریق اور تقسیم کے قائل نہیں ہیں ۔ ایک دفعہ ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب نے ٹی وی چینل کی ریکارڈنگ کے لیے بلایا تھا تو شیروانی پہننے کے لیے انہوں نے پابند کیا تھا لیکن عام حالات میں ہمارا موسم بھی اس کی اجازت نہیں دیتا ۔ ہمارے دین نے لباس کے بنیادی اصول طے کر دیئے ہیں ان کے اندر رہتے ہوئے ہم کوئی بھی لباس زیب تن کر سکتے ہیں ، البتہ شرط یہ رکھی ہے کہ وہ لباس حلال کمائی سے خریدا گیا ہو ۔ رسول اللہ ﷺ کی حدیث ہے کہ جس نے کوئی لباس پہنا،چاہے وہ 10 درہم کا ہو ، لیکن ایک درہم بھی حرام مال کا ہوا تو جب تک وہ لباس پہنارہے گا ، اس وقت تک اس کی کوئی دعا قبول نہیں ہوگی۔(جامع ترمذی)
سوال: دین میں مرد کے لیے سرکو ڈھانپنا کتنا ضروری ہے ؟
امیر تنظیم اسلامی:اگر کسی مرد نے سر کو ڈھانپا ہوا نہیں ہے تو وہ گنہگار نہیں ہے ،یعنی اس نے دین کے حکم کو توڑا نہیں ہے لیکن جب اپنے اسلاف کے عمل کو دیکھتے ہیںاور سب سےبڑھ کر رسول اللہﷺ کے طرز عمل کو دیکھتے ہیں تو سر کو ڈھانپنا اللہ کے نبیﷺ کا مستقل عمل رہا اور یہ آداب میں سے ہے ۔ آپﷺ نے عمامہ شریف بھی استعمال کیا ہے، ٹوپی کو بھی استعمال کیاہے ۔ صحابہ کرام ؓ کے دور میں بھی یہ مسلمانوں کا مستقل عمل رہا ہے ۔ انگریزوں کی آمد سے پہلے اپنے والد یا استاد کے سامنے یا بڑوں کے سامنے ننگے سر جانا ادب کے خلاف سمجھا جاتا تھا۔ آج اگر کوئی ننگے سر ہے تو ہم اس کو مورد الزام نہیں ٹھہرائیں گے لیکن خاص طور پر وہ لوگ جو دین کے نمائندے ہوں اور جو دین کی دعوت کو پیش کرنے والے ہیں تو انہیں اُمت کے مستقل عمل کو اختیار کرنا چاہیے۔
سوال: اکثر لوگوں کا تقاضا ہوتا ہے کہ ہم ڈاکٹر اسرار احمدؒ صاحب کا دعوتی مواد اپنے یوٹیوب یا کسی میڈیا چینل پر ڈالنا چاہتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کے لیے تنظیم کی جانب سے کیا ہدایات اور شرائط پیش کی جاتی ہیں ؟
امیر تنظیم اسلامی: اللہ تعالیٰ ڈاکٹر اسرار احمدؒ پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے کہ جنہوں نے اُس وقت سکرین پر آنا شروع کیا جب دینی حلقوں میں اس کو معیوب سمجھا جاتا تھا ۔ آج دنیا میں کروڑوں لوگ ڈاکٹر صاحبؒ کی دعوت سے استفادہ کر رہے ہیں ۔صرف یوٹیوب پر 80 ہزار سے زائد لوگ ڈاکٹر صاحبؒ کا مواد استعمال کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے تنظیم اسلامی کے اصول طے شدہ ہیں۔ (1)۔ ڈاکٹر صاحب ؒنے اپنی زندگی میں بھی سکرین پر آنے کا کوئی معاوضہ نہیں لیا اور آج بھی تنظیم اسلامی کی یہی پالیسی ہے کہ کسی بھی دعوتی مواد کو کمائی کا ذریعہ نہیں بنایا جائے گا۔ لہٰذا جو لوگ ڈاکٹر صاحبؒ کا دعوتی مواد اپنے چینلز پر استعمال کر رہے ہیں ان سے ہم یہی مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس کو کمائی کا ذریعہ نہ بنائیں ۔ (2)۔ ڈاکٹر صاحب کے دعوتی مواد میں ردوبدل نہ کریں بلکہ اصل شکل میں پیش کریں ۔ (3)۔ تھمب نیل موضوع کے مطابق اور سچائی پر مبنی ہونا چاہیے ، مبالغہ آمیز نہ ہو ۔ (4)۔ ان شرائط پر جو کوئی عمل کر رہا وہ تنظیم اسلامی سے رابطہ کرلے ، اس کو ڈاکٹر صاحب کا مواد فراہم کر دیا جائے گا۔تاہم ایک شرط یہ بھی ہوگی کہ ان کو مسلسل مانیٹر کیا جائے گا تاکہ معلوم ہوتا رہے کہ جو چیز شیئر ہو رہی ہے وہ بہترانداز سے ہورہی ہے یا نہیں ۔ اس کا فائدہ عوام کو بھی ہوگا اور چینل کے مالک کو بھی ہوگا کہ اس کے چینل سے دعوت کا کام زیادہ بہتر انداز سے ہوگا ۔ یہ کام ڈاکٹر صاحبؒ کے لیےبھی صدقہ جاریہ کا باعثہو گا اور چینل کے مالک کے لیے بھی ۔ ان شاء اللہ
سوال: گزشتہ دو سال سے مجھے ایک مسئلہ کا سامنا ہے کہ بعض اوقات نیند کے دوران محسوس ہوتا ہے کہ جنات اور شیاطین میرے کمرے اور جسم پر ہیں اور میںجسم کو حرکت دینے سے بھی قاصر ہوں ، گویا جسم مفلوج ہوگیا ہو ۔ آیت الکرسی یا قل پڑھنے کے لیے لبوں کو ہلانا بھی مشکل ہو جاتاہے ۔ میڈیکل سائنس اس کیفیت کو دماغ کی خرابی قرار دیتی ہے جبکہ دینی حلقے اسے جنات کا اثر بتاتے ہیں ۔ پوچھنا یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے ، اس حوالے سے اسلام کا موقف کیا ہے۔میں اس کیفیت سے کیسے چھٹکارا پاؤں ؟(خاتون)
امیر تنظیم اسلامی:احادیث کی روشنی میں اگر دیکھا جائے تو بعض مواقع ایسے ہوتے ہیں جہاں شیاطین و جنات انسان پر اثر انداز ہو سکتے ہیں ۔ ان اثرات سے بچنے کے لیے اللہ کے نبی ﷺنے کچھ دعائیں سکھائی ہیں ۔ مثلاً بیت الخلاء میں جنات انسان پر اثر انداز ہو سکتے ہیں لہٰذا اللہ کے نبی ﷺنے بیت الخلاء میں جانے سے پہلے یہ دعا پڑھنا سکھائی :
((اللھم انی اعوذبک من الخبث والخبائث )) اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں ناپاک جنوں اور ناپاک جنیوں سے۔
اسی طرح لباس تبدیل کرنے کے موقع پر بھی دعا پڑھنا سکھائی گئی ۔ زوجین کے مابین جب تعلق قائم ہوتاہے تو اس وقت بھی شیاطین کے حملے کا امکان ہوتا ہے لہٰذا اس سے بچنے کے لیے بھی دعا پڑھنا سکھائی گئی ۔
((بِسْمِ اللّٰهِ اَللّٰهُمَّ جَنِّبْنَا الشَّيْطَانَ، وَجَنِّبِ الشَّيْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا)) ’’اے اللہ! تو ہمیں شیطان سے بچا، اور جو اولاد تو ہم کو دے اس سے (بھی) شیطان کو دور رکھ۔‘‘
اسی طرح جب زوجین کے درمیان تعلق مکمل ہو جاتاہے تو اس کے بعد بھی پڑھنے کے لیے دعا تعلیم فرمائی گئی :
((اَللّٰهُمَّ لَاتَجْعَلْ لِلشَّيْطَانِ فِيْمَا رَزَقْتَنِيْ نَصِيْبًا)) ’’اے اللہ! جو اولاد تو مجھے دے، اس میں شیطان کا کچھ حصہ نہ کر۔‘‘
یہاں رزق سے مراد اولاد ہے ۔ اندازہ کیجئے کہ اولاد کی تخلیق کا عمل بعد میں شروع ہوتا ہے لیکن اس کو شیاطین کے شر سے نجات دلانےکے لیے دعا پہلے مانگی جاتی ہے ۔ یہ بھی اولاد کا حق ہے کہ اس کی پاکیزہ زندگی کے لیے دعا مانگی جائے اور جب اولاد پیدا ہو جائے تو اس کی پرورش پاکیزہ اور حلال مال سے کی جائے اور اس کے کردار و عمل کو پاکیزہ بنانے کے لیے تعلیم و تربیت اللہ کے دین کی تعلیمات کے مطابق کی جائے ۔ہم ان فطری چیزوں کو غیر اہم سمجھتے ہیں اورغیر اہم چیزوں کو بڑے ایشوز بنا لیتے ہیں ۔ جیسا کہ شادی اور منگنی میں فرسودہ اور باطل رسومات پر یا جہیز کی تیاری میں کروڑوں خرچ کر دیتے ہیں ۔ لیکن اگر ہم سنت رسول ﷺ پر عمل کریں تو کئی مسائل سے بچ سکتے ہیں ۔ شیطان اکیلا نہیں ہے بلکہ اس کی پوری جماعت انسانوں کے خلاف متحرک ہے۔ قرآن میںاللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
’’اے بنی آدم! شیطان تمہیں فتنہ میں نہ ڈالنے پائے‘ جیسے کہ تمہارے والدین کو اُس نے جنت سے نکلوادیا تھا (اور) اُ س نے اُتروادیا تھا ان سے ان کا لباس ‘ تا کہ ان پر عیاں کر دے ان کی شرمگاہیں۔ یقیناً وہ اور اس کی ذریت وہاں سے تم پر نظر رکھتے ہیں جہاں سے تم انہیں دیکھ نہیں سکتے۔‘‘(الاعرف:27)
شیطان کو بھی اللہ نے پیدا کیا، اس کی پارٹی کو بھی اللہ نے پیدا کیا ،اللہ کے اذن کے بغیر وہ کچھ نہیں کر سکتے ۔ لہٰذا امتحان یہ ہے کہ ہم اللہ سے مانگیں ۔ اسی طرح اللہ کے رسول ﷺ نے رات کو سونے سے پہلے اذکار اور دعائیں تعلیم فرمائی ہیں۔ ان میں آیت الکرسی بھی شامل ہے ۔ اسی طرح سورۃ البقرہ کی آخری دو آیات کا پڑھنا ، چہار قل کا پڑھنا ، یہ سب سنت سے بھی ثابت ہے اور اس کے فوائد بھی ہیں ۔ اس کے علاوہ رات کو سونے سے قبل سورۃ الملک کی تلاوت کی بھی فضیلت بیان ہوئی ہے ۔ پھر اللہ کے نبیﷺ نے تعلیم فرمائی کہ باوضو رہا کرو ۔ جب بندہ باوضو رہتا ہےتو شیاطین اور جنات کے حملوں سے محفوظ رہنا آسان ہو جاتاہے ۔ اگر رات کو آنکھ کھل جاتی ہے اور خوف کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے تو اس سے نجات کے لیے اللہ کے رسول ﷺنے تعلیم فرمائی کہ تعوذ پڑھ کر دائیں طرف تھوک دے ۔ تین مرتبہ یہ عمل کرے ۔اس طرح کے حالات میں رات کے وقت اپنے کمرے میں سورۃ البقرہ کی آیات کی تلاوت کی تلقین فرمائی گئی ہے ۔ کم ازکم ایک ہفتہ یا تین دن یہ عمل کرنا چاہیے ۔ اسی طرح شیاطین اور جنات کے شر سے بچنے کے لیے ہر نماز کے بعد اذکار تعلیم فرمائے گئے ہیں۔ ان کا اہتمام کرنا چاہیے ۔ ان میں ، سورہ اخلاص ،سورۃ الفلق اور سورۃ الناس بھی شامل ہیں ۔ آج ان سنتوں پر عمل پیرا ہونے کی بجائے لوگ جعلی عاملوں کے پیچھے دوڑتے ہیں اور کالے بکرے اور کالی مرغی کے نام پر کروڑوں خرچ کرتے ہیں حالانکہ اسلام میں ان جاہلانہ تصورات کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ فحش فلمیں ، گانے اور بے حیائی پر مبنی چیزیں دیکھنا اور ناپاکیزہ رہنا بھی ایسے اعمال ہیں جن کی وجہ سے شیاطین انسان پر حاوی ہوتےہیں ۔ ان چیزوں سے پرہیز کرنا چاہیے ۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ کی مدد نجات کے لیے ضروری ہے اور اللہ کی مدد کے لیے کردار اور کمائی کے ساتھ ساتھ نگاہوں اور دل کا پاک ہونا بھی ضروری ہے ۔
سوال:پہلگام واقعہ کے بعد بھارتی میڈیا نے پوری قوم کو جنگی جنون میں مبتلا کر دیا اور پاکستان پر جنگ مسلط کی گئی ۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے ارباب اختیار ، اسٹیبلشمنٹ اور عوام کو کیا کرنا چاہیے ؟
امیر تنظیم اسلامی:اس سارے منظر نامے کے مختلف پہلوؤں کو مدنظر رکھنا ضروری ہے ۔ پہلگام واقعہ سے پہلے دنیا میں غزہ کا مسئلہ سب سے بڑا مسئلہ تھا اور پوری دنیا کی نظریں غزہ پر لگی تھیں ، خاص طور پر امت مسلمہ کی توجہ مسجد اقصیٰ کی جانب تھی ۔ پہلگام میں ایک ڈراما رچا کر دنیا کی نظر غزہ اور مسجد اقصیٰ سے ہٹائی گئیں ۔ دوسرا مقصد پاکستان کا گھیراؤ ہے کیونکہ پاکستان واحد ایٹمی قوت ہے اور اسرائیل اور انڈیا کے مذموم عزائم کے راستے میںبڑی رکاوٹ ہے۔ غزہ کے مسلمان بھی پاکستان سے توقع لگائے بیٹھے ہیں ۔ لہٰذا پاکستان کو امت مسلمہ میں لیڈنگ رول ادا کرنا چاہیے۔ احادیث میں بھی ذکر ہے کہ خراسان سے مسلمانوں کا لشکر امام مہدی کی مدد کے لیے جائے گا اور خراسان میں پاکستان بھی شامل ہے۔ پھر یہاں علماء نے مشترکہ کانفرنس کرکے اسرائیل کے خلاف جہاد کے فتوے بھی دیئے اور حکومت اور مقتدر حلقوں پر دباؤ بڑھانے کی کوشش کی کہ وہ غزہ کے معاملے میں عملی قدم اٹھائیں۔ لیکن ان سب چیزوں سے محروم کرنے کے لیے پاکستان کو اندرونی اور بیرونی طور پر مصروف رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ انڈیا کو موثر جواب دینے کے لیے قومی یکجہتی اور ہم آہنگی ضروری ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اہل غزہ کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے ۔ دشمنوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم نظریاتی اور ملی سطح پر قوم کو متحد کریں ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے تحفظات اور ناراضگیاں دور کریں اور انہیں گلے سے لگائیں ۔ دشمن تو یہی چاہتے ہیں ہم آپس میں لڑپڑیں اور دشمن سے لڑنے کی نوبت ہی نہ آئے ۔ ان حالات میں ہمیں ایک قوم بنانے والی واحد شے کلمہ طیبہ ہے ، اسی کلمہ کی بنیاد پر یہ ملک حاصل کیا گیا تھا اور اسی کلمہ کی بنیاد پر ہم دوبارہ ایک منظم اور متحد قوم بن سکتے ہیں ۔ بشرطیکہ ہم نسلی ، لسانی اور صوبائی تعصبات کو ہوا دینے کی بجائے کلمہ طیبہ کے نفاذ کی جدوجہد کریں ۔ سودی نظام کا خاتمہ کریں۔ امریکہ اور دیگر بیرونی قوتوں کے اشاروں پر چلتے ہوئے اپنے ہی لوگوں کو دشمن بنانے کا سلسلہ بند کریں ۔ اپنی ان غلطیوں کا ازالہ تب ہی ممکن ہو گا کہ جب ہم سچی توبہ کرکے اس مقصد کے لیے کھڑے ہو جائیں جس کے لیے یہ ملک بنایا گیا تھا ۔ بقول شاعر
یہ ایک سجدہ جسے توگراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات