اذکار مسنونہ کی اہمیت
مرکزی شعبہ تعلیم و تربیت تنظیم اسلامی
نقوش بندگی کہیں پھیکے نہ پڑ جائیں اور عہد بندگی کہیں نسیان کا شکار نہ ہو جائے، رب العزت نے اس کا سدباب کرنے کے لیے جہاں پنج وقتہ نماز فرض کی اور تہجد کی ترغیب دلائی ہے، وہیں زبان کو مسلسل ذکر سے تر رکھنے کی ترغیب بھی دلائی ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے اس مقصد کے لیے ہر موقع پر، ہر کام سے پہلے پڑھنے کے لیے کوئی نہ کوئی دعا ضرور سکھائی ہے۔ ہر نماز کے بعد اور صبح و شام پڑھنے کے لیے کچھ اذکار بھی تلقین کیے ہیں، کیونکہ نفس کا تزکیہ کرنے، ایمان اور یقین کو مضبوط اور فعال بنانے میں یہ اذکار بھی بہت مؤثر ہیں۔
قرآن مجید نے جس طرح اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کی یہ صفت بتائی ہےکہ وہ میٹھی نیند کے مزے چھوڑ کر رات کی کتنی ہی گھڑیاں رکوع وسجود میں گزار دیتے ہیں،اسی طرح ان کا ایک وصف یہ بھی بتایا ہے کہ وہ بالعموم ہر حال میں، کھڑے، بیٹھے اور لیٹے، اللہ رب العزت کا ذکر کرتے ہیں اور اس سے التجائیں کرتے رہتے ہیں:
{الَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللہَ قِیٰمًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِہِمْ}(آل عمران:191) ’’جو اللہ کا ذکر کرتے رہتے ہیں‘ کھڑے بھی‘ بیٹھے بھی اور اپنے پہلوئوں پر بھی۔‘‘
{یَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًاز}(السجدہ:16)
’’وہ اپنے رب کو پکارتے رہتے ہیں خوف اور امید کی کیفیت میں۔‘‘
یعنی وہ اللہ کی رحمتوں کی طمع اور محاسبۂ اعمال کے خوف سے لرزتے ہوئے اسے پکارتے رہتے ہیں کھڑے، بیٹھے اور لیٹے ہوئے۔
{وَبِالْاَسْحَارِ ہُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ18}( الذاریات) ’’اور سحری کے اوقات میں وہ استغفار کرتے تھے۔‘‘
رات اگر نماز پڑھنے میں گزرتی ہے تو فجر سے پہلے وہ توبہ و استغفار کر رہے ہوتے ہیں۔
قرآن مجید نے جس بات کا ان الفاظ میں اجمالی تذکرہ کیا ہے، اس کی تفصیلات ہمیں احادیث میں ملتی ہیں اور عملی طور پر نبی اکرم ﷺاور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی مثالی زندگیاں ذکر سے مزین نظر آتی ہیں۔ انہی اذکار کی ایک قسم وہ بھی ہے جو روزانہ صبح و شام اور ہر کام سے پہلے مسنون دعاؤں کی صورت میں ہمارے سامنے آتی ہیں۔ ان مسنون اذکار اور ادعیۂ مأثُورہ کو زبانی یاد کر کے، حسبِ توفیق وقت نکال کر ان کا ورد کرتے رہنا، ایمان کی تازگی برقرار رکھنے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔
نبی اکرم ﷺسب سے زیادہ روشن قلب کے مالک ہیں، مگر آپ ﷺخود اپنا حال اس طرح بیان فرماتے ہیں:
’’میرے دل پر بھی کبھی کبھی کچھ حجاب سا ہو جاتا ہے اور میں دن بھر میں سو بار اللہ سے استغفار کرتا ہوں۔‘‘(مسلم)
البتہ یہاں یاد رکھنا چاہیے کہ آپﷺ نے اپنے دل کی جس کیفیت کو ’’حجاب‘‘ سے تعبیر کیا ہے، وہ مقامِ نبوت کے لحاظ سے ہے، عام انسانی مقام کے لحاظ سے نہیں۔
پھر ہمارے دلوں کا کیا حال رہتا ہوگا! کاش ہم اس سے بے خبر نہ ہوتے۔
ان اذکار کا اپنی روح کے اعتبار سے نماز کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے، اور یہ نماز سے کوئی الگ اور بے تعلق چیز نہیں ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ نماز اللہ کے ذکر کی مکمل ترین، جامع ترین اور مؤثر ترین شکل ہے، جبکہ دوسرے اذکار میں یہ تکمیلی شان نہیں ہے۔
نماز کا مقصود یہ ہے کہ انسان کے احساسِ بندگی پر غفلت کے پردے نہ پڑ جائیں اور وہ ہر وقت اللہ کو یاد رکھے۔ اس مقصد کی خاطر اسے یہ حکم دیا گیا ہے کہ تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد کاروبارِ دنیا سے کٹ کرمسجد میں آئے اور اللہ کے ذکر میں مشغول ہو تاکہ بار بار اسے یہ یاد دہانی ہوتی رہے کہ وہ اللہ کا بندہ ہے اور اسے شریعت کے تمام احکامات پر عمل کرنا ہے۔
اب اگر اس کے ساتھ یہ تلقین بھی کی گئی کہ ہر فرض نماز کے بعد اتنے نوافل ادا کرو، مسجد میں داخل ہوتے وقت رحمت کی دعا اور مسجد سے باہر نکلتے وقت توبہ کی دعا مانگو، ہر بھلائی پر کلمہ شکر اور ہر مصیبت پر کلمۂ صبر پڑھو، پانی پینے کے بعد، کھانے سے پہلے، کھانے کے بعد، چھینک آنے پر، سوتے وقت، بیدار ہونے پر، حتیٰ کہ بیت الخلاء میں داخل ہوتے اور نکلتے وقت بھی اللہ کا نام لو، اور زندگی کے مختلف مواقع پر جو مختلف دعائیں اور تسبیحات پڑھنے کی ہدایت کی گئی ہے، تو اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ فرض نماز کے پیدا کردہ یادِ خدا کا سلسلہ درمیانی اوقات میں بھی تازہ رہے، ایسا نہ ہو کہ دنیاوی مصروفیات میں وہ ماند پڑ کر رہ جائے۔
اس غیر معمولی اہتمام کے بعد بھی اگر غفلت اپنا کام کر جاتی ہے تو اس کا خصوصی علاج یہ ہے کہ رات کے آخری پہر کی بے تاب التجائیں اور ندامت کے گرم آنسو بہائے جائیں۔ یہ اکسیری نسخہ کبھی ناکام نہیں ہوتا، کیونکہ ایک تو یہ وقت ہی انتہائی پُرسکون اور اثر انگیز ہوتا ہے اور اس وقت دل کی بیداری کی لہریں بھی خود بخود اُبھر آتی ہیں۔ بقول نبی اکرم ﷺ:
((إِنَّ صَلَاةَ آخِرِ اللَّيْلِ مَشْهُودَةٌ)) (مسلم)
’’بے شک رات کے آخری حصّے کی نماز میں دل زیادہ حاضر رہتا ہے۔‘‘
دوسرے، اس وقت رحمت ِالٰہی بھی بندوں کی طرف خاص طور پر متوجہ رہتی ہے اور اپنی مغفرت کے تحفے بخشنے کے لیے خود گناہ گاروں کو پکار رہی ہوتی ہے۔ مشہور حدیث ہے کہ جب دو تہائی رات گزر چکی ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ دنیا کے آسمان پر نزول فرماتے ہیں اور پکار لگاتے ہیں:
’’ہے کوئی جو مجھ سے دعا مانگے تو میں اس کی دعا قبول کروں ؟
کون ہے جو مجھ سے مانگے، تو میں اسے عطا کروں؟
کون ہے جو مجھ سے مغفرت طلب کرے، تو میں اسے بخش دوں؟‘‘ (بخاری و مسلم)
یہاں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ ہمیں صرف نماز اور مسنون اذکار پر ہی اکتفا کرنا چاہیے اور غیر مسنون اذکار و اشتغال سے پرہیز کرنا چاہیے۔ ہماری رہنمائی کے لیے صرف حضور اکرم ﷺکی تعلیمات ہی کافی ہیں۔
اللہ تعالیٰ دین پر عمل کرنے میں ہماری مدد فرمائے۔ آمین!