(جہاد فی سبیل اللہ) میدانِ جنگ سے فرار ہونے پر اللہ کا غضب - محمد نعیم یونس

11 /

میدانِ جنگ سے فرار ہونے پر اللہ کا غضب

محمد نعیم یونس

اللہ تبارک و تعالیٰ قرآن حکیم میں ارشاد فرماتے ہیں:
{یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا لَقِیْتُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا زَحْفًا فَلَا تُوَلُّوْہُمُ الْاَدْبَارَ(15) وَمَنْ یُّوَلِّہِمْ یَوْمَئِذٍ دُبُرَہٗٓ اِلَّا مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ اَوْ مُتَحَیِّزًا اِلٰی فِئَۃٍ فَقَدْ بَآئَ بِغَضَبٍ مِّنَ اللہِ وَمَاْوٰىہُ جَہَنَّمُ ط وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ (16)}(الانفال)
 ’’اے اہل ِایمان ‘جب تمہارا مقابلہ ہوجائے کافروں سے میدانِ جنگ میں‘تو تم اُن سے پیٹھ مت پھیرنا۔اور جو کوئی بھی اُن سے اُس دن اپنی پیٹھ پھیرے گا‘سوائے اس کے کہ وہ کوئی دائو لگا رہا ہو جنگ کے لیے ‘یا کسی (دوسری ) جمعیت سے ملنا ہو‘تووہ اللہ کا غضب لے کر لوٹا اور اُس کا ٹھکانہ جہنّم ہے ‘اور وہ بہت ہی بُرا ٹھکانہ ہے۔‘‘
یہاں اس آیت کریمہ میں مذکور لفظ ’’زَحْفًا‘‘ کا معنی ہے: کافروں سے جنگ اور دشمن کی طرف پیش قدمی کرنا اور’’اَلتّوَلِّي‘‘ کا مطلب ہے: کسی چیز سے پھر جانا۔ یعنی پیٹھ موڑ کر مڑنا اور یہاں اس کا معنی ہے: جہاد و قتال فی سبیل اللہ سے فرار اختیار کرنا۔
ابن عطیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: ادبار، دُبر کی جمع ہے اور اس آیت کریمہ میں ’’دبر‘‘ سے مراد اس فعل شنیع کی فصاحت کو بیان کرنا ہے۔ اس لیے کہ یہ کام ایک بڑے جرم کی مذمت کو بیان کر رہا ہے۔دشمن کی طرف پیش قدمی کے دن راہِ فرار اختیار کرنا کیا ہے؟ (تفسیر ابن کثیر، جلد2،ص329)
دشمن کی طرف پیش قدمی اور حملے والے دن پیٹھ دکھا کر راہِ فرار اختیار کرنے والا وہ شخص ہوتا ہے جو کافر سپاہ کا سامنا کرنے سے گھبرا کر میدان قتال سے بھاگ اُٹھے۔  اس معاملے میں سب سے بڑا جرم اس شخص کا ہوگا جو کافروں کو مسلمانوں کے اموال و اسلحہ اور ان کی عورتوں اور بچوں کے بارے میں خبر دے اور اسے معلوم ہو کہ وہ عورتوں اور بچوں کو قتل کردیں گے یا انہیں قیدی بنالیں گے۔
اللہ عزوجل نے مسلمانوں کو دشمن سے آمنا سامنا کے دن اور معرکہ والے دن میدانِ قتال سے کافروں کے سامنے سے فرار ہونے سے منع فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جب جہاد فی سبیل اللہ اور کافروں سے قتال کو فرض کیا تو اہل ایمان مجاہدین اور مسلم سپاہ پر اس جرم شنیع کو حرام قرار دیا۔ یعنی جب تم کافر دشمنوں کے قریب ہوجاؤ تو پھر انہیں اپنی پشتیں نہ دکھاؤ اور نہ ہی اپنے مسلمان ساتھیوں کو چھوڑ کر ان سے فرار ہوجاؤ۔ جو کوئی شخص ایسا کرے گا وہ اللہ کا غضب لے کر پلٹے گا اور قیامت والے دن اس کا ٹھکانہ جہنم ہوگا، جو کہ سب سے برا ٹھکانا ہے۔ الا یہ کہ بندہ خلوص دل سے معافی مانگ لے اور اللہ عزوجل اپنی عفو و درگزر کے ساتھ اس پر اپنا فضل کردے۔
رسول اللہﷺ فرماتے ہیں:
((مَنْ قَالَ أَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ الَّذِيْ لَا إِلٰہَ إِلَّا ھُوَ الْحَيُّ الْقَیُّوْمُ وَأَتُوْبُ إِلَیْہِ، غُفِرَ لَہُ وَإِنْ کَانَ فَرَّ مِنَ الزَّحْفِ۔))(ابودائود)
’’جس شخص نے (اپنے گناہوں سے معافی مانگتے ہوئے خلوص دل سے) یہ کہا: میں اُس اللہ کریم سے مغفرت طلب کرتا ہوں کہ جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ وہ ازل سے تاابد زندہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے قائم ہے اور میں اُسی رب کریم کی طرف رجوع کرتا ہوں۔ تو اسے معاف کردیا جائے گا، اگرچہ اُس نے دشمن پر حملہ والے دن راہِ فرار کیوں نہ اختیار کی ہو۔‘‘
اللہ عزوجل نے اس ضمن میں ایک حالت کو مستثنیٰ قرار دیا ہے اور وہ اس طرح کہ دشمن کو دھوکہ دینے کی خاطر یا جنگی چال اختیار کرنے کے لیے مسلمان سپاہی پیچھے کی جانب دوڑنے والی کیفیت پیدا کرے۔ تاکہ وہ دشمن پر بھرپور طریقے سے حملہ کرسکے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: 
{ وَمَنْ یُّوَلِّہِمْ یَوْمَئِذٍ دُبُرَہٗٓ اِلَّا مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ اَوْ مُتَحَیِّزًا اِلٰی فِئَۃٍ...}مگر جو کوئی کترا کر ایک طرف چلے لڑنے کے لیے یا مسلمانوں کی دوسری جماعت (یونٹ،کمپنی یا بریگیڈ، کور وغیرہ) میں شامل ہونے کے لیے۔(تو اس کے لیے ایسا کرنا جائز ہے)یا مسلمانوں کی دوسری فوج، جماعت یا گروہ سے مدد طلب کرنے کے لیے پیچھے ہٹتا ہے تاکہ وہ اس کے ساتھی مجاہدین کی آکر مدد کریں تو یہ بھی درست ہے۔
اگر ان اسباب کے علاوہ کسی بھی وجہ سے معرکہ والے دن میدان قتال سے فرار اختیار کرے گا تو وہ ان سات ہلاک کرنے والے بڑے جرائم میں سے ایک جرم کا ارتکاب کرے گا جن کے بارے میں سیّدنا ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے:
’’سات ہلاک کردینے والی چیزوں (کبیرہ گناہوں) سے بچو۔ صحابہ کرامj نے دریافت کیا: اے اللہ کے رسول! یہ سات ہلاک کرنے والی چیزیں کیا ہیں؟ فرمایا: (۱)... اللہ کے ساتھ شرک کرنا۔ (۲)... جادو۔ (۳)... حق شرعی کے سوا کسی بھی جان کو قتل کرنا کہ جس کا قتل اللہ تعالیٰ نے حرام کر رکھا ہے۔ (۴)... سود کھانا۔ (۵)... ناحق یتیم کا مال کھاجانا۔ (۶)... معرکہ والے دن پیٹھ پھیر کر بھاگ جانا (۷)... غفلت کا شکار (سادہ طبیعت والی) بیاہی ہوئی مومن عورتوں پر زنا کی تہمت لگانا۔‘‘(بخاری)
میدانِ قتال سے فرار ایک کبیرہ گناہ اور جرم ہے۔ اس سے دوسرے سپاہیوں اور لڑنے والوں کے حوصلے پست ہوتے ہیں اور نتیجتاً جنگ میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
جہاں اللہ تبارک و تعالیٰ نے معرکہ اور قتال والے دن میدان جنگ سے پیٹھ دکھا کر راہِ فرار اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے وہاں اُس نے کافروں سے لڑائی کے وقت ثابت قدمی اور صبر و استقامت اختیار کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔ نہی اور امر دونوں کو برابر بیان کرکے دشمن کے مقابلے میں اہل ایمان مجاہدین کو ڈٹ جانے کی تاکید فرما دی اور پھر اس کے ساتھ ساتھ اللہ کریم نے اپنے مومن مجاہدین کو اپنے کافر دشمنوں پر نصرت اور فتح حاصل کرنے کے لیے انہیں اللہ تعالیٰ کا بہت زیادہ ذکر کرتے رہنے اور اُس سے نصرت و فتح کی بکثرت دعا مانگتے رہنے کا بھی حکم فرمایا ہے۔ تاکہ وہ اثبات و دعا کے ساتھ اپنے دشمنوں پر فتح یاب ہوسکیں اور اللہ رب العالمین ان کی مدد فرمادے۔
چنانچہ اللہ عزوجل فرماتے ہیں:{یٰٓـاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا لَقِیْتُمْ فِئَۃً فَاثْبُتُوْاوَاذْکُرُوا اللہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ(25)} (الانفال) ’’ اے اہل ِایمان! جب بھی تمہارا مقابلہ ہو کسی گروہ سے تو ثابت قدم رہو‘اور اللہ کا ذکر کرتے رہوکثرت کے ساتھ تاکہ تم فلاح پائو۔‘‘
اس آیت کریمہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے اپنے مومن بندوں کو دشمن سے آمنے سامنے کے وقت کی تعلیم اور دشمن سے مڈ بھیڑ کے وقت شجاعت اور دلیری کے لیے راہنمائی ہے۔
سیّدنا عبد اللہ بن ابی اوفی ؓ بیان کرتے ہیں کہ: رسول اللہ ﷺ لوگوں کے درمیان خطاب کرنے کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا:
’’لوگو! دشمن سے مڈبھیڑ کی خواہش نہ کیا کرو۔ بلکہ اللہ تعالیٰ سے عاقبت کا سوال کیا کرو اور جب تمہارا اُن سے آمنا سامنا ہوجائے تو پھر صبر سے کام لیا کرو۔ جان لو کہ جنت (کا حصول) تلواروں کے سائے تلے ہے۔‘‘(بخاری)
پھر نبی مکرمﷺ اللہ تبارک و تعالیٰ سے عرض گزار ہوئے:’’اے کتاب عظیم کو اتارنے والے اللہ! بادلوں کو چلانے والے خالق کائنات! فوجوں کو شکست سے دو چار کرنے والے اللہ! ان کو شکست سے دو چار کر اور ہمیں ان پر فتح عطا فرما۔‘‘
مومن آدمی پر اللہ رب العالمین کی اطاعت و فرمانبرداری، دشمنوں سے لڑائی اور ان سے جنگ کے وقت صبر و استقامت واجب ہے۔ پس نہ ہی تو مسلمان مجاہد   راہِ فرار اختیار کرے اور نہ ہی بزدلی، کمزوری سے کام لے۔
ـہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان ، نئی آن
گفتار میں، کردار میں، اللہ کی برہان
قہاری و غفاری، قدوسی و جبروت
مسلمان آدمی پر یہ بھی واجب ہے کہ وہ حالت جنگ میں اللہ کے ذکر کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھے، اس سے یہ کبھی غافل نہ ہو۔ بلکہ اس کے ذریعے اللہ کی مدد طلب کرے اور رب کریم پر توکل کرے۔ اپنے دشمنوں پر اللہ عزوجل سے اس کے ذکر (نماز، روزے، قرآن کی تلاوت اور صبح و شام کے اذکار) کے ذریعے مدد طلب کرے۔ اپنے اور اہل ایمان مجاہدین کے ذریعے کسی تنازعہ کو کھڑا نہ کرے کہ اس سے کہیں ان میں پھوٹ نہ پڑجائے اور اس حالت میں کہیں ان کی اجتماعی قوت، جرأت و شجاعت اور کافروں پر اُن کا رعب ختم نہ ہوجائے۔ جیسا کہ اللہ عزوجل کا ارشاد گرامی ہے:
’’اور حکم مانو اللہ کااور اُس کے رسول(ﷺ) کا‘اور آپس میں جھگڑا نہ کرو ورنہ تم ڈھیلے پڑ جائو گے اور تمہاری ہوا اُکھڑ جائے گی ‘ اور ثابت قدم رہو۔ یقیناً اللہ ثابت قدم رہنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘(الانفال:46)
صحابہ کرامjکا غزوات میں شجاعت و بہادری،  اللہ عزوجل اور اس کے حبیب و خلیل نبی محمد رسول اللہﷺ  کے احکام و اوامر کی تعمیل اور جس عظیم تر ہدف و مقصد کی طرف نبی معظمﷺ نے ان کی راہنمائی کی تھی اسے بجالانے میں جو کردار و عمل تھا وہ سابقہ امتوں میں سے کسی کے اندر بھی کسی بھی زمانے میں دکھائی نہیں دیتا اور نہ ہی ان کے بعد کسی اور کا نصیب ہوسکتا ہے۔ اس لیے کہ بلاشبہ ان لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ اطہر اور آپ کی اطاعت کی برکت سے دلوں کو بھی فتح کیا اور ایک نہایت مختصر عرصہ میں مشرق و مغرب کے تمام ملکوں کو بھی فتح کرلیا تھا۔ حالانکہ دنیا کی تمام اقالیم کے لشکروں کی نسبت ان کی تعداد بہت ہی کم تھی۔ ان اللہ کے مومن، متقی اور مجاہد بندوں نے تمام اعداء اللہ پر غلبہ حاصل کرکے اللہ کے کلمہ کو بلند کردیا اور یوں اللہ تبارک و تعالیٰ کا دین دنیا جہان کے سارے ادیان پر غالب آگیا۔ تیس سالوں کی قلیل مدت میں اسلامی سلطنت کی سرحدیں زمین کے مشارق و مغارب تک پھیل گئیں۔ یوں اللہ عزوجل ان سے راضی ہوگیا اور وہ اپنے رب سے راضی ہوگئے۔ رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ۔