(اداریہ) ایک بڑی جنگ؟؟؟ - رضا ء الحق

11 /

اداریہ


رضاء الحق


ایک بڑی جنگ؟؟؟


امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ دورہ مشرق وسطیٰ کے دوران عرب ممالک نے ایک دوسرے سے بڑھ کر ’’آقا‘‘ کی آمد پر ان کے استقبال کے نام پر گُل کھلائے۔ دینی احکامات کی دھجیاں اڑانا تو ایک طرف، عرب معاشرے اور اس کی ثقافت کو بھی پاؤں تلے روند ڈالا گیا۔ ایک ملک کے سربراہ نے قطار در قطار نوجوان عورتوں کو ٹرمپ اینڈ کمپنی کے سامنے نچوایا جیسے کبھی فراعنہ اور نماردہ کے درباروں میں لونڈیاں اپنے آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے شرم و حیا کی ہر حد پار کر دیا کرتی تھیں۔ دوسرے اہم ترین مسلم ملک کے ولی عہد (اور وزیراعظم) کی موجودگی میں اُن کی ٹیم میں شامل عورتوں (جو عددی لحاظ سے مردوں پر سبقت لینے کے قریب ہیں) نے شرم و حیا کے تمام لبادوں کواتار پھینکا اور اسلامی اقدار و تعلیمات کو یکسر فراموش کرتے ہوئے ٹرمپ جیسے بدمعاش و بدکردار شخص سے ہاتھ ملاتی رہیں۔ وہ تلواریں جو غزہ کے مسلمانوں پر ڈیڑھ سال سے جاری مسلسل وحشیانہ اسرائیلی بمباری کے خلاف نہ اُٹھ سکیں، امریکی صدر کو اِنہی تلواروں کے سائے تلےخوش آمدید کہا گیا۔ اس موقع پر ہر عرب ملک کے سربراہ کا چہرہ خوشی سے دمک رہا تھا۔ بدقسمتی سے یہ وہی چہرے ہیں جو فلسطین کے مسلمانوں پر 77 سال سے جاری بدترین صہیونی مظالم اور مسجدِ اقصیٰ کی صہیونیوں کے ہاتھوں پامال ہونے پر متغیر تک نہ ہوئے۔
بہرکیف ان واقعات نے ہمیں حیران تو ہرگز نہیں کیا، کیونکہ عربوں میں ’’وہن‘‘ کی بیماری (حب الدنیا و کراہیت الموت) پیدا ہو جانے کی پیش گوئی تو احادیث مبارکہ میں موجود ہے اور یہ بھی مذکور ہے کہ وہ بدترین ذلت و رسوائی کا شکار ہوں گے گویا سمندر کی سطح پر تیرتے ہوئے خس و خاشاک کی مانند۔ پھر ’’ویل للعرب‘‘ کے نبوی ؐ کلام نے تقریباََ 14 صدیاں قبل اُن کی تباہی کی واضح نشاندہی کر دی تھی۔ اسی طرح معروف حدیثِ جبریلؑ میں بھی دنیا داری اور مادہ پرستی کا تذکرہ پانچویں اور آخری سوال کے جواب کے ایک حصّہ میں موجود ہے۔ ہمارےبعض اہلِ دانش کی رائے ہے کہ یہ تو ان کی صلاحیت کی طرف نشاندہی ہے کیونکہ اونچی اونچی عمارتیں بنانا ہر کسی کا کام نہیں۔ ایسے دانشوروں سے بصدِ احترام گزارش ہے کہ اپنے حجروں، خانقاہوں اور مدارس سے نکلیے اور خود دنیا کے حالات کا جائزہ لیجئے۔ پھر یہ کہ ایسی عمارتیں بنانے میں سرمایہ کاری تو عربوں کی ہی تھی کیونکہ سیاہ سونا یعنی خام تیل دریافت ہوا تو وہ بیٹھے بٹھائے کھربوں پتی بن گئے اور سرمایہ کاری کے نام پر پانی کی طرح پیسہ بہایا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اونچی سے اونچی عمارتیں کھڑی کرنے کا مقابلہ تو ان کے مابین تھا لیکن نقشے برطانیہ سے آتے تھے، تو سنگ مرمر فرانس، اٹلی اور مصر سے درآمد کیا جاتا تھا۔ ان جیسے دیگر کئی منصوبوں کے ٹھیکے امریکی کمپنیوں کو دئیے گئے۔ مزدوری کا قرعہ بیچارے پاکستانی، بنگلہ دیشی اور بھارتی مزدوروں کے نام نکلا۔ دن بھر کی ’’مشقت‘‘ سے تھکے ٹوٹے عربوں کی خدمت کی سعادت مشرق بعید سے ہجرت کرنے والیوں کو حاصل ہوئی۔ بہرحال یہ موضوع اپنا انتہائی اہم محل و مقام رکھتا ہے جس پر کسی اور موقع پر کلام ہو گا۔
ٹرمپ کی کابینہ کے 70 فیصد سے زائد افراد چونکہ بذاتِ خود کاروباری شخصیات ہیں، اس لیے وہ ہر معاملے کو کاروباری نگاہ سے ہی دیکھتے ہیں۔ مگر اسرائیل اور بھارت سے متعلق معاملات کرتے ہوئے وہ کاروباری اصول و ضوابط اور تقاضوں کو فراموش کر دیتے ہیں۔ اسرائیل تو وہ مقدس گائے ہے جس کے سامنے
ٹرمپ ہو یا عرب حکمران سب ہی سجدہ ریز نظر آتے ہیں۔ بہرحال جیسا کہ عرض کیا کہ ٹرمپ کے حالیہ دورۂ مشرق وسطیٰ میں پیش آنے والے واقعات اور عربوں کے رویہ پر ہمیں حیرت تو ہرگز نہ ہوئی مگر پریشانی شدت اختیار کر گئی۔ صدر ڈونلڈٹرمپ کا دورہ مشرق وسطیٰ بلاشبہ تاریخی اہمیت کا حامل تھا اور بظاہر یہ ’’میگاڈیلز‘‘ کا دورہ نظر آتا ہے۔ واشنگٹن پہنچنے پر اس دورہ پر امریکی صدر نے اپنے میزبانوں پر جو مبینہ تنقید کی وہ بھی سوشل میڈیا پر موجود ہے۔ (اگرچہ مصنوعی ذہانت کے اس دور میں اصل اور نقل میں فرق کرنا مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔) سُپرپاور امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ جدہ ایئر پورٹ پر جہاز سے اتر کر اپنی ٹائی سے ملتے جُلتے جامنی کارپٹ پر چل رہے تھے تو دنیا بھر میں یہ مناظر ٹی وی چینلز پر براہِ راست نشر ہو رہے تھے۔ اس سے پہلے ایئرفورس ون جب ریاض کے قریب پہنچا تو 6 سعودی پائلٹس نے امریکی ساختہ ایف 15 طیاروں کے ذریعے اُنہیں پروٹوکول دیا۔ ٹرمپ کی لیموزین کو سفید عربی گھوڑوں کے ساتھ روانہ کیا گیا۔ شاہی ٹرمینل میں قہوہ کی روایتی تقریب ہوئی جہاں انہیں صدیوں پرانی روایت کے مطابق سعودی ولی عہد کے ساتھ بٹھایا گیا۔ دنیا بھر کا میڈیا اُس وقت حیران ہو گیا جب صدر ٹرمپ نے قہوہ نہایت چالاکی سے سعودی ولی عہد کے پیچھے ایک ٹیبل پر رکھ دیا اور محو گفتگو ہو گئے۔ جو اس بات کا اشارہ تھا کہ تجارت ، دوستی اور تعلقات اپنی جگہ، لیکن سُپر پاور کا صدر کسی پر اعتبار نہیں کرتا اور اپنی شرائط پر کام کرتا ہے۔ صدر ٹرمپ کا یہ طوفانی دورہ اپنے اندر مستقبل کا جغرافیائی، سیاسی اور معاشی منظر نامہ سموئے ہوئے تھا۔ عرب دنیا کی مہمان نوازی پر اظہار تشکر کے ساتھ ساتھ انہوں نے مشرق وسطیٰ کا سیاسی منظر نامہ اور مستقبل تبدیل کرنے والے کئی اعلانات بھی کر ڈالے۔
پورے دورے میں چار نکات بہت واضح نظر آئے۔پہلا اسرائیل کو تسلیم کرانے کے لئے دباؤ با الفاظ دیگر غزہ اور فلسطین کو بھول جاؤ، دوسرا ایران کو جوہری ہتھیاروں کے حصول سے روکنا اور تیسرا شام سے پابندیوں کا خاتمہ اور چوتھا اربوں ڈالر کے کاروباری معاہدے، سرمایہ کاری اور تجارت۔چونکہ وہ اپنے منہ آپ میاںمٹھو بننے کا بھی کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے، اسی لئے جگہ جگہ پاکستان اور بھارت کے درمیان سیزفائر کا کریڈٹ لیتے رہے۔ سعودی عرب کی سرزمین پر کھڑے ہو کر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف بھی کیا، جو نئے فیلڈ مارشل اور دوسری مرتبہ ملازمت میں توسیع حاصل کرنے والے، دونوں کے لیے یقیناً سرشاری کا باعث ہوگا اور حکومتِ پاکستان نے بھی سُکھ کا سانس لیا ہوگا۔اس سب کے باوجود غزہ میں جاری مسلسل اسرائیلی بمباری اور فلسطینیوں کی نسل کشی پر ایک لفظ بھی ٹرمپ کی زبان پر نہ آسکا بلکہ کمال ہوشیاری سے بحث کا رُخ بحالی امن اور یرغمالیوں کی رہائی کی طرف موڑ دیا۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے شام کے عبوری صدر احمد الشرح سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا جو اُنہوں نے بخوشی تسلیم کر لیا۔ سعودی عرب کو بھی ابراہام اکارڈز کا حصہ بننے پر زور دیا البتہ سعودی عرب جو 7 اکتوبر 2023ء سے قبل اس پر تیار تھا اب ذرا توقف سے کام لے رہا ہے۔ قطر کی جانب سے امریکا کو ایک پرتعیش طیارہ بطور تحفہ بھی دیا گیا، جو مبینہ طور پر صدر ٹرمپ کے استعمال کے لیے ہوگا۔ ایک فورم میں سعودی ولی عہد نے کہا کہ مملکت 600 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کے مواقع پر غور کر رہی ہے اور امید ہے کہ یہ بڑھ کر ایک ہزار ارب ڈالر تک پہنچ جائے گی۔ وائٹ ہاؤس کے مطابق 600 ارب ڈالر سے زیادہ کے اس پیکج میں ’تاریخ کا سب سے بڑا ہتھیاروں کا سودا‘ بھی شامل ہے۔ یہ سودا تقریباً 142 ارب ڈالر کے ہتھیاروں کی فروخت ہے۔ امریکا نے اسے ’تاریخ کا سب سے بڑا دفاعی معاہدہ‘ قرار دیا ہے جو پانچ اہم نکات پر مشتمل ہے: سعودی عرب کی فضائی اور خلائی صلاحیتوں کو مضبوط کرنا، میزائل دفاعی نظام، میری ٹائم اور کوسٹل سکیورٹی، زمینی اور سرحدی افواج کی جدید کاری، معلومات و مواصلاتی نظام کی بہتری،دفاع، توانائی، انفرااسٹرکچر اور مصنوعی ذہانت جیسے شعبوں میں تعاون۔ سعودی عرب امریکا میں ڈیٹا سینٹرز، ایوی ایشن، صحت اور معدنیات میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔ گویا اپنے شہریوں کا تمام ڈیٹا امریکہ کے حوالے کر دے گا۔ امریکہ یہ ڈیٹا کیسے استعمال کرے گا سب جانتے ہیں لیکن سعودی عرب امریکی ہتھیار کس کے خلاف استعمال کرے گا ،ہمارے لیے بھی معمہ ہے۔
قطر کے ساتھ ٹرمپ نے تجارتی اور دفاعی تعاون کے معاہدوں پر دستخط کیے ہیں جن میں امریکی کمپنی کے 200 ارب ڈالر مالیت کے 160 طیاروں اور امریکی ایم کیو بی 9ڈرون طیاروں کی فروخت شامل ہے۔پھر متحدہ عرب امارات کا دورہ کیا جس کا ہم ابتدا میں ذکر کر چکے ہیں۔ تمام معاشی مبصرین شام سے پابندیاں ہٹانے کو تجارت و بزنس کی نظر سے ہی دیکھتے ہیں، یعنی صدر ٹرمپ اپنے مشرق وسطیٰ کے دوستوں کو ایسا جیوپولیٹیکل فائدہ دینا چاہتے ہیں جو مستقبل میں اُن کے فیصلوں پر نظر انداز ہوسکے۔ صدر ٹرمپ کو ایک فائدہ یہ بھی ہوا ہے کہ غزہ کو نظر انداز کر کے ان کے اس معاشی پیکج پر گفتگو شروع ہوگئی ہے۔ ہمارے نزدیک موجودہ حالات میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا دورہ مشرق وسطیٰ ایک دوسرے حوالے سے بھی غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ امریکی صدر نے ابوظہبی کے سعدیات جزیرے پر واقع ابراہیمک فیملی ہاؤس کا دورہ بھی کیا جہاں مسلمان، مسیحیوں اور یہودیوں کے لیے عبادت گاہیں ہیں۔
درحقیقت ٹرمپ کے دورے کا مقصد ابراہام اکارڈزدوم کے افتتاح کی حیثیت رکھتا ہے اور بظاہر عرب ممالک اس دام میں پھنس کر اسرائیل کو تسلیم کر لیں گے اور غزہ کو بھول جائیں گے۔ پھر جو ملک یا گروہ اسرائیل کے خلاف جائے گا اُسے دہشت گرد قرار دے کر سب اکٹھے ہو جائیں گے اور اسرائیل کی حفاظت میں تن من دھن لگا دیں گے۔ گویا عملی طور پر ’صہیونیوں کی عالمی غلامی‘ کو نافذ کرنا ٹرمپ کا اصل مقصد تھا۔ پاکستان کو وہ پہلے ہی بھارت کے خطرہ میں مصروف کر چکا ہے۔ قصّہ کوتاہ اِس وقت دنیا کو 3 انتہائی صاف دکھائی دینے والے معاملات نے گھیر رکھا ہے۔ 1۔ ملکی اور عالمی سطح پر انتہائی دائیں بازو کے بیانیے (مارو، نکال دو، یہ اپنے ہیں، وہ غیر ہیں، یہ دہشت گرد ہیں، وہ خارجی ہیں، قتل کردو)۔ 2۔ ہر طرف اسلحہ کی خرید و فروخت (روایتی و غیر روایتی اسلحہ، جنگی طیارے، ڈرونز، دفاعی نظام، الیکٹرانک وار فیئر کا اسلحہ، سائبر وار فیئر کا اسلحہ، اسلحہ ہی اسلحہ)۔ 3۔یہود کی عالمی بالادستی جس کے تحت دجالی نظام سے آگے بڑھ کر اب ’’شہنشاہ‘‘ یعنی مسایاح (دجال) کی آمد کی تیاریاں! 1+2+3 = دنیا ایک بڑی (عالمی) جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے۔ واللہ اعلم! اللہ تعالیٰ مسلمان حکمرانوں اور مقتدر حلقوں کو سمجھ عطا فرمائے اور فتنۂ دجال کی اِس شکل سے بھی محفوظ رکھے۔ آمین!