آپریشن بُنْیَانٌ مَّرْصُوْصٌ کے بعد کرنے کے کام
(قرآن و حدیث کی روشنی میں )
مسجد جامع القرآن قرآن اکیڈمی لاہور میںامیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ حفظ اللہ کے16مئی 2025ء کے خطاب جمعہ کی تلخیص
خطبہ ٔمسنونہ اور تلاوتِ آیاتِ قرآنی کے بعد!
بھارتی جارحیت کا جواب آپریشن بنیان مرصوص کے ذریعے بھرپور انداز میں دیا گیا ۔ یہ اللہ تعالیٰ کی خاص مدد اور فضل کا مظہر تھا ۔ اطلاعات کے مطابق بنیان مرصوص کے قرآنی الفاظ اس مسجد پر لکھے ہوئے تھے جسے پہلے پہل بھارت نے بمباری کرکے شہید کیا۔ وہیں سے یہ نام آپریشن کے لیے منتخب کیا گیا۔ اِس مسجد کے نمازی برسوں سے ڈاکٹر اسراراحمدؒ اور پھر اُن کے شاگردوں سے سورۃ الصف کا درس سنتے رہے ہیں۔ اسی سورت کی آیت نمبر 4 میں بنیان مرصوص کے الفاظ آئے ہیں ۔ یہ آیات تنظیم اسلامی کے منتخب نصاب میں بھی شامل ہیں ۔ ڈاکٹر اسراراحمدؒ نے کئی مرتبہ اِن آیات کا درس دیا ہے اور حالیہ آپریشن بنیان مرصوص کےدوران ڈاکٹر اسراراحمدؒ کے وہ کلپس سوشل میڈیا پر وائرل بھی ہوتے رہے ۔یہ خوش آئند بات ہے کہ ہماری افواج نے اس آپریشن کا نام سورۃ الصف کی اس آیت سے لیا لیکن ہمارا نقطۂ نظر یہ ہے کہ صرف دو الفاظ کو استعمال کرلینا کافی نہیں بلکہ ان آیات کا پورا سیاق و سباق بھی سامنے رہنا چاہیے۔بنیادی طور پر سورۃ الصف کی ان آیات میں کیا پیغام دیا جارہا ہے؟ آج اسی موضوع پر گفتگو ہو گی، اس کے علاوہ غزہ میں جو انسانی المیہ جنم لے رہا ہے اور دوسری ٹرمپ کے دورہ عرب ممالک کے موقع پرجس بے حمیتی کا مظاہرہ کیا گیا ہے ، اس پر بھی کلام ہوگا ۔ ان شاء اللہ !
بنیان مرصوص
سورۃ الصف کی آیت نمبر4 میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے :
{اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِہٖ صَفًّا کَاَنَّہُمْ بُنْیَانٌ مَّرْصُوْصٌ(4)} ’’اللہ کو تو محبوب ہیں وہ بندے جو اُس کی راہ میں صفیں باندھ کر قتال کرتے ہیں ‘ جیسے کہ وہ سیسہ پلائی دیوار ہوں۔‘‘
بنیان مرصوص سے مراد ایسی متحد اور منظم جماعت ہے جس سے ٹکرا کر دشمن پاش پاش ہو جائے۔ یہاں پہلی بات یہ معلوم ہوئی کہ اللہ کی راہ میں جدوجہد کرنی ہو تو وہ اکیلے اکیلے نہیں ہوتی بلکہ اس کے لیے ایک منظم جماعت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارا دین اجتماعیت کا تقاضا کرتا ہے۔ جس طرح ہم باجماعت نماز میں صفیں باندھ کر کھڑے ہوتے ہیں ۔ اسی طرح اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے جہاد کرنا ہو ، دعوتِ دین کا کام ہو ، نفاذ دین کی جدوجہد ہو ، دشمن سے جنگ کا سامنا ہوتو مسلمانوں کے لیے لازم ہے کہ وہ باہم متحد و منظم ہو کر ایسی مضبوط جماعت بن جائیں جیسے سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہو ۔
یہاںبنیان مرصوص سے پہلے فی سبیل اللہ کے الفاظ بھی آئے ہیں جس سے یہ واضح ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے محبت کرتاہے جو اللہ کی راہ میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر لڑتے ہیں۔ یعنی یہاں محض قتال یا جنگ برائے جنگ، کسی علاقے ، قبائلی یا قومی تعصب کی وجہ سے لڑی گئی جنگ مقصود نہیں ہے بلکہ وہ جنگ مقصود ہے جو اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے لڑی گئی ہو ۔ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا : یارسول اللہ ﷺ!ایک شخص غصے کی وجہ سے جنگ کرتا ہے، ایک شخص (قومی) حمیت کی بنا پر جنگ کرتا ہے، اللہ کے لیے لڑنا کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :((لتکون کلمۃ اللہ ھی العلیا)) ”جو شخص اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے لڑے، وہی اللہ کی راہ میں لڑنے والا ہے ۔ “
قتال فی سبیل اللہ کی کئی اقسام قرآن و حدیث میں بیان ہوئی ہیں ۔ کبھی مسلمانوں کے دفاع کے لیے ، کبھی مظلوم مسلمان بچوں اور عورتوں کی حفاظت کے لیے اور کبھی ظالم دشمن کے خلاف قتال کا تقاضا آتا ہے ۔ سورۃ الحجرات میں تو یہاں تک بھی حکم آیا کہ مسلمانوں کے دوگروہ اگر لڑ پڑیں تو پہلے اُن میں صلح کرواؤ ۔ اگر کوئی گروہ صلح پر آمادہ نہیں ہورہا تو اس کے خلاف جنگ کرو ۔ سب سے بڑھ کر اللہ کے دین کے قیام کے لیے باطل کے خلاف جنگ کرنا قتال فی سبیل اللہ ہے ۔ سورۃ الانفال میں اللہ تعالیٰ حکم دیتاہے :
{وَقَاتِلُوْہُمْ حَتّٰی لَا تَـکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ ج}(الانفال:39) ’’اور (اے مسلمانو!)ان سے جنگ کرتے رہو یہاں تک کہ فتنہ (کفر) باقی نہ رہے اور دین کل کا کل اللہ ہی کا ہو جائے۔‘‘
یاد رکھیئے کہ انفرادی سطح پر اللہ تعالیٰ نے انسان کو اختیار دیا ہے :
{اِنَّا ہَدَیْنٰـہُ السَّبِیْلَ اِمَّا شَاکِرًا وَّاِمَّا کَفُوْرًا(3)}(الدھر:3)’’ہم نے اس کو راہ سجھا دی۔اب چاہے تو وہ شکر گزار بن کر رہے‘ چاہے ناشکرا ہوکر۔‘‘
چاہے کوئی اسلام کو اپنا ئے یا کفر کو اپنائے ، اس دنیا میں انسان کو اختیار ہے ، آخرت میں اسی حساب سے اس کو جزا یا سزا دی جائے گی ۔ لیکن اجتماعی سطح پر اللہ تعالیٰ اپنی حاکمیت کے سوا کسی کی حاکمیت کو تسلیم نہیں کرتا ۔ اجتماعی سطح پر حکم(قانون) صرف اللہ کا ہی چلنا چاہیے ۔ سورۃ یوسف میں اللہ نے فرمایا:
{ اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ ط}(آیت:40) ’’اختیارِ مطلق تو صرف اللہ ہی کاہے۔‘‘
اجتماعی سطح پر اللہ تعالیٰ صرف اپنی حاکمیت کا نفاذ چاہتا ہے۔ سورۃ الصف ہی کی آیت میں نمبر 9 میںرسول اللہ ﷺ کا مقصد ِبعثت بیان ہوا :
{ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَلَــوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ(9)} (الصف:9)’’وہی ہے (اللہ) جس نے بھیجا اپنے رسولؐ کو الہدیٰ اور دین حق کے ساتھ تاکہ غالب کر دے اس کو پورے نظامِ زندگی پر‘اور خواہ مشرکوں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو!‘‘
یہ آیت سورۃ الصف کا مرکزی مضمون ہے ۔ اللہ کے رسول ﷺکی زندگی کا مشن اللہ کے دین کا نفاذ تھا ، اسی مقصد کے لیے آپ ﷺنے جہادو قتال کیا اور اسی مقصد کے لیے آپ ﷺ کی جماعت سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر لڑی ۔ بنیان مرصوص کے الفاظ اسی تناظر میں اس میں آئے ۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو مکمل دین دئیے کر بھیجا ہے ، ایسا ہرگز نہیں ہے کہ صرف قرآن کے کسی حصے کی تلاوت کر لی جائے ، قرآن کے کچھ الفاظ کو اپنے کسی مقصد کے لیے استعمال کر لیا جائے ، مساجد میں نسخے رکھوا دیے جائیں ، مرحوم کے لیے تلاوت کی جائے بلکہ قرآن الھدیٰ ہے ۔ اس ہدایت کو اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے تمام گوشوں پر غالب کرنا مقصود ہے ۔ ہمارا سیاسی ، معاشی اور معاشرتی نظام اسی ہدایت کے تابع ہونا چاہیے ۔ یہی اللہ کے رسول ﷺ کا مشن تھا اور ختم نبوت کے بعد یہ مشن اس اُمت کو سونپا گیا کہ اللہ کی زمین پر اللہ کا دین نافذ ہو ۔ اگلی آیت میں مزید ہدایت آگئی :
{ یٰٓــاَیـُّـھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ھَلْ اَدُلُّــکُمْ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُنْجِیْکُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ(10)}(الصف:10) ’’اے ایمان کے دعوے دارو! کیا میں تمہیں ایسی تجارت کے بارے میں بتائوں جو تمہیں دردناک عذاب سے چھٹکارا دلا دے؟‘‘
یہاں جہنم کا درد ناک عذاب مراد ہے ۔ اس دائمی عذاب سے نجات کے لیے اللہ تعالیٰ ہمیں ایک آسان پیش کش کر رہا ہے ۔ فرمایا :
{تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَتُجَاہِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ ط}(الصف:11)
’’(وہ یہ کہ) تم ایمان لائو اللہ اور اُس کے رسول ؐپر اور جہاد کرو اللہ کے راستے میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ۔‘‘
اِس آیت میں ایمان والوں سے خطاب ہے اور سب سے پہلے ایمان لانے کا تقاضا کیا جارہا ہے ۔ یعنی صرف زبان سے کلمہ پڑھ لینامقصود نہیں ہے بلکہ دل کے یقین کے ساتھ ایمان لاؤ اور پھر اپنی جانوں اور مالوں کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کرو ۔ جب سچا ایمان دل میں ہوتا ہے تو عمل ثبوت پیش کرتا ہے۔ پھر انسان اللہ کی راہ میں جان دینے سے بھی گریز نہیں کرتا اور آخرت کے حساب سے یہی سب سے زیادہ فائدے کا سودا ہے ۔ فرمایا :
{ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّــکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(11)} (الصف:11)’’یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم سمجھ رکھتے ہو۔‘‘
یہ اللہ تعالیٰ بتا رہا ہے جو زمین و آسمان ، جن و انس سمیت پوری کائنات کو بنانے والا ہے ۔ ہم اپنے علم اور تجربے کے حساب سے اپنی اولاد کو نصیحت کرتے ہیں کہ فلاں کورس کرلو ، فلاں ڈگری حاصل کر لو تو یہ ہو جائے گا ، فلاں ہو جائے گا لیکن اللہ تعالیٰ سب سے بڑھ کر فائدے کا سودا بتا رہا ہے کیونکہ آخرت کی دائمی زندگی کا مسئلہ ہے اور اس کے لیے یہ کوئی زیادہ قیمت نہیں ہے ۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ ہمارے ارباب اختیار نے اگر دشمن کے خلاف آپریش کا نام قرآن سے لیا ، فجر کے وقت کا انتخاب کیا اور نعرہ تکبیر کے ساتھ آغاز کیا تو یہ بہت خوش آئندہ ہے مگراتنا کافی نہیں ہے ۔ اللہ کے رسول ﷺ کی زندگی کا مشن بھی انہی آیات میں بیان ہوا ہے ، اس مشن کو پورا کرنا بھی ہم سب کی ذمہ داری ہے ۔ یعنی اللہ کے مکمل دین کے نفاذ کے لیے بھی ہم جدوجہد کریں ، قتال کی ضرورت پڑے تو باطل کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار ثابت ہوں ۔ یہ ان آیات کا اصل مفہوم ہے ۔
کامیابی پر اللہ کا شکرانہ
آپریشن بنیان مرصوص کی کامیابی پر ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے ۔ یہ نہ ہو کہ ہم اس کا کریڈٹ خود لینے کی کوشش کریں اور تکبر میں اکڑ جائیں ۔ جیسا کہ جشن منانے، بھنگڑے ڈالنے ، سینہ تاننے اور بڑائی کا اظہار کرنے کی باتیں سامنے آرہی ہیں ۔ یہ بڑی ناشکری کی باتیں ہیں ، بجائے اس کے ہمیں سب سے زیادہ جس چیز کی ضرورت ہے وہ اللہ کی طرف رجوع کرنا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر اپنا فضل و کرم کیا ۔ بے شک پاک فوج ، خصوصاً ہماری فضائیہ نے بہت اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ، افواج کا جذبہ بھی تھا ، پیچھے قوم کی دعائیں بھی تھیں ، سب کچھ تھا مگر سب سے بڑھ کر اللہ کی مدد تھی ۔ ہمیں اللہ کے سامنے جھکنا چاہیے۔ ہمارے لیے اُسوہ رسول اللہ ﷺ کی سیرت ہے ۔ فتح مکہ کے موقع پر آپ ﷺاس عاجزی کے ساتھ مکہ مکرمہ میں داخل ہورہے تھے کہ آپ ﷺ کی پیشانی اونٹ کےکجاوے کو چھو رہی تھی اور آپ کی زبان مبارک پر اللہ کی حمد اور شکر کے کلمات جاری تھے۔ اس موقع پر سورۃ النصر نازل ہوئی ۔ فرمایا :
’’جب آ جائے مدد اللہ کی اور فتح نصیب ہواور آپؐ دیکھ لیں لوگوں کو داخل ہوتے ہوئے اللہ کے دین میں فوج در فوج تو پھر آپؐ اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کیجیے‘ اور اس سے مغفرت طلب کیجیے۔ یقیناًوہ بہت توبہ قبول فرمانے والا ہے۔‘‘
حضورﷺ تو معصوم تھے اور اللہ کے دین کو قائم کرنے کے لیے ہی مکہ فتح کر رہے تھے اس کے باوجود استغفار کا حکم آپ ﷺ کے لیے آگیا۔ ذرا سوچئے کہ ہمیں کس قدر استغفار کرنے کی ضرورت ہوگی ۔ لہٰذا بجائے اس کے کہ ہم آپریشن بنیان مرصوص کی کامیابی پر جشن منائیں اور سینے تان کر اکڑ جائیں ، عاجزی کے ساتھ رب کے حضور شکرانے کے طور پر جھک کر سجدہ کرنا چاہیے اور اس کی مدد اور فضل کا مزید طالب ہونا چاہیے ۔
پاکستان کا دفاع اور استحکام
ڈاکٹر اسراراحمدؒ فرمایا کرتے تھے کہ پاکستان کا دفاعی نظام مضبوط ہونا چاہیے ، تربیت یافتہ فوج ، ایٹمی صلاحیت ، جدید ٹیکنالوجی ، سیاسی اور معاشی استحکام ، قومی یکجہتی و ہم آہنگی سب کچھ اپنی جگہ ہے ، یہ سب ہونا چاہیے اور یہ ایک غیر مسلم ملک کے لیے بھی ضروری ہوتا ہے مگر پاکستان کے تقاضے اس سے بڑھ کر بھی ہیں ؎
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسول ہاشمی
کافروں کا معاملہ الگ ہے ، مسلمان کا معاملہ الگ ہے ۔ مسلمان کے لیے سب سے بڑھ کر اللہ کی مدد ضروری ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بتادیا :
{یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰہَ یَنْصُرْکُمْ وَیُثَبِّتْ اَقْدَامَکُمْ(7)}(محمد:7)
’’اے اہل ِایمان! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا اور وہ تمہارے قدموں کو جما دے گا۔‘‘
سورۃ آل عمران میں فرمایا :
’’(اے مسلمانو! دیکھو) اگر اللہ تمہاری مدد کرے گا تو کوئی تم پر غالب نہیں آ سکتااور اگر وہ تمہیں چھوڑ دے (تمہاری مدد سے دست کش ہو جائے) تو کون ہے جو تمہاری مدد کرے گا اس کے بعد؟اور اللہ ہی پر توکل کرنا چاہیے ایمان والوں کو۔‘‘ (آل عمران:160)
اللہ کی مدد تب آئے گی جب ہم اللہ کے رسول ﷺ کے مشن پر گامزن ہوں گے۔ یعنی اقامت دین کی جدوجہد میں اپنے آپ کو کھپائیں گے ۔لہٰذا قرآن سے دو الفاظ کو استعمال کرلینا کافی نہیں بلکہ رسول اللہ ﷺ کے مشن کو اپنا نا ضروری ہے ۔
وقت فرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے
نور توحید کا اتمام ابھی باقی ہے
ہم نے نفاذ اسلام کے وعدے پر اس مملکت کو حاصل کیا تھا۔ جدید مسلم ریاستوں میں سے دیگر کسی مسلم ریاست نے یہ دعویٰ نہیں کیا تھا ۔اس کی طرف قوم کو توجہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ اللہ اور اس کے رسولﷺ کے ساتھ جنگ کر کے ہم کھڑے نہیں رہ سکتے ۔ اللہ کے ساتھ بے وفائی کر کے اللہ کی مدد نہیں آئے گی ۔ ریاست کی سطح پر ہم نے شریعت کے احکامات کو پامال کیا ہوا ہے، اللہ کے دین کو ہم نے قائم و نافذ نہیں کیا ۔یہ ہمارا قومی جرم ہے ۔ اگر اللہ ہماری مدد نہیں کرے گا تو پھر کون ہمیں دشمنوں سے بچائے گا ؟حل سچی توبہ ہے ۔ ہم اجتماعی سطح پر اللہ سے معافی مانگیں اور سچے دل کے ساتھ اللہ کے رسولﷺ کے مشن کو اپنا مشن بنالیں ۔ اسی میں ہماری بھلائی ہے ۔
یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات
سیکولرحضرات کی خدمت میں
انڈیا کے خلاف آپریشن کا نام قرآنی الفاظ پر رکھنے کی وجہ سے ہمارا سیکولر اور لبرل طبقہ بہت زیادہ تلملا اُٹھا ہے ۔ وہ حیران ہے کہ سرکاری سطح پر قرآن کے الفاظ استعمال ہورہے ہیں ، قوم اللہ اکبر کے نعرے لگا رہی ہے ، کہیں فوجی جوان نمازِ فجر ادا کر رہے ہیں اور اللہ کا نام لے کر آپریشن شروع کر رہے ہیں ، ریاست کے سپہ سالار اپنی تقریر میں قرآن کی تلاوت کر رہے ہیں۔ قرآنی آیات سے استدلال کر رہے ہیں ۔ سیکولر اور لبرل طبقہ کے مطابق پاکستان کو تو سیکولر سٹیٹ ہونا چاہیے تھا ،وہ کہتے ہیں کہ ریاست کا مذہب کے ساتھ کیا تعلق ہے ؟ مذہب انفرادی معاملہ ہے وغیرہ۔اس طبقہ سے ہماری گزارش ہے کہ وہ آئین میں دیکھیں اس ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان واضح طور پر لکھا ہوا ہے ۔ یہ دنیا میں واحد ملک ہے جو اسلام کے نام پر لیا گیا ہے ، قرارداد مقاصد میں لکھا ہے کہ حاکمیت اعلیٰ صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ یہاں نظام اور قانون بھی اللہ کا ہونا چاہیے۔ صرف اسی لیے ہمارے آباءو اجداد نے پاکستان کے لیے بے انتہا قربانیاں دی ہیں ۔
مسئلہ فلسطین اور ٹرمپ کا دورہ عرب ممالک
غزہ کے نہتے مسلمان خون میں نہا رہے ہیں ، بچے بھوک سے مررہے ہیں ۔ اس قدر خوفناک صورتحال ہے کہ فرانس جیسا ملک چلا اُٹھا ہے ، اٹلی چلا اُٹھا ہے ، یورپ کے کئی ممالک آواز اُٹھا رہے ہیں ، اسرائیلی بمباری مسلسل جاری ہے ۔ دوسری طرف بھارت پاکستان پر جارحیت کے لیے پرتول رہا ہے ، مودی نے برملا کہہ دیا جنگ ختم نہیں ہوئی بلکہ رُکی ہے ۔ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ جنگ بندی عارضی ثابت ہوگی۔ بھارت کواسرائیل کی مکمل سپورٹ حاصل ہے ، حالیہ جنگ میں بھی بھارت نے اسرائیلی ڈرونز کا استعمال کرکے نہتے پاکستانی شہریوں کا خون بہایا ہے ۔ اُدھر یہودی گریٹر اسرائیل کے منصوبے کو پورا کرنے کے لیے مسلمانوں کا خون بہا رہے ہیں ، اِدھر مودی اکھنڈ بھارت کا خواب پورا کرنے کے لیے جنگ مسلط کر رہا ہے اور ان دونوں کی پشت پر امریکہ ہے ۔ امریکہ کی مسلم دشمنی اور عزائم سب کے سامنے ہیں ۔ خاص طور پر ڈونلڈ ٹرمپ نے آتے ہی 2000 بم بھی اسرائیل کو سپلائی کر دیئے جو جوبائیڈن نے روکے تھے ۔ یہی اسلحہ استعمال کرکے اسرائیل فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی کر رہا ہے ۔ دوسری طرف عرب ممالک کے حکمرانوں کا طرزعمل دیکھئے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے دورہ کے موقع پر جشن منایا جارہا ہے ، اس کے سامنے عورتوں سے رقص کروایا جارہا ہے ۔ تلواروں کے سائے میں اس کو خوش آمدید کہا جارہا ہے ۔ یہی تلوار اسرائیل کے خلاف اُٹھنے کے لیے تیار نہیں ہے لیکن اسرائیل کو اسلحہ فراہم کرنے والوں کے استقبال کے لیے اُٹھ رہی ہے ۔ ادھر غزہ میں بچے بھوک پیاس سے مر رہے ہیں ، ان کو دینے کے لیے عرب ممالک کے پاس کچھ نہیں ہے لیکن ٹرمپ کو کروڑوں ڈالرز کے تحائف دئیے جارہے ہیں ، اربوں ڈالرز کے معاہدے کیے جارہے ہیں۔ روز قیامت اللہ کے سامنے کیا جواب دیں گے؟کب تک اپنی کرسی اور اقتدار کے لالچ میں باطل کے قدموں میں سجدہ ریز رہو گے ۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں مسلمانوں سے مخاطب ہے :
’’اور(اے مخاطب) ہرگز راضی نہ ہوں گےتم سے یہودی اور نہ نصرانی جب تک کہ تم پیروی نہ کرو ان کی ملت کی۔ کہہ دو ہدایت تو بس اللہ کی ہدایت ہے اور (اے مخاطب) اگر تم نے ان کی خواہشات کی پیروی کی اُس علم کے بعد جوتمہارے پاس آچکاہے‘تو نہیں ہو گا اللہ کے مقابلے میں تمہارے لیے کوئی مددگار اور نہ حمایتی۔‘‘ (البقرہ :120)
کیا امریکہ کی مدد انہیں اس آفت سے بچا سکتی ہے جو ان کے سروں پر پہنچ چکی ہے ۔ حدیث میں اس کی اطلاع ہے ۔ بانی تنظیم اسلامی اکثر اس حدیث کو بیان فرمایا کرتے تھے ۔
((وَيْلٌ لِلْعَرَبِ مِنْ شَرٍّ قَدِ اقْتَرَبَ))”عربوں کی بربادی ہونے والی ہے اس آفت کی وجہ سے جو ان کے سروں پر پہنچ چکی ہے ۔ “
صہیونی گریٹر اسرائیل کا نقشہ بار بار جاری کر رہے ہیں اور دعویٰ کر رہے ہیں کہ نیل سے لے کر فرات تک کا سارا علاقہ وہ اسرائیل میں شامل کریں گے ۔ نیتن یاہو تو یہاں تک کہہ رہا ہے کہ وہ مدینہ منورہ پر بھی قبضہ کریں گے ۔ آج اسرائیل غزہ پر قبضہ کر رہا ہے ، شام ، اردن اور لبنان میں مداخلت کر رہا ہے ۔ اس کے بعد باری دیگر عرب ممالک کی بھی آئے گی ۔ لازم تھا کہ عرب حکمران اللہ سے رجوع کرتے اور متحد ہو کر اسلام دشمن قوتوں کا مقابلہ کرتے ۔ اسی میں ان کی آخرت کی بھی بھلائی تھی اور دنیا کی بھی ۔ پاکستانی قوم سے بھی ہماری اپیل ہے کہ پاک بھارت کشیدگی کے دوران غزہ کے مسلمانوں کو مت بھولیں ، انہیں آپ کی مالی اور اخلاقی مدد کی ضرورت ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو غیرت دینی عطا کرے اور اُمتی والے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین !