(زمانہ گواہ ہے) ’’ڈونلڈ ٹرمپ کا دورہ مشرق وسطیٰ ‘‘ - ابو ابراہیم

11 /

ابراہیم اکارڈ ایسا صہیونی حربہ ہے جس کے ذریعے امریکہ عرب

ممالک کو بغیر جنگ اسرائیل کے سامنےجھکانا چاہتا ہے:رضاء الحق

عرب حکمرانوں نے ٹرمپ کے استقبال اور اس کے ساتھ معاہدوں 

میں مسلم عوام اور عرب ممالک کے مفادات کو نظر انداز کر کے

صرف ذاتی مفاد کو مدنظر رکھا :بریگیڈیئر (ر) رفعت اللہ

’’ڈونلڈ ٹرمپ کا دورہ مشرق وسطیٰ ‘‘

پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف تجزیہ نگاروں اور دانشوروں کا اظہار خیال

میز بان : وسیم احمد

سوال: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ دورہ مشرق وسطیٰ کے پس پردہ مقاصد کیا تھے؟
رضاء الحق:اقبالؔ نے جیسے فرمایا تھا کہ؎
دنیا کو ہے پھر معرکہ روح و بدن پیش
تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو ابھارا
اللہ کو پامردی مومن پہ بھروسہ
ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا 
امریکہ کا مشرق وسطیٰ کے حوالے سے جو منصوبہ ہے، وہ اب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے ، سب کچھ وہ خود ظاہر کر رہے ہیں ۔ بنیادی طور پر دوسری جنگ عظیم کے بعد سے ہی امریکہ پر یہودی لابی کا غلبہ ہے ۔ اُس وقت سوویت یونین بہرحال امریکہ کے مدمقابل ایک سپرپاور تھا جو مارکسزم کی بنیاد پر یہودی سرمایہ دارانہ نظام کے لیے خطرہ تھا ۔ اس سے نمٹنے کے لیےپہلے سیٹو سینٹو اور پھر نیٹو بنایا گیا۔ سرد جنگ کے بعد 1989ء کے اختتام تک جب سوویت یونین شکست و ریخت کا شکار ہوگیا تو اس کے بعد امریکہ سپریم پاور آف دی ورلڈ بن گیا ۔ پوچھا گیا کہ آپ کا بڑا دشمن تو ختم ہو گیا اب نیٹو کا کیا جواز باقی رہتاہے تو کہا گیا کہ اب مسلم بنیادی پرستی ، انتہا پسندی اور سیاسی اسلام ہمارا سب سے بڑا دشمن ہے کیونکہ اسلام سرمایہ دارانہ نظام کے متبادل اپنا سیاسی ، معاشی اور معاشرتی نظام پیش کرتاہے اور اجتماعی سطح پر اپنا غلبہ چاہتاہے ۔ سیمیل ہنٹنگٹن نے اس حوالے سے کلیش آف سیولائزیشنز کے عنوان سے ایک کتاب بھی لکھ ڈالی ۔ فرانسس فوکایاما نے تو’’ اینڈ آف ہسٹری ‘‘کے عنوان سے کتاب لکھ کر یہاں تک دعویٰ کر ڈالا کہ اب امریکی تہذیب ہی دنیا کی آخری تہذیب ہوگی ، اس کے بعد کسی تہذیب کی گنجائش نہیں ۔یہ ایجنڈے اور پالیسیاں امریکی ادارے بناتے ہیں جن پر یہود کا مکمل کنٹرول ہے ۔اب ان کی توجہ  مشرق ِوسطیٰ پر مرکوز ہوگئی ۔ اوباما کے دوسرے دورحکومت میں اُس وقت کی امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ ہیلری کلنٹن نے Pivot to Asia پالیسی کا باقاعدہ اعلان کیا جس کا ایک مقصد اسرائیل کی توسیع کی جانب بڑھنا تھا۔ لہٰذا اس حوالے سے کچھ اہداف انہوں نے جنگوں کے ذریعے حاصل کیے ، کچھ ابراہیم اکارڈ جیسے فریب دے کر حاصل کیے گئے ۔ عرب ممالک کی بادشاہتیں قائم کرنے اور انہیں پروان چڑھانے میں بھی امریکی ڈیپ سٹیٹ کا ہاتھ رہا ہےاور یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کے توسیعی منصوبوں میں یہ عرب بادشاہتیں بالکل بھی رکاوٹ نہیں بنیں بلکہ زیادہ تر نے اسرائیل کو تسلیم کرلیا ہے ۔ یہاں تک کہ اب غزہ کو بھی بالکل تباہ کر دیا گیا ہے ۔ مغربی کنارہ اگرچہ ابھی باقی ہے مگر اسرائیل کے خلاف مزاحمت دم توڑ رہی ہے ۔ 
سوال:ڈونلڈ ٹرمپ کا عرب کے مسلم حکمرانوں نے پُرجوش استقبال کیا ، حالانکہ امریکہ کے ہاتھ فلسطینی مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں ۔ ایسے ملک کے سربراہ کا استقبال کیا معنی رکھتا ہے ؟
بریگیڈیئر(ر) رفعت اللہ: دنیا کی ہر ریاست اپنے قومی مفاد کے لیے کام کرتی ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ عرب حکمران جو کچھ کر رہے ہیں وہ مسلم عوام کے مفاد کے لیے کر رہے ہیں یا صرف اپنی بادشاہتوں کے لیے کر رہے ہیں ۔ عرب میں کئی بادشاہتوں کو عرب سپرنگ کے ذریعے ختم کر دیا گیا کیونکہ وہ مغربی مفادات پر پورا نہیں اُتر رہی تھیں لیکن جہاں مغرب کو اپنے مفاد کے لیے بادشاہتوں کی ضرورت تھی وہ اب بھی قائم ہیں ۔ جہاں سے انہیں ڈر تھا کہ اسرائیلی مظالم کے خلاف مسلم عوام احتجاج کریں گے وہاںبادشاہتوں کو سپورٹ کیا جارہا ہے ۔ عرب حکمرانوں  کے پاس دو آپشن تھے کہ یا تو امریکی مخالف بلاک یعنی چین کی طرف جھکاؤ کرتے جو مغرب اور امریکہ کی طاقت اور پالیسی کو چیلنج کر رہا تھا یا پھر امریکی بلاک کا انتخاب کرتے۔ انہوں نے امریکہ کا انتخاب کیا ، ٹرمپ کے استقبال اور اس کے ساتھ معاہدوں میں عرب مسلم عوام اور عرب ممالک کے مفادات کو نظر انداز کیا اور صرف ذاتی مفاد کو مدنظر رکھا ۔ 
سوال:ابراہیم اکارڈ منصوبہ کیاہے اور ظاہری طور پر اس کےجو مقاصد بتائے جاتے ہیں، ان میں کتنا سچ اور کتنا جھوٹ ہے ؟
رضاء الحق:ابراہیم اکارڈ بنیادی طور پر ایک ایسا   حربہ ہے جس کے ذریعے امریکہ کچھ عرب ممالک کو جنگ کے بغیر اسرائیل کے سامنے زیر کرنا چاہتا ہے ۔ بظاہر ابراہیم اکارڈ کا مقصد یہ بتایا جاتاہے کہ عرب کے مسلمان ، یہودی اور عیسائی ابراہیم ؑ کی اولاد ہیں ، ایک دوسرے کے کزن ہیں ، لہٰذا انہیں ایک دوسرے کو تسلیم کرنا چاہیے اور مل کر رہنا چاہیےلیکن دوسری طرف جب فلسطین کے دو ریاستی حل کی بات کی جاتی ہے تو فلسطینی اتھارٹی تو اسے قبول کرتی ہے لیکن اسرائیل دریائے نیل سے  دریائے فرات کے درمیان کسی مسلم ملک کے وجود کو تسلیم کرنے  کو تیار نہیں ہے ۔ وہ کہتا ہے یہ سارا علاقہ یہود کا ہے   لہٰذا یہ جانتے ہوئے بھی کہ ابراہیم اکارڈ ایک دھوکہ ہے ، عرب ممالک اس فریب میں کیوں آجاتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سے پہلے کئی عرب ممالک کو امریکہ نے تباہ کر دیا ہے ۔ جیسا کہ عراق ، شام ، لیبیا ، تیونس اور مصر وغیرہ ۔ مصر میں عرب سپرنگ کے نتیجے میں الاخوان کی جمہوری حکومت قائم ہوئی لیکن اسے بھی قبول نہیں کیا گیا اور ایک سال کے اندر جنرل سیسی کے ذریعے اس کو روند دیا گیا اور بے پناہ مظالم کیے گئے ۔ باقی عرب ممالک نے اس تباہی سے بچنے کے لیے ابراہیم اکارڈ کے تحت اسرائیل سے تعلقات بڑھانا قبول کرلیا ۔ متحدہ عرب امارات ، عمان ، سوڈان سمیت جن ممالک نے بھی ابراہیم اکارڈ کے تحت اسرائیل کو تسلیم کیا انہیں کچھ ضمانت دی گئی ۔ جیسا کہ UAEکو یہ گارنٹی دی گئی مغربی کنارہ پر دوبارہ حملہ نہیں کیا جائے گا ۔ اسی طرح چند افریقی ممالک کے درمیان دریائے نیل پر تنازع چل رہا تھا تو انہیں اس کو حل کرنے کی ضمانت دی گئی ۔ اس کے بعد ان میں سے کچھ ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کرلیا اور اپنے سفارتی اور تجارتی تعلقات اسرائیل سے بڑھائے۔ اسرائیل کے سفارت خانے ان ممالک میں کھل گئے ، فضائی حدود اسرائیل کے لیے کھول دی گئیں ۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ عرب حکمرانوں  نے یہ فیصلے ذاتی سطح پر کیے ، عرب عوام ان معاہدات کے حق میں نہیں تھے ۔ اسرائیل نے خو دابراہیم اکارڈ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے گریٹر اسرائیل کا نقشہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں لہرایا جس میں فلسطین ، شام ، لبنان ، اردن ، عراق ، مصرکے ڈیلٹا اور سعودی عرب کے کچھ شمالی علاقوں کو گریٹر اسرائیل کا حصہ دکھایا گیا ۔ یعنی اسرائیل ان تمام عرب ممالک کے وجود کو مٹانا چاہتاہے لیکن اس کے باوجود ابراہیم اکارڈ کا کھیل اب بھی کھیلا جارہا ہے اور عرب حکمران اس دھوکے میں اب بھی آرہے ہیں ۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے دورہ کے دوران عرب حکمرانوں نے جس طرح اس کا استقبال کیا اور جس طرح اس کو خوش کرنے کے لیے  معاہدات کیے ، اُن سے نہیں لگتا کہ عرب حکمرانوں نے کچھ سبق سیکھا ہے ۔ حالانکہ ٹرمپ نے اپنے پہلے دور حکومت میں یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کیا اور اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم شفٹ کیا ۔ اب امریکہ کی کوشش ہے کہ سعودی عرب بھی اسرائیل کو تسلیم کرلے اور اس کو دیکھتے ہوئے پاکستان سمیت باقی مسلم ممالک بھی اسرائیل کو تسلیم کرلیں ۔ 
سوال: شام عالم عرب کا ایک اہم ملک ہے جہاں بشارالاسد کی حکومت کے خاتمہ کے بعد اب احمد الشرع کی حکومت ہے جس کو ماضی میں امریکہ نے دہشت گرد قرار دیا ہوا تھا اور اس کے سر کی قیمت مقرر کی ہوئی تھی لیکن اب وہی احمد الشرع امریکہ کے لیے فیورٹ بنتا جارہا ہے ۔ امریکی صدر نے اپنے حالیہ دورہ میں نہ صرف اس کے ساتھ ملاقات کی بلکہ اس کی حکومت پر پابندیاں بھی ختم کردیں ۔ امریکی رویے میں یہ تبدیلی کیسے آئی اور اس کا کیا مطلب ہے ؟
بریگیڈیئر(ر) رفعت اللہ:ابراہیم اکارڈ کا سابقہ ورژن I2U2Gہے ۔ یعنی انڈیا، اسرائیل ،امریکہ اور متحدہ عرب امارات ۔ یہ چار ممالک آپس میں تجارت کرنا چاہتے ہیں ۔ ابراہیم اکارڈ کا اگلاورژن جوبائیڈن کے دور میں IMECکے نام سے آیا ۔ یعنی انڈیا مڈل ایسٹ یورپ اکنامک کوریڈور۔ اس سارے گیم پلان کا مقصد یہ ہے کہ عرب ممالک اسرائیل کے ساتھ تعلقات بہتر کرلیں ۔ اگر ایسا ہوگا تو پھر مشرق وسطیٰ میں ان ممالک کے درمیان تجارت کے راستے کھل جائیں گے اور چائنہ ،  روس اور ایران کا گھیراؤ کرنے میں بھی مدد ملے گی ۔ جہاں تک احمد الشرع جولانی کی بات ہے تو وہ باقاعدہ طور پر القاعدہ اور داعش کا رکن رہا ہے ، ان لوگوں کے ذریعے بشارالاسد کی حکومت کو ختم کیا گیا۔احمد الشرع کے ساتھ ملاقات کے بعد امریکہ کی جانب سے جو پریس ریلیز جاری ہوئی ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ چار شرائط کی بنیاد پر موجودہ شامی حکومت پر سے پابندیاں ختم کی گئی ہیں :
(1)۔ شامی حکومت اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرے ۔ 
(2)۔ فلسطینیوں کو شام سے جلاوطن کرے جن کو اسرائیل نے دہشت گرد قرار دیا ہے ۔ 
(3)۔ اسرائیل اور دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے اقدامات کرے ۔ 
(4)۔ شمال مشرقی شام میں موجود داعش کی ذمہ داری اُٹھائے ۔ 
اس کے بعد احمد الشراع کا بیان آیا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا موقف بہت اچھا ہے اور یہ ایک مثبت پیش رفت ہے ۔ گویا احمد الشرع نے ٹرمپ کے مطالبات کو تسلیم کرلیا ہے ۔ لیکن دیکھنا یہ ہےکہ کیا شامی عوام اس فیصلے کو قبول کریں گے؟ ٹرمپ نے ایران کے متعلق بھی کہا ہے کہ ہم کسی معاہدے کے قریب پہنچ چکے ہیں ۔ اس سے قبل ایران کی جانب سے بھی مؤقف سامنے آیا کہ اگر امریکہ ایران پر عائد اقتصادی پابندیاں ختم کر دے تو ایران بھی اپنے جوہری پروگرام میں بڑی حد تک نرمی کے لیے تیار ہے۔ ان سارے اقدامات سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ خطہ کے  ان سارے ممالک کو اپنے ساتھ ملا کر چین اور روس کا گھیراؤ کرنا چاہتا ہے ۔ 
سوال:حالیہ پاک بھارت کشیدگی میں اسرائیل پوری طرح ملوث تھا ۔ جتنے ڈرونز بھی پاکستان نے گرائے وہ سارے اسرائیلی ساختہ تھے اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ  دراصل یہ جنگ غزہ سے توجہ ہٹانے کے لیے شروع کی گئی تھی جس کے لیے پہلگام کا ڈراما رچایا گیا ۔ کیا آپ اس رائے سے اتفاق کرتے ہیں؟
رضاء الحق:  قرآن پاک میں سورۃ المائدہ کی آیت 82  میںاللہ تعالیٰ نے واضح طور پر بتا دیا ہے :
{لَـتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَۃً لِّـلَّذِیْنَ اٰمَنُوا الْیَہُوْدَ وَالَّذِیْنَ اَشْرَکُوْاج} ’’تم لازماًپائو گے اہل ِایمان کے حق میں شدید ترین دشمن یہود کو اور ان کو جو مشرک ہیں۔‘‘
آج یہود و ہنود کا گٹھ جوڑ کھل کر سامنے آگیا ہے ۔ اُدھر یہود اپنے گریٹر اسرائیل کے منصوبے کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے مسلمانوں کا قتل عام کر رہے ہیں ، اِدھر ہنود اکھنڈ بھارت کا منصوبہ پورا کرنے کے لیے بھارت اور کشمیر میں مسلمانوں کو مٹانے کے درپے ہیں ۔اُدھر سابق اسرائیلی وزیر اعظم بن گوریان پاکستان کو اپنا اصلی دشمن قرار دیتاہے ، اِدھر بھارت پاکستان کو اپنا ازلی دشمن سمجھتا ہے ۔ اُدھر نیتن یاہو پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کو ختم ہوتے دیکھنا چاہتا ہے ، اِدھر انڈیا اسی بات کے خواب دیکھ رہا ہے۔ پاکستان دشمنی میں یہ دونوں ممالک متحد ہو چکے ہیں اور مل کر پاکستان کو کمزور کرنا چاہتے ہیں ۔ احادیث میں اس خطہ (جس میں پاکستان موجود ہے ) کے مسلمانوں کے حوالے سے ذکر ہے کہ یہاں سے اسلامی لشکر جا کر حضرت مہدی کی قیادت میں یروشلم میں دجالی  فوج کے خلاف لڑے گا اور یہودی اُسی دجال کے استقبال کے لیے تیاریاں کر رہے ہیں جس کو اپنا مسایاح  مانتے ہیں ۔ یہود نے ان احادیث کا مطالعہ کیا ہوا ہے اسی لیے وہ اس خطہ میں جنگ مسلط کرنے کے خواہاں ہیں ۔ لیکن شاید  اللہ تعالیٰ پاکستان سے کوئی بڑا کام لینا چاہتاہے اس لیے وہ چاہتے ہوئے بھی پاکستان کو نقصان نہیں پہنچا سکے ۔ ہیلری کلنٹن نے کہا تھا کہ پاکستان ایسا ملک ہے جو اگر تباہ ہوگیا تو یہاں کے جہادی مسلمانوں کو سنبھالنا مشکل ہو جائے گا ۔  وہ جانتے ہیں کہ اس خطے کے مسلمان اسلام کے لیے اپنی جان بھی قربان کر سکتے ہیں ۔ اس لیے وہ اس خطہ کے مسلمانوں کو اُلجھا کر رکھنا چاہتے ہیں تاکہ ہم مستقل کے لیے کوئی تیاری نہ کرسکیں ۔ 
سوال:ابھی خراسان کا ذکر آیا کہ یہاں سے فوجیں  امام مہدی کی مدد کے لیے چلیں گی اور یروشلم میں جاکر اپنے جھنڈے گاڑیں گی ۔ احادیث کی روشنی میں بتائیے کہ قرب قیامت میں عرب کے اہم ترین ملک شام میں کیا  حالات و واقعات رونما ہوں گے ؟
بریگیڈیئر(ر)  رفعت اللہ: احادیث کی رو سے  بلادِ شام سے مُراد صرف موجودہ شام نہیں ہے بلکہ اس میں فلسطین ، لبنان اور اُردن بھی شامل ہیں ۔اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :شام کے لیے خوشخبری ہو۔ صحابہؓ نے کہا کہ    یا رسول اللہ ﷺ! کس وجہ سے ؟ فرمایا: ”رحمٰن کے فرشتوں نے اپنے پر شام پر پھیلائے ہوئے ہیں۔“ایک اور حدیث میں فرمایا :”تم مختلف لشکروں میں تقسیم ہو جاؤ گے ، ایک لشکر شام میں‘ ایک عراق میں اور ایک یمن میں ہو گا۔ آپﷺ نے نصیحت فرمائی : تم شام کو پکڑ لو کیونکہ وہ اللہ کی زمینوں میں سے بہتر سرزمین ہے۔“ احایث میں ایک بڑی جنگ (الملحمۃ الکبری ٰ ) کا بھی ذکر ہے جو شام میں لڑی جائے گی ۔ حدیث میں فرمایااس دوران بہترین لوگ شام کی طرف ہجرت کریں گے۔  شام کی سرزمین پر ہی عیسیٰ ؑ کا نزول ہوگا اور دجال کے خلاف آخری معرکہ ہوگا جس میں حضرت عیسیٰdدجال کو ایک نیزہ ماریں گے جو اُسے جہنم واصل کر دے گا ۔ اس کے بعد پوری دنیا میں اسلامی خلافت کا نظام قائم ہو گا ۔ دوسری طرف یہود کا دعویٰ ہے کہ دریائے نیل سے فرات تک کی سرزمین وعدہ شدہ سرزمین ہے جہاں ان کی حکومت ہوگی اور ان کا مسایاح آکر حکومت کرے گا اور اسی علاقے میںان کی جنگ ہوگی ۔ اسی لیے وہ اس علاقے کے مسلمانوں کو زیر کرنا چاہتے ہیں تاکہ جنگ کی نوبت ہی نہ آئے ۔ 
سوال: بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمد ؒ نے کہا تھا کہ قرآن عربوں کی زبان میں نازل ہوا لیکن وہ اس کی دعوت اور نفاذ کے نبوی مشن کو چھوڑ کر عیاشیوں میں پڑ گئے ، لہٰذا 750 سال قبل اللہ نے ان کو اُمت مسلمہ کی قیادت سے معزول کر دیا ۔ آپ کے خیال میں اب کونسا ملک یا ممالک کا اتحاد اُمت مسلمہ کی قیادت کا اہل ہے  ؟
رضاء الحق: ڈاکٹر صاحب ؒفرمایا کرتے تھے 750 سال قبل خلافت عباسیہ کا خاتمہ ہوا اور اس کے بعد خلافت ترکوں کے پاس چلی گئی۔ اس وقت مغرب اندھیروں  میں ڈوباہوا تھا ۔ ہسپانیہ کی مسلم یونیورسٹیوں سے علم کی جو روشنی پھیلی اس نے مغرب کو بھی روشن کیا لیکن ان میں چھپے ہوئے یہودی ریاست اور مذہب کو الگ کرنے کی راہ پر چل پڑے ۔ پوپ اور بادشاہ کو راستے سے ہٹانے کے لیے انقلابات برپا کیے گئے ۔ پھر سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد رکھی ۔  اسی دوران بینکاری نظام قائم کیا گیا ۔ سویڈن میں سب سے پہلے سینٹرل بینک بنا ، پھر بینک آف انگلینڈ وجود میں آیا ۔ خلافت عثمانیہ نے اپنے آخری دور میں ان بینکوں سے سودی قرضے لیے اور اس کےسا تھ ساتھ شرعی قوانین کی جگہ مغربی قوانین کے نفاذ کا سلسلہ شروع کیا ، جس نے خلافت ِعثمانیہ کو کھوکھلا کرکے ختم کردیا ۔ ا س وقت کوئی بھی مسلمان ملک اُمت ِمسلمہ کی قیادت کرنے کے قابل نہیں ہے کیونکہ پورا مغرب ، امریکہ اور اسرائیل متحد ہو چکے ہیں اور بھارت بھی ان کے ساتھ مل گیا ہے ۔ پاکستان سمیت کوئی بھی ملک اس اتحاد کو چیلنج نہیں کر سکتا ۔ کسی زمانے میں ڈاکٹر اسراراحمدؒ نے پاکستان ، ایران اور افغانستان کے اتحاد کی بات کی تھی کہ یہ تین ممالک مل کر ایک اتحاد بنائیں اور اُمت ِمسلمہ کی قیادت کریں ۔ لیکن اب حالات بہت بدل چکے ہیں ۔ اس وقت غزہ میں شہید ہونے والے کسی ایک بچے کو بچانے کے لیے بھی یہ ممالک متحد نہیں ہو سکتے ۔ البتہ یہ ہو سکتاہے کہ کچھ مسلم ممالک مل کر اپنا عسکری اتحاد بنا لیں اور کچھ نہ کچھ اپنے مفادات کا  دفاع کریں۔ جیسے حالیہ جنگ میں پاکستان کو چین ، ترکی اور آذربائیجان کی مدد حاصل رہی ۔ انفرادی طور پر ہمارے لیے کرنے کا اصل کام یہ ہے کہ ہم خود کو اچھے مسلمان بنائیں اور اجتماعی سطح پر اسلام کو نافذ کرنے کی کوشش کریں ۔ جب تک اجتماعی سطح پر اسلام کا نظام قائم نہیں ہوتا ،  انفرادی سطح پر ہم جتنی مرضی ہے نمازیں پڑھ لیں ، عبادات کرلیں ، حج اور عمرے کرلیں اس سے باطل کے نظام کو کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔ امریکہ جیسے ملک میں بھی آپ کو رمضان میں افطاری کی دعوت وائٹ ہاؤس میں دی جائے گی لیکن جیسے ہی آپ سیاسی اسلام کی بات کریں گے تو پوری دنیا کی کفریہ طاقتیں اُٹھ کھڑی ہوں گی ، بلکہ    مسلم حکمران بھی اس کی مخالفت شروع کر دیں گے ۔ بہرحال کفر کی طاقت صرف اسلام کے اجتماعی نظام سے ٹوٹے  گی جس کے لیے ہم سب کو کوشش کرنی چاہیے تاکہ     روزِ قیامت ہم معذرت پیش کر سکیں کہ ہم نے اپنی بساط کے مطابق اسلام کے غلبے کی کوشش کی ۔ 
بریگیڈیئر(ر)  رفعت اللہ:موجودہ دور میں  اُمت مسلمہ میں کوئی ایسی لیڈرشپ نظر نہیں آتی جو اُمت مسلمہ کی قیادت کر سکے اورعالم اسلام کا دوبارہ غلبہ ہو  سکے ۔ 1924ء میں خلافت ِ عثمانیہ کے خاتمے کے بعد سے اُمت تقسیم ہے ۔ قدرت کا یہ اصول ہے کہ وہ جس قوم سے کوئی کام لینا چاہتی ہے، اس کا انتخاب کرلیتی ہے ۔ جب عباسیوں نے کمزوری دکھائی تو منگولوں اور تاتاریوں نے ان پر غلبہ حاصل کرلیا اور پھر اللہ تعالیٰ نے انہی تاتاریوں کے ہاتھوں اسلام کا دوبارہ غلبہ کیا ۔ بقول اقبال؎
ہے عیاں یورش تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے 
احادیث کی رو سے جو مستقبل کامنظر نامہ ہے اس کے مطابق خراسان سے فوجیں حضرت مہدی کی مدد کو جائیں گی توہوسکتا ہے کہ اس خطے سے کوئی قیادت اُبھر کر سامنے آجائے ۔واللہ اعلم !