اداریہ
رضاء الحق
حقیقی یومِ تکبیر!
ہر قوم کے کچھ فیصلے تاریخ میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتے ہیں، جو نہ صرف اُس وقت کے حالات کا جواب ہوتے ہیں بلکہ آنے والی نسلوں کے تحفظ کی ضمانت بھی۔ ایسا ہی ایک دن 28 مئی 1998ء کا بھی تھا، جو 11اور 13 مئی 1998ء کو بھارت کی جانب سے کیے گئے پوکھران-دوم ایٹمی تجربات کا جواب تو تھا ہی مگر پاکستان کے لیے دفاعی لحاظ سے اس سے کہیں زیادہ مؤثر اور بامعنی حیثیت کا حامل تھا۔ یوم ِتکبیر ، پاکستان کی تاریخ کا ایک اہم دن ہے جب بھارت کی جانب سے5 ایٹمی دھماکوں کے جواب میں پاکستان نے صوبہ بلوچستان کے ضلع چاغی میں 5 یورینیم سے بنے جوہری ہتھیاروں کا زیرِ زمین تجربہ کیااور پھرصرف 2 دن بعد 30مئی1998ء کو صوبہ بلوچستان میں ہی واقع صحرائے خاران میں پلوٹونیم سے بنے ایک جوہری ہتھیار کا کامیاب تجربہ کر کے دنیا کو ششدر کر دیا۔ اس دن کو ’’یوم ِتکبیر‘‘ کے نام سے موسوم کیا جانا ہی انتہائی معنی خیز تھا اور یوںپاکستان باقاعدہ طور پر جوہری صلاحیت کا حامل دنیا کا واحد مسلم ملک بن گیا۔ دنیا اس معجزہ نما پیش رفت پرانگشت بدندان تھی کہ ایک ترقی پذیر، سیاسی اور معاشی بدحالی کے شکارمسلم ملک نے تمام تر عالمی دباؤ، معاشی پابندیوں اور دھمکیوں کے باوجود خودداری، غیرت اور جرأت کا مظاہرہ کیسے کرلیا۔13 اور 28 مئی کے دوران پاکستان پر عالمی طاغوتی قوتوں کا بے پناہ دباؤ تھا کہ پاکستان معاملے کو رفع دفع کر دے اور ایٹمی دھماکے نہ کرے۔ حکومت اور دیگر ریاستی اداروں کے اعلیٰ عہدیداران کو امریکی صدر بل کلنٹن، برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلئیر اور جاپانی وزیر اعظم ہاشی موٹو کے بیسیوں فون آئے۔پاکستان کو دولت سے مالا مال کر دینے کے وعدے بھی کیے گئے اور یہ وعید بھی سنائی گئی کہ اگر پاکستان ایٹمی دھماکے کرتا ہے تو اس پر سخت ترین سیاسی و معاشی پابندیاں لگائی جائیں گی۔طاغوتی قوتوں کے شدید دباؤ کے باوجود ایک جرأت مندانہ فیصلہ کیا گیا اور پاکستان نے بھارت کے ایٹمی تجربات کے جواب میں اپنی ایٹمی صلاحیت کا بھرپور مظاہرہ کیا جس سے نہ صرف بھارت بلکہ امریکہ اور اسرائیل سمیت تمام طاغوتی قوتوں میں صفِ ماتم بچھ گئی۔
امتِ مسلمہ نے پاکستان کے باضابطہ ایٹمی طاقت بن جانے پر اللہ کا شکر ادا کیا، عرب ممالک میں مٹھائیاں بانٹیں گئیں۔ اِس مشکل وقت میں کئی مسلم ممالک نے ہماری مدد بھی کی اور پاکستان کی معیشت اللہ کے فضل و کرم سے ڈوبنے سے بچ گئی۔ لہٰذا ہمیں یاد رکھنا چاہیئے کہ پاکستان کا ایٹمی قوت بن جانا نہ صر ف ہماری قومی سلامتی اور خودمختاری کی ضمانت ہے بلکہ یہ مسلم دنیا کی بھی امانت ہے۔ بہر حال وہ بھارت جو11 اور 13مئی 1998ء کےایٹمی تجربات کے بعد پاکستان پر جنگ مسلط کر کے اُسے فتح کرنے کی باتیں کر رہا تھا، یکدم جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔بی جے پی سے تعلق رکھنے والے بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے پاکستان کی اعلیٰ سول و عسکری قیادت کو باقاعدہ پیغام بھیجا کہ بھارت تمام معاملات مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کو تیار ہے۔اگرچہ ہندو کی مسلم دشمنی کی تاریخ بہت پرانی ہے لیکن اس خاص واقعہ کے تناظر میں درحقیقت معاملے کا آغاز بھارتی فوج نے 1986ء میں آپریشن’’ براس ٹیکس‘‘ کے ذریعے کر دیا تھا جب ہندوستان کی مسلح افواج نے پاکستان کی سرحد سے متصل ریاست راجستھان میں جدید ترین اسلحہ سے لیس ہو کر کثیر الجہتی فوجی مشقیں شروع کیں اور 600,000 سے زائد ہندوستانی فوجیوں کو پاکستان کی سرحد کے قریب جمع کر دیا گیا ، جو فوجی مشق کی آڑ میں پاکستان پر حملہ کرنے کا ناپاک بھارتی منصوبہ تھا۔ اس سے قبل 18 مئی 1974ء کو بھارت راجستھان میں پوکھران کے مقام پر ہی ’’مسکراتا بدھا‘‘ (The Smiling Buddha) کے نام سے ایٹمی دھماکے کر چکا تھا۔ جواب میں پاکستان نے بھی ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاؤ پر پابندی والے معاہدے این پی ٹی) Nuclear Non-ProliferationTreaty (NPT پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔ پاکستان جان چکا تھا کہ طاقت کے توازن کو کسی حد تک برقرار رکھنے اور اپنی جغرافیائی سلامتی کے لیے ایٹمی صلاحیت حاصل کر کے ایٹم بم بنانا اب ناگزیر ہوچکا ہے۔
پاکستان کی ایٹمی ٹیکنالوجی میں اہم پیش رفت جولائی 1976ء میں ڈاکٹرعبد القدیر خان کی وطن آمد کے بعد ہوئی۔ ہمیں انتہائی حیرت اور افسوس ہوا کہ 2025ء میں یومِ تکبیر کے موقع پر حکومتی اور ریاستی اداروں کی جانب سے دیے گئے کسی اشتہار میں محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی تصویر تو کُجا، نام تک نہ دیا گیا۔ نہ جانے حکم کہاں سے آیا تھا! بہرحال، ذولفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں ڈاکٹرعبدالقدیر خان کے زیرِ قیادت کام کا آغاز ہوا۔ ابتدائی چند سالوں میں پاکستان کو بے پناہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستان کے لیے جرمنی، فرانس اور کینیڈا کی بلیک مارکیٹس سے جوہری ٹیکنالوجی سے متعلقہ حساس ترین آلات خریدنا اور ان کو پاکستان منتقل کرنا اہم ترین مسئلہ تھا۔خاص طورپر امریکہ نے قانون سازی اور دیگر ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان کو خوب ڈرایا دھمکایا اور نہ صرف پاکستان بلکہ فرانس، جرمنی اور کینیڈا پر بھی پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی پیش رفت میں سہولت کاری کرنے پرپابندیاں عائد کر دیں۔پاکستان کے سابق سفارت کار جمشید مارکرنے اپنی کتاب ’’خاموش سفارت کاری: پاکستانی سفیر کی یادداشتیں‘‘ میں انکشاف کیا ہے کہ یورنیم افزودگی کا معیار پرکھنے والا آلہ سپکٹرو میٹر اور ٹریشئم ٹیکنالوجی سمیت اور بہت سے حساس آلات امریکی پابندیوں کے باوجود جرمنی نے پاکستان کو فروخت کیے۔ علاوہ ازیں امریکی کانگریس نےامریکی صدر کو اس بات کا پابند بنا دیا کہ وہ پاکستان کو فوجی امداد جاری کرنے کے لیے ہر سال کانگرس میں ایک سرٹیفکیٹ جمع کروائیں گے جس میں یہ درج ہوگا کہ پاکستان ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کے حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں کر رہا۔ اکثر تجزیہ نگاروں کے نزدیک ذوالفقار علی بھٹو کا انجام بھی امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کی دھمکی کے باوجود یہ جرأت کرنے پر ہوا۔ واللہ اعلم! البتہ اسی دوران قدرت پاکستان پر مہربان ہوئی اور دسمبر 1979ء میں سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کی حماقت کر ڈالی۔پھر کیا تھا... افغان جہاد میں سوویت یونین کو شکست دینے کے لیے پاکستان امریکہ کے لیے ناگزیر حیثیت اختیار کر گیا۔ پاکستان ہی مجاہدین کا وہ بیس کیمپ تھا جہاں سے افغان سرزمین پر قابض سوویت فوج کے خلاف جہاد جاری تھا۔ افغان جہاد ہمارا اس تحریر کا موضوع نہیں البتہ یہ بات اپنی جگہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ دسمبر1979ء سے 1989ء کے دوران پاکستان دنیا بھر کی بلیک مارکیٹوں سے ایٹمی ہتھیار بنانے کے لیے درکار پرزے حاصل کرتا رہا اور اللہ تعالیٰ کی نصرت اس طرح بھی ہمارے شامل حال رہی کہ امریکی صدرہر سال کانگرس میں ایک جھوٹا سرٹیفکیٹ جمع کرواتاکہ پاکستان ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کے حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں کر رہا ، لہٰذا اُس کی فوجی امداد کو جاری رکھا جائے۔ گویا امریکہ جانتے بوجھتے کہ پاکستان ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے سے قریب تر ہو رہا ہے، اُس کے ایٹمی سائنس دانوں اور اس پراجیکٹ سے وابستہ ہر فرد اور شعبہ کی جاں فشاں محنت سے یورینیم اور پلوٹونیم کی افزودگی اور ایٹم بم بنانے کے مختلف مراحل کو تیزی سے طے کر رہا ہے ، نظریں چرانے پر مجبور رہا۔ نہ صرف یہ بلکہ بھارت کو پاکستان کے خلاف کسی تخریبی کارروائی سے بھی روکے رکھا۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان مرحوم کے زیرِ قیادت ذوالفقار علی بھٹو کے دور سے شروع کیے گئے ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے اور ایٹم بم بنانےکے اس پراجیکٹ پر پاکستان کے کسی حکمران نے ذرا برابر سمجھوتہ نہیں کیا۔ حالات و واقعات کی یہ تدریج یقیناً ایک معجزہ تھی۔ اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص نصرت نہ کہا جائے تو اور کیا کہیں؟لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یومِ تکبیر محض اسی تک محدود ہے کہ ہم بھارت کی جانب سے کسی ایٹمی حملے سے محفوظ ہو جائیں؟ اگرچہ ایٹمی طاقت بننے سے دشمن پر ہماری دھاک بیٹھ گئی جس کا مظاہرہ حالیہ پاک بھارت جھڑپوں اور آپریشن ’’بُنْیَانٌ مَّرْصُوْصٌ‘‘ میں بھی دیکھنے میں آیا ۔ لیکن تکبیرِ رب کے تقاضے اس سے بڑھ کر ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ دینی اصطلاحات کا اطلاق محض کسی سیاسی یا عسکری ہدف کو حاصل کرنے سے آگے بڑھ کر نظریاتی اور عملی سطح پر ایمان، تقویٰ، جہاد اور ملک کے انفرادی و اجتماعی نظام یعنی زندگی کے ہر گوشے پر بدرجہ اتم ہوتا ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ دشمن سے مقابلے کے وقت تو تکبیر کا نعرہ لگایا جائے لیکن مملکت کا حال یہ ہو کہ خلافِ قرآن و سنت قوانین بنائے جارہے ہوں اور معیشت کی بنیاد سود پر رکھ کر اللہ اور اس کے رسولﷺ کے ساتھ جنگ بھی جاری ہو۔ یہ تکبیرِ رب کیسے ہو سکتی ہے۔بقول اقبال؎
رہ گئی رسم اذاں‘ روح بلالیؓ نہ رہیفلسفہ رہ گیا‘ تلقین غزالیؒ نہ رہیاہلِ ایمان کے لیے تو اللہ کی بڑائی یعنی اسلام کے نظام عدل اجتماعی کا نفاذ انفرادی و اجتماعی زندگی کے تمام گوشوں میں کرنا لازمی ہے۔ یہی 28مئی1998ء کے بعد بھی ہوناچاہیے تھا کہ ہم یومِ تکبیر کے عملی تقاضوں کو پورا کرتے۔ قرآن پاک کی سورۃ المدثر،آیت نمبر3 میں فرمایا: ’’اور اپنے رب کو بڑا کرو !‘‘ غور کیجیے ! رب کو بڑا کرنے کا کیا مطلب ہے ؟ وہ تو اپنی ذات میں خود ہی سب سے بڑا ہے ۔ ہم انسان اس کو بھلا کیا بڑا کریں گے ؟ اس کا مطلب دراصل یہ ہے کہ اس زمین میں اللہ تعالیٰ کی بڑائی عملاً تسلیم نہیں کی جارہی۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو محدود اختیار عطا فرمایا تھا، اس کے بل پر اس نے اسی کے خلاف علم بغاوت بلند کردیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ دنیا میں ہر جگہ ظلم اور فساد کا بازار گرم ہوگیا ہے ۔ چنانچہ اب جو کوئی بھی اللہ کو اپنا الٰہ اور اپنا رب مانتا ہے ‘ اس پر لازم ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی پارٹی حزب اللہ کا ممبر اور اس کی فوج کا سپاہی بن کر لوگوں سے اس کی بڑائی کو منوانے اور اس کی کبریائی کو عملی طور پر دنیا میں نافذ کرنے کی جدوجہد میں اپنا تن، من اور دھن کھپا دے ‘ تاکہ اللہ کی بات سب سے اونچی ہو۔ یہ ہے ’’ تکبیر ِرب ‘‘ یا رب کو بڑا کرنے کے مفہوم کا خلاصہ۔‘‘ (حوالہ: بیان القرآن، تفسیر سورۃ المدثر آیت:3) لیکن صد افسوس کہ ہم اللہ کی تکبیر کا نعرہ تو بڑا اونچا اور زور سے لگاتے ہیں لیکن عملی طور پر اِس مملکت خداداد جسے اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا اُس میں باطل کا نظام قائم و نافذ ہے۔ ملک میں کھلم کھلا قرآن و سنت کے خلاف قانون سازی ہو رہی ہے اور ہمارے ماتھے پر شکن تک نہیں آتی۔ یہ اللہ کی بڑائی کا کیسا دعویٰ ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی بقاء اور سلامتی بھی نظریۂ پاکستان، جو درحقیقت نظریۂ اسلام ہی ہے، کی عملی تعبیر میں مضمر ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے حکمرانوں اور مقتدر طبقات کو یومِ تکبیر کا مفہوم ٹھیک ٹھیک سمجھ کرملکِ عزیز میںاسلام کے نظامِ عدلِ اجتماعی کو مکمل طور پر قائم و نافذ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
tanzeemdigitallibrary.com © 2025