پاکستان کو حقیقی معنوں میں بُنْیَانٌ مَّرْصُوْصٌ بنانے کی ضرورت
(قرآن و حدیث کی روشنی میں )
مسجد جامع القرآن قرآن اکیڈمی ڈیفنس کراچی میں امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ حفظ اللہ کے23مئی 2025ء کے خطاب جمعہ کی تلخیص
خطبہ ٔمسنونہ اور تلاوتِ آیاتِ قرآنی کے بعد!
مملکتِ خداداد پاکستان کے دفاع کے لیے بُنْیَانٌ مَّرْصُوْصٌ کے عنوان سے آپریشن کیا گیا ، اللہ تعالیٰ نے مدد کی اور قوم نے بھی یکجہتی اور اتحاد کا مظاہرہ کیا ۔ الحمد للہ۔ قرآن مجید کی وہ آیت جہاں بُنْیَانٌ مَّرْصُوْصٌ کے الفاظ ہیں اُس میں مومنین سے خطاب ہے :
{اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِہٖ صَفًّا کَاَنَّہُمْ بُنْیَانٌ مَّرْصُوْصٌ(4)} ’’اللہ کو تو محبوب ہیں وہ بندے جو اُس کی راہ میں صفیں باندھ کر قتال کرتے ہیں ‘ جیسے کہ وہ سیسہ پلائی دیوار ہوں۔‘‘
قتال کا اصل مقصد اللہ کی رضا اور اُس کے دین کی سربلندی ہوتاہے اور اس کے لیے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بننے کا تقاضا ہے ۔ مملکتِ خداداد پاکستان کو اسی مقصد کے لیے حاصل کیا گیا تھا کہ یہاں اللہ کے دین کی سربلندی پر مبنی نظام قائم کیا جائے گا۔ اس کے دفاع کے لیے بُنْیَانٌ مَّرْصُوْصٌ کے نام سے آپریشن کا کیا جانا خوش آئند ہے لیکن اس سے آگے بڑھ کر پاکستان کو بُنْیَانٌ مَّرْصُوْصٌ بنانا بھی ہماری ذمہ داری ہے ۔یہ تو اللہ کا فضل ہوا کہ آپریشن بُنْیَانٌ مَّرْصُوْصٌ کامیاب ہوا ، آج افواج کے لوگ بھی کہہ رہے ہیں کہ اللہ نے پاکستان کو بچایا ہے ۔ ایسی صورت میںہم پر لازم ہے کہ اللہ کی طرف رجوع کریں ، اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں پر اللہ سے معافی مانگیں اور آئندہ کے لیے سچی توبہ کریں ۔
توبہ و استغفار کے الفاظ ہمیشہ ایک ساتھ آتے ہیں۔ استغفار کے معنی ہیں : سابق گناہوں کی معافی مانگنا اورتوبہ پلٹنے کا نام ہے ۔ یعنی سرکشی اور گناہ کے راستے کو چھوڑ کر اللہ کی فرمانبرداری کی طرف پلٹنا ۔ آئندہ کے لیے، سرکشی اور گناہوں سے پرہیز کرنا ۔ اللہ کے پیغمبروں کی دعوت کے بنیادی نکات میں توبہ و استغفار بھی ہے۔جیسے سورۃ ہود میں فرمایا :
{وَّاَنِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوْبُوْٓا اِلَیْہِ یُمَتِّعْکُمْ مَّتَاعًا حَسَنًا اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی وَّیُؤْتِ کُلَّ ذِیْ فَضْلٍ فَضْلَہٗ ط} ’’اور یہ کہ اپنے رب سے استغفار کرو‘پھر اُس کی جناب میں توبہ کرو‘وہ تمہیں (دُنیوی زندگی میں) مال و متاع دے گا بہت اچھاایک وقت ِمعین ّتک اور ہر صاحب فضل کو اُس کے حصے کا فضل عطا کرے گا۔‘‘(آیت:3)
اللہ کے آخری رسول ﷺ نے اُمت کو جو دعائیں تعلیم فرمائی ہیں ان میں بھی اکثر توبہ و استغفار کے کلمات ایک ساتھ آتے ہیں ۔ جیسا کہ :
((اَسْتَغْفِرُ اللهَ رَبِّىْ مِنْ کُلِّ ذَنبٍ وَّاَتُوْبُ اِلَيْهِ))’’میں اللہ سے اپنے تمام گناہوں کی بخشش مانگتا ہوں جو میرا رب ہے اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔ ‘‘
((اَسْتَغْفِرُ اللهَ الَّذِي لَا إلٰهِ إلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقيُّومُ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ))’’میں اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کرتا ہوں، جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ زندہ ہے، قائم رکھنے والا ہے اور میں اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں ۔ ‘‘
یہ بھی ذہن میں رہنا چاہیے کہ استغفار صرف گناہوں پر ہی نہیں بلکہ عام حالات میں بھی کرنا چاہیے ۔ یہاں تک کہ ہرفرض نماز کے بعد بھی اللہ کے رسول ﷺ کی زبان مبارک پر یہ کلمات جاری رہتے تھے :((اَللہُ اَکْبَرُ اَسْتَغْفِرُاللہِ اَسْتَغْفِرُاللہِ اَسْتَغْفِرُاللہِ ))
آپ ﷺ سے بڑھ کر کون متقی ہوگا اور آپ ﷺ کی نماز سے بڑھ کر کس کی نماز عمدہ ہو گی لیکن اس کے باوجود آپ ﷺ ہر نماز کے بعد یہ کلمات ادا فرماتے جن کا مقصد اللہ کے سامنے عاجزی کا اظہار کرنا تھا کہ میں تیرا حکم بجالایا لیکن اس میں کوئی کمی کوتاہی رہ گئی ہو تو مجھے معاف فرمانا۔ اگر حضورﷺ اس قدر عاجزی کے ساتھ استغفار کر رہے ہیں تو اُمت کو کس قدر استغفار کی ضرورت ہوگی ؟
اس متواتر سنت کا ایک مقصد اُمت کو تعلیم دینا بھی تھا لیکن آج اُمت اس تعلیم کو بھول چکی ہے ۔ لہٰذا آج اُمت جن مصائب اور آلام کی شکار ہے اُن کی بنیادی وجہ ہمارے انفرادی اور اجتماعی اعمال بھی ہیں ۔ سورۃ الشوریٰ میں فرمایا :
{وَمَآ اَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِیْبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَیْدِیْکُمْ وَیَعْفُوْا عَنْ کَثِیْرٍ (30)} ’’اور تم پر جو بھی مصیبت آتی ہے وہ درحقیقت تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی(اعمال) کے سبب آتی ہے اور (تمہاری خطائوں میں سے) اکثر کو تو وہ معاف بھی کر تا رہتا ہے۔‘‘ (ـ30)
سورۃالر وم میں فرمایا :
{ظَہَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ لِیُذِیْقَہُمْ بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ(41)} ’’بحر و بر میں فساد رونما چکا ہے‘لوگوں کے اعمال کے سبب‘تا کہ وہ انہیں مزہ چکھائے ان کے بعض اعمال کا‘تا کہ وہ لوٹ آئیں۔‘‘
آج اگر ہم انفرادی اور اجتماعی سطح پر ان تمام مسائل اور مصائب سے نکلنا چاہتے ہیں تو سچی توبہ کرنی ہوگی ۔ یعنی گناہوں کو چھوڑنا ہوگا ۔ گناہوں کا تعلق حقوق اللہ سے بھی ہوتا ہےاور حقوق العباد سے بھی ہوتا ہے۔ یہ غلط تصور ہے کہ اللہ اپنے حقوق معاف کردے گا،بس بندوں کے حقوق کا خیال ضروری ہے (معاذاللہ ) ۔ اس باطل تصور کے تحت اللہ کے احکامات سے کھلواڑ کیا جاتاہے ، اللہ کی شریعت کو پامال کیا جاتا ہے ۔ حالانکہ جس رب العالمین نے قرآن میں ماں باپ ، اولاد ، پڑوسیوں ، یتیموں ، مسکینوں کے حقوق کا تعین کیا ہے اُسی رب نے نماز ، روزہ، زکوٰۃ اور حج کو بھی فرض کیا ہے ۔ لہٰذا اس غلط تصور کے تحت حقوق اللہ کی اہمیت کو کم کرنا بھی سرکشی اور بغاوت ہے۔ اس میں شک نہیں کہ حقوق العباد کی حساسیت کو رسول اللہ ﷺ نے خود بیان فرمایا ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اللہ کے احکامات توڑے جائیں ۔ سورۃ المدثر میں بیان ہے کہ جنتی جہنم میں جانے والوں سے پوچھیں گے کہ کس چیز نے تمہیں جہنم میں پہنچایا۔ وہ کہیں گے :
’’ ہم نماز پڑھنے والوں میں سے نہیں تھے اور نہ ہم مسکین کو کھانا کھلاتے تھےاور ہم کٹ حجتیاں کرنے والوں کے ساتھ مل کر کٹ حجتیاں کیا کرتے تھے۔‘‘(42تا45)
یہاں حقوق اللہ کا ذکر پہلے ہے اور اس کے بعد حقوق العباد کا ہے ۔ یہاں یہ بھی ذکر ہے کہ اللہ کے احکام سے کھلواڑ کرنے والوں کا انجام کیا ہونا ہے ۔ آخرت کی اس رسوائی سے بچنے کا راستہ بھی اللہ تعالیٰ خود قرآن میں بتا رہا ہے :
’’اے اہل ایمان! توبہ کرو اللہ کی جناب میں خالص توبہ۔امید ہے تمہارا رب تم سے تمہاری برائیوں کو دور کردے گااور تمہیں داخل کرے گا ایسے باغات میں جن کے دامن میں ندیاں بہتی ہوں گی‘جس دن اللہ اپنے نبی(ﷺ) کو اور ان کے ساتھ ایمان لانے والوں کو رسوا نہیں کرے گا۔‘‘( تحریم :8ٗ)
سچی توبہ کی کچھ شرائط ہیں ۔ (1)۔ دل میں گناہوں پر پچھتاوا ہو (2)۔ زبان پر توبہ واستغفار کے کلمات جاری ہوں ، (3)۔ آئندہ کے لیے گناہوں سے بچنے کا پختہ عزم ہو ۔ قرآن مجید میں بہترین دعائیں نقل ہوئی ہیں ۔ مثال کے طور پر سورۃ الاعراف میں حضرت آدم و حوا ؊ کی دعا نقل ہوئی :
{قَالاَ رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَاسکتۃ وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ(23)} ’’(اس پر) وہ دونوں پکار اُٹھے کہ اے ہمارے رب ہم نے ظلم کیا اپنی جانوں پر‘ اور اگر تونے ہمیں معاف نہ فرمایا اور ہم پر رحم نہ فرمایا تو ہم تباہ ہونے والوں میں سے ہو جائیں گے۔‘‘
حضرت ابرہیم علیہ السلام کی دعا یوں نقل ہوئی :
{رَبَّنَا اغْفِرْلِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ یَوْمَ یَقُوْمُ الْحِسَابُ(41)}(ابراہیم)’’اے ہمارے پروردگار! مجھے‘میرے والدین اور تمام مؤمنین کو بخش دے‘ جس دن حساب قائم ہو۔‘‘
سورۃ الانبیاء میں یونس علیہ السلام کی دعا نقل ہوئی :
{اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰنَکَ ق اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ(87)} ’’کہ تیر ے سوا کوئی معبود نہیں ‘تو پاک ہے اور یقیناً میں ہی ظالموں میں سے ہوں۔‘‘
سورۃ البقرہ کے آخر میں مومنین کی دعا بھی نقل ہوئی :
’’اے ہمارے ربّ! ہم سے مؤاخذہ نہ فرمانا اگر ہم بھول جائیں یا ہم سے خطا ہو جائے۔‘‘
دل میں گناہوںپر ندامت ہو اور زبان پر یہ دعائیں ہوں ، اگر آنکھوں میں آنسو بھی ہوںتو نورٌ علٰی نور والی بات ہے ۔ حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ روزِقیامت سات قسم کے افراد کو اپنے عرش کے سائے میں جگہ دے گا، ان میں سے ایک وہ ہوگا جو تنہائی میں اللہ کے خوف سے رویا اور اس کے آنسو نکل گئے۔ایک اور حدیث میں ہے کہ جس کی آنکھوں میں اللہ کے خوف سے آنسو طاری ہو جائیں اس کے گناہ ایسے جھڑ جاتے ہیں جیسے خزاں کے موسم میں درختوں سے پتے جھڑتے ہیں ۔ پھر یہ کہ آئندہ کے لیے گناہوں سے کنارہ کشی کر لے تو یہ سچی توبہ ہوگی ۔ سیدنا علی نے فرمایا:اب تک گناہوں میں اپنے اپ کو تم نے مبتلا رکھا، تمہاری روح آلودہ ہو گئی ۔ اب اپنے آپ کواللہ کی اطاعت اور عبادت میں لگاؤ کھپاؤ تاکہ تمہاری روح بھی پاک ہو سکے ۔ توبہ اصل میں روح کا غسل ہے ۔ اللہ تعالیٰ خود بھی پاک ہے اور پاکیزگی کو پسند فرماتاہے ۔ اللہ کے رسول علیہ السلام فرماتے ہیں:
((اَلتَّائِبُ مِنْ الذَّنْبِ كَمَنْ لَا ذَنْبَ لَهٗ))’’سچی توبہ کرنے والا شخص ایسا ہو جاتاہے جیسے کوئی گناہ کیا ہی نہ ہو ۔ ‘‘
اللہ تعالیٰ ہم سب کو توبہ کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین !
جس طرح انفرادی سطح پر نجات کے لیے توبہ ضروری ہے ، اسی طرح اجتماعی سلامتی اور بقاء کے لیے اجتماعی توبہ بھی ضروری ہے ۔ کیونکہ بہت سی غلطیاں ہم سے اجتماعی سطح پر بھی ہوئی ہیں ۔ اس ملک کو ہم نے اس لیے حاصل کیا تھا کہ یہاں اللہ کے دین کو نافذ کریں گے مگر 77 سال ہو گئے اللہ کے دین سے روگردانی کرتے ہوئے ۔ لازم ہے کہ اس پر اجتماعی توبہ کریں اور اللہ کے دین کے نفاذ کے لیے اجتماعی جدوجہد کریں ۔ یہی ہماری اجتماعی توبہ ہوگی ۔ بجائے اس کے اگر ہم سود کا دھندا جاری رکھیں گے ، شریعت کے اعمال کو پامال کریں گے، اللہ تعالیٰ کے احکامات کے ساتھ کھلواڑ کریں گے تو کیا اللہ کی مدد اور حمایت ہمیں حاصل ہو گی ؟حالیہ دنوں میں ہی قومی اسمبلی اور سینٹ میں بل پاس کیا گیا ہے جس میں اللہ کی شریعت کو پامال کرتے ہوئے 18 سال سے کم عمر میں شادی پر پابندی عائد کر دی گئی ہے ، جبکہ دوسری طرف ٹرانسجینڈر ایکٹ پاس کرکے ہم جنس پرستی کے راستے اس سے قبل کھولے جا چکے ہیں ۔ پھر یہ کہ 1991ء میں وفاقی شرعی عدالت نے سود کے خلاف فیصلہ دیا تھا لیکن اس پر عمل درآمد کرنے کی بجائے فیصلہ شریعت اپیلٹ بنچ میں چیلنج کر دیا گیا اور آج تک اللہ اور اس کے رسول وﷺکے خلاف جنگ کو ہم ختم نہیں کر رہے ۔ کیا اللہ کے ساتھ جنگ کرکے ہم سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن سکتے ہیں ؟
’’ پاکستان کا مطلب کیا : لاالٰہ الااللہ ‘‘ یہی نعرہ لگا کر ہم نے پاکستان حاصل کیا تھا۔ لہٰذا اگر پاکستان کو بُنْیَانٌ مَّرْصُوْصٌ بنانا ہے تو لاالٰہ الا اللہ کو عملی طور پر نافذ کرنا ہوگا۔ بجائے اس کے آپریشن بُنْیَانٌ مَّرْصُوْصٌ کی کامیابی پر گانا بجانا ہورہا ہے ، میمز بن رہی ہیں ، تکبر اور گھمنڈ کا مظاہرہ ہو رہا ہے جوکہ غلط بات ہے ۔ اظہار تشکر کا اصل تقاضا یہ ہے کہ ہم اللہ سے رجوع کریں ، اپنے سابقہ گناہوں کی بخشش طلب کریں اور آئندہ کے لیے انفرادی اور اجتماعی طور پر اللہ کے رسول ﷺ کے حقیقی اُمتی بننے کی کوشش کریں ۔ اللہ کے رسول ﷺ فتح مکہ کے موقع پر جب مکہ میں داخل ہو رہے تھےتو عاجزی کی وجہ سے آپ ﷺ پیشانی مبارک اونٹ کے کجاوے پر جھکی ہوئی تھی ۔ سوچئے کہ ہمیں کس قدر عاجزی کے ساتھ رب کا شکرانہ ادا کرنا چاہیے ۔ ایک طرف انڈیا اور اسرائیل تھے جن کے ساتھ مقابلے کا کوئی توازن ہی نہیں تھا ، ان کی پشت پر امریکہ بھی تھا ۔ لیکن اس کے باوجود اللہ نے ہمیں فتح عطا فرمائی ۔ لہٰذا ہمیں اللہ کے شکر گزار بندے بننے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں یہ بھی حکم فرماتاہے :
{وَاَعِدُّوْا لَہُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ وَّمِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ} ’’اور تیار رکھو اُن کے (مقابلے کے ) لیے اپنی استطاعت کی حد تک طاقت اور بندھے ہوئے گھوڑے۔‘‘( الانفال : 60 )
یہ ہم پر واجب ہے کہ عسکری سطح پر جو تیاری اور وسائل درکار ہیں اپنی بساط کے مطابق ان کا انتظام کریں ۔ اس کے علاوہ جہاں بیرونی دشمنوں سے چوکنا رہنے کی ضرورت ہے وہاں ملک کے اندرونی استحکام پر بھی توجہ دینے کی ضرور ت ہے ۔ بھارت پاکستان میں دہشت گردی میں بھی ملوث ہے ۔ لہٰذا اندرونی استحکام کے لیے ضروری ہے کہ اندرونی طور پر جو نفرتیں اور تعصبات پھیل رہے ہیں ان کو کم کریں ۔ بلوچستان ، افغانستان اور خیبر پختونخواکے لوگوں کو شکایت کا موقع نہ دیں ۔ ڈاکٹر اسراراحمدؒ فرمایا کرتے تھے کہ ملک کی افواج کا ایک طے شدہ آئینی کردار موجود ہے اس کے مطابق وہ ملک کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کریں ۔ اگر افواج اس آئینی کردار کے اندر رہیں گی تو عوام کے اندر ان کی عزت بڑھے گی اور قوم ان کا ساتھ بھی دے گی ۔ جس طرح حالیہ واقعہ میں بھی ہم نے دیکھا کہ قوم نے یکجہتی کا مظاہرہ کیا ۔ ملک کا نظام چلانا جن کا کام ہے ان کے سپرد کردینا چاہیے۔ اگر ریاستی ادارے اپنی آئینی حدود سے باہر نکل کر دوسروں کے کام میں مداخلت کریں گے تو اس سے ملک میں نفرتیں بڑھیں گی اور بھارت جیسے دشمن ان سے فائدہ اُٹھائیں گے۔ سب سے بڑھ کر اہم یہ ہے کہ پاکستان کلمہ طیبہ : لا الٰہ الا اللہ کی بنیاد پر حاصل کیا گیا اور اسی بنیاد پر مختلف نسلوں ، زبانوں ، علاقوں اور رنگوں کے لوگ مل کر پاکستانی قوم بنے تھے ۔ اگر ہم کلمہ طیبہ کا نفاذ عملی طور پر کریں گے تو ہم بحیثیت پاکستانی قوم متحد و منظم رہیں گے اور حقیقی معنوں میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں گے ۔
18سال سے کم کی شادی پر پابندی کا بل
پاکستان کی قومی اسمبلی اور سینٹ میں ایک بل پاس کیا گیا ہے جس کے مطابق 18 سال سے کم عمر کی شادی کو غیرقانونی قرار دیا گیا ہے ۔ اگر 18 سال سے کم عمر میں کسی کی شادی کی جائے گی تو نکاح خواں ، گواہوں اور رجسٹریشن کرنے والوں کے خلاف مقدمہ درج ہوگا اور انہیں سزا دی جائے گی ۔ صدر کے دستخط کے بعد یہ بل قانون بن جائے گا ۔
مغربی ایجنڈے کو سپورٹ کرنے اور سیکولر ذہنیت رکھنے والے کچھ لوگ اور نام نہاد ہیومن رائٹس کے چیمپئن کہلانے والے جن کو عام طور پر میڈیا میں آنے کا موقع زیادہ مل جاتا ہے وہ اس غیر شرعی قانون کی حمایت میں پھلجھڑیاں چھوڑ رہے ہیں ۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ کم عمری میں شادی ہوگی تو زچگی کے مسائل پیدا ہوں گے ۔ کیا یہ مسائل زیادہ عمر کی خواتین کو درپیش نہیں ہو تے ؟ایک جج صاحب نے پھلجھڑی چھوڑی کہ ہر انسان کا حق ہے کہ وہ 18 سال تک تعلیم حاصل کرے اور اس کے بعد شادی کرے ۔ کل اگر بنیادی تعلیم کا لیول 24 پر چلا جائے تو کیا آپ 24 سال تک شادی پر پابندی لگا دیں گے ؟ کیا شادی کے بعد تعلیم حاصل نہیں کی جا سکتی ؟
اس بل کا پاس ہونا شریعت کی کھلی خلاف ورزی ہے ۔ قرآن مجید میں سورۃ الطلاق میں اور احادیث مبارکہ میں واضح ہدایت ہے کہ جب لڑکا یا لڑکی بالغ ہو جائیں تو ان کی شادی کر دی جائے۔ بالغ ہونے کی اوسط عمر 13سے 14 سال تک ہے ۔رسول اکرم ﷺ کے دور میں کئی صحابہ اور صحابیات؇ کی شادیاں 18 سال سے کم عمر میں ہوئی ہیں ۔ اسلام ایک فطری دین ہے اور قانون فطرت انسان کی بھلائی کے لیے ہے ۔ مگر آج ہم اسلامی قوانین کو توڑنے میں لگے ہوئے ہیں ۔ ایک طرف ہم بُنْیَانٌ مَّرْصُوْصٌ کے الفاظ قرآن سے لے رہے ہیں اور دوسری طرف قرآن کی تعلیمات کے خلاف اسمبلی میں بل پاس کر رہے ہیں ۔ کیا ایسے طرزعمل کے ساتھ ہم بُنْیَانٌ مَّرْصُوْصٌ بن سکتے ہیں ؟
{اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتٰبِ وَتَـکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ ج} (البقرہ:85) ’’تو کیا تم کتاب کے ایک حصے کو مانتے ہو اور ایک کو نہیں مانتے؟‘‘
یہ تقسیم اگر تم کرتے ہو تویہ ناقابل قبول ہے اور اس پر سزا ہے ۔ فرمایا :
{فَمَا جَزَآئُ مَنْ یَّـفْعَلُ ذٰلِکَ مِنْکُمْ اِلَّا خِزْیٌ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَاج وَیَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یُرَدُّوْنَ اِلٰٓی اَشَدِّ الْعَذَابِط وَمَا اللہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ(85)} ’’تو نہیں ہے کوئی سزا اس کی جو یہ حرکت کرے تم میں سے‘ سوائے ذلت و رسوائی کے دنیا کی زندگی میں۔اور قیامت کے روز وہ لوٹا دیئے جائیں گے شدید ترین عذاب کی طرف۔اور اللہ غافل نہیں ہے اُس سے جو تم کر رہے ہو۔‘‘
خدارا! ہماری حکومت اورمقتدر طبقات اس بات کااحساس کریںکہ اللہ کے ساتھ بغاوت اور سرکشی کرکے اللہ کی مدد نہیں ملے گی ۔ اللہ فرماتاہے :
{اِنْ تَنْصُرُوا اللہَ یَنْصُرْکُمْ وَیُثَبِّتْ اَقْدَامَکُمْ(7)} ’’اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا اور وہ تمہارے قدموں کو جما دے گا۔‘‘
اللہ کے دین سے بغاوت کرکے ہم اللہ کی مدد حاصل نہیں کر سکتے ۔اس طرح کی قانون سازیاں اکثر بیرونی ایجنڈے کے تحت ہوتی ہیں اور عوامی رائے ، علماء کرام اور اسلامی نظریاتی کونسل کی آراء کو نظرانداز کرتے ہوئےعجلت میں ایسے قوانین پاس کیے جاتے ہیں ۔ جس کا خمیازہ پورے معاشرے کو تباہی کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فیصلہ سازوں کو ہدایت دے ۔ آمین !
فلسطین کی پکار
فلسطین اور غزہ کوہم بھولتے جارہے ہیں۔ آج اقوام متحدہ کاسیکرٹری جنرل بھی چلا رہا ہے ،فرانس اور دیگر یورپی ممالک بھی چلا رہے ہیں کہ اسرائیل اہل غزہ کو بھیجی جانے والی امداد کو اہل غزہ تک نہیں پہنچنے دے رہا ۔ اہل غزہ کو قحط جیسی صورتحال کا سامنا ہے ، اہل غزہ پانی کی بوندبوند کو ترس رہے ہیں ۔ بھوک اور پیاس سے بچے شہید ہورہے ہیں ۔ دوسری طرف عرب حکمرانوں کا حال یہ ہے کہ ٹرمپ کے دورہ کے موقع پر غیر ت و حمیت کا جنازہ نکالا گیا ، امریکہ کو خوش کرنے کے لیے اربوں کے تحائف دئیے گئے اور کھربوں کے معاہدے کیے گئے ۔ روز قیامت اللہ کو کیا جواب دیں گے کہ اہل غزہ کے لیے پانی کی ایک بوتل نہیں مہیا کر سکتے اور دوسری طرف ؟اللہ سب کو ہدایت دے ۔
پاکستان کے وزیراعظم آذر بائیجان جارہے ہیں ، ترکیہ جارہے ہیں اور دیگر ممالک کے دورے کررہے ہیں ، کیا وہ مسلم ممالک کا دورہ کرکے انہیں غزہ اور مسجد اقصیٰ کے حوالے سے غیرت نہیں دلا سکتے ؟ کچھ تو اُمتی ہونے کا احساس کرلو ۔ مسلم دنیا پاکستان کی جانب دیکھ رہی ہے ۔ اسرائیل بھی پاکستان کو اپنا دشمن سمجھتا ہے ۔ احادیث میں لکھا ہے کہ خراسان سے اسلامی لشکر جائے گا اوریروشلم میں جاکر دجالی افواج کے خلاف لڑے گا ۔قدرت ہمیں جو کردار دینا چاہتی ہے ، اس کا بھی یہی تقاضا ہے کہ ہم اسلام کی طرف پیش قدمی کریں ۔ صرف اسی صورت میں ہم سچے اُمتی بن سکتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سچااُمتی بننے کی توفیق عطافرمائے ۔ آمین !
tanzeemdigitallibrary.com © 2025