عید ِقربان اور اُسوئہ ابراہیمی ؑقرآن حکیم کی روشنی میںڈاکٹر اسراراحمد ؒ
حج اور عید الاضحی دونوں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شخصیت ہی کے گرد گھومتے ہیں، جن کی تعظیم و تکریم روئے زمین کے بسنے والوں کی دو تہائی تعداد کرتی ہے اور ان دونوں کے مراسم و مناسک ان کی حیات طیبہ کے بعض واقعات کی یادگار ہی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ حضرت ابراہیم d کے طویل سفرِ حیات کا لب لباب اگر ایک لفظ میں بیان کیا جائے تو وہ ہے : ’’امتحان و آزمائش‘‘ جس کے لئے قرآن حکیم کی اپنی جامع اصطلاح ’’ابتلاء‘‘ ہے۔ چنانچہ سورۃ البقرہ میں ان کی پوری داستان حیات کو ان چند الفاظ میں سمو دیا گیا ہے ’’اور جب آزمایا ابراہیمؑ کو اس کے رب نے بہت سی باتوں میں تو اس نے ان سب کو پورا کردکھایا۔‘‘ (آیت:124) سورۃ الملک کی ابتدائی آیات میں فرمایا: ’’وہ جس نے پیدا کیا موت اور زندگی کو کہ تمہیں آزمائے کہ کون ہے تم میں سب سے اچھا عمل کے اعتبار سے۔‘‘ (آیت:2) بقول علامہ اقبال ؎
قلزمِ ہستی سے تو اُبھرا ہے مانندِ حباب
اس زیاں خانے میں تیرا امتحان ہے زندگی!
انسان کی فلاح و کامیابی کا دارومدار اس پر ہے کہ وہ اپنے خالقِ حقیقی اور پروردگارِ حقیقی کی معرفت حاصل کرے اور اس کی محبت سے سرشار ہوجائے‘ جو گویا امتحان ہے اس کی عقل و خرد کا اور آزمائش ہے اس کے قلب سلیم اور فطرت سلیمہ کی---اور پھر پورے عزم و استقلال اور صبر و ثبات کے ساتھ قائم و مستقیم رہے اس کی اطاعت کلی اور فرمان برداری کامل پر جو کہ گویا امتحان ہے اس کے عزم اور حوصلے کا اور آزمائش ہے اس کی سیرت کی پختگی اور کردار کی مضبوطی کی۔ حضرت ابراہیم d کو بھی سب سے پہلے اسی عقل سلیم اور فطرت سلیمہ کے امتحان سے سابقہ پیش آیا۔ انہوں نے ایک ایسے ماحول میں آنکھ کھولی جس میں ہر طرف کفر اور شرک کے گھٹا ٹوپ اندھیرے چھائے ہوئے تھے اور کہیں بتوں اور مورتیوں کی پوجا ہورہی تھی تو کہیں ستاروں اور سیاروں کو پوجا جارہا تھا۔ اس ماحول میں آنکھ کھولنے اور پرورش پانے والے نوجوان نے جب یہ نعرہ لگایا کہ ’’میں نے تو اپنا رخ پھیر دیا اس ذات کی طرف جس نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو ہر طرف سے یکسو ہوکر اور میں ہرگز اس کے ساتھ شرک کرنے والا نہیں۔‘‘ (الانعام:79) تو کیا آسمان اور زمین وجد میں نہ آگئے ہوں گے اور کون و مکان میں ہلچل نہ مچ گئی ہوگی۔ بقول علامہ اقبال ؎
عروجِ آدمِ خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہ کامل نہ بن جائے!
عقل و فطرت کی اس آزمائش اور معرفت رب کے اس امتحان میں کامیابی کے فوراًبعد ’’استقامت‘‘ کی جانچ پرکھ کا ایک طویل اور جاں گسل سلسلہ شروع ہوگیا ‘ جس میں ہرلحظہ امتحان تھا‘ ہر آن ابتلاء۔ ایک جانب ایک نوجوان تھا اور دوسری جانب پوری سوسائٹی اور پورا نظام۔ گویا ’’کشاکش خس و دریا‘‘ کا دیدنی نظارہ! عزم و ہمت کا وہ کون سا امتحان تھا جو اسے پیش نہ آیا۔ صبر و ثبات کی وہ کون سی آزمائش تھی جس سے وہ دوچار نہ ہوا۔ حوصلہ تحمل و برداشت اور جذبہ ایثار و قربانی کی جانچ پرکھ کا وہ کون سا طریقہ تھا جو اس پر آزمایا نہ گیا۔ گھر سے وہ نکالا گیا۔ معبد میں اس پر دست درازی ہوئی۔ سرعام اس پر ہجوم کیا گیا۔ دربار میں اس کی پیشی ہوئی اور آگ میں وہ ڈالا گیا۔ بقول شاعر
اس راہ میں جو سب پہ گزری ہے سوگزری
تنہا پسِ زنداں کبھی رسواسربازار!
کڑکے ہیں بہت شیخ سرِ گوشۂ منبر
گرجے ہیں بہت اہلِ حکم برسرِ دربار
لیکن نہ کبھی اس کے جوش اور ولولے میں کوئی کمی آئی‘ نہ پائے ثبات میں کوئی لغزش ! باپ سے ’’وَاھْجُرْنِیْ مَلِیًّا‘‘ کی غیظ آمیز جھڑکی کھا کر بھی وہ پورے ادب و احترام اور پورے حلم و وقار کے ساتھ یہ کہتا ہوا رخصت ہوا: ’’تم پر سلامتی ہو! میں اپنے پروردگار سے تمہارے لئے معافی کی درخواست کروں گا‘ حقیقتاً وہ مجھ سے بڑا مہربان ہے اور میں اعلانِ برأت کرتا ہوں تم سب سے بھی اور ان سے بھی جنہیں تم خدا کو چھوڑ کر پکارتے ہو اور میں تو پکاروں گا صرف اپنے پروردگار ہی کو…! مجھے یقین ہے کہ میں اس کو پکار کر بے نصیب نہ رہوں گا۔‘‘ (سورۃ مریم :47،48) دربار میں پیشی ہوئی تو ؎
نہ لاوسواس دل میں جو ہیں تیرے دیکھنے والے
سرِ مقتل بھی دیکھیں گے چمن اندر چمن ساقی!
کے مصداق خدائے واحد و قہار کے پرستار نے دنیوی شان و شوکت‘ جاہ و جلال اور دبدبے اور طنطنے کو ذرہ بھر بھی خاطر میں نہ لاتے ہوئے شہنشاہِ وقت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اعلان کیا: ’’میرا رب وہ ہے جو جلاتا ہے اور مارتا ہے۔‘‘ (البقرہ:258) اور جب ربوبیت والوہیت کے مدعی مغرور نے مناظرانہ رنگ میں کہا: ’’مجھے بھی زندہ رکھنے یا ماردینے کا اختیار حاصل ہے۔‘‘ تو پوری جرأت رندانہ اور شانِ بے باکانہ کے ساتھ ترکی بہ ترکی جواب دیا: ’’تو اﷲ سورج کو مشرق سے نکالتا ہے (تجھ میں کچھ الوہیت ہے) تو تُو اسے مغرب سے طلوع کرکے دکھا۔‘‘ (البقرہ:258) نتیجتاً اس کافر مردود نمرود کے پلے سوائے مرعوبی و مبہوتی کے اور کچھ نہ رہا اور پھر جب پوری قوم ‘ پوری سوسائٹی اور پورے نظام باطل نے اپنی شکست پر جھنجھلا کر اسے آگ کے ایک بڑے الائو میں ڈالنے اور جلا کر راکھ کردینے کا فیصلہ کیا تب بھی اس کے عزم اور ارادے میں کوئی تزلزل نہ آیا اور عشق کی اس بلند پروازی پر وہ عقل بھی انگشت بدنداں رہ گئی جس نے ابتداً اسے خود ہی اس راہ پر ڈالا تھا۔؎
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی!
اور جب خدائے علیم و قدیر نے اسے آگ سے معجزانہ طور پر زندہ و سلامت نکال لیا تو اس نے یہ کہتے ہوئے کہ: ’’میں اپنے رب کی طرف ہجرت کررہا ہوں‘ یقیناًوہ مجھے راہ یاب کرے گا۔‘‘ (اَلصّٰفّٰت :99) گھر بار اور ملک و وطن سب کوخیر باد کہا اور آباء و اجداد کی سرزمین کو باحسرت و یاس دیکھتا ہوا وہ ان دیکھی منزل کی جانب روانہ ہوگیا‘ تاکہ صرف خدائے واحد کی پرستش کرسکے اور محض اسی کے نام کا کلمہ پڑھ سکے! حالانکہ اب زندگی کے اس دور کا آغاز ہوچکا تھا جس میں جوانی کا زور ٹوٹتا ہوا محسوس ہونے لگتا ہے اور بڑھاپے کے آثار شروع ہوجاتے ہیں۔ بقول حالی ؎
ضعفِ پیری بڑھ گیا‘ جوشِ جوانی گھٹ گیا
اب عصا بنوائیے نخلِ تمنا کاٹ کر
حضرت ابراہیم ؑ کی ہجرت کے بعد کی پوری زندگی مسلسل مسافرت و مہاجرت کی داستان ہے۔ آج شام میں ہیں تو کل مصر میں‘ پرسوں شرق اردن میں ہیں تو اگلے روز حجاز میں۔ کوئی فکر ہے تو صرف اس کی اور دھن ہے تو محض یہ کہ توحید کا کلمہ سربلند ہو اور دعوت توحید کے جابجا مراکز قائم ہوجائیں۔ اپنی ان کوششوں میں وہ اس بوڑھے باغبان سے نہایت گہری مشابہت رکھتے ہیں جو جابجا اپنے لئے نہیں بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے باغ لگاتا پھر رہا ہو۔
جب بڑھاپے کے آثار کچھ زیادہ ہی طاری ہوتے محسوس ہوئے اور ادھر یہ نظر آیا کہ اولاد سے تاحال محرومی ہے‘ تو فکر دامن گیر ہوئی کہ میرے بعد اس مشن کو کون سنبھالے گا۔ وطن سے ایک بھتیجے نے ان کے ساتھ ہجرت کی تھی جسے شرقِ اردن میں دعوت توحید کی علم برداری سونپ دی تھی۔ اﷲ سے دُعا کی ’’پروردگار ! نیک وارث عطا فرما۔‘‘ (اَلصّٰفّٰت :100) اور اﷲ کی شان کہ خالص معجزانہ طور پر ستاسی برس کی عمر میں اﷲ نے ایک چاند سا بیٹا عطا فرما دیا اور وہ بھی ایسا جسے خود اﷲ نے ’’غلام حلیم‘‘ قرار دیا۔ جیسے جیسے بیٹا بڑا ہوتا گیا گویا بوڑھے باپ کا نخل تمنا دوبارہ ہرا ہوتا گیا۔ یہ اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں کہ کیسی جذباتی وابستگی بوڑھے باپ کو اس بیٹے سے ہوگی اور کیسی اُمیدیں اس نے اپنے دل میں اس کے ساتھ وابستہ کرلی ہوں گی۔
بیٹا برابر کا ہونے کو آیا تو گویا باپ کا دست و بازو بن گیا اور دونوں نے مل کر توحید کے عظیم ترین مرکز یعنی کعبۃ اﷲ کی دیواریں اُٹھائیں‘ جسے قرآن حکیم نے { بِالْبَیْتِ الْعَتِیْقِ} بھی قرار دیا اور {اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ} کا مصداق بھی۔ یہ مقدس معمارانِ حرم جن جذبات کے ساتھ تعمیر کررہے تھے ان کی عکاسی قرآن حکیم کی ان آیات میں بتمام کمال کی گئی ہے۔ ’’اور جب ابراہیم اور اسماعیل (علیہما السلام) بیت اﷲ کی دیواریں اُٹھا رہے تھے (تو کہتے جاتے تھے) پروردگار ہمارے! قبول فرما ہم سے (ہماری یہ خدمت)‘ یقینا ًتو سب کچھ سننے والا بھی ہے اور سب کچھ جاننے والا بھی۔ اور اے رب ہمارے! بنائے رکھ ہم دونوں کو اپنا فرمانبردار‘ اور اُٹھا ہماری اولاد میں سے ایک فرمانبردار اُمت۔‘‘ (البقرہ:127 ، 128)
ادھر بوڑھا باپ اپنے جوان ہوتے ہوئے بیٹے کو دیکھ دیکھ کر جی رہا تھا‘ اُدھر قدرت مسکرا رہی تھی۔ اس کے ترکشِ امتحان میں ابھی ایک تیر باقی تھا‘ دل کو چھید جانے والا اور جگر سے پار ہوجانے وال تیر! گویا ابھی آخری آزمائش باقی تھی‘ محبت اور جذبات کی آزمائش ‘ اُمیدوں ‘ آرزوئوں اور تمنائوں کا امتحان۔ حکم ہوا اپنے بیٹے کو قربان کردو۔ زمین پر سکتہ طاری ہوگیا‘ آسمان لرز اُٹھا‘ لیکن نہ بوڑھے باپ کے پائے ثبات میں کوئی لغزش پیدا ہوئی ‘ نہ نوجوان بیٹے کے صبر و تحمل میں کوئی لرزش! دونوں نے سر تسلیم خم کردیا۔ یہ دوسری بات ہے کہ عین آخری لمحے پر رحمتِ خداوندی حکمتِ امتحان پر غالب آگئی اور بوڑھے باپ کی امتحان میں کامیابی کا اعلان کردیا گیا۔ بغیر اس کے کہ وہ اپنے اکلوتے بیٹے کو ذبح شدہ لاش فی الواقع اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ سورۃاَلصّٰفّٰتمیں کتنے قلیل الفاظ میں صورتِ حال کی مکمل تصویر کھینچ دی گئی ہے۔ ’’تو جب وہ (بیٹا) اس (باپ) کے ساتھ بھاگ دوڑ کرنے کے قابل ہوا تو اس نے کہا: میرے بچے! میں خواب میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہیں ذبح کررہا ہوں‘ تو تمہاری کیا رائے ہے؟ اس نے جواب دیا: ’’ابا جان! کرگزریئے جو حکم آپ کو مل رہا ہے‘ آپ ان شاء اﷲ مجھے صابر ہی پائیں گے۔ پھر جب دونوں نے سر تسلیم خم کردیا اور اس نے اسے پیشانی کے بل پچھاڑ دیا تو ہم نے پکارا! اے ابراہیم ؑ(بس کر) تو نے خواب پورا کر دکھایا۔ ہم اسی طرح جزا دیا کرتے ہیں نیکو کاروں کو۔یقینا ًیہ ایک بہت بڑی آزمائش تھی۔‘‘ (اَلصّٰفّٰت: 102تا106) گویا جس کا امتحان لیا جارہا تھا اس نے ہمت نہ ہاری‘ ممتحن ہی کو بس کرنا پڑی۔ جس نے نہ صرف یہ کہ اس بیٹے کی جگہ مینڈھے کی قربانی بطور فدیہ قبول کرلی بلکہ اس کی یادگار کے طور پر ہمیشہ ہمیش کے لئے قربانی کا سلسلہ جاری فرما دیا۔ اس امتحان اور آزمائش کی ایک طویل داستان کمال کو پہنچی اور عقل و فطرت کی سلامتی اور سیرت و کردار کی پختگی کی کٹھن جانچ پرکھ اور جذبات و احساسات کے ایثار اور محبت کی قربانی کے مشکل امتحانات سے گزر کر اﷲ نے اپنے برگزیدہ بندے کو امامت الناس کے منصب پر فائز کیا۔ ’’سلام ہو ابراہیم پر! اسی طرح ہم بدلہ دیا کرتے ہیں نیکو کاروں کو‘ یقینا ًوہ ہمارے صاحب یقین بندوں میں سے تھا۔‘‘ (اَلصّٰفّٰت: 109تا111) اور بقول علامہ اقبال ؎
چوں می گویم مسلمانم ‘ بلرزم
کہ دانم مشکلاتِ لا الٰہ را!
گویا یہ ہے ایک سچے مسلمان کی زندگی کی ایک کامل تصویر اور ’’ایمان حقیقی‘‘ کی صحیح تعبیر۔ بقول مولانا محمد علی جوہر ؎
یہ شہادت گہِ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا!
سورۃ الحج میں حج کے دو ہی بنیادی ارکان کا ذکر ہے: ایک اﷲ کے نام پر جانور وں کی قربانی اور دوسرے طواف بیت اﷲ‘ اور ان میں سے بھی زیادہ زور اور تکرار قربانی پر ہی ہے۔ ’’اور ہم نے ہر ایک امت کے لیے قربانی کا طریق مقرر کردیا ہے تاکہ جو مویشی چار پائے اللہ نے ان کو دیئے ہیں (ان کے ذبح کرنے کے وقت) ان پر اللہ کا نام لیں۔‘‘ (الحج:34) ہمیں اپنے اعمال کا جائزہ لینا چاہیے کہ جس طرح ہم نے دین کے دوسرے تمام حقائق کو محض رسموں میں تبدیل کرکے رکھ دیا ہے ‘ جس کا مرثیہ علامہ اقبال نے اس شعر میں کیا تھا کہ ؎
رہ گئی رسمِ اذاں روح بلالی:ؓ نہ رہی
فلسفہ رہ گیا تلقینِ غزالی:ؒ نہ رہی!
اسی طرح قربانی کی روح بدقسمتی سے ہماری عظیم اکثریت کے عمل ہی سے نہیں وہم و خیال سے بھی غائب ہوچکی ہے اور اب اس کی حیثیت بعض کے نزدیک محض ایک رسم کی ہے اور اکثر کے نزدیک اس سے بھی بڑھ کر ایک قومی تہوار کی۔ یہی وجہ ہے کہ اگرچہ ہر سال پندرہ لاکھ سے بھی زائد کلمہ گو حج کرتے ہیں اور بلامبالغہ کروڑوں کی تعداد میں جانوروں کی قربانی دی جاتی ہے‘ لیکن وہ روحِ تقویٰ کہیں نظر نہیں آتی جس کی رسائی اﷲ تک ہے۔ بقول علامہ اقبال مرحوم ؎
رگوں میں وہ لہو باقی نہیں ہے
وہ دل‘ وہ آرزو باقی نہیں ہے
نماز و روزہ و قربانی و حج
یہ سب باقی ہیں تو باقی نہیں ہے!
کاش کہ ہم جرأت کے ساتھ موجودہ صورتحال کا صحیح تجزیہ کرسکیں اور اصل روحِ قربانی کو اپنی شخصیتوں میں جذب کرنے پر کمر ہمت کس لیں‘ اور عید قربان پر جب اﷲ کے لئے ایک بکرا یا دنبہ ذبح کریں تو ساتھ ہی عزم مصمم کرلیں کہ اپنا تن‘ من‘ دھن اس کی رضا پر قربان کردیں گے۔