اداریہ
رضاء الحق
دنیا عالمی جنگ کی طرف جا رہی ہے؟
سعودی عرب کے ادارہ شماریات کے مطابق اس سال تقریباً 17 لاکھ مسلمانوں نے حج بیت اللہ کا فریضہ ادا کیا۔ اللّہ تعالیٰ سب کا حج قبول فرمائے۔ عید الاضحی کے موقع پر دنیا بھر میں بسنے والے کم و بیش دوارب مسلمانوں میں سے اکثریت نے سنتِ ابراہیمی پر عمل کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کروڑوں جانوروں کی قربانی پیش کی۔ اللّہ تعالیٰ سب کی قربانی قبول فرمائے۔ لیکن کیا مسلم ممالک قربانی کا گوشت غزہ میں بدترین قحط کے شکار مسلمان بھائیوں، بہنوں، ماؤں، بیٹیوں،بچوں، بوڑھوں تک پہنچا سکے؟ غزہ کے مسلمانوں کے لیے تو گویا ہر روز عیدِ قربان ہے۔ 7 اکتوبر 2023ء سے شروع کی گئی مسلسل وحشیانہ اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 55 سے 60 ہزار مسلمان شہید ہو چکے ہیں جن میں سے 70 فیصد عورتیں اور بچے ہیں۔ حالیہ دنوں میں اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کے 10 غیرمستقل اراکین نے غزہ کے حوالے سے ایک قرارداد پیش کی جس میں اسرائیل کو فوراً جنگ بندی کرنے کا کہا گیا اور یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ اسرائیل غزہ کو دنیا بھر سے بھیجی جانے والی امداد کو روکنا بند کرے۔ قرارداد کے حق میں 14 ووٹ آئے اور مخالفت میں صرف ایک۔۔۔۔ امریکہ نے اس قرارداد کو ویٹو کر دیا۔ اگرچہ سیکیورٹی کونسل میں پاکستان کے مندوب عاصم افتخار احمد نے اس موقع پر بھرپور تقریر کی جسے ہم قابل تحسین سمجھتے ہیں لیکن اصل سوال تو یہ ہے کہ اسرائیل کو روکے کون؟ حقیقت یہ ہے کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانا کرتے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ غزہ شدید قحط کا شکار ہے اور تقریباً 90 فیصد بچے زندگی و موت کی کشمکش میں ہیں۔ اسرائیل کے خلاف عملی اقدامات اُٹھانا ناگزیر ہو چکا ہے۔
اسی دوران یوکرین نے روس پر ڈرونز کے ذریعے ایک بڑا حملہ کیا۔ مغربی میڈیا کے مطابق روس کو بڑے پیمانے پر عسکری نقصان پہنچا۔ یہاں سوال اُٹھتا ہے کہ کیا یہ ان ممالک کے لیے ایک دھمکی ہے جو چین اور روس سے تعلقات بہتر کر رہے ہیں؟ آج کی دنیا میں جنگ کے ہتھیار بھی بدلتے جا رہے ہیں اور حکمت عملی بھی۔ روایتی ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ ڈرونز اور سائبر حملوں کے استعمال کا بھرپور مظاہرہ حالیہ پاک بھارت جنگ میں بھی دیکھا گیا۔ روس نے بدلہ لینے کا آغاز کر دیا ہے اور یوکرین کے صدر زیلنسکی ایک مرتبہ پھر مہرہ بن گئے۔ جن طیاروں کی تباہی کا دعویٰ تھا وہی اب یوکرائن پر آگ برسا رہے ہیں۔ روس اپنی مرضی کے وقت اور مقام پر بھرپور حملہ بھی کر سکتا ہے۔ یورپ لرز رہا ہے۔ دوسری طرف اسرائیل نے امداد لے کر آنے والے فلوٹیلا کو ایک بار پھر روک دیا۔ صہیونی ریاست سے جواب طلبی کرنے والا کوئی نہیں اور عرب ممالک 4 کھرب ڈالر کی سلامی دے کر اپنی بچت کا اہتمام کر رہے ہیں، مگر بچت کہاں؟ اسرائیل تو اپنے توسیعی منصوبے یعنی گریٹراسرائیل کے قیام کی طرف بڑھ رہا ہے اور تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ ٹرمپ کو بھی شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ ایلون مسک کے ساتھ ہنی مون ختم ہوچکا ہے اور کیلی فورنیا میں خانہ جنگی کی سی صورتِ حال ہے۔ امریکہ کی تباہی کے لیے شاید اکیلا ٹرمپ ہی کافی ہو۔
بھارت کا المیہ یہ ہے کہ وہ دو کشتیوں کا سوار رہنا چاہتا ہے۔ ایک طرف وہ اسرائیل اور امریکہ کا اہم ترین اتحادی بن چکا ہے۔ غزہ میں مسلمانوں کی نسل کشی میں بھارت نے اپنا پورا وزن اسرائیل کے پلڑے میں ڈال دیا۔ اسلحہ اور بعض ذرائع کے مطابق فوجیوں کے ذریعے بھی اسرائیل کی مدد کی۔ مودی کے گودی میڈیا نے بھرپور کوشش کی کہ نہتے اور مظلوم اہل غزہ کو دہشت گرد اور اسرائیل کو ایک مظلوم ریاست اور فلسطینیوں کی زمینوں پر ناجائز قبضہ کر کے آباد کاریاں کرنے والے یہود کو معصوم ثابت کیا جائے۔
بھارت اور اسرائیل کے فطری اتحاد کی چند وجوہات اور بھی ہیں۔ دونوں توسیعی مقاصد رکھتے ہیں۔ اگر اِس طرف انڈیا اکھنڈ بھارت کے خواب دیکھ رہا ہے جس میں پاکستان، بنگلہ دیش، مالدیپ، نیپال، سری لنکا، بھوٹان یہاں تک کہ انڈونیشیا اور ملیشیا بھی شامل ہیں تو اُس طرف اسرائیل ایک عرصے سے اپنے توسیعی منصوبے یعنی گریٹر اسرائیل کی طرف تیزی سے پیش قدمی کر رہا ہے۔ پھر یہ کہ مقبوضہ کشمیر میں خصوصاً اور بھارت کے مسلم اکثریتی علاقوں میں عموماً بھارت اسرائیلی ماڈل استعمال کر رہا ہے۔ 5اگست 2019ء سے آج تک، گزشتہ چھ برس کے دوران مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کی آبادی کے تناسب کو بدلنے کے لیے مودی بھارت سے انتہا پسند ہندوؤں کو لا کر مقبوضہ کشمیر میں بسا رہا ہے۔ یہ بالکل وہی ماڈل ہے جو یہود نے ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل کے قیام کے لیے 1917ء کے بالفور ڈیکلریشن کے بعد اپنایا اور آج تک جاری ہے۔ دنیا بھر سے یہودی آباد کاروں کو لا کر فلسطین کی زمینوں پر قبضہ کر کے بسایا جا رہا ہے۔ پھر یہ کہ دونوں پر انتہائی دائیں بازو کے پاپولسٹ لیڈروں کا تسلط ہے۔ تیسری بار بھارتی وزیراعظم بننے والے مودی نے (جو آر ایس ایس کے رکن بھی ہیں) اپنی انتخابی مہم کے دوران بی جے پی (جو آر ایس ایس کا سیاسی ونگ ہے ) کے منشور پر تیزی سے اور مکمل عمل درآمد کرنے کا اعلان بلکہ وعدہ کیا ۔ مسلم وقف پراپرٹی(ترمیمی) ایکٹ تو صرف ٹریلر تھا۔ مودی کا ایک بڑا ہدف مسلمانوں کے عائلی قوانین کو ختم کرنا ہے۔ وہ اور اس کے پارٹی کے دیگر لیڈر برملا کہتے ہیں کہ بھارت کے آئین میں جب لکھا ہے کہ یہ ایک سیکولر ملک ہوگا تو مسلمانوں کو اپنے خاندانی معاملات میں اپنے دین کے مطابق عمل کرنے اور فیصلے لینے کی اجازت کیوں ہے؟ اگرچہ یہ بیانیہ دجل پر مبنی ہے کیونکہ بھارت میں بسنے والی دیگر اقلیتوں کو عائلی قوانین کے حوالے سے کبھی ٹارگٹ نہیں کیا گیا۔ گویا وہ کام جو کانگریسی حکومتیں چہرے پر سیکولرزم کا نقاب چڑھا کر کرتی تھیں، مودی ببانگ دہل کر رہا ہے۔
اس کشتی میں بھارت کا دوسرا بڑا اتحادی امریکہ ہے جو ویسے تو روزِ اوّل سے لیکن کھل کر نائن الیون کے بعد بھارت پر عنایات کے ڈونگرے برسا رہا ہے۔ امریکہ کی چین گھیراؤ پالیسی کے لیے معاشی اور دفاعی طور پر مضبوط بھارت ناگزیر ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ امریکہ کی نظر میں بھارت کا بنیادی ہدف پاکستان نہیں بلکہ چین ہے۔ لہٰذا اسے کواڈ کا حصّہ بھی بنایا گیا اور اس کے ذریعے انڈیا مڈل ایسٹ یورپ اکنامک کاریڈور کا اعلان بھی کروایا گیا۔ گزشتہ دہائی میں امریکہ اور بھارت نے درجنوں معاشی و عسکری معاہدے کیے ۔ ٹرمپ کے دوسری مرتبہ امریکی صدر منتخب ہونے کے بعد نریندر مودی نے امریکہ کا دورہ کیا اور کئی معاہدے کیے جن میںامریکہ کا بھارت کو ایف 35 لڑاکا طیارے بیچنا بھی شامل ہے۔ صدر ٹرمپ کی کابینہ میں اس وقت چار بھارتی نژاد کلیدی عہدوں پر فائز ہیں۔ علاوہ ازیں ایک بھارتی آئی ایم ایف کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں بھی شامل ہے۔ دنیا کی بڑی سافٹ ویئر کمپنیز کو بھی بھارتی چلا رہے ہیں۔
دوسری طرف چین اور روس کے زیرِ اثر BRICS کی کشتی ہے جس میں بھارت سوار رہنا بھی چاہتا ہے لیکن امریکی اور اسرائیلی دباؤ ہے کہ اِس کشتی کو خیرباد کہہ دو۔ مودی کا بھارت اِس دوسری کشتی سے چھلانگ لگا کر خود کشی کرنے کو تیار ہے۔
لیکن اس سب کے باوجود بھارت چین کو کھلے میدان میں للکار نے کی صلاحیت رکھتا ہے نہ ہمت۔پاکستان نے جب بھارت کو آپریشن بُنْیَانٌ مَّرْصُوْصٌ
میں شکست دی تو بھارت اور اس کی پشت پناہ مغربی دنیا کے اوسان خطا ہو گئے۔ صاف دکھائی دیا کہ چینی ٹیکنالوجی دفاعی اور عسکری حوالوں سے امریکی ٹیکنالوجی کو پیچھے چھوڑ چکی ہے۔ پھر یہ کہ بھارت کو بھی خوب کان ہو گئے کہ پاکستان کے خلاف کسی بھی نوعیت کے مس ایڈونچر کا بھرپور جواب ملے گا۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ 10 مئی کے بعد سفارتی سطح پر بھی بھارت کو بڑی ہزیمت اُٹھانا پڑی۔
چین بڑی حد تک سمجھ چکا ہے کہ اسرائیل اور امریکہ مل کر عالمی جنگ چھیڑنا چاہتے ہیں۔ وہ جان چکا ہے کہ غزہ اور یوکرین کی صورتحال کے بعد اب ایک بڑی جنگ ناگزیر ہو چکی ہے۔ اس تناظر میں چین اور روس خطے میں اتحادیوں کی تلاش میں سرگرداںہیں۔ پاکستان کے لیے اپنی معیشت کو مضبوط کرنے اور دفاعی صلاحیت کو بڑھانے کا یہ بہترین موقع ہے۔ حال ہی میں چین نے پاکستان اور افغانستان کے بگڑتے ہوئے تعلقات کو بہتر کرنے کے لیے بیجنگ سہ فریقی مذاکرات کی میزبانی کی۔ کانفرنس کے اختتام پر لی گئی ایک تصویر جس میں چینی وزیر خارجہ درمیان میں کھڑے ہیں اور امیر خان متقی اور اسحاق ڈار صاحبان کے ہاتھ پکڑے ہوئے ہیں، ہزاروں الفاظ پر بھاری ہے۔ آپریشن بُنْیَانٌ مَّرْصُوْصٌ میں پاکستان نے چینی ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے نہ صرف بھارت بلکہ امریکہ اور اسرائیل کی ٹیکنالوجی کو شکست دی۔ فرانس کے رافیل طیارے اور روس کا ایس 400 دفاعی نظام بھی ناکام رہے۔
پاکستان کی اس تاریخی فتح کے نتیجے میںکئی ایک نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے۔۔۔ کسی کو دوسری مرتبہ ایکسٹینشن مل گئی، کوئی فیلڈ مارشل بن گیا۔
لیکن دوسری طرف اسرائیل نے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کرکے ثابت کر دیا ہے کہ وہ امریکہ، چین اور روس کو بھی اِس جنگ میں گھسیٹنا چاہتا ہے۔ اسرائیل ایک عالمی جنگ کا خواہاں ہے جس کے نتیجہ میں اُس کو اپنے توسیعی منصوبے یعنی گریٹر اسرائیل کے قیام کا جواز مل سکے۔ ایران کے ساتھ ساتھ اسرائیل کی آنکھوں میں پاکستان بُری طرح کھٹکتا ہے اور اُس کی ہر ممکن کوشش ہے کہ کسی طرح پاکستان کے ایٹمی دانت توڑے جائیں۔
بہرحال اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کو ہر طرف سے خطرات کا سامنا ہے اور پاکستان کو سیاسی، معاشی اور عسکری لحاظ سے مضبوط بنانا ضروری ہے۔ ہر بڑے چھوٹے نےملک کے آئین اور قانون پر عملداری کو بھی یقینی بنانا ہے۔ لیکن ہماری نظر میں اہم ترین ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان اپنی نظریاتی اساس کو عملی جامہ پہنائے۔
ملک کی سول و عسکری قیادت یہ ہرگز نہ بھولے کہ احادیث مبارکہ میں اس خطے یعنی خراسان کے حوالے سے کئی خوش خبریاں موجود ہیں۔ یہیں سے امام مہدی کی نصرت کے لیے فوجیں جائیں گی اور یہی وہ خطہ ہے (خراسان) جہاں سے سیاہ جھنڈے نکلیں گے اور انہیں کوئی نہیں روک پائے گا یہاں تک کہ وہ ایلیا (یروشلم) میں گاڑ دیئے جائیں گے۔ پاکستان میں صحیح معنوں میں اسلام کا نظامِ عدلِ اجتماعی قائم اور نافذ ہوگا تو ہی مستقبل کے منظر نامے کے حوالے سے مملکتِ خداداد پاکستان کی تیاری مکمل ہو سکے گی اور صرف اسی صورت میں اللہ تعالیٰ کی مدد بھی ہمارے شامل حال ہو گی۔ ان شاءاللہ!
tanzeemdigitallibrary.com © 2025