عید الاضحی کا اصل پیغام
(قرآن و حدیث کی روشنی میں )
مسجددارالسلام باغ جناح لاہور میںصدر مرکزی انجمن خدام القرآن محترم عارف رشید حفظ اللہ کے7جون 2025ء کے خطاب عیدالاضحی کی تلخیص
مرتب: ابو ابراہیم
خطبۂ مسنونہ اور تلاوتِ آیاتِ قرآنی کے بعد!
حضرات!پوری دنیا کے مسلمان آج عیدالاضحی منارہے ہیں ، یا منا چکے ہیں لیکن سچی با ت یہ ہے کہ آج اُمت کے جو حالات ہیں اور جس طرح سے غزہ میں نہتے مسلمانوں کا لہو بہایا جارہا ہے ، ہزاروں کی تعداد میں بچے ، بوڑھے، خواتین شہید اور لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں ، ہزاروں کی تعداد میں زخمی ہیں اور ان میں ایسے بھی ہیں جو زندگی بھر کے لیے معذور ہو چکے ہیں ، جو زندہ بچ گئے ہیں ان کے لیے زندہ رہنے کے لیے غذا اور پانی تک میسر نہیں ہے ، اسرائیل ان تک کوئی امداد پہنچنے نہیں دے رہا ، ان حالات میںعید کی خوشی منانے پر دل آمادہ نہیں ہیں بلکہ خون کے آنسو رو رہے ہیں۔7 اکتوبر 2023ء کے بعد سے مسلسل غزہ پر بمباری جاری ہے اور 57 مسلم ممالک اس کو روکنے میں ناکام ہیں ۔ان حالات میں ہم عام مسلمان جو کام کر سکتے ہیں ، ایک تو یہ ہے کہ خلوص دل سے گڑ گڑا کر اللہ کے حضور دعا کریں کہ اللہ ان پر رحم فرمائے اور جن لوگوں نے بھی اہلِ غزہ کے لہو سے اپنے ہاتھ رنگے ہیں، ان کو اللہ تباہ و برباد کر دے ۔ دوسرا کام یہ کر سکتےہیں کہ اسرائیل نواز کمپنیوں کی مصنوعات کا خود بھی بائیکاٹ کریں اور اس مہم کو زیادہ سے زیادہ تحریک بھی دیں ۔ اس کے علاوہ مظاہرے بھی پوری دنیا میں ہوئے ہیں ، تنظیم اسلامی پاکستان کے تحت بھی پورے پاکستان میں مظاہرے ہوئے ہیں مگر سچی بات یہ ہے کہ آج اُمت اپنی حمیت کھو چکی ہے ۔ نبی اکرم ﷺ نے اپنے ایک فرمان مبارک میں فرمایا تھا :قریب ہے کہ دیگر قومیں تم پر ایسے ہی ٹوٹ پڑیں جیسےلوگ کھانے پر ٹوٹ پڑتے ہیں ، ایک کہنے والے نے کہا: کیا ہم اُس وقت تعداد میں کم ہوں گے؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’نہیں، بلکہ تم اُس وقت بہت ہو گے، لیکن تم سیلاب کی جھاگ کی مانند ہو گے، اللہ تعالیٰ تمہارے دشمن کے سینوں سے تمہارا خوف نکال دے گا اور تمہارے دلوں میں ’’وہن‘‘ ڈال دے گا۔ ایک کہنے والے نے کہا: یا رسول اللہ ﷺ!وہن کیا چیز ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ”یہ دنیا کی محبت اور موت کا ڈر ہے۔‘‘(ابو داؤد )
کبھی وہ زمانہ تھا کہ بقول شاعر؎
رُکتا نہیں تھا کسی سے سیل رواں ہمارا
حضرت عمر فاروق اور حضرت عثمان؇کے دور کو یاد کیجیے! اُس وقت کی معلوم دنیا کے تقریباً ایک تہائی سےزیادہ علاقے پر اسلام کی حکومت قائم ہو چکی تھی، عدل و انصاف اس درجے کاکہ ایک بڑھیا بھی حضرت عمر کو راہ چلتے روک لیتی اور کہتی کہ اللہ تعالیٰ نے مہر کی زیادہ سے زیادہ مقدار مقرر نہیں کی تو آپ ایسا کرنے والے کون ہوتے ہیں اور فاروق اعظم ،خلیفۂ دوم فرماتے ہیں کہ آج ایک بڑھیا نے عمر کو دین سکھا دیا ۔خوشحالی اس قدر کہ کوئی زکوٰۃ لینے والا نہیں ملتا تھا۔ اس وقت کے مسلمان وہ تھے کہ جن کے دلوں میں واقعتاً قوت ایمانی موجود تھی۔
آج دنیا میںکم و بیش پونے دو ارب مسلمان اور 57 مسلم ممالک ہیں مگر ان کی حالت ایسی ہے گویا سمندر کے اوپر کا جھاگ ہو جس کی کوئی حیثیت نہیں ،ذرا تیز ہوا چلتی ہے تو ہوا کے تھپیڑے اسے اُڑا کر دور پھینک دیتے ہیں۔اس کی بنیادی وجہ وہن کی بیماری ہے ۔ نبی اکرمﷺ نے فرمایا : جیسے لوہے کو زنگ لگ جاتاہے ، اسی طرح انسان کے دل بھی زنگ آلود ہو جاتے ہیں ۔ پوچھا گیا کہ اس کا علاج کیا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا :((کثرۃ ذکر الموت و تلاوت القرآن ))۔ کثرت کے ساتھ تلاوتِ قرآن کرواور موت کو یاد رکھو۔
عیدالفطر اور عیدا لاضحی کو دو بڑی عبادتوں کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے۔ جس طرح رمضان میں روزے مکمل ہونے پر عیدالفطر کی صورت میں ہم رب کا شکرانہ ادا کرتے ہیں اسی طرح عید الاضحی کا تعلق حج جیسی عظیم عبادت سے ہے اور اس دوران ہر صاحب نصاب مسلمان قربانی کرتاہے جو کہ حضرت ابراہیم ؑ کی عظیم سنت کی پیروی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
{ فَاتَّبِعُوْا مِلَّۃَ اِبْرٰہِیْمَ حَنِیْفًاط} (آل عمران :90) ’’(اے مخاطب)پس پیروی کرو ّملت ِابراہیم کی جو یکسو تھے (یا یکسو ہو کر!)‘‘
ابراہیم ؑ کے بارے میں فرمایا :
{وَاتَّخَذَ اللّٰہُ اِبْرٰہِیْمَ خَلِیْلاً(125)}(النساء:125) ’’اور اللہ نے تو ابراہیم کو اپنا دوست بنا لیا تھا۔‘‘
پھر ابراہیم ؑ کو اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کا امام بنا دیا۔ اُن کی زندگی کا اگر مطالعہ کیا جائے تو وہ سراپا امتحان ہے ۔ سب سے بڑا امتحان اپنے بیٹے حضرت اسماعیل ؑ کو اللہ کی راہ میں قربان کرنا تھا ۔ حضرت اسماعیل ؑ کی عمر اس وقت تقریباً12 یا 13 سال تھی ۔ یہ وہ صاحبزادے تھے جن کو اللہ سے دعائیں مانگ مانگ کر پایا تھا اوراُس وقت حضرت ابراہیمd کی عمر 100 کے قریب تھی جب حکم ہوا کہ اپنے بیٹے کو قربان کر دیجئے ۔ اندازہ کیجئے کہ یہ کتنا بڑا امتحان تھااور حضرت اسماعیل ؑ نے بھی کس قدر فرمانبرداری کا مظاہرہ کیا ۔ فرمایا :
{قَالَ یٰٓاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ ز سَتَجِدُنِیْٓ اِنْ شَآئَ اللہُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَ(102)} (الصٰفّٰت)’’اُس نے کہا : ابّا جان! آپ کر گزرئیے جس کا آپ کو حکم ہو رہا ہے۔ اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے۔‘‘
حضرت ابراہیم ؑ نے چھری چلانے میں کوئی دریغ نہیں کیا تھا،اللہ تعالیٰ نے ان کی اس قربانی کو قبول فرمایا اور بیٹے کو بھی لوٹا دیا اور ان کی جگہ ایک مینڈھے کو پیش کردیا ۔
{اِنَّ ہٰذَا لَہُوَ الْبَلٰٓؤُاالْمُبِیْنُ (106) وَفَدَیْنٰـہُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ (107) وَتَرَکْنَا عَلَیْہِ فِی الْاٰخِرِیْنَ (108)} (الصٰفٰت)’’یقیناً یہ بہت بڑی آزمائش تھی اور ہم نے ایک ذبح عظیم اس کا فدیہ دیااور اسی (کے طریقے) پر ہم نے باقی رکھا بعد میں آنے والوں میں سے بھی (کچھ لوگوں کو)۔‘‘
صحابہ کرام ؇نے حضورﷺ سے سوال کیا تھا کہ یہ جو ہم قربانی کرتے ہیں اس کی حقیقت کیا ہے۔ اس لیے کہ حضرت ابراہیم ؈ کو گزرے ہوئے تقریباً دو ہزار برس ہو چکے تھے۔اس وقت بھی عرب قربانی کرتے تھے مگر انہیں قربانی کا حقیقی مقصد اور پس منظر معلوم نہیں تھا ۔ حضور ﷺ نے فرمایا:
((سنۃ ابیکم ابراہیم ))’’قربانی تمہارے جد امجد حضرت ابراہیم ؈ کی سنت ہے ۔‘‘
مناسک حج کی ادائیگی کےد وران بھی ہم حضرت ابراہیم ؑ کی کئی سنتوںپر عمل کرتے ہیں ۔ جس وقت حضرت ابراہیم ؑ اپنے بیٹے حضرت اسماعیل ؑ کےساتھ مل کر کعبہ کی تعمیر کر رہے تھے اس وقت آپ نے کئی دعائیں مانگی تھیں جن کو قرآن نے نقل کیا ہے :
’’اور یاد کرو جب ابراہیم ؑ اور اسماعیل ؑ ہمارے گھر کی بنیادوں کو اٹھا رہے تھے۔ (اور دعا کر رہے تھے) اے ہمارے ربّ! ہم سے یہ خدمت قبول فرما لے۔یقیناً تو ُسب کچھ سننے والا جاننے والا ہے۔اور اے ہمارے رب! ہمیں اپنا مطیع فرمان بنائے رکھ اور ہم دونوں کی نسل سے ایک اُمت اٹھائیو جو تیری فرماں بردار ہو۔اور ہمیں حج کرنے کے قاعدے بتلا دے‘اور ہم پر اپنی توجہ فرما‘۔ ہم پر اپنی شفقت کی نظر فرما۔(البقرہ:127،128)
روئے زمین کا وہ خطہ کہ جہاں کہیں دور دور تک کوئی ہریالی نہیں، سنگلاخ پتھریلی زمین، کہیں پانی موجود نہیں، مگر وہاں اللہ نے حضرت اسماعیلؑ کی نسل کو پروان چڑھایا اور پھر اس مقام کو پوری دنیا کے مسلمانوں کا مرکز بنا دیا ۔ آج پوری دنیا سےلاکھوں مسلمان وہاں حج کے لیے جمع ہوتے ہیں اور دنیا میں کروڑوں مسلمان قربانی کرتے ہیں ۔ حج و قربانی کا اصل تقاضا یہ ہے کہ ہم حضرت ابراہیم ؑ کے اُسوہ پر چلیں ۔ اُسوہ ابراہیمی اللہ کے سامنے سرتسلیم خم کرلینا ہے۔ جس طرح انہوں نے اللہ کے حکم پر اپنے بیٹے کی گردن پر چھری چلانے سے گریز نہیں کیا ، اسی طرح ہم بھی اللہ کے ہر حکم کے آگے سرخم تسلیم کرلیں ۔
اس کے برعکس آج ہم کہاں کھڑے ہیں ۔ یقیناً مسلمان گھرانے میں پیدا ہو جانا ہمارے لیے بڑی سعادت کی بات ہے ورنہ ہم میں سے کوئی ہندو ، کوئی یہودی ، کوئی عیسائی ، کوئی سکھ ہوتا،یہ ہمارا انتخاب تو ہر گز نہ تھا مگر عمل میں اختیار دیا گیا ہے ۔ فرمایا :
{الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاط}(الملک:2) ’’جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون اچھے اعمال کرنے والا ہے۔‘‘
دنیا کی اس زندگی کا اصل مقصد یہ امتحان ہے کہ کون کس راستے پر چل رہا ہے ۔ ایک طرف حضرت ابراہیم ؈ کا راستہ ہے اور دوسری طرف شیطان کا راستہ ہے ۔ بدقسمتی سے آج بحیثیت مجموعی اُمت کی جو حالت ہے ، بقول شاعر
مگر یہ راز آخر کھل گیا سارے زمانے پر
حمیت نام ہے جس کا گئی تیمور کے گھر سے
ایمان اور تقویٰ جس شے کا نام ہے، مسلمانوں کی عظیم اکثریت اس کو اختیار کرنے کو تیار نہیں ہے تو اُسوہ ابراہیمی پر چلنا کیسے ممکن ہوگا ؟ بقول اقبال ؎
براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے
ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں بنا لیتی ہے تصویریں
اقبال نے ہی دوسری جگہ فرمایا ؎
رگوں میں وہ لہو باقی نہیں ہے
وہ دل وہ آرزو باقی نہیں ہے
نماز و روزہ و قربانی و حج
یہ سب باقی ہیں تو باقی نہیں ہے
عید کی نماز کے لیے آتے اور جاتے ہوئے تکبیرات پڑھنا سنت ہے، اللہ کے رسولﷺ کا حکم ہے، اس موقع پر عظیم اکثریت یہ تکبیرات پڑھتی دکھائی بھی دیتی ہے :(اللہ اکبر اللہ اکبر لا الٰہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد) لیکن کیا کبھی ہم نے سوچا واقعتاً اللہ ہمارے نزدیک بڑا ہےیا صرف زبان کی حد تک بڑا سمجھ رہے ہیں؟ کیا میرے جسم پر اللہ کا حکم نافذ ہے؟ کیا ہماری مارکیٹس میں، ہماری عدالتوں میں ، ہماری تجارت میں ، ہماری سیاست اور پارلیمنٹ میں واقعتاً اللہ بڑا ہے؟ صرف زبان سے اللہ اکبر کہہ دینا کفایت نہیں کرتا جب تک واقعتاً اللہ کو بڑا نہ سمجھو اور اصل میں اللہ کی بڑائی تب قائم ہو گی جب ہم اللہ کے دین کو قائم و نافذ کریں گے ۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ اور اللہ کے دین کے ساتھ وفاداری تکبیر کا اصل تقاضا ہے۔
{لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ} (الاحزاب:21)’’(اے مسلمانو!) تمہارے لیے اللہ کے رسول ؐمیں ایک بہترین نمونہ ہے ‘‘
جس راستے پر اللہ کے رسول ﷺ چلے اور حضرت ابراہیم dچلے اُسی راستے پر چل کر تکبیر کے تقاضے پورے ہوں گے ۔ اس کے لیے ہدایت ہمیں قرآن سے ملے گی ۔
{اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰـہُمُ الْکِتٰبَ یَتْلُوْنَہٗ حَقَّ تِلاَوَتِہٖ ط} (البقرہ:121) ’’وہ لوگ جنہیں ہم نے کتاب دی ہے وہ اس کی تلاوت کرتے ہیں جیسا کہ اس کی تلاوت کا حق ہے۔‘‘
یعنی یتلو کے معنی صرف پڑھ لینا نہیں ہے ، بلکہ قرآن کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا ہے کیونکہ قرآن محض ثواب کی کتاب نہیں ہے بلکہ یہ ہدایت بنا کر نازل کیا گیا :
{ہُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْہُدٰی وَالْفُرْقَانِ ج} (البقرہ:185)’’لوگوں کے لیے ہدایت بنا کر اور ہدایت اور حق و باطل کے درمیان امتیاز کی روشن دلیلوں کے ساتھ۔‘‘
اس ہدایت کو جب تک ہم نے اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی پربالفعل نافذ کیے رکھا تو ہم دنیا میں غالب رہے اور جب اس کا نفاذ ترک کر دیا تو صرف زبان سے تکبیرات کا ورد ہماری ذلت و رسوائی کو روک نہ سکا ۔ بقول شاعر؎
یا وسعت افلاک میں تکبیرِ مسلسل
یا خاک کی آغوش میں تسبیح و مناجات
وہ مذہبِ مردانِ خدا گاہ و خدا مست
یہ مذہبِ ملا و جمادات و نباتات
ہمارے اندر حمیت ایمانی پیدا ہوگی تو اللہ کی نصرت آئے گی۔قرآن میں اللہ فرماتا ہے :
{یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَنْصُرُوا اللہَ یَنْصُرْکُمْ وَیُثَبِّتْ اَقْدَامَکُمْ(7)}(محمد) ’’اے اہل ِایمان! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا اور وہ تمہارے قدموں کو جما دے گا۔‘‘
اللہ کے مددگاربننے کا مطلب ہے کہ ہم دین پر عمل پیرا ہوں ، دین کے داعی بنیں اور اس کے نفاذ کی جدوجہد کریں ۔ اللہ فرماتاہے :
’’اور (اے نبیﷺ!) جب میرے بندے آپ سے میرے بارے میں سوال کریں تو (ان کو بتا دیجیے کہ) میں قریب ہوں۔‘میں تو ہر پکار نے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں جب بھی (اور جہاں بھی) وہ مجھے پکارے‘پس انہیں چاہیے کہ وہ میرا حکم مانیں‘اور مجھ پر ایمان رکھیں‘تاکہ وہ صحیح راہ پر رہیں۔‘‘ (البقرہ :186)
اللہ تعالیٰ ہر ایک کی دعاکو سنتا ہے مگر شرط یہ ہے کہ وہ بھی صحیح معنوں میں اللہ کا بندہ بنے ، اللہ کے احکامات پر عمل کرے اور جس چیز سے اللہ نے منع کیا ہے اُس سے رُک جائے ۔ حقیقی ایمان تب ہی حاصل ہو گا جب دین پر بندہ عمل پیرا ہوگا ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین !