پاکستان اور چین کے ہاتھوں بھارت اور اس کے اتحادیوں
کو جوخفت اُٹھانا پڑی اُسے مٹانے کی کوشش روس پر یوکرین
کے حالیہ ڈرون حملہ میں دکھائی دیتی ہے :رضاء الحق
جن خفیہ طاقتوں نے پہلی اور دوسری عالمی جنگیں
کروائیں، وہ تیسری عالمی جنگ شروع کروانے کی پوری
کوشش کر رہی ہیں : آصف حمید
عربوں سے تو اب کوئی اُمید نہیں ، اگر ترکی
اور پاکستان مل کر کوئی اقدام کریں تو غزہ میں
نسل کشی رُک سکتی ہے : توصیف احمد خان
’’یوکرین کا روس پر بڑا حملہ ‘‘ کے موضوع پر
پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف تجزیہ نگاروں اور دانشوروں کا اظہار خیال
میز بان : وسیم احمد
مرتب : محمد رفیق چودھری
سوال: حال ہی میں یوکرین نے روس پرجو بڑا ہولناک حملہ کیا ہے جس میں روس کو بڑا نقصان اٹھانا پڑا ہے،آپ کے خیال میں یہ حملہ واقعتاًدوسالہ تیاریوں کا نتیجہ تھا جیسا کہ صدر زیلنسکی کہہ رہے ہیں یا اس کے پس پردہ کچھ اور عوامل ہیں؟
توصیف احمد خان: زلنسکی کی بات یہاں تک درست ہے کہ ڈیڑھ سال اور نو دن کے عرصہ میں انہوں نے روس میں ڈرونز سمگل کیے لیکن ٹارگٹس کولاک کرنا زلنسکی کا کام نہیں ہے ، بلکہ برطانیہ اور امریکہ کے جو سیٹلائٹسخلا میں موجود ہیں انہوں نے ٹارگٹس ٹرانسفر کیے ، جیسا کہ اطلاعات بھی آرہی ہیں ۔ مغربی میڈیااس حملے کو پرل ہاربر کی طرح کا حملہ قرار دے رہا ہے ، حالانکہ ایسا نہیں ہے لیکن میڈیا کے پس پردہ قوتیں شاید چاہتی ہیں کہ اس کا ردعمل بھی اسی طرح کا آئےاور جنگ پھیلے ۔ اسی لیے یوکرین کی اوقات سے بڑھ کرایک بار پھر اس سے کام لے لیا گیا ہے ۔ اب ڈونلڈ ٹرمپ کہہ رہا ہے کہ یہ ہماری جنگ نہیں ہے حالانکہ پس منظر میں دیکھیں تو روس بار بار یہی کہتا رہا ہےکہ یوکرین میں نیٹو کا کردار نہیں ہونا چاہیے لیکن امریکہ نے یوکرین کو نیٹو کا ممبر بنانے کی بہت کوشش کی اور روس کا گھیراؤ کرنا شروع کیا۔ گویاروس کو جنگ پر مجبور کیا گیا ۔اس مسئلے کا حل یہی ہے کہ یوکرین نیٹو سے تائب ہو جائے۔ بصورت دیگر روس اور چین یہ کبھی برداشت نہیں کریں گے کہ یوکرائن نیٹو اور یورپ کے ساتھ کھڑا ہو جائے کیونکہ روس اور چین گلوبل ساؤتھ کو کھڑا کرنا چاہتے ہیں ۔ یہ دراصل گلوبل ساؤتھ اور گلوبل نارتھ کا مسئلہ لگ رہا ہے ۔
سوال: پہلگام واقعہ کے بعدبھارت کو جو ذلت آمیز شکست ہوئی ہے اس کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ یہ امریکہ اور اسرائیل کی بھی شکست تھی کیونکہ انہوں نے ٹیکنالوجی میں انڈیا کی مدد کی تھی جبکہ دوسری طرف چین نے پاکستان کی مدد کی ۔ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ امریکہ اور یورپ نے اپنی ساکھ بحال کرنے کے لیے یوکرین کے حالیہ حملہ میں مدد کی ہو ؟
رضاء الحق: پہلگام واقعہ کے بعد انڈیا نے 6 مئی سے 9 مئی تک پاکستان پر فضائی جنگ مسلط کیے رکھی ۔ جواب میں ان کے رافیل طیارے تباہ ہوئے اور بھی بہت نقصان ہوا، اس کے بعد انڈیا نے ہزاروں کی تعداد میں ڈرونز پاکستان بھیجے ۔ ان میں اسرائیلی ڈرونز بھی شامل تھے ۔ 10 مئی کو پاکستان نے پھر جوابی حملہ کیا اور انڈیا کے دفاعی نظام کو غیر موثر کرکے اپنی سائبر وار فیئر اور چین کی ٹیکنالوجی کی برتری ثابت کردی ۔ یوکرین نے بھی حالیہ حملے میں تقریباً یہی انداز اختیار کیا ہے اور کئی طرح کی ڈرون ٹیکنالوجی کا استعمال کیا ہے ۔ حالانکہ یوکرین کے پاس اس طرح کے حملے کی صلاحیت نہیں تھی ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یوکرین کی پشت پناہی کی گئی ہے ۔
سوال: یوکرین کی مدد چاہے جس نے بھی کی ہو مگر پچھلے تین سال میں روس کا اتنا نقصان نہیں ہوا جتنا حالیہ حملے میں ہوا ہے ۔40 سے زائد جہاز تباہ ہوئے ہیں اور بھی بہت نقصان ہوا ہے۔کیا یہ درست ہے ؟
رضاء الحق: پہلی بات یہ ہے کہ ٹرمپ نے زلنسکی کو جو کہا تھا کہ ہم تمہاری مدد نہیں کریں گےتو یہ بھی ایک ڈراما تھا۔ امریکن پالیسی کو ٹرمپ نہیں چلاتا بلکہ اس کو چلانے والے اور لوگ ہیں ۔ ٹرمپ کو جواہداف دیئے گئے ہیں وہ انہیں حاصل بھی کر رہا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں آپ دیکھیں وہ اسرائیلی مفاد کو پورا کر رہا ہے ۔ پاک بھارت جنگ میں بھی ان کے کچھ اہداف تھے لیکن وہ پورے نہیں ہوئے ۔
{وَمَکَرُوْا وَمَکَرَ اللہُ ط وَاللہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَ (54)} (آل عمران)’’اب انہوں نے بھی چالیں چلیں اور اللہ نے بھی چال چلی۔ اور اللہ تعالیٰ بہترین چال چلنے والا ہے۔‘‘
انہوں نے چاہا تھا کہ انڈیا پاکستان پر حملے کرکے اسے اتنا نقصان پہنچا دے گا کہ جنوبی ایشیامیں روس ، چین ، پاکستان اور افغانستان پر مشتمل بلاک کمزور پڑ جائے گا لیکن اس کے برعکس پاکستان اور چین کو برتری حاصل ہوگئی ۔ اس میں امریکہ ، اسرائیل اور فرانس کی بھی شکست تھی ۔ اس خفت کو مٹانے کے لیے انہوں نے روس پر یوکرین سے وار کروایا ہے ۔ اس کے جواب میں روس بھی بہت بڑا حملہ کر سکتاہے ۔
توصیف احمد خان: روس نے پہلے مرحلے کے طور پر کاؤنٹر اٹیک کر دیا ہےاور اس میں روس وہی طیارے استعمال کر رہا ہے جن کو تباہ کرنے کا دعویٰ یوکرین نے کیا تھا۔ اب امریکی میڈیا بھی کہہ رہا ہے کہ روس کے 40 نہیں بلکہ 10 طیارے تباہ ہوئے تھے ۔ اس طرح پہلے 7 ارب ڈالر کے نقصان کا کہا جارہا تھا لیکن اب کہا جارہا ہے کہ 2 ارب ڈالر نقصان ہوا ہے ۔ اس سے ثابت ہوتاہے کہ روس کا اتنا نقصان نہیں ہوا جتنا بتایا جارہا تھا ۔
سوال: اس وقت دنیا میں دو بڑی جنگیں چل رہی ہیں ۔ ایک طرف روس یوکرین جنگ ہے اور دوسری طرف اہل ِغزہ پر اسرائیل مسلسل مظالم ڈھا رہا ہے ۔ اسی دوران پاک بھارت معرکہ بھی ہوا ۔ ان جنگوں کے دوران دیکھنے میں آرہا ہے کہ دنیا میں جنگ کے ہتھیار بدل چکے ہیں ، جنگی حکمت عملی بھی تبدیل ہو گئی ہے ، ایسی صورتحال میں اپنے ملک کا دفاع کیسے ممکن بنایا جا سکتا ہے ؟
آصف حمید: حالیہ دو معرکے ایسے ہوئے ہیں جنہیں ہم گیم چینجر کہہ سکتے ہیں ۔ ان میں ایک حالیہ پاک بھارت معرکہ ہے جس میں پاکستان نے سرحد پار کیے بغیر بھارتی جہازوں کو گرایا ، میزائل فائر کیے ۔معلوم ہوا کہ اب جنگوں میں سائبر ٹیکنالوجی ، سافٹ ویئر ٹیکنالوجی اور ڈرونز کا کردار بہت زیادہ بڑھ گیا ہے ۔ یہاں تک کہ اب فوجیوں سے زیادہ ڈرونز کی ضرورت بڑھ گئی ہے ۔ لہٰذا ہمیں اپنے ملک کے دفاع کے لیے جدید تقاضوں کے مطابق تیاری کرنی چاہیے۔ اٹامک ٹیکنالوجی کے لحاظ سے تو پاکستان کا شمار دنیا کے ٹاپ کے چند ممالک میں ہوتا ہے۔ اسی طرح سائبر ٹیکنالوجی میں پاکستان نے خود کو ثابت کیا ہے۔جیسا کہ یوکرین جنگ کی حالت میں بھی ڈرون بنا رہا ہے ۔ اسی طرح نئی سے نئی جو ٹیکنالوجی آرہی ہے اس میں مہارت حاصل کرنا ضروری ہے ۔ اہم بات یہ ہے کہ اب جنگوں کے سلسلے شروع ہو چکے ہیں ۔ جن خفیہ ہاتھوں نے پہلی اور دوسری عالمی جنگیں کروائی تھیں وہ تیسری عالمی جنگ شروع کروانے کے لیے بہانے ڈھونڈ رہی ہیں ۔ اسی لیے وہ غزہ میں اس طرح کی حرکتیں کر رہے ہیں ، شام کے کئی علاقے انہوں نے لے لیے ہیں اور لبنان کو بھی مفلوج کر دیا ہے ۔ ایران کو بھی ضربیں لگا رہے ہیں۔ ان حالات میں ہمیں اپنی دفاعی صلاحیت کے ساتھ ساتھ حملہ کرنے کی صلاحیت کو بھی بڑھانا ہوگا ۔ اس سب کے ساتھ ساتھ ہمیں دین کے ساتھ اپنا تعلق مضبوط کرنا ہوگا کیونکہ جب تک اللہ کی مددہمارے ساتھ ہوگی تو دشمن ہمیں زیر نہیں کر پائیں گے ۔ کچھ یہودی ربیوں کا کہنا ہے کہ یہودیوں کا ایک گروپ مطلوبہ مسلم قائدین اور مجاھدین کی تصویریں سامنے رکھ کر بیٹھا ہوتاہے اور ان پر قبالہ جادو کے وار کرتا ہے ۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ سچے مسلمانوں کو زیر کرنا بہت مشکل ہوتاہے جو نماز پڑھتے ہیں، حلال کھاتے ہیں اور اللہ سے ڈرتے ہیں ۔یہودی تمام شیطانی حربوں کو استعمال میں لا رہے ہیں اور جب دجال آئے گا تو وہ ان شیطانی حربوں میں سب سے بڑھ کر ہوگا ۔ ان کے مقابلے میں مسلمانوں کو صرف اللہ پر بھروسا کرنا ہے۔
سوال: پاکستان اور افغانستان کی چین سے قربت بڑھ رہی ہے ۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ یوکرین کی حالیہ حملہ میں مدد کرکے امریکہ نے پاکستان ، افغانستان اور چین کو دھمکانے کی کوشش کی ہے ؟
توصیف احمد خان: امریکہ نے بھارت کے غبارے میں ہوا بھر کر اسے چین کے مقابلے میں کھڑا کرنے کی کوشش کی تھی لیکن پاکستان سے چھ دن کے معرکے میں ہی اس کی ساری ہوا نکل گئی ۔ اب چین کے بارے میں امریکہ میں یہ بحث شروع ہو گئی ہے کہ اس کو روکنا بہت مشکل ہے لہٰذا اس کو مصروف کیا جائے ۔ چین لاطینی امریکہ میں انوسٹمنٹ کر رہا ہے ۔ برازیل سمیت لاطینی امریکہ کے ممالک چین سے اربوں ڈالرز کی تجارت کر رہے ہیں ۔ لہٰذا میرا خیال ہے کہ امریکہ اوراس کے اتحادی روس کو اتنا کمزور کرنا چاہتے ہیں کہ وہ چین کا ساتھ نہ دے سکے ۔ دراصل وہ چین کو تنہا کرنا چاہتے ہیں ۔لیکن ممکن ہے کہ8 جولائی کو برکس کی جو کانفرنس ہورہی ہے اس میں روسی صدر کی کوشش ہو کہ چینی صدر اور بھارتی وزیراعظم کی ملاقات ہو جائے۔اسی طرح پاکستان کو بھی برکس کا مستقبل ممبر بنانے کی کوشش کی جائے گی ۔ انڈیا نے بھی اگر 7.4کی شرح ترقی کو برقرار رکھنا ہے تو جنوبی ایشیاء کے ممالک کے ساتھ مل کر چلنا ہوگا۔ بصورت دیگر اگر جنگ کی طرف گیا تو انڈیا کو بہت مارپڑے گی اور چین اس کو گھسیٹ کر اپنے ساتھ لے کر جائے گا ۔ اسی وجہ سے چین انڈیا اور پاکستان کو بار بار یہ سمجھا رہا ہے کہ اپنے معاملات مل بیٹھ کر حل کر لو ۔
ٓرضاء الحق: حالیہ پاک بھارت جنگ کی وجہ بھی یہی بنی ہے کہ بھارت نے گلوبل نارتھ کے ایجنڈے پر عمل کرنے کی کوشش کی ہے ۔ IMECپروجیکٹ جی ٹونٹی کانفرنس میں لانچ کیا گیا تھا اور وہی پروجیکٹ نیتن یاہو نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں دکھایا ۔ یہ چین سے براہ راست مقابلہ تھا ۔ حالانکہ انڈیا کی پوزیشن چین کے ساتھ مقابلہ کی نہیں ہے ۔ چین کا سالانہ جی ڈی پی 18 ٹریلین ڈالر سے زائد ہے جبکہ بھارت کا جی ڈی پی صرف 3 ٹریلین ڈالر ہے۔ خود سے چھ گنا بڑی اکانومی سے مقابلہ کرنا جس کے پاس دنیا کی جدید ترین ٹیکنالوجی بھی ہے بھارت کی حماقت ہے ۔
سوال:سلامتی کونسل میں غزہ کے حوالے سے جنگ بندی کی قرارداد پیش کی گئی جسے امریکہ نے ویٹو کر دیا جیسے پہلے بھی کرتا رہا ہے ۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ امریکہ اسرائیل کے جنگی جرائم میں برابر کا شریک نہیں بن گیا ؟
آصف حمید:امریکہ اسرائیل کا سب سے بڑا پشت پناہ ہے۔کتنی ڈھٹائی کے ساتھ اس نےقرارداد کو ویٹو کر دیا۔ انسانیت کی اس سے بڑھ کر تذلیل کیا ہوگی کہ ایک ناجائز ملک بے گناہ بچوں اور عورتوں کو مسلسل شہید کر رہا ہے اور امریکہ جنگ بندی کے لیے پیش کی گئی قرارداد کو متواتر ویٹو کرتا چلا جارہا ہے ۔ حالانکہ دنیا بھر میں اسرائیلی مظالم کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں ، فرانس میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے مظاہرے کیے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف عرب حکمرانوں نے ٹرمپ کو اپنے سرکا تاج بنایا ہوا ہے اور حالیہ دورے میں اس کے ساتھ اربوں ڈالرز کے معاہدے کیے ہیں ۔ عملاً مسلم حکمرانوں کے ہاتھ بھی اہل غزہ کے خون سے رنگے ہوئے ہیں ۔ وہ تمام لوگ جو اسرائیل کو سپورٹ کر رہے ہیں وہ صہیونی تحریک کے مددگار ہیں ۔ یہ سب کے سب لوگ ظلم میں برابر کے شریک ہیں ۔
رضاء الحق:غزہ کے حوالے سے قرارداد میں یہی دو نکات تھے کہ ایک تو جنگ بندی کی جائے اور دوسرا غذائی امداد اہل غزہ تک پہنچنے دی جائے کیونکہ غزہ میں قحط جیسی صورتحال ہے اور زخمیوں کے لیے ادویات بھی میسر نہیں ہیں ۔ امداد کو روک کراسرائیل کھلم کھلا انسانی حقوق کی خلاف ورزی کر رہا ہے ۔ اقوام متحدہ میں پاکستانی مندوب کا موقف بھی یہی تھا کہ قرارداد کو ویٹو کرنا انسانی اخلاقیات پر بہت بڑا دھبہ ہے ۔ غزہ میں سوچی سمجھی نسل کشی کی جارہی ہے اور جو بھی اس میں ملوث ہے وہ اس کے لیے شرم کا باعث ہے ۔ عرب ممالک کو سمجھنا چاہیے کہ صہیونی گریٹر اسرائیل کے ایجنڈے سے کبھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ اس کے باوجود بھی عرب غافل رہتے ہیں تو پھر ان کے لیے تباہی ہے جیسا کہ حدیث میں بھی ذکر ہے :
((ويل للعرب من شر قد اقترب)) عربوں کی تباہی اس بلا سے ہو گی جو قریب ہی آ لگی ہے۔
اسرائیل دوریاستی حل کو بھی نہیں مانتا ۔ مغربی کنارے میں محمود عباس کی گورنمنٹ موجود ہے لیکن اس کے پاس نہ فوج ہے ، نہ پولیس ہے ، نہ اختیار ہے ۔ مسئلہ فلسطین کا ایک ہی حل ہے کہ اسرائیل کو طاقت سے ختم کیا جائے۔ اس کے علاوہ امن کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ کیونکہ اسرائیلی وہاں امن کے لیے آئے ہی نہیں ۔
سوال: امریکہ کے اپنے حالات دن بدن بگڑتے جا رہے ہیں، کیلیفورنیا میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہو رہے ہیں ، نیشنل گارڈز تعینات کر دیئے گئے ہیں اور روزانہ سینکڑوں گرفتاریاں ہو رہی ہیں ، دوسری طرف ایلون مسک اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان بھی تنازعہ طول پکڑ رہا ہے ۔ اس کے باوجود فلسطینیوں کی نسل کشی میں ٹرمپ اسرائیل کی مدد کر رہاہے ۔ اس پر آپ کیا کہیں گے ؟
توصیف احمد خان:ایلون مسک ٹرمپ کے قریب رہ کر جان چکا ہے کہ یہ ایک احمق آدمی ہےدوسری جانب ایلون مسک بھی احمق ہے ، وہ سمجھتاہے کہ میں نے پیسے لگائے ہیں لہٰذا ٹرمپ کی میرے سامنے کوئی حیثیت نہیں ہے ۔ امریکہ وہ ملک ہے جو ایک طرف غزہ میں جنگ بندی کروانے کا دعویٰ کرتاہے اور دوسری طرف اسرائیل کو اسلحہ اور امداد بھی دے رہا ہے ، جنگ بندی کی قرارداد بھی ویٹو کر رہا ہے ۔ وہ عرب حکمرانوں سے اربوں ڈالرز کے معاہدے کرتا ہے اور وہی اربوں ڈالر گھوم کر اسرائیل کے پاس پہنچ جاتے ہیں۔ امریکہ کا آئین یہ کہتا ہے کہ نیشنل گارڈز کو امریکی صدر صرف اسی صورت میں کسی سٹیٹ میں بھیج سکتاہے جب وہاں بغاوت ہو جائے ۔لیکن ٹرمپ نے کیلیفورنیا میں مظاہروں کو روکنے کے لیے نیشنل گارڈز کو اسلحہ دے کر بھیج دیا ہے۔ اس طرح ٹرمپ اپنی احمقانہ حرکتوں سے خود امریکہ کو تباہ کر رہا ہے ۔ اس کی انہی حرکتوں کی وجہ سے یورپ علیحدگی اختیار کر رہا ہے ۔ اس کے اتحادی اسے چھوڑ کر جارہےہیں ۔ غزہ اس کی وجہ سے قتل گاہ بن گیا ہے ۔ غزہ میں بلیک واٹر کے کارندے امدادی سامان تقسیم کرنے کے بہانے جاسوسی کر رہے ہیں ۔ اسی طرح ابو شباب نامی گروپ جو منشیات سمگلنگ میں ملوث تھا اس کی خدمات بھی امدادی سرگرمیوں کے لیے حاصل کی گئی ہیں جبکہ اسی گروپ کی مخبری پر خان یونس میں بھی آپریشن ہو رہا ہے ۔ اسرائیل داعش سے بھی کام لے رہا ہے ، اُس کو اسلحہ دے رہا ہے ۔ گویا مسلمانوں کا قتل عام مسلمانوں کے ذریعے بھی کیا جارہا ہے ۔ عربوں سے تو اب کوئی اُمید نہیں رہی ، اگر ترکی اور پاکستان مل کر کوئی اقدام کریں تو غزہ میں نسل کشی رُک سکتی ہے کیونکہ حالیہ پاک بھارت معرکہ میں ان کی اہمیت بڑھی ہے ۔
سوال: علامہ اقبال نے تقریباً ایک صدی قبل کہاتھا کہ دنیا کو ہے پھر معرکۂ روح و بدن پیش ۔آپ کیا سمجھتے ہیں کہ دنیا اس وقت کسی بہت بڑی جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے اور فتن اور ملاحم کے حوالے سے جو نبی کریمﷺ کی احادیث مبارکہ ہیں، ان سے ہمیں کیا رہنمائی ملتی ہے۔ ان احادیث کی روشنی میں آپ پاکستانی قوم اور پاکستانی افواج کو کیا پیغام دیں گے ؟
آصف حمید: دور فتن اور ملاحم کے حوالے سے جو احادیث ہیں، اللہ کرے کہ یہ احادیث ہماری عسکری قیادت کے علم میں بھی ہوں ۔ اس لیے کہ یہ احادیث ہمارے مخالفوں کے علم میں ضرور ہیں۔ ان کو وہ سامنے رکھ کےمنصوبہ بندی کر رہے ہیں ۔جیسا کہ رینڈ کارپوریشن نے مسلمانوں کو چار گروہوں میں تقسیم کرکے ہر گروہ کے حوالے سے الگ پالیسی کی سفارش کی اور آج تک ان پالیسیز پر عمل ہورہا ہے ۔ یہودیوں کو علم ہے کہ اسلام ہی اصل دین ہے لیکن وہ اپنے تکبر اور حسد کی وجہ سےاس کے بدترین مخالف ہوگئے ہیں ۔ انہی دو بیماریوں کی وجہ سے ابلیس نے بھی آدمؑ کو سجدہ نہیں کیا تھا ۔ لہٰذا اب یہودی اور ابلیس ایک ایجنڈے پر ہیں۔ اسی تکبر اور حسد کی وجہ سے انہوں نے اللہ کے آخری نبی ﷺ کا انکار کیا اور ضد میں آکر دجال کا انتظار کرنے لگے ۔دورفتن کی احادیث کی روشنی میں ان سب چیزوں کو سمجھنا ضروری ہے ۔ فتنہ دجال اتنا بڑا فتنہ ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام سے لے کر آخری نبی ﷺ تک ہر پیغمبر نے اس فتنہ سے اپنی قوم کو ڈرایا ہے ۔ نبی اکرم ﷺ فتنہ دجال کا اس قدر فکرمندی کے ساتھ ذکر کرتے تھے کہ صحابہ کرام ؇کہتے تھے کہ ہمیں محسوس ہوتا تھا کہ دجال ابھی جھاڑیوں سے نکل کر آ جائے گا ۔ مگر قرب قیامت کی علامات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ دجال کا ذکرکرنا لوگ چھوڑ دیں گے۔یہ ایسے ہی ممکن ہے کہ سوشل میڈیا سے ہر ایسے مواد کو ہٹا دیا جائے ۔ آج فتنہ دجال کی بہت ساری چیزوں میں ہم ملوث ہو چکے ہیں ۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ لوگ حلال و حرام کی تمیز چھوڑ دیں گے ۔ آج یہ چیز معاشرے میں عام ہو چکی ہے اور کوئی پروا تک نہیں کی جارہی ۔ اسی طرح غیر محرم مرد و خواتین کے درمیان پردہ اور علیحدگی کا تقاضا شریعت کرتی ہے مگر آج اس کو دقیانوسی سمجھا جارہا ہے ۔ حدیث میں ہے کہ ہر گھر میں ناچنے اور گانے والیاں ہوں گی ، آج شادی بیاہ کی رسم اس کے بغیر پوری نہیں ہوتی۔اسی طرح دور فتن کی احادیث میں جنگوں کا بھی ذکر ہے جو کہ شروع ہو چکی ہیں۔رومیوں کے ساتھ جنگ کا بھی ذکر ہے جو کہ موجودہ دور کے امریکہ اور نیٹو ہیں ۔غزوہ ہند کا بھی ذکر ہے ۔ اصل جنگ آخر میں دجال کے خلاف ہونی ہے ۔ حضرت امام مہدی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد کا بھی ذکر ہے ۔یہ بھی ذکر ہے کہ خراسان سے مسلمانوں کا لشکر سیاہ جھنڈے لے کر حضرت امام مہدی کی نصرت کو جائے گا اور یروشلم میں جھنڈے گاڑے گا ۔پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں دجال کا خاتمہ ہوگا اور اس کے بعد حضور ﷺ فرماتے ہیں کہ : اللہ تعالیٰ نے مجھے زمین کو لپیٹ کر دکھا دیا، میں نے اس کے سارے مشرق دیکھ لیے، سارے مغرب دیکھ لیے۔یاد رکھو کہ میری اُمت ان تمام کونوں تک پہنچے گی جو مجھے لپیٹ کر دکھا دیئے گئے۔اس ساری زمین پر اللہ کا دین قائم اور نافذ ہوگا ۔ یہ نبی اکرم ﷺ کے خاتم النبیین اور رحمت اللعالمین ہونے کا تقاضا بھی ہے کہ کل روئے ارضی پر اسلام کا غلبہ ہو ۔ مسلمانوں کا اصل مشن یہی ہونا چاہیے۔ مگر مسئلہ یہ ہےکہ دورفتن کی ان احادیث پر جتنا غیروں کا یقین ہے اور انہوں نے ان کے مطابق منصوبہ بندی کی ہے ، اس طرح مسلمانوں نے اس پر کام نہیں کیا ، مذہبی طبقہ اور مدارس نے بھی شاید اس طرف زیادہ توجہ نہیں دی۔ سیکولر نظام نے ریاست اور مذہب کی تقسیم کرکے لوگوں کو وحی کی ہدایت سے محروم کر دیا ۔ لیکن ہم تو مسلمان ہیں ، ہمیں ان احادیث کو مدنظر رکھنا چاہیے اوراپنی نسلوں کو اس کی تعلیم دینی چاہیے ۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2025