اداریہ
رضاء الحق
امن یا جنگ میں وقفہ؟
نوبل انعام کا آغاز 1901ء میں ناروے سے تعلق رکھنے والے ڈائنامیٹ کے موجد الفرڈ نوبل کی وصیت کے مطابق ہوا کہ ان کے انتقال کے بعد ان کی جائیداد کو سالانہ 5 میدانوں، یعنی کیمیا، طبیعیات، ادب، طب اور ’’امن‘‘ میں کارہائے نمایاں سر انجام دینے والے افراد میں تقسیم کیا جائے۔ انعام کے لیے نامزدگان اور انعام پانے والے افراد یا تناظیم کا فیصلہ رائل سویڈش اکیڈمی آف سائنسز، کیرولنسکا انسٹیٹیوٹ اور نارویجن نوبل کمیٹی کرتے ہیں۔ امن کے نوبل انعام کا فیصلہ صرف ناروے کی نوبل کمیٹی ہی کرتی ہے۔ 1968ء میں نوبل انعام برائے معیشت کا بھی اجراء کیا گیا۔ نوبل انعام پانے والوں کو ایک طلائی میڈل، ایک ڈپلوما اور کم و بیش 11 لاکھ امریکی ڈالر (31 کروڑ پاکستانی روپے) دیے جاتے ہیں۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ امن کا نام نہاد نوبل انعام درحقیقت عالمی سطح پر استعمال کیے جانے والے مغرب کے سیاسی اور تمدنی ہتھیاروں میں سے ایک ہے۔ امن اور انسانی حقوق کے دلفریب نعروں سے پردہ ہٹا کر دیکھیں تو انسانیت سوز مظالم کرنے والوں کو امن کا پیامبر بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر جنگ عظیم اوّل میں امریکی صدر ووڈرو ولسن،ہٹلر کے وزیر خارجہ گستاف سٹریسمان ( 2 مرتبہ) ، ہنری کسنجر جو امریکی تاریخ کا شاید شاطر ترین وزیر خارجہ تھا ، یہودی تھا اور اُس کے ہاتھ ویتنام کے لاکھوں افراد کے خون سے رنگے ہوئے تھے، میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی پر خاموشی اختیار کرنے والی آنگ سان سو چی، فلسطینیوں کی نسل کشی کے مرتکب شمعون پیریز اور اسحاق رابین، افغانستان پر مسلط جنگ کو جاری رکھنے والے امریکی صدر بارک اوباما، یورپی یونین اور دنیا کے ’’امن پسندوں‘‘ کی ایک طویل فہرست ہے جنہیں امن کا نوبل انعام دیا گیا۔ ع کہاں تک سنو گے کہاں تک سناؤں۔ پھر یہ کہ مغربی تہذیب کی دلدادہ وہ مسلم خواتین جو روایت سے کٹ کر اور جدیدیت و روشن خیالی سے جڑ کر اسلام کی سفیر بنیں، انہیں بھی ناروے کی نوبل کمیٹی نے امن کے انعام سے نوازا۔ پاکستان کی ملالہ یوسف زئی، عراق کی نادیہ مراد، ایران کی نرگس محمدی… مشتے از نمونہ خروارے!
ہمیں یہ طویل تمہید اس لیے باندھنا پڑی کہ20 جون کو مملکتِ خداداد کے نائب وزیرِاعظم اور وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار صاحب کے دستخط سے ناروے کی نوبل کمیٹی کو ایک خط بھیجا گیا جس میں پاکستان نےامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو 2026ء کے امن کے نوبل انعام کے لیے نامزد کرنے کی سفارش کی ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ خط میں تحریر کیا گیا ہےکہ امریکی صدر نے ہمیشہ دور اندیشی اور اعلیٰ حکمت عملی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسلام آباد اور نئی دلی کے ساتھ بھرپور سفارتی رابطے رکھے ہیں جس کے نتیجے میں دو ہمسایہ جوہری ریاستوں کے مابین جنگ بندی عمل میں آئی۔ پھر یہ کہ خط میں صدر ٹرمپ کی کشمیر تنازعہ کے حل میں ثالثی کی پیشکش کو بھی اس نامزدگی کی ایک وجہ بتایا گیا ۔ اگرچہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے وقت ضائع کیے بغیر امریکہ بلکہ صحیح تر الفاظ میں ٹرمپ کی اس پیشکش کو یہ کہہ کر ٹھکرا دیا کہ کشمیر کا معاملہ پاکستان اور بھارت کا باہمی مسئلہ ہے جس میں کسی تیسرے فریق کو دخل اندازی کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اِسی دوران فیلڈ مارشل عاصم منیر امریکی دورہ پر تھے اور سوشل میڈیا پر پاکستان کے امریکہ کوایران پر حملے کے لیے اڈے اور فضائی حدود دینے جیسی لغو،بے بنیاد اور جھوٹ پر مبنی خبریں بھی بعض ذرائع نے عام کیں جو قابلِ مذمت ہیں۔ وائٹ ہاؤس میں حلال مینیو پر مشتمل کھانوں سے اُن کی ضیافت کی گئی۔ مبینہ طور پر فیلڈ مارشل نے ٹرمپ کی امن پسندی کو سراہا بھی۔ ہمیں رونگٹے کھڑے کردینے والی یہ حدیث یاد آگئی۔
عن أنس قال قال رسول الله صلى ﷺ : (( إذا مدح الفاسق غضب الرب تعالى واهتز له العرش)) (رواه البيهقي في شعب الإيمان)
’’حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب فاسق کی مدح و تعریف کی جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ مدح و تعریف کرنے والے پر غصّہ ہوتا ہے اور اس کی مدح و تعریف کی وجہ سے عرش کانپ اٹھتا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اپنے غضب سے محفوظ رکھے۔ آمین
خط میں اس امید کا اظہار بھی کیا گیا کہ ٹرمپ کی کوششیں غزہ کےالمیہ اور ایران کے ساتھ بڑھتی کشیدگی کو روکنے میں مثبت رہیں گی۔بھلا ایک لنچ بھی جنگی مجرم کے ارادے بدل سکتا تھا؟ اور پھر وہی ہوا… خط کے محض دو روز بعد 22جون کو علی الصبح امریکہ نے جدید ترین B-2 جنگی طیاروں اور علاقے میں موجود اپنی آبدوزوںکے ذریعے ایران کے تین اہم ایٹمی مراکز فردو،نطنز اور اصفہان پر کروز میزائلوں اور بنکر بسٹر بموں کی بارش برسا دی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ امریکہ نے GBU – 57 massive ordnance penetrater بموں کو عملی طور پر استعمال کیا۔ صدر ٹرمپ نے ان حملوں کو عظیم عسکری کامیابی قرار دیتے ہوئے دعویٰ داغ ڈالا کہ ایران کی یورینیم افزودگی کی صلاحیت مکمل طور پر تباہ کر دی گئی ہے۔ البتہ انٹرنیشنل اٹامک انرجی کمیشن (آئی اے ای اے) کے مطابق اور خود ایران اور ایک امریکی ادارے کی طرف سے جاری تفصیلات کے مطابق ان میں سے کسی ایٹمی تنصیب سے تابکاری کے اخراج کی رپورٹ نہیں ملی۔ تینوں ایٹمی مراکز محفوظ و فعال ہیں اور یورینیم کی افزودگی جاری ہے۔گویا2026ءمیں امن کے نوبل انعام کے لیے پاکستان کی جانب سے نامزد شخص نے اس ’’کار خیر‘‘ میں بھی باقاعدہ شرکت فرمائی۔ اسرائیل نے 13 جون سے ایران کی ایٹمی تنصیبات اور دیگر اہم اداروں و افراد کو نشانہ بنانا شروع کر دیا تھا۔ ایران اسرائیل کو مقدور بھر جواب بھی دیتا رہا اور اسرائیلی تاریخ میں شاید پہلی بار تل ابیب میں اس قدر نقصان ہوا۔ لیکن ایران کو دو مشکلات کا سامنا تھا۔ ایک تو علاقے میں موجود بعض عرب ممالک اسرائیل کی طرف داغے گئے میزائلوں اور ڈرونز کو خود مار گراتے تھے۔ دوسرا یہ کہ بہرحال یروشلم اور مقبوضہ فلسطین کے دیگر علاقوں میں مسلمان بھی آباد ہیں لہٰذا صحیح نشانہ باندھنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ اسرائیل چاہتا ہی یہی تھا کہ امریکہ کو مشرق وسطیٰ کی جنگوں میں گھسیٹا جائے اور بظاہر وہ اپنے ہدف میں کامیاب دکھائی دیا، اگرچہ ٹرمپ نے گونگلوؤں سے مٹی جھاڑتے ہوئے اپنی ناکامی کے بعد جنگ بندی کا اعلان کردیا۔ نیتن یاہو کو جھاڑبھی پلائی جو ہمارے نزدیک سکرپٹ کا ہی حصّہ ہے۔ اِس قدر بمباری کے باوجود ایران کی ایٹمی تنصیبات کو نقصان نہ پہنچنا امریکہ اور اسرائیل دونوں کی ناکامی ہے۔ پھر یہ کہ ایران میں رجیم چینج کرنے کی کوششیں بھی بُری طرح ناکام ہوئیں۔
تجزیہ نگاروں کی اکثریت کے برعکس ہماری رائے شروع سے یہی رہی ہے کہ ایران کو شکست دینا یا وہاں رجیم چینج کروانا انتہائی مشکل بلکہ تقریباً ناممکن ہے۔ اِس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ رجیم چینج صرف اُن ممالک میں کامیاب ہوتی ہے جہاں سیاسی حکومتیں فیصلے کرتی ہیں۔ ایران میں فیصلے مذہبی بنیادوں پر ہوتے ہیں اور مذہبی قیادت جو ’’معصوم‘‘ تصور کی جاتی ہو اُس کے خلاف عوام کو بھڑکانا تقریباً ناممکن ہے۔ پھر یہ کہ ایران میں ’’نیشنلزم‘‘ مثالی ہے۔ عقل مند کے لیے اشارہ ہی کافی ہے۔ پاکستان میں بھی معاملہ کچھ ایسا ہی ہے لیکن ہمارے ہاں فیصلہ ساز مذہب نہیں طاقت کے زور پر قابض ہیں۔ اِس پر کسی اور موقع پر بات ہوگی۔ ان شاء اللہ! اپنی بد ترین ناکامی کی خفت مٹانے کے لیے ایک معاہدہ ہوا۔ امن کا اعلان ہوا۔ خوش نہ اسرائیل ہے نہ ٹرمپ، مگر دونوں مجبور ہیں۔ہماری رائے میں ایران نے بھی قریبی عرب ممالک میں موجود امریکی اڈوں پر اِسی معاہدہ کے تحت اُنہیں اطلاع دے کر حملے کیے۔ چین اور روس ایران کی مکمل حمایت کے لیے تیار بیٹھے تھے۔ لیکن ایران نے تو آبنائے ہرمز کو بھی بند نہیں کیا۔ جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا کہ عقل مند کے لیے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے۔ بہرحال یہ امن معاہدہ کب تک چلتا ہے اللہ ہی جانتا ہے۔ لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل ایک مرتبہ پھر بھارت کو طاقت ور بنانے اور ہمت دلانے کی کوشش کریں گے۔ اِن معاملات میں وقت اور مقام کا حتمی دعویٰ کرنابے معنی ہے۔ البتہ جنگ ختم نہیں ہوئی وقتی طور پر تعطل کا شکار ہوئی ہے۔ مہینے، 6 مہینے یا سال کے بعد جنگ کا دوبارہ آغاز کہاں ہوتا ہے یہ وقت ہی بتائے گا۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے حالیہ اجلاس میں بھارت کے ساتھ جو سلوک ہوا وہ ظاہر کرتا ہے کہ چین اور روس بھی مودی کے انڈیا پر اعتماد کھو چکے ہیں۔
حال ہی میں اسرائیل کے ایک ربی یوسف مزراچی کی وائرل ویڈیو سامنے آئی ہے جس میں اللہ کا دشمن کہتا ہے ،’’ اگر میرا بس چلے تو مسجد اقصیٰ کو خود بم مار کر اڑا دوں اور اس کا الزام ایرانی میزائلوں پر ڈال دوں۔ اس سے ایران اور قرب و جوار کے عرب ممالک کی بھی آپس میں جنگ چھڑ جائے گی‘‘ یہ کوئی سازش تھیوری نہیں بلکہ اسرائیل کی تاریخ اس نوعیت کے فالس فلیگ واقعات سے بھری پڑی ہے جن سے اس نے خوب فائدہ اٹھایا۔کہیں اسرائیل تھرڈ ٹیمپل کی تعمیر کے لیے کسی فالس فلیگ حملہ کی تیاری تو نہیں کر رہا؟ واللہ اعلم۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ یہود کی دجالی سازشوں سے مسلمانوں کو محفوظ رکھے۔ آمین
یہ ایک حقیقت ہے کہ ایران امریکہ کو جغرافیائی اعتبار سے تو کوئی نقصان نہ پہنچا سکے گا لیکن اگر کسی بھی وجہ سے ایران کو عرب مالک میں امریکی اڈوں پر دوبارہ حملے شروع کرنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے تو ایران عرب جنگ کا بھی خدشہ ہے۔ جس میںفرقہ و مسلک کا رنگ بڑا گہرا اور واضح ہو گا اور یہ اُمت مسلمہ کے اتحاد کے لیے زہرِ قاتل ثابت ہوگا جبکہ فائدہ صرف اسرائیل کا ہوگا۔
اگرچہ ایران نے ماضی میں بہت غلطیاں کیں اور ایسے اقدامات بھی اُٹھائے جن سے دیگر مسلم ممالک کو نقصان پہنچا جس کی مذمت کرنا بنتا ہےلیکن اس کے باوجود اس نازک موقع پر تمام مسلم ممالک کو ایران کا عملی طور پرساتھ دینا ہوگا۔ اگر مسلم ممالک ایران کا ساتھ نہیں دیتے تو گویا وہ یہود اور ان کی ناجائز صہیونی ریاست جو فلسطین پر قبضہ کر کے قائم کی گئی ہے کا ساتھ دے رہے ہوں گے۔ یہ بھی یاد رہے کہ اگر مستقبل میں امریکہ اور اسرائیل ایران کو زیر کر لیتے ہیں اور وہاں رجیم چینج کروانے میں کامیاب ہو جاتے ہیںتو اسرائیل کا اگلا نشانہ پاکستان ہوگا۔ جس کا تذکرہ 1967 ء میں اسرائیل کا پہلا وزیراعظم بن گوریان بھی کر چکا ہے اور چند برس قبل موجودہ وزیراعظم نیتن یاہو بھی ایک انٹرویو میں پاکستان کے ایٹمی دانت نکالنے کی خواہش کا اظہار کر چکا ہے۔ ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل مسلسل 20 ماہ سے غزہ کے مظلوم و مجبور شہریوں کو اپنی وحشیانہ بمباری کا نشانہ بنا رہی ہے۔ رپورٹس کے مطابق شہداء 70 فیصد عورتوں اور بچوں پر مشتمل ہیں۔ اوّل تو اسرائیل امدادی سامان کو غزہ داخل ہونے ہی نہیں دیتا اور جس تھوڑے سے سامان کو داخلے کی اجازت مل جاتی ہے تو وحشی صہیونی امداد حاصل کرنے کے لیے قطاریں بنائے غزہ کے مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ کیا کوئی غزہ کے مسلمانوں کے لیے بھی عملی اقدامات اُٹھائے گا؟
ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام مسلم ممالک کا ہنگامی اجلاس بلایا جائے جس میں ایران پر اسرائیلی اور امریکی حملوں کی کھل کر مذمت کی جائے اور حملہ آوروں کو عملی طور پر دندان شکن جواب دینے کے لیے مشترکہ لائحہ عمل ترتیب دیا جائے۔پاکستان اپنی جغرافیائی اور خصوصاً نظریاتی سرحدوں کو مضبوط کرے۔ حکومت اور مقتدر حلقے حالات کی نزاکت کو سمجھیں۔ دشمن ہمارے دروازے پرآن پہنچا ہے۔پاکستان کو حقیقی معنوں میں ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانے میں حکومت، اپوزیشن، مقتدر حلقے اور عوام سب اپنا تن، من، دھن لگا دیں تاکہ اُمت مسلمہ کی قیادت کرتے ہوئے پاکستان انسانیت کے دشمنوں کے خلاف اُمت مسلمہ کو عملی اقدامات کے لیے متحد کرسکے۔ اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو۔ آمین!
tanzeemdigitallibrary.com © 2025