(منبرو محراب) ایران اسرائیل جنگ : کرنے کے کام - ابو ابراہیم

7 /

ایران اسرائیل جنگ : کرنے کے کام


(قرآن و حدیث کی روشنی میں)


مسجدجامع القرآن ، قرآن اکیڈمی لاہور میں امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ  حفظ اللہ کے20جون 2025ء کے خطاب جمعہ کی تلخیص

خطبہ ٔمسنونہ اور تلاوتِ آیاتِ قرآنی کے بعد!
اس وقت جو عالمی صورتحال ہے اس کے تناظر میں واضح طور پر محسوس ہوتاہے کہ دنیا تیسری عالمی جنگ کے دہانے پرکھڑی ہے ۔ تقریباً 20 ماہ سے تو مسلسل غزہ پر بمباری ہورہی تھی ، اب یہ جنگ پھیل کر ایران تک پہنچ چکی ہے ۔ اس تناظر میں امریکہ کا مکروہ چہرہ، کذب اور جھوٹ بھی سامنے آچکا ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ ہم ایران کے ساتھ مذاکرات کرنے جارہے ہیں لیکن پھر اچانک ہی ایران پر حملہ کردیاگیا ۔ امریکہ مکمل طور پر اسرائیل کی مدد اور پشت پناہی کر رہا ہے ۔ یقیناً اللہ کی کتاب میں ہمارے لیے قیامت تک کے لیےرہنمائی موجود ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
’’اے ایمان والو!یہودو نصاریٰ کو اپنادلی دوست (حمایتی اور پشت پناہ) نہ بنا ئو۔ وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیںاور تم میں سے جو کوئی ان سے دلی دوستی رکھے گاتو وہ ان ہی میں سے ہو گا۔ یقیناًاللہ ایسے ظالموں کو ہدایت نہیںدیتا۔‘‘(المائدہ :51)
یہاں اُصولی ہدایت یہ ہے کہ ایک مسلمان کی دوستی مسلمان سے ہونی چاہیے ۔اللہ پر ایمان اور اللہ سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمان کی دوستی ایمان کے رشتے کی بنیاد پر ہو ۔ کافروں کے بارے میں بھی قرآن میں ہدایات ہیں کہ جو کافر مسلمانوں کے ساتھ جنگ نہیں کرتے ، انہیں تکالیف نہیں پہنچاتے ان کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے گا۔ تاہم جو مسلمانوں کے ساتھ جنگ کرتے ہیں یا اس جنگ میں انہیں ان کے گھروں سے نکالتے ہیں یا ان کے دشمنوں کی مدد کرتے ہیں تو وہ کسی حسن سلوک کے مستحق نہیں ہیں اور نہ ہی ان سے دوستی کرنا مسلمان کے لیے جائز ہے ۔  ایک اور مقام پرفرمایاکہ اگر تمہارا رویہ اس کے برعکس ہے تو پھر   اللہ تعالیٰ کے ساتھ تمہارا کوئی تعلق نہیں ہے۔ سورۃ المائدہ میں آگے فرمایا :
’’تو تم دیکھتے ہو ان لوگوں کو جن کے دلوں میں روگ‘ہے‘وہ انہی کے اندر گھسنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں‘ وہ کہتے ہیں ہمیں اندیشہ ہے کہ ہم گردشِ زمانہ میں نہ پھنس جائیںتوبہت ممکن ہے اللہ تعالیٰ جلد ہی فتح لے آئے یا اپنے پاس سے کوئی اور فیصلہ صادر فرما دے‘تو پھر جو کچھ وہ اپنے دلوں میں چھپائے ہوئے ہیں اس پر انہیں نادم ہونا پڑے۔‘‘ (المائدہ :52)
ان آیات کا پس منظر یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کےدور میں حزب اللہ ( مسلمانوں ) سے دشمنی رکھنے والے کچھ کھلے کافر تھے جن میں یہود و نصاریٰ بھی شامل تھے ، ان کے علاوہ کچھ چھپے ہوئے دشمن بھی تھے جن میں منافقین سرفہرست تھے ۔ یہ منافق بظاہر مسلمان کہلاتے تھے لیکن اندر سے ان کا گٹھ جوڑ یہودو نصاریٰ کے ساتھ تھا ۔ ان کی پوشیدہ طور پر دوستیاں اور ہمدردیاں یہودو نصاریٰ کے ساتھ تھیں ۔ ان لوگوں کے بارے میں فرمایا کہ ان کے دلوں میں بیماری ہے ، یعنی ان کے دل میں یقین والا ایمان نہیں ہے ۔ وہ یہودو نصاریٰ سے بھی بنا کر رکھنا چاہتے ہیں کہ کہیں کل گردش زمانہ کا شکار نہ ہوجائیں ۔ آج کےد ور میں بھی ایسے لوگ ہیں جواس دوغلی پالیسی پر گامزن ہیں ، ان آیات میں آج کے دور کے لیے بھی رہنمائی موجود ہے کیونکہ قرآن ایک زندہ کتاب ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے :
{لَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکُمْ کِتٰـبًا فِیْہِ ذِکْرُکُمْط اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ(10)}(الانبیاء) ’’(اے لوگو!) اب ہم نے تمہاری طرف یہ کتاب نازل کر دی ہے‘ اس میں تمہارا ذکر ہے ۔تو کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟‘‘ 
 آج کے دور میں بھی اگر ہم جائزہ لیں تو ایک طرف وہ مسلم ممالک خاص طور پر عرب ممالک ہیں جو اسرائیلی مظالم پر بالکل خاموش بیٹھے ہیںاور کچھ ایسے بھی ہیں جو اندر خانے اسرائیل کے ساتھ تعلقات بڑھا رہےہیں اور ہر اعتبار سے اس کو مدد اور معاونت فراہم کر رہے ہیں ۔ اسرائیل کے پشت پناہ امریکہ کو خوش کرنے کے لیے وہ اربوںڈالرز خرچ کر رہے ہیں، کھربوں ڈالرز کے معاہدے کرتے ہیں  مگر بھوک اور پیاس سے شہید ہوتے فلسطینی بچوں کی کوئی مدد کرنے کو تیار نہیں ہیں ۔ دراصل ان کا مسئلہ بھی یہی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ کی ناراضگی کی وجہ سے کہیں گردش زمانہ کا شکار نہ ہوجائیں ، ہمارا اقتدار خطرے میں نہ پڑ جائے ۔ لہٰذا امریکہ کو کچھ دے دلا کر اسے خوش رکھا جائے۔ غزہ میں مسلمان بچے اور بیٹیاں بے شک ذبح ہوتی رہیں ، لاشیں بے شک گرتی رہیں ، ان بے گناہوں کا خون      بے شک بہایا جاتا رہے مگر ان حکمرانوں کا اقتدار باقی رہنا چاہیے، اُن کی عیاشیوں کو تحفظ ملنا چاہیے ۔ 
ڈاکٹر اسراراحمدؒ کا ایک بیان اس حوالے سے بہت مشہور ہے، وہ فرمایا کرتے تھے کہ جس طرح مرغیوں کے ڈربے میں سے ایک مرغی کو نکال کر ذبح کیا جاتاہے اور باقی مرغیاں سمجھتی ہیں کہ ہم محفوظ ہیں لیکن بالآخر ایک ایک کرکے ساری مرغیوں کو ذبح کر دیا جاتاہے ۔ اسی طرح اگر مسلم ممالک کی خاموشی جاری رہی تو ایک ایک کرکے تمام مسلم ممالک کو زیر کر لیا جائے گا ۔ گریٹر اسرائیل کا منصوبہ بار بار کھل کر سامنے آچکا ہے ۔ صہیونیوں کے عزائم بالکل واضح ہیں ، وہ اپنے عزائم سے باز آنے والے نہیں ہیں اور ان کے پیچھے امریکہ اور یورپ کی طاقتیں ہیں ۔ ان حالات میں مسلم ممالک خصوصاً پاکستان کے کرتا دھرتا لوگوں کو بھی غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے ۔ قرآن کا حافظ ہونا، قران کی آیات کی تلاوت کرنا مبارک بات ہے، البتہ قرآن کے مفاہیم کو مدنظر رکھ کر اس کے مطابق عمل کرنا اصل تقاضا ہے۔ قرآن اُمت کے درد کی بھی بات کرتاہے ، قرآن ظلم کے خلاف کھڑا ہونے کی بھی تلقین کرتاہے ۔ قرآن ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ :
{وَلَنْ تَرْضٰی عَنْکَ الْیَہُوْدُ وَلَا النَّصٰرٰی حَتّٰی تَــتَّبِعَ مِلَّـتَہُمْ ط}(البقرہ :120) ’’اور ہرگز راضی نہ ہوں گے آپ سے یہودی اور نہ نصرانی جب تک کہ آپ پیروی نہ کریں ان کی ملت کی۔‘‘ 
یعنی یہودو نصاریٰ تب تک تم سے راضی نہ ہوں گے جب تک تم اپنے ایمان اور اپنے رب کے فرمان کو نہ چھوڑ دو ، قرآن اور پیغمبرﷺ کی دعوت کو نہ چھوڑ دو اور مکمل طور پر ان کے دین اور طریقے پر نہ آجاؤ ۔ تب تک وہ ڈو مور کا تقاضا تم سے کرتے رہیں گے ۔ اللہ تعالیٰ ہمارے حکمرانوں  کو سمجھنے کی توفیق عطافرمائے ۔ آمین ! 
ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی صدر بننے کے لیے امریکی عوام سے جو وعدے کیے تھے ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد جنگوں کو ختم کرکے تجارت کو فروغ دے گا۔ لیکن اب اس کے سارے جھوٹے دعوے بے نقاب ہو رہے ہیں ۔ غزہ میں جنگ بندی کے لیے جب بھی کوئی قرارداد سلامتی کونسل میں پیش کی جاتی ہے تو امریکہ اس کو ویٹو کر دیتاہے ۔ اب ایران کے خلاف  جنگ میں امریکہ باقاعدہ شریک ہو چکاہے ۔ بہانہ یہ بنایا گیا ہے کہ ایران ایٹمی صلاحیت حاصل کر لے گا لہٰذا اس کو ختم کیا جائے۔ ڈاکٹر اسراراحمدؒ بڑی خوبصورت بات بیان فرمایا کرتے تھے : تم ہزاروں ایٹم بم بناؤ اور ناگاساکی اورہیروشیما پر برساکر لاکھوں لوگوں کو راکھ بنا ڈالو تو کوئی غلط نہیں ، تم گریٹر اسرائیل کا منصوبہ بناؤ تو کوئی غلط نہیں لیکن کوئی مسلمان ملک اپنے دفاع کے لیے کوشش کرلے تو وہ جرم ۔ دنیا میں صرف تمہارا ہی حق ہے ؟ باقی سب کیڑے مکوڑے ہیںجنہیں مارڈالنے کا تمہیں حق ہے ؟شام ، عراق ،  لیبیا ، لبنان سمیت کئی مسلم ممالک کو تم نے تباہ کردیا ، اب چاہتے ہو کہ ایران طاقت حاصل نہ کرلے ۔ مسلمانوں کو سمجھنا چاہیے کہ کیوں قرآن میں اللہ نے حکم دیا ہے :
’’اور تیار رکھو اُن کے (مقابلے کے ) لیے اپنی استطاعت کی حد تک طاقت اور بندھے ہوئے گھوڑے ‘ (تا کہ )تم اس سے اللہ کے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو ڈرا سکو۔‘‘(الانفال:60)
مسلمانوں کو باقاعدہ عسکری طاقت حاصل کرنے کا حکم دیا گیا ہے تاکہ اس کے ذریعے اللہ کے دشمنوں کو اور اپنے دشمنوں کو مرعوب رکھا جا سکے ۔یہ قرآن کی سچی اور کھری باتیںہیں جو حرف بہ حرف سچ ثابت ہورہی ہیں ۔ اسی طرح یہودو نصاریٰ کے گٹھ جوڑ کے متعلق بھی قرآن نے آج سے 14 سو سال قبل پیشین گوئی کر دی تھی ۔ ڈاکٹراسراراحمدؒ نے بہت قیمتی بات بتائی تھی کہ صدیوں یہود و نصاریٰ آپس میں دشمن رہے ہیں ،کوئی توقع ہی نہیں کر سکتا تھا کہ یہ کبھی دوست بن جائیں گے ۔ لیکن صہیونی عزائم کی تکمیل کے لیے آج یہ سب متحد ہو کر الکفر ملۃ الواحدہ کی شکل اختیار کر چکے ہیں ۔ قرآن کی یہ پیشن گوئی آج سچ ثابت ہورہی ہے۔ آج پوری دنیا اسرائیل کو گالیاں دے رہی ہے لیکن اس کے باوجود امریکہ پوری ڈھٹائی کے ساتھ اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے اور اس کو ہر قسم کی امداد اور معاونت فراہم کر رہا ہے ۔ 
ان سب حقائق کے باوجود بھی اگر ہم امریکہ سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ پاکستان کا دوست بن جائے گا ، یا ہماری بقاء وسلامتی کو یقینی بنائے گا تو یہ ہماری سب سے بڑی بھول ہے ۔ ماضی قریب میں بھی ہم نے امریکہ کی جنگ میں شریک ہو کر اس کو اپنے اڈے فراہم کیے ، فضائی اور زمینی حدود استعمال کے لیے فراہم کیں، اس نے یہاں سے حملے کرکےافغانستان میں لاکھوں مسلمانوں کو شہید کیا ، دہشت گردی کی اس نام نہاد جنگ میں ہمارے بھی ہزاروں لوگ شہید ہوئے ، امریکہ کی خاطر ہم نے اپنوں کو ناراض کیا ، نفرتوں کے بیج بوئے جس کا خمیازہ ہم آج بھی بھگت رہے ہیں ۔لیکن اس کے باوجود امریکہ ہم سے خوش نہیں ہوا اور آج ایک بار پھر اطلاعات کے مطابق پاکستان سے اڈے مانگ رہا ہے تاکہ ایران یا چائنہ کے خلاف استعمال کر سکے ۔ امریکہ میں دعوت کا معاملہ اللہ نہ کرے پاکستان کو شوگر کوٹڈ انداز میں ذبح کرنے کا معاملہ ہو ۔ پاکستان کے جو کرتا دھرتا لوگ ہیں ، انہیں سابق تاریخ کو یاد رکھنا چاہیے ۔ مومن ایک سوراخ سے دوبار نہیں ڈسا جاتا۔ ہمارے سپہ سالار اعظم ، صدر مملکت ، وزیراعظم ، سب مسلمان ہیں اور نبی اکرم ﷺ کے اُمتی ہیں ۔ اُمتی ہونے کی نسبت کی لاج رکھنے کی کوشش کرلیں ۔ ہم عوام تو صرف آواز بلند کر سکتے ہیں ، احتجاج اور مظاہرے کر سکتے ہیں لیکن آپ کے پاس طاقت اور اختیار ہے ، کل اللہ کو جواب دینا ہے ۔ غزہ کے مظلوم اور نہتے مسلمانوں کی ندائیں ہم سب کے کانوں میں گونج رہی ہیں ۔ آپ اُمت کوکھڑا کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں ، کم ازکم OICکا اجلاس طلب کر سکتے ہیں ، اُمت کا کوئی اتحاد قائم کر سکتے ہیں  بجائے اس کے کہ ہم غیروں کی طرف دیکھیں اور غیروں سے توقعات رکھیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے حکمرانوں کو بھی   صحیح فیصلوں کی توفیق دے۔ 
اسرائیل اور پاکستان کے درمیان صرف ایران ہی ایک رکاوٹ ہے اور سب جانتے ہیں کہ اسرائیل پاکستان کو اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتا ہے ۔ بن گوریان نے 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد فتح کا جشن مناتے ہوئے کہا تھا کہ ہمیں عربوں سے کوئی خطرہ نہیں ہے ، ہمارا اصل دشمن پاکستان ہے ۔ اسی طرح نیتن یا ہو نے کچھ عرصہ قبل کہا تھا کہ ہماری خواہش ہے کہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت ختم ہو جائے ۔ ان کو معلوم ہے کہ گریٹر اسرائیل کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت ہے ۔ اگر خدانخواستہ اسرائیل اور امریکہ مل کر ایران کو زیر کرلیتے ہیں تو اُن کا اگلا نشانہ پاکستان ہوگا ۔ بقول ڈاکٹر اسراراحمدؒ  اس مملکت خداداد کو اللہ نے چھپڑ پھاڑ کر جو ایٹمی صلاحیت اور میزائل ٹیکنالوجی دی ہے ،یہ اُمت کی امانت ہے۔ اس اعتبار سے ہمیں غور کرنا چاہیے اور اس کی حفاظت کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں ۔ 
ایران کے ساتھ اختلافات اپنی جگہ ، شیعہ سنی اختلاف اپنی جگہ ، ان نے بڑی غلطیاں بھی کی ہیں ،اس کے توسیعی منصوبے (گریٹر ایران )اور عزائم نے امت کو جو نقصان پہنچایا وہ بھی غلط ہے ،مسلم ممالک کے اندر اپنی پراکسیز کے ذریعے اُس نے بہت لہو بہایا ہے ، اس کی فاطمییون اور زینبیون نامی تنظیموں نے مسلم ممالک میں کارروائیاں کی ہیں ، یہ سب غلط تھا ، اس کی ہم مذمت کرتے ہیں اور ڈنکے کی چوٹ پر مذمت کرتے ہیں مگر وہ بھی ہمارے کلمہ گو بھائی ہیں ، ان پر اس وقت حملہ ہوا ہے لہٰذا ہمیں ان کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے اور ایران کا ساتھ دینا چاہیے۔ اگر آج ہم یہ نہیں کریں گے تواس کے بعد امریکہ اور اسرائیل کا اگلا نشانہ پاکستان ہوگا ۔ پھر یہ کہ ایران نے  کم ازکم اسرائیل کو جواب دیا ہے ۔ کم ازکم اسرائیلیوں کو بھی اندازہ تو ہوا کہ جب بمباری ہوتی ہے تو کیا ہوتا ہے ، اپنے گھر بار چھوڑنے پڑتے ہیں ، جنگ کی وجہ سےکس قدر تباہی اور بربادی ہوتی ہے ۔ اللہ کے اپنے فیصلے ہیں ،    اللہ تعالیٰ کے اپنے منصوبے ہیں ،وہ بہتر جانتا ہے۔ اسرائیل کا کم ازکم زعم تو ٹوٹاہے ۔ اس زعم کے ٹوٹنے پر اُمت کو ہمت پکڑنی چاہیے ۔ افغان طالبان ، روس اور چین کی طرف سے بھی بیانات آئے ہیں ،اس بلاک کے لیے یہ بہترین موقع ہے کہ وہ دنیا میں طاقت کے توازن کو بدل ڈالے۔ البتہ امت کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ مسلمانوں کا دفاع صرف مسلمان ہی آپس میں متحد ہو کر کرسکتے ہیں ۔ باقی سارا عالم کفر الکفر ملۃالواحدہ کی مانند ہے ۔ وہ وقت آنے پر سب اکٹھے ہو جاتے ہیں ۔ لہٰذا اصل میں مسلم ممالک کو آپس میں اتحاد کرنا چاہیے ۔ امریکہ کی غلامی سے جان چھڑانی چاہیے اور وقتی طور پر اس کے لیے روس اور چین سے مدد لینا پڑے تو گریز نہیں کرنا چاہیے ۔ یہ اہم موقع ہے ایران نے اسرائیل کا زعم توڑا ہے ، امت اگر اس وقت متحد ہو جائے تو اسرائیل کو گھٹنوں کے بل لایا جا سکتاہے ۔ اگر آج بھی  مسلم ممالک متحد نہیں ہوں گے تو پھر ایک ایک کرکے نشانہ بنتےرہیں گے ۔ ہمارے حکمرانوں کو غور کرنا چاہیے۔ پاکستان نے بھارت جیسے دشمن کے خلاف آپریشن بنیان مرصوص کیا اور اللہ تعالیٰ نے اس میں کامیابی دی ۔ ہم نے اس کا نام بھی قرآن سے لیا اور قرآن میں ہی اللہ تعالیٰ  فرماتاہے : {اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ }(الحجرات:10) 
’’یقیناً تمام اہل ِایمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔‘‘
 سارے کے سارے اہل ایمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ وہی قران کہہ رہا ہے کہ یہود و نصاریٰ کو اپنا دلی دوست نہ بناؤ ۔ ہم سب جانتے بھی ہیں کہ ابلیسی    اتحادِ ثلاثہ (امریکہ ، اسرائیل ، انڈیا ) پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کو ختم کرنے پر تُلا ہوا ہے کیونکہ انہوں نے گریٹر اسرائیل کا منصوبہ پورا کرنا ہے ۔ لہٰذا پاکستان کے حکمرانوں کو بھی سمجھنا چاہیے کہ اس ابلیسی اتحاد سے دوری اختیار کی جائے اور  مسلم ممالک کو متحد کرنے کے لیے لیڈنگ رول ادا کیا جائے ۔ اس مملکت خداداد پاکستان کو ہم نے اسلام کے نام پر حاصل کیا ہے ۔ لہٰذا سب سے اہم یہ ہے کہ ہم اللہ کے ساتھ کیا ہوا یہ وعدہ پورا کریں ۔ ا س وعدہ کو پورا نہ کرنے کی وجہ سے ہی آج ہم مسائل اور مصائب کا شکار ہیں ۔ جب تک اسلام کے نفاذ کی طرف پیش قدمی نہیں ہوگی اللہ تعالیٰ کی نصرت ہمارے شامل حال نہیں ہو سکتی ۔ ہمارے فیلڈ مارشل صاحب کی پوری دنیا میں چلت پھرت ہے ، اللہ ان کومزید توفیق دے مگر اُمت کو متحد کرنے کے لیے بھی کچھ کوشش کریں ۔ موت تو سب کو آنی ہے ، عوام کو آنی ہے ، خواص کو بھی آنی ہے ،  سب نے اللہ کے سامنے جواب دینا ہے ۔ یہ امتحان سب کا ہے ، اہل غزہ کا بھی ہے ، اہل عرب کا بھی ہے ، اہل پاکستان کا بھی ہے ۔ ہر ایک نے اپنا اپنا حساب دینا ہے ۔آج ہمیں اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہیے کہ ہم اس امتحان میں کہاں کھڑے ہیں ۔ اُمتی کا یہ کام نہیں کہ وہ مطمئن ہو کر بیٹھ جائےکہ میں سلامت ہوں ، میرا گھر بار سلامت ہے ، باقی اُمت کے ساتھ جو مرضی ہوتا رہے ، غزہ میں خون ِ مسلم بہتا ہے تو بہتا رہے ، ایران پر حملہ ہوا ہے تو ہوتا رہے ، ہرگز نہیں بلکہ اُمت ایک جسد واحد کی مانند ہے، جسم کے ایک حصے میں تکلیف ہوتی ہے تو درد پورا جسم محسوس کرتاہے ۔ آج اگر ہمیں درد محسوس نہیں ہورہا تو پھر ہمیں  اپنے ایمان    اور اُمتی ہونے کے دعوے پر نظر ثانی کرنی چاہیے ۔      اللہ تعالیٰ ہم سب کو سچا اہل ایمان اور سچا اُمتی بننے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے حکمرانوں کو بھی سوچنے ، حالات سے سیکھنے اور درست فیصلے کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین !