(زمانہ گواہ ہے) ’’ایران اسرائیل جنگ : کون ہارا کون جیتا؟ ‘‘ - محمد رفیق چودھری

7 /

ڈونلڈ ٹرمپ غرہ میں مسلمانوں کی نسل کشی میں اسرائیل کی

مکمل معاونت کررہا ہے ، اس کے باوجود پاکستان کی جانب

سے اُسے نوبل پرائز کے لیے نامز د کرنا شرمناک اور اپنے

مسلمان بھائیوں سے بغاوت ہے :رضاء الحق

جب اسرائیل نے دیکھا کہ جنگ کے مقاصد حاصل نہیں ہورہے

اور اگر جنگ مزید طویل ہوئی تو اس کا مزید نقصان ہو جائے گا

تو اس نے مجبوراً سیز فائر کو قبول کرلیا : بریگیڈیئر (ر)رفعت اللہ

’’ایران اسرائیل جنگ : کون ہارا کون جیتا؟ ‘‘

پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف تجزیہ نگاروں اور دانشوروں کا اظہار خیال

میز بان : وسیم احمد

مرتب : محمد رفیق چودھری

سوال: اللہ کا شکر ہے کہ اسرائیل ایران جنگ بند ہوئی ورنہ خطے میں بہت بڑی کشیدگی کا خطرہ پیدا ہوگیا تھا ۔ آپ یہ بتائیے کہ اس جنگ کے فوجی مقاصد کیا تھے اور کیا وہ حاصل ہوئے یا نہیں ؟
بریگیڈیئر(ر) رفعت اللہ:پہلی بات یہ ہے کہ جنگ ختم نہیں ہوئی ، یہ اس جنگ کا ایک معرکہ تھا جو ختم ہوا ہے ، جنگ چلتی رہے گی اور کسی اور وقت میں دوبارہ کوئی معرکہ ہوگا ۔ جہاں تک جنگ کے مقاصد کی بات ہے تو اسرائیل اور امریکہ کے دوبڑے مقاصد تھے: ایران کو جوہری صلاحیت کے حصول سے روکنا اور حکومت کو تبدیل کرنا ۔ اس کے لیے انہوں نے رضاشاہ پہلوی کے بیٹے کو بھی تیار کرلیا تھا لیکن ان کا اندازہ غلط تھا کہ وہ ایران پر حملہ کرکے وہاں کی حکومت کو تبدیل کر دیں گے ۔ پہلی بات یہ ہے کہ ان کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کو ایرانی لوگ امام مہدی کانائب مانتے ہیں لہٰذا جو چیز عوام کے عقیدے سے تعلق رکھتی ہو اس کو عوام کسی صورت چھوڑنے کو تیار نہیں ہوتے ۔ یہی وجہ ہے کہ ایران میں آیت اللہ خامنہ ای کے حق میں بہت بڑے مظاہرے ہوئے ۔پھریہ کہ حکومت کی تبدیلی کے لیے اندرونی طور پر ایک طبقے کی حمایت کا ہونا ضروری ہوتا ہے کیونکہ رجیم چینج ہمیشہ اندرونی عناصر کرتے ہیں ،بیرونی عناصر تو صرف ان کو سپورٹ کرتے ہیں ۔ لیکن جب اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا تو عوام اسرائیل کے خلاف ہوگئے اور اس طرح رجیم چینج کے حق میں اگر کوئی حمایت موجود بھی تھی تو وہ ختم ہوگئی اور رجیم چینج کا مقصد حل نہ ہو سکا۔ اسی وجہ سے اسرائیل اور امریکہ کو یہ کہنا پڑا کہ رجیم چینج ہمارا مقصد نہیں تھا ۔ ہم تو جوہری صلاحیت کو تباہ کرنا چاہتے ہیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ ایران کی جوہری سرگرمیوں کو بھی روک پائے ہیں یا نہیں کیونکہ اطلاعات کے مطابق 60 فیصد یورینیم امریکی حملے سے پہلے ہی منتقل کر دیا گیا تھا ۔IAEAنےبھی کنفرم کیا ہے تابکاری اثرات نہیں پائے گئے۔ اس کا مطلب ہے کہ امریکہ حملے کا جو مقصد تھا وہ بھی پورا نہیں ہوا۔
سوال:جیسا کہ بتایا گیا کہ جنگ کے دو بڑے مقاصد تھے :رجیم چینج اور ایٹمی صلاحیت سے روکنا ۔ یہ دونوں  مقاصد اگر حاصل نہیں ہوئے تو امریکہ اور اسرائیل نے جنگ شروع کیوں کی ؟
رضاء الحق:دراصل یہ جنگ ختم نہیں ہوئی بلکہ ایک وقفہ ہوا ہے اور اس دوران تمام فریقین بیٹھ کر سوچیں گے کہ اس جنگ میں انہوں نے کیا کھویا اور کیا پایا ؟ کیا کیا غلطیاں کیں اور کیا کیا کمزوریاں تھیں ۔ وہ ان کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش کریں گے اور دوبارہ جنگ کریں گے ۔ ایران نے فضائی صلاحیت کے نہ ہونے کے علاوہ بھی پہلے بہت سی غلطیاں کی ہیں ۔ اس نے کچھ ایسے اقدامات بھی کیے جس کی وجہ سے وہ Isolate ہورہا تھا ۔ اسی طرح ایران کے اندر بھی بعض عناصر موجود تھے جو بیرونی قوتوں کے اشارے پر چل رہے تھے ۔ 13 جون کو اسرائیل نے پہلے حملے میں ایران کی اہم شخصیات کو ٹارگٹ کرنے میں جتنا کردار اسرائیل کا تھا اُتنا ہی اندرونی غداروں کا بھی تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ ایرانی اداروں  میں بہت بڑا انٹیلی جنس اور سکیورٹی فیلیئر ہوا ہے ۔ اسی طرح اسرائیل کوبھی بعض ناکامیوں کا سامناہوا ہے ۔ جیسا کہ اس کا دفاعی نظام(Iron Dome) اتنا موثر ثابت نہیں ہوا جتنا دعویٰ تھا ۔ پھر یہ کہ وہ ایران کے جوہری پروگرام کو بھی تباہ نہیں کرسکا ، رجیم چینج کا منصوبہ بھی ناکام ہوا ۔اسی طرح امریکہ نے بھی بی 2 بمبار طیارے اور GLBبم استعمال کیے ، لیکن امریکہ بھی اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکا ۔ اس کے علاوہ امریکہ اور اسرائیل کو روس اور چین کی طرف سے کچھ بہت واضح دھمکیاں بھی ملیں ۔ جیسا کہ چین کی طرف سے کہا گیا کہ دنیا امریکہ کے بغیر بھی چل سکتی ہے ۔ اسی طرح روس کے سابق صدر نے ٹویٹ کیا کہ دنیا کے بہت سے ممالک ایران کو ایٹمی ہتھیار دینے کوتیار ہیں ۔لیکن ایران نے منع کر دیا کہ وہ اس جنگ کو خود سنبھال لے گا ۔ اب فیس سیونگ کے لیے ٹرمپ کہہ رہا ہے کہ ہم نے ایران کے جوہری پروگرام کو تباہ کر دیا ہے ۔ حالانکہ یہ جھوٹ ہے اور اس پر نیتن یاہو بھی ناخوش ہے لیکن اس کے باوجو اسرائیل کو بھی سیز فائز پر رضا مند ہونا پڑا کیونکہ مقصد حاصل نہیں ہو رہا تھا ۔اسی غصے میں وہ سیز فائر کی خلاف ورزی کرتا رہا جس پر ٹرمپ بھی نیتن یاہو سے ناراض ہوا ۔ اسرائیل کے ایک ربی نے جنگ کے دوران کہا تھا کہ یہ صحیح وقت ہے کہ ہم مسجد اقصیٰ کو تباہ کرکے الزام ایران پر لگا دیں ۔ ایران نے قطر ، کویت اور بحرین وغیرہ میں امریکی اڈوں کو بھی نشانہ بنایا لیکن پیشگی اطلاع دے کرالبتہ ممکن ہے کہ وہ آئندہ اس پالیسی کو لے کر چلیں۔ اس کے علاوہ امریکہ اور اسرائیل انڈیا کو بھی دوبارہ کھڑا کریں گے اور اس کو مزید طاقتور بنانے کی کوشش کریں گے کیونکہ وہ اس خطہ میں بھی اپنی موجودگی رکھنا چاہتے ہیںتاکہ جب جنگ پھیلے تو پاکستان کو بھی مصروف رکھا جائے ۔ لیکن اگر انڈیا پاکستان پر حملہ کرے گا تو چین اور روس بھی خاموش نہیں بیٹھیں گے ۔ بہرحال یہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی ، صرف ایک وقفہ آیا ہے ۔ یہ جنگ کسی وقت بھی دوبارہ بھڑکے گی ۔ دورفتن کی احادیث میں اس غیر یقینی کی صورت حال کو دھویں سے تشبیہ دی گئی ہے ۔ یعنی کوئی پتا نہیں کس وقت کہاں سے کوئی فتنہ کھڑا ہو جائے۔
سوال:ایران اور اسرائیل کے درمیان جو سیز فائر ہوا ہے اس کی سیاسی وجوہات کیا ہیں ؟نیز یہ بتائیں کہ جنگ کے اس فیز کا فاتح کون ہے ؟
بریگیڈیئر(ر) رفعت اللہ:اس طرح کی صورت حال میں تو ہر فریق اپنی برتری پر مبنی بیانیہ کو آگے بڑھاتا ہے لیکن اگر ہم غیر جانبدارانہ تجزیہ کریں تو واضح ہو جاتاہے کہ کون ہارا اور کون جیتا ؟ پہلی چیز ہمیں یہ دیکھنا ہوگی کہ جس فریق نے جنگ شروع کی ، اس نے اپنے مقاصد حاصل کرنے کے بعد سیز فائز کو قبول کیا ہے ؟اسرائیل کے دو بڑے مقاصد تھے لیکن جیسا کہ پہلے ذکر ہوا کہ ان دونوں میں وہ ناکام ہوا ۔ پھر یہ کہ جنگ شروع کرنے والا اپنا نفع نقصان دیکھ کر جنگ شروع کرتاہے ، وہ اندازہ لگاتا ہے کہ جوابی حملے میں اس کا کتنا نقصان ہو سکتاہے ۔ اس کے بعد ہی وہ جنگ میں کودتا ہے ۔ اسرائیل کا دعویٰ تھا کہ اس کا دفاعی نظام ناقابل تسخیر ہے ۔ لیکن ایران کے جوابی حملے میں اس کا دفاعی نظام ناکام ہوگیا ۔ یہاں تک کہ اسرائیل کا سائنٹیفک انسٹیٹیوٹ جس پر اسرائیل کے سارے دفاعی اور سائنسی منصوبوں اور ایئر ڈیفنس سسٹم کا انحصار تھا وہ بھی ایران کے میزائل حملوں میں تباہ ہوگیا ، اسرائیلی ایجنسیز کا ہیڈکوارٹر بھی تباہ ہوگیا، دیگر بھی کئی مقامات پر نقصان ہوا ۔ جب اسرائیل نے دیکھا کہ جنگ کے مقاصد حاصل نہیں ہورہے اور اگر یہ جنگ مزید طویل ہوئی تو اس کا مزید نقصان ہو جائے گا تو اس نے مجبوراً سیز فائر کو قبول کیا ۔ ایران کے کہنے پر تو سیز فائر نہیں ہوا ۔ ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ اگر اسرائیل سیز فائر کرے گا تو ہم بھی حملے روک دیں گے ۔ اگر اسرائیل اور امریکہ کو پتا ہوتا کہ وہ جیت سکتے ہیں تو وہ سیز فائر کیوں کرتے ؟دوسری طرف اس میں کوئی شک نہیں کہ ابتدا میں ایران کا نقصان ہوا ہے ، لیکن اس کے بعد ایران نے جوابی حملہ میں دشمن کی توقعات سے بڑھ کر کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ آخری بات یہ ہے کہ جو فریق جنگ شروع کرتاہے ، وہ پہلے اندازہ لگاتا ہے کہ جنگ کے مقاصد حاصل کرنے تک وہ جنگ جاری رکھ سکتاہے یا نہیں ؟ اس کا ایمونیشن اور دیگر وسائل اتنے ہیں؟اگر اسرائیل نے وہ مقاصد حاصل کرنے سے پہلے ہی سیز فائر کیا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ ہار گیا ہے ۔
رضاء الحق:ڈونلڈ ٹرمپ جب عرب ممالک کے دورے پر آیا تھا تو اس کا بڑا پُرتپاک استقبال کیا گیااور 4 ٹریلین ڈالرز کے معاہدے ہوئے ۔ انہی عرب ممالک میں امریکہ کے جو اڈے ہیں ان پر ایران نے جوابی حملہ کیا ہے ۔ اس لحاظ سے ایران کو خطے میں غلبہ حاصل ہو چکا ہے ۔
سوال: عرب ممالک نے ایران پر امریکی حملہ کی مخالفت کی لیکن ایران نے قطر پر حملہ کرکے کیا عرب ممالک کو ناراض نہیں کر دیا ؟
بریگیڈیئر(ر) رفعت اللہ:ایران نے کسی برادر مسلم ملک کو ٹارگٹ نہیں کیا بلکہ ایران کے دشمن کو کسی مسلم ملک نے پناہ دی ہوئی ہے تو اس کے اڈوں پر حملہ کیا ہے ۔
سوال:اس طرح تو پھر امریکہ کا افغانستان پر حملہ بھی درست قرار پائے گا کیونکہ افغانستان نے اسامہ بن لادن کو پناہ دی ہوئی تھی ؟
بریگیڈیئر(ر) رفعت اللہ:امریکہ کے اڈے قطر اور دیگر عرب ممالک میں ہیں جن کو وہ پاور پروجیکشن کے لیے استعمال کرتا ہے ، اس کا سب کو پتا ہے ۔ جبکہ امریکہ کے پاس کوئی ثبوت نہیں تھا کہ اسامہ بن لادن واقعی نائن الیون کے واقعہ میں ملوث تھا ۔ بعد کی رپورٹوں نے اس کو ثابت بھی کیا ۔کیا ایک بندے کے لیے پورے ملک کو تباہ کرنا جائز تھا ۔ جبکہ ایران نے صرف امریکی اڈے کو نشانہ بنایا ہے ۔ تیسری بات یہ ہے کہ ایران نے واضح پیغام بھی دیا ہے کہ مستقبل میں اگر کسی نے امریکی اثاثوں کو پناہ دی تو اس کو سزا دی جائے گی ۔ ایران نے واضح کہا ہے کہ جو بھی اس کے میزائل کو اسرائیل جانے سے روکے گا اسے اسرائیل کا ساتھی سمجھا جائے گا ۔
رضاء الحق:عرب ممالک امریکہ پر اس قدر انحصار کرچکے ہیں کہ وہ امریکہ کے آگے انکار نہیں کرسکتے ۔ اس وجہ سے خدشہ ہے کہ آنے والے وقت میں عرب ممالک اور ایران کے درمیان کشیدگی بڑھ سکتی ہے اور اسرائیل اور امریکہ اس کا فائدہ اٹھائیں گے ۔
سوال:پہلگام واقعےکے متعلق بعد میں ثابت ہوگیا کہ وہ انڈیا کا فالس فلیگ آپریشن تھا لیکن انڈیا نے الزام پاکستان پر لگا کر جنگ مسلط کی اور منہ کی کھائی ۔ ٹرمپ نے ثالثی کا کردار ادا کیا اور مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش بھی کی جسے انڈیا نے مسترد کردیا ۔ کیا انڈیا اور پاکستان مذاکرات کی میز پر آئیں گے بھی یا یہ وار تھیٹر چلتا رہے گا ؟نیر یہ کہ ٹرمپ غزہ میں جنگ بندی کیوں نہیں کروا رہا ؟
رضاء الحق: ٹرمپ کی عادت ہےکہ وہ جہاں بھی جاتاہے بڑھکیں مارتاہے کہ میں نے دنیا کو عالمی جنگ سے بچا لیا ، انڈیا اور پاکستان کے درمیان صلح کروا دی وغیرہ ۔ دراصل اس کی کافی عرصہ سے کوشش ہے کہ اس کو نوبل انعام مل جائے ۔ حالیہ ایران اسرائیل جنگ کے دوران ہمارے فیلڈ مارشل صاحب ٹرمپ کی دعوت پر تھےاور اس دوران ہمارے وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے نوبل انعام دینے والے ادارے کو خط لکھ کر سفارش کی کہ ٹرمپ کو نوبل انعام دیا جائے۔ اگر ہم نوبل پرائز کی تاریخ کا جائزہ لیں تو اندازہ ہو جائے گا کہ کیسے کیسے لوگوں کو نوبل انعام دیا گیا جن کا امن سے دور کا بھی واسطہ نہ تھا ۔ مثلاً میانمار کے مسلمانوں کے قتل عام کی ذمہ دار آنگ سان سوچی ، ویت نام اور کوریا میں قتل عام میں ملوث ہنری کسنجر ، ہٹلر کا وزیرخارجہ ، فلسطینی مسلمانوں کے قتل عام کے ذمہ دار اسرائیلی وزیر اعظم شمعون پیریز اور رابن وغیرہ ۔ اسی طرح اسلام کے خلاف سوشل انجینئرنگ کرنے والوں کو بھی نوبل انعام دیا گیا جیسا کہ ملالہ یوسفزئی اور ایرانی خاتون جنہوں نے اسلام کے مخالف ایجنڈے پر کام کیا ۔ ڈونلڈ ٹرمپ بھی جب سے امریکی صدر بنے ہیں انہوں نے اسرائیل کی کھلے عام مدد کی ہے ، حالیہ غزہ جنگ میں بھی وہ اسرائیل کی مدد کر رہا ہے مگر اس کے باوجود ہماری حکومت نے اس کو نوبل انعام کے لیے نامزد کر دیا جو کہ انتہائی افسوسناک ہے۔ حالانکہ ایسا کرنا غزہ کے مسلمانوں پر ظلم کا ساتھ دینا ہے ۔اگر پاکستان میں عوام کی نمائندہ حکومت ہوتی شاید کبھی ایسے فیصلے نہ کرتی مگر ہائبرڈ سسٹم میں اسی طرح کے غلط فیصلے ہوتے ہیں ۔ بہرحال انڈیا اور پاکستان کے درمیان جنگ وقتی طور پر رُکی ہے مگر امریکہ اور اسرائیل انڈیا کو دوبارہ تیار کرکے جنگ مسلط کر سکتے ہیں ۔
سوال:امریکہ نے ابتدا میں ایران اسرائیل جنگ سے لاتعلقی کا عندیہ دیا لیکن پھر اسرائیل کی دعوت پر خود جنگ میں شریک ہوگیا ۔ اسی طرح امریکہ ہر معاملے میں اسرائیل کی مدد کرتاہے ۔ جب بھی اسرائیل کے خلاف قرارداد پیش ہوتی ہے تو اس کو ویٹو کرتاہے ۔ جس طرح کھل کر امریکہ اسرائیل کی مدد کرتاہے ، اس طرح روس ، چین اور پاکستان ایران کی مدد کو کیوں نہیں آئے ؟
بریگیڈیئر(ر) رفعت اللہ:ایران کی پارلیمنٹ اور دیگر مقامات پرپاکستان تشکر کے نعرے لگے ، اچھی بات ہے مگر دوسری طرف پاکستان نے ایران کے دشمن کو نوبل انعام کے لیے نامزد کردیا ۔ ایسے ملک پر کون اعتبار کرے گا ۔ تائیوان کے حوالے سے چین کی حکمت عملی یہ ہے کہ وہ جنگ سے دور رہ کر تائیوان کے لوگوں کو اتنی سہولیات دے گا کہ وہ خود چین کے ساتھ رہنا پسند کریں گےجس طرح ہانگ کانگ کے لوگوں نے فیصلہ کیا ہے۔ روس نے ہمیشہ ایران سے یہ فرمائش کی ہے کہ وہ روس کے ساتھ ڈیفنس پیکٹ میں آجائے ۔ اگر ایسا ہو جاتا ہے تو ایران پر حملہ روس پر حملہ تصور ہوگا لیکن ایران کو معلوم ہے کہ اگر وہ روس کا محتاج بن جائے گا تو پھر وہ اپنے ہاتھ پیر باندھ لے گا اور وہ اسرائیل کو کھل کر جواب نہیں دے سکے گا ۔ اس لیے ایران نے اس پیشکش کو قبول نہیں کیا ۔ پھر یہ کہ ایران کسی بھی ایسے معاہدے میں نہیں بندھنا چاہتا کہ کل اسے کسی کی جنگ میں بلاوجہ ساتھ دینا پڑ جائے ۔ جیساکہ روس یوکرین جنگ میں بھی ایران اب تک غیر جانبدار رہا ہے ۔ تاہم روس ایران کی حمایت ضرور کرتاہے ۔ اُس نے یہ بھی کہا کہ ایران کے خلاف اگر جوہری ہتھیار استعمال کیے جاتے ہیں تو روس پیچھے نہیں رہے گا ۔ کچھ عرصہ قبل روس نے کہا تھا کہ ہمارےایران کے ساتھ سٹریٹیجک اور معاشی مفادات ہیں لہٰذا ہم اس پر کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے ۔
رضاء الحق:ایران سے ماضی میں اگرچہ بہت غلطیاں ہوئی ہیں ، خاص طور پر اس کی پراکسیز نے مسلم ممالک میں جو مظالم کیے ہیں، ان کی وجہ سے مسلمانوں  کے دلوں میں نفرت پید اہوئی ہے ۔ایران کو اب اس مسئلے پر سوچنا چاہیے ۔ امریکہ پر براہِ راست حملہ کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ وہ بہت فاصلے پر ہے البتہ اس کی پراکسیز اور اڈے ہر جگہ موجود ہیں ۔قطر میں جس امریکی اڈے پر ایران نے حملہ کیا ہے اس پر اس وقت بھی 10 ہزار امریکی فوجی موجود ہیں ۔ اسی طرح قطر میں 50سے زیادہ اس کے ایئر کرافٹ ہیں ۔
سوال: ایران نے سٹیٹ آف ہرمز کو بند نہیں کیا حالانکہ اس کی پارلیمنٹ نے منظوری دے دی تھی۔اگر ایسا ہو جاتا تو دنیا کی معیشت کو بھی بہت نقصان پہنچنا تھا اور خصوصاً خلیج کی عرب ریاستوں کو بہت زیادہ نقصان ہونا تھا ۔ کیا آپ کے خیال میں یہ ایران کا ذمہ دارانہ کردار ہے ؟
رضاء الحق:سٹیٹ آف ہرمز سے پورے یورپ کو بھی تیل اور گیس جاتی ہے ۔ چین کو سب سے زیادہ تیل ایران سے ہی جاتاہے ۔اس لیے آبنائے ہرمز کو بند کرنا بہت بڑے بحران کا باعث ہوتا اور خاص طور پر خلیج کے مسلم ممالک کا بہت نقصان ہوتا ، خود ایران کی معیشت کا بہت بڑا سہارا وہاں سے حاصل آمدن ہے ۔ لہٰذا ایران کوئی ایسا قدم نہیں اُٹھا نا چاہتا جس سے مسلم ممالک کے عوام اس کے خلاف ہو جائیں ۔ اس کے برعکس اس جنگ میں ایران کو عالم اسلام میں مقبولیت حاصل ہوئی ہے ۔
سوال: دعویٰ کیا جارہا تھا کہ امریکہ نے ایران کی تین ایٹمی تنصیبات پر حملہ کرکے انہیں تباہ و برباد کر دیا ہے اور اب ایران جوہری صلاحیت حاصل کرنے کے قابل نہیں رہا ۔ کیا واقعی ایران اپنے جوہری پروگرام کو رول بیک کر دے گا یا معاملہ آگے بڑھے گا ؟
بریگیڈیئر(ر) رفعت اللہ:اطلاعات یہ ہیں کہ امریکی حملے سے پہلے ہی یورینیم کو منتقل کر دیا گیا تھا لہٰذا اس حملے میں ایران کے جوہری پروگرام کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ ایران اگر NPTسے نکل جاتاہے تو پھر وہ جوہری ہتھیار بنانے میں دیر نہیں لگائے گا ۔ اسی طرح شمالی کوریا نے بھی ایران کو مکمل تعاون کی پیشکش کی ہے ۔ لیکن اگر ایران NPTسے نہیں نکلتا تو اس کے لیے ایٹم بم بنانا مشکل ہو گا ۔ دوسری طرف ایران کو یہ بھی اندازہ ہوگیا ہوگا کہ اگر اس نے سرینڈر کیا تو اسے چین سے نہیں رہنے دیا جائے گاجیسا کہ یوکرین اور جنوبی افریقہ کے ساتھ ہوا ہے۔ امریکن تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ ایران نے جوہری پروگرام ختم نہیں کیا بلکہ ملتوی کیا ہے اور کسی بھی وقت جوہری ہتھیار بنا سکتا ہے ۔ ایسی صورت میں عرب ممالک ، ترکی اور پاکستان کے لیے کیا مسائل پیدا ہوں گے ۔ سب کے تحفظات ہیں لیکن ایران کسی صورت پیچھے نہیں ہٹے گا ۔
سوال: مشرق وسطیٰ کافی عرصہ سےبالکل ایک آتش فشاں کی طرح دہک رہا ہے۔ فلسطین میں ایک عرصہ سے مسلمانوں کی نسل کشی جاری ہے، یمن ،لیبیا، شام اور اب ایران بھی جنگ کی نذر ہو رہا ہے ۔آپ کو مشرق وسطیٰ کا مستقبل کا منظر نامہ کیسا دکھائی دیتاہے ؟
رضاء الحق:دورفتن کی احادیث کی روشنی میں دیکھا جائے تو غالب امکان یہی ہے کہ ملاحم یعنی جنگوں کا دور شروع ہو چکا ہے ۔ لہٰذا اب امن محض خواب بنتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ امریکہ ، اسرائیل ، انڈیا ، چین ، روس سب کے اپنے اپنے مفادات ہیں ۔ احادیث میں یہ بھی ذکر ہے کہ بلاد شام کے اندر بہترین لوگ جائیں گے اور ان کی ایک جماعت جہاد کرتی رہے گی ۔ احادیث میں  الملحمۃ الکبریٰ  کا بھی ذکر ہے ۔ زمینی حقائق یہ بتا رہے ہیں کہ اس عالمی جنگ کی طرف حالات جارہے ہیں ۔ اب وقفے وقفے سے یہ جنگ بھڑکے گی اور پھر پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی ۔
سوال:آخر میں فتح کس کی ہوگی؟
رضاء الحق:احادیث میں بڑی تفصیل سے آخری دور کا ذکر ہے ۔ مختلف بلاک بنیں گے ، مسلمانوں کا بھی ایک بلاک ہوگا ، رومیوں کے ساتھ مل کر ایک بڑی طاقت کے ساتھ جنگ کا ذکر ہے جس میں فتح مسلمانوں کو ملے گی۔ پھر رومیوں کی غداری اور اس کے نتیجے میں رومیوں کے ساتھ جنگ کا بھی ذکر ہے۔ اس جنگ میںفتح مسلمانوں  کی ہی ہوگی مگر مسلمانوں کا اس جنگ میں اس قدر نقصان ہوگا کہ وہ فتح کی خوشی نہیں منا سکیں گے۔ اسی دور میں حضرت مہدی تشریف لائیں گے ، اور دجال کا بھی خروج بھی ہوگا ۔ خراسان سے اسلامی لشکر نکلے گا اور یروشلم میں جاکر جھنڈے گاڑے گا ۔ پھر عیسیٰ علیہ السلام تشریف لائیں گے اور دجال کو قتل کریں گے، یہودیوں کا مکمل خاتمہ ہو جائے گا ۔ اس کے بعد اللہ کا وعدہ پورا ہوگا :
{ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَلَــوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ(۹)} (الصف)’’وہی ہے (اللہ) جس نے بھیجا اپنے رسولؐ کو الہدیٰ اور دین ِحق کے ساتھ تاکہ غالب کر دے اس کو پورے نظامِ زندگی پر‘اور خواہ مشرکوں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو!‘‘
پوری دنیا پر اسلام کا غلبہ ہو جائے گا اور باقی تمام ادیان کو مٹا دیا جائے گا ۔ ان شاء اللہ