بے کسی ہائے تماشا کہ نہ عبرت ہے نہ ذوق
عامرہ احسان
کچھ مناظر ذہن کی سکرین پر ثبت ہو جاتے ہیں۔ مثلاً غزہ کے ایسے بے شمار مناظر میں ایک یہ ہے: نو عمر بچہ بمباری زدہ بلڈنگوں کے ملبے میں زمین کرید کر کچھ چھوٹی چھوٹی ٹوٹی پھوٹی ہڈیاں اکٹھی کر رہا ہے، مٹی میں پڑی۔ پھر عجب احترام و محبت سے انھیں پوٹلی میں سمیٹ کر قیمتی خزانے کی طرح لے جاتا دفن کرنے! پھر ایک اور منظر بھی ہے جو گہری عبرت، رنج و غم سے بھر دینے والا ہے۔ ایک خوبصورت سجا ہواگھر ہے۔ مگر خالی۔ مکین کی تلاش میں پولیس غسل خانے میں جھانکتی ہے تو شدید بدبو کے بھبھکے استقبال کرتے ہیں۔ ناک پر کپڑا رکھ کر دروازے سے ہی افراد اذیت ناک منظر دیکھتے ہیں۔ دس ماہ پرانی گلی ہوئی لاش الٹی لیٹی لڑکی کی ہے جسے کیڑے ٹھکانے لگانے پر جتے ہوئے ہیں۔ ایک ہاتھ جسم سے دور پڑا انہی کیڑوں نے ڈھانپ رکھا ہے۔ دل ہول جاتا ہے۔ لیپ ٹاپ کی سکرین سے عبرت کی بدبو اور دکھ کا دھواں اٹھتا ہے کیونکہ کہانی کھل چکی ہے۔
ایک معزز پڑھے لکھے دین آشنا گھر کا۔ یہ ہاتھ گویا کٹ کر دور جا پڑا۔ کھایا گیا۔ کیڑے چاٹ گئے۔ باقیوں کو جیتے جی زندہ درگور کر گئے۔ حمیرا اصغر کی المناک کہانی بہت سے حقائق کی نشاندہی کرتی ہے۔ اکیسویں صدی میں شیطانی گلیمر کے گھناؤنے جال بہت سے نوجوان لڑکے لڑکیاں اپنی لپیٹ میں لے کر نگل گئے، یہ المیہ بھی ایسا ہی ہے۔ ترقی، خود مختاری، اعلیٰ تعلیم، خوبصورت شخصیت بنانے نکھارنے کے جھانسے میں اس صدی کے اوائل ہی سے دجالی اصطلاحات، اہتمام، شوز مختلف ناموں، ملٹی نیشنل اداروں سے شروع ہوئے۔ 2011 ء میں ویٹ Veet، ٹاپ ماڈل ریئلٹی شو، شروع کیا گیا۔ اس کا ہدف نک سک سے درست بہترین ماڈلنگ کے لیے لڑکیاں تیار کرنا تھا۔ اسے فہد اشرف، ڈائریکٹر رئیلٹی شو اور مس ویٹ سے بھی منسلک نے ایک پری فائنل میں کہہ بھی دیا۔ (پری فائنل کی چنیدہ حسیناؤں میں سے ’مس ویٹ‘، منتخب ہونے والی کے سر پر ملکۂ حسن کا تاج سجایا جا تا ہے)۔’ اصلاً یہ صرف ماڈلنگ تک محدود نہیں۔ مقصد توہر عورت میں اعتماد بھر دینا ہے کہ وہ بھی تمام وہ مواقع حاصل کر سکتی ہے جو مرد کو دئیے جاتے ہیں۔ مقصد معاشرے کی لگی بندھی روایات سے نکلنا سکھانا، معاشرتی Taboos (ممنوعات) اور جکڑ بندیاں، پابندیاں توڑنا ہے۔ اگر چہ جسمانی حسن و جمال ہی انتخاب میں بنیادی وصف رہا، دبلی لمبی لڑکیاں مگر ہم صرف ماڈل تلاش نہیں کر رہے۔ جو جیتیں گی وہ بڑے سکولوں، کالجوں میں جاکر جوان لڑکیوں سے بات چیت کریں گی۔ 10 لاکھ کا ہدف ہے ہمارا۔ یہ والی اگر چہ بہت اچھا ناچ لیتی ہیں مگر گفتگو میں وہ مہارت اور پالش نہیں ہے۔ ان لڑکیوں کو تجربہ کار ماہرین فیشن تربیت دیتے۔بالآخر اس کا مقصد ایک پُر اعتماد لڑکی تیار کرنا ہے جو اپنے حسن و جمال کا اظہار سیکھ لے۔ یہ لڑکیاں شخصیت، جسمانی محاسن، اعتماد اور ماڈل بننے کی صلاحیت کی بنیاد پر لا کر چھانٹی جاتیں۔ ان میں سے ججز مزیدچھانٹ کر ایک چھوٹا گروپ منتخب کرتے اور یہ ’کردار سازی‘ (اصلاً کردار شکنی!) کے چیلنج سے گزرتیں۔ جج ان میں سے 3 کا فائنل انتخاب کرتے جن میں سے ایک ملکۂ حسن، ’مس ویٹ‘ قرار پاتی!
اگست 2017 ء میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے 2016 ء کی اس سلسلے کی ریکارڈنگ طلب کی کیونکہ اس کے خلاف درخواست دائر کی گئی تھی کہ یہ پروگرام پاکستان کی اخلاقی، معاشرتی اور دینی اقدار کے خلاف ہے۔ درخواست گزار نے لکھا کہ اس کی شادی شدہ ڈاکٹر بیٹی، جس کے 3 بچے ہیں، اسے فون پر یہ دعوت دی گئی کہ وہ آکر ویٹ کے لیے آڈیشن دے، مقابلۂ (حسن) کا حصہ بنے اور ایوارڈ جیتے۔ اس وقت اٹھنے والے اعتراضات کے نتیجے ہی میں یہ سلسلہ رک گیا ، 2016 ء کی بھر پور رنگین ملکہ ہائے حسن کے جلو میں حسن و جمال کی آخری نمائش کا۔ (دیگر ناموں سے کام توجاری ہے) ۔ یہ تمام تلخ یادیں اس وقت تازہ ہوئیں جب حمیرا اصغر کے حوالے سے یہ بات سامنے آئی کہ 2014 ء کے ’مس ویٹ سپر ماڈل‘ مقابلے میں اس کی تیسری پوزیشن آئی تھی۔ اس نے بڑے برانڈز کی ماڈلنگ کی، پھر ٹی وی اور فلم میں سکرین پر رہی۔ نیشنل کالج آف آرٹس سے پڑھ کر اس کا آرٹ ورک بھی عورت کی با اختیاری کو بڑھاوا دینے پر مرتکز رہا۔ انسٹا گرام پر اس کے 7لاکھ فولورز تھے۔ (اپنی تھکاوٹ ایک خوبصورت عورت دیکھ کر دور کرنے والے اور بس)۔ تنہا رہتی تھی اپارٹمنٹ میں۔ کوئی حقیقی رشتہ گرد و پیش نہ تھا۔ کٹ چکی تھی۔ مکان تو تھا۔ گھر نہ تھا۔ شوہر، بچوں سے مہکتا، خونی رشتوں کی کشش میں بندھا۔ چچابھانجوں بھتیجوں کے محرم، محبت میں گندھے محافظ رشتے۔ وہ حصار جو عورت کو میلی نگاہوں، بدبودار حرص و ہوس بھرے جملوںکی کشاکش سے محفوظ رکھے۔ وفا اور پاکیزگی کی مہک والے رشتے جن کی محبت خون میں شامل ہوتی ہے اگر قصداً کاٹ نہ پھینکے جائیں۔ میڈیا پر حمیرا کی چلتی کہانیاں اذیت ناک ہیں۔ صرف اس کے گھر والوں کے لیے نہیں ہر حساس ذی شعور فرد کے لیے۔ لال پھولوں سے ڈھکی قبر پر کھڑے تبصرہ نگار یہ کہہ کر کہانی سمیٹ دیتے ہیں۔’ اجازت دیجیے ۔ پھر ملیں گے ’اگلی سٹوری‘ کے ساتھ‘۔ میڈیا کو ایک سنسنی خیز سٹوری مل گئی۔ معزز گھرانے کے زخموں پر نمک چھڑکنے والوںکے ہجوم۔ پہلے ہر زاویے سے سیلیبرٹی کے نام سے رنگین تصاویر اچھالنی پھر قبر کے پھولوں تک پہنچنا! فاعتبروا! بے رحم معاشرتی بد حالی، اعلیٰ اقدار کی کرچیاں! بے سہار ا Decomposed، کیڑوں کی کھائی جوانی!
اسی تسلسل میں جہاں حمیرا کے حوالے سے کچھ غم کا غذ پر انڈیلے تھے، اگلا نوٹ درمیان میں غزہ پر تھا۔ وہ کچھ یوں تھا کہ ’بمباری سے آگ لگ گئی۔ گھر کا ایک بڑا بچہ آگ میں گھرا تھا کچھ اس طرح کہ کوئی بھی اس کی مدد پر قادر نہ تھا۔ فون پر اس سے بات جاری رہی۔ یہاں تک کہ وہ کلمہ پڑھنے لگا اور پھر منزل مقصود کو پا لیا۔ شہادت! جہاں ساروں کو جانا ہے۔ ہمیںلیکن، محض زخمِ جگر اپنا دکھانا ہے!‘ اس فلسطینی کا زخمِ جگر قدس پر جان دے ڈالنا تھا۔ جسد ِخا کی مٹ گیا۔ روح تروتازہ فرشتوں کے جلومیں پہلے ہی منزل کو چل دی۔
اصل المیہ یہی ہے۔ جسدِ خاکی تو فنا کے گھاٹ اُتر ہی جاتا ہے۔ مگر اگلی زندگی روح کی جیتی جاگتی زندگی ہے۔ جس کے لیےانبیاء و رسل آئے، کتب و صحائف نازل ہوئے۔ انتخاب انسان کا اپنا ہے۔ میرا غم دو دھاری تلوار بنا مجھے زخمی کر رہا تھا۔ غزہ والوں کا غم ان پر ظلم و قہر اندھا دھند برسانے کا غم تھا۔ انھیں ہر جسمانی راحت، سکھ سے محروم کر کے اذیتوں میں رگید ڈالنے کا غم۔ مگر ان کی روح کا معاملہ قابل ِرشک، لائقِ تقلید تھا۔ منزلِ مراد، دائمی حقیقی زندگی میں رب کی رضا پا لینے کا رشک۔ ابدی لازوال جنت میں اعلیٰ مقام کا سچا وعدہ پالینے اور اعلیٰ ترین معیارِ زندگی کا رشک۔ دوسری طرف تنہائیوں بھری سرابوں کے پیچھے بھاگتی ضدی، باغی حمیرا۔ محبوب پاکیزہ انسانی رشتوں کی گرماہٹ، نرماہٹ، سکینت سے محروم۔ بہکانے والے بھیڑیوں نے اُسے کن صحراؤں میں دھکیلا۔ چار دن کی چاندنی جہاں آہستہ آہستہ رنگ روپ کھونے لگتی ہے۔ مقابلہ سخت۔ نئے نئے نام جگہ لے لیتے ہیں۔ فلمی تجارت میں مواقع ختم ہونے لگتے ہیں۔ بے پناہ پیسہ اچانک منہ موڑ لیتا ہے۔ محتاجی سانپ بن کر ڈستی ہے۔ انا آڑے آتی ہے۔ اور پھر کہانی اس طرح اچانک ختم ہوتی ہے کہ دنیا کو، ویٹ کا تاج لیے کھڑے تالیاں پیٹنے والوں کو خبر تک نہیں ہوتی۔ صرف ایک نام رہ جاتا ہے۔ تھی۔ رخصت ہو گئی۔ قبر کے پھول مرجھا سوکھ کر اڑ جائیں گے۔ صرف گھروالوں کے سینے میں غم کا گہرا گھاؤ ہلکان کرتا رستار ہے گا۔ اخبار و رسائل، سوشل میڈیا پر ثناء یوسف، حمیرا جیسی صرف کہانیاں لکھ دی جاتی ہیں۔ معاشرے کے سدھار کا غم کھانا؟ ’عورت‘ کو اس کی عزت، عظمت، وقار، تقدس یاد دلانا؟یہ اب نئے Taboos ہیں۔ یہ قدامت پرستی، طالبان پن ہے۔ دہشت گردی بھی ہے۔ گھٹے ہوئے نظریات ہیں! مگر ایسا ہر گز نہیں! قبر پر سو کھے پھولوں کے اندر ایک پوری داستان ہے ایک نئی زندگی کی، جو ہمارے ہاں پڑھائی نہیں جاتی۔ اور جب فرد کو اس کا سامنا تنہا کرنا پڑتا ہے تو اس وقت سب تدفین کے فریضے سے فارغ ہو کر سر پر دوپٹے، ٹوپیاں رکھے، مرغے کی بوٹیاں توڑ رہے ہوتے ہیں تھک ہار کر۔ اللہ مغفرت کرے کہہ کر! جاگ جائیے…آج! تاکہ ہم کل سکون کی نیند سو سکیں!