(کارِ ترقیاتی) بے کسی ہائے تماشا کہ نہ عبرت ہے نہ ذوق - عامرہ احسان

11 /

استحکامِ پاکستان اور امریکی صدور کا کردار

آج تک کسی امریکی صدر نے سول دورِ حکومت میں پاکستان کا دورہ نہیں کیا

خالدنجیب خان

گزشتہ دنوں میڈیا پر ایک خبر نے ہمیں خاص طور متوجہ کیا۔خبر تھی کہ امریکی صدر ٹرمپ ستمبر میں دورہ پاکستان پر آئیں گے۔موجودہ حالات میں امریکی صدر کا دورہ سنجیدہ حلقوں میں کئی سوال اُٹھا رہا تھا تو اُنہوں نے سوال اُٹھائے مگر کوئی جواب نہیں آیا۔ مگر یہ خبر ضرور آگئی کہ وہ فی الحال پاکستان نہیں آرہے۔
’’فی الحال نہیں آرہے‘‘ میں یقیناًیہ بات مضمر ہے کہ جلد یا بدیر وہ دورہ ضرور کریں گے۔حقیقت یہ ہے کہ امریکی صدر کا دورہ پاکستان کے لیے ’’کہاں راجہ بھوج کہاں گنگو تیلی‘‘ کے مصداق ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں تو جس کسی شہر میں کوئی کرکٹ ٹیم آجائے تو شہر کے شہریوں کی زندگی وبال ہوجاتی ہے کجا یہ کہ امریکی صدر آجائے۔
امریکہ کے بارے میں خود امریکہ کے سابق وزیر خارجہ ہنری کسنجر کا کہنا ہے کہ امریکہ کے دشمنوں کو امریکہ سے اتنا نقصان نہیں پہنچا جتنا امریکہ سے اُن ملکوں کو نقصان پہنچا ہے جو خود کو امریکہ کا دوست خیال کرتے ہیں ۔ بے شک پاکستان بھی اُن ممالک میں شامل ہے جس کے حکمران اپنی عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ امریکہ ہمارا بڑا خیر خواہ ہے اور اِس کے لیے سرکاری خزانے سے لاکھوں ڈالر خرچ کر کے امریکی صدر کے ساتھ فوٹو سیشن کرایا جاتا ہے اور اِس دوران رسمی بات چیت کے لیے بھی چِٹوں کا سہارا لیا جاتا ہے ۔ اِن ملاقاتوں کی جب ویڈیو دیکھی جائے تو حیرت ہوتی ہے کہ کیا دوست اور وہ بھی سربراہ مملکت ایسے ملتے ہیں۔
بہرحال اِس وقت امریکی صدر کا دورہ پاکستان کا عندیہ دینا اس حوالے سے بھی حیران کُن تھا کہ کوئی بھی امریکی صدر پاکستان میں کسی منتخب حکومت کے ہوتے ہوئے نہیں آیا۔
قیام پاکستان کے بعد امریکہ نے فوری طور پر پاکستان کو تسلیم کیا توبانیٔ پاکستان نے امریکی قربت کو سوویت یونین کے خلاف ایک توازن کے طور پر دیکھا، مگر ٹرومین نے بھارت کو ترجیح دی۔ البتہ پاکستان کو ابتدائی اقتصادی امداد ملی جبکہ کشمیر کے مسئلے پر سرد مہری آگئی۔ پھرپاکستان بننے کے بعدجب بقول جواہر لال نہرو’’ میں نے گزشتہ سالوں میں اتنی دھوتیاں نہیں بدلیں جتنے پاکستان نے وزیر اعظم بدل لیے ہیں‘‘پاکستان کے کسی وزیراعظم، کسی گورنر جنرل یا کسی صدر مملکت سے ملاقات کے لیے کوئی امریکی صدر پاکستان کی سرزمین پر نہیں آیا۔اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ پاکستان کے حکمران امریکی صدر سے ملاقات کا شرف حاصل نہیں کرسکے ۔اِس دوران میں حسب ِضرورت پاکستانی حکمران بذات خود جا کر حاضری لگواتے رہے اور واپس آکر یہ بھی بتاتے رہے ہیں کہ اُن کا وہاں پر فقیدالمثال استقبال کیا گیا۔
1959ء میں جب کہ پاکستان کو بنے گیارہ سال ہو چکے تھے اور ملک میں مارشل لاء نافذ تھا تو امریکی صدر ڈوائٹ ڈی آئزن ہاور جو 1953ء سے 1961ء تک صدر کے عہدے پر متمکن رہے، نے پاکستان کو شرف میزبانی بخشا ۔
یہ وہ دور تھا جب آج کی طرح کا سوشل میڈیا تو دور کی بات ہے سادہ ٹی وی بھی نہیں تھا۔کئی دنوں کے بعد ریڈیو یا اخبارات کے ذریعے لوگوں کو وہ معلومات ملتی تھیں جو متعلقہ حکام کے مطابق عوام کو ملنا ضروری ہوتیں اور عوام اُس پر اعتماد بھی کرتے تھے کیونکہ کوئی دوسری آپشن بھی نہیں ہوتی تھی ۔
جب دسمبر1959 میں جنرل ایوب خان کے دورِ حکومت میں، آئزن ہاور نے پاکستان کا دورہ کیاتو یہ کسی بھی امریکی صدر کا پہلا دورۂ پاکستان تھا۔اُس وقت چونکہ کراچی پاکستان کا دارالحکومت تھا تو صدر آئزن ہاور کراچی تک ہی محدود رہے۔ تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ صدر آئزن ہاور کو پاکستان کے دارالحکومت میں عوامی سطح پر زبردست پذیرائی ملی۔جبکہ کسی نے لکھا ’’زبردستی پذیرائی ملی‘‘
آئزن ہاور کے دور میں پاکستان کو SEATO اور CENTO جیسے امریکی دفاعی اتحادوں میں شامل کیا گیا اوردونوں ملکوں کے درمیان اعتماد کو فروغ دیا گیا جس نے پاکستان کی مغربی بلاک میں شمولیت کو مستحکم کیا۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کو فوجی امداد، ہتھیار اور تربیت ملی اور امریکہ نے اپنی سرد جنگ میں پاکستان کو ایک مہرہ کے طور پر استعمال کیا جبکہ1965ء کی بھارت کے ساتھ جنگ میں امریکہ نے پاکستان کا ساتھ نہیں دیا۔
اس کے دو سال بعد 1961ء میں صدر لِنڈن بی جانسن نے ایوب خان کو دورۂ امریکہ کی دعوت دی اور وہ امریکہ کا دورہ کرکے آئے جس کی تصاویر دیکھی جاسکتی ہیں کہ صدر ایوب کو امریکہ میں کتنا زیادہ پروٹوکول دیا گیا۔ اسی دور میں امریکہ نے بھارت سے بھی تعلقات بڑھائے اور 1965ء کی جنگ میں ہتھیاروں کی سپلائی روک کر پاکستان کو مایوس کیا۔
1969ء میں جب پاکستان میں جنرل یحییٰ خان کی حکومت تھی تو رچرڈ نکسن نے نومبر میں پاکستان کا دورہ کیا۔تب یہ خبر آئی کہ جنرل یحییٰ خان کے ساتھ صدر نکسن کی ملاقاتوں نے نہ صرف دونوں ممالک کے تعلقات کو تقویت دی ہے بلکہ چین کے ساتھ امریکی روابط کے لیے بھی راہ ہموار کی۔
رچرڈ نکسن 1969ء سے 1974ء تک امریکی صدر رہے اور اُن کے دور کو پاکستان میں گولڈن پیریڈ کہا گیا۔ واضح رہے کہ یہ وہ دور تھا جب پاکستان کو امریکہ کی 51 ویں ریاست کہا جانے لگا تھا اور پاکستان میں ایک حلقہ امریکہ کی 51 ویں ریاست ہونے پر فخر محسوس کرتا تھا جبکہ دوسرا حلقہ اِس کے برعکس اِس بات کو اپنے لیے گالی خیال کرتا تھا۔نکسن کے دور کو پاکستان امریکہ تعلقات کا عروج کہا جا سکتا ہے۔ 1971ء کی جنگ میں امریکہ نے بحری بیڑا بھیجا جسے پاکستان تک پہنچنے میں کم و بیش 13 سال لگ گئے اور پاکستان کا ایک بازو (مشرقی پاکستان) بھارتی بدمعاشی کی وجہ سے کٹ کر بنگلہ دیش بن گیا۔
اس کے بعد پاکستان کے سول حکمران امریکہ کی سیر کے لیے جا کر فوٹو سیشن کراکے پاکستانی عوام کو مرعوب کرتے رہے۔جبکہ امریکہ پاکستان میں اپنی مرضی کی حکومتیں بنواتا رہا اور مرضی کا کام نہ کرنے والوں کو منظر سے ہٹاتا رہا۔
پاکستان میں آخری آنے والےامریکی صدر بل کلنٹن تھے ۔ اُنہوں نے پاکستان کا دورہ 2000 ء میں کیا جب پاکستان میں جنرل پرویز مشرف کے پاس عنان اقتدار تھا۔ پاکستان اور بھارت کارگل کے محاذ پر جنگ کر کے سکون سے بیٹھ چکے تھے اور افغانستان پر افغان طالبان کی حکومت پوری آب وتاب سے جاری و ساری تھی اور کسی کو یہ خیال بھی نہیں تھا کہ اگلے سال افغانستان میں افغان طالبان کی حکومت نہیں ہوگی۔ بہرحال کہا جاتا ہے کہ صدربل کلنٹن کے دورے کے بعد پاک بھارت تعلقات معمول کی طرف آنا شروع ہوگئے۔واضح رہے کہ حالات معمول پر آنے کا مطلب یہی ہے کہ بھارت جو کچھ بھی کہہ رہا ہے، اُسے درست سمجھا جائے، اگر اُس کے کہے کو درست کرنے یا غلط کہنے کی کوشش کریں تو اِس کا مطلب ہے کہ پاکستان دراندازی اور دہشت گردی کررہا ہے۔
بہرحال بات امریکی صدور کے دورہ پاکستان کی ہورہی ہے تو قیام پاکستان کے بعد گزشتہ 78 سالوں میں کم و بیش 78 ہی سرکاری دورے پاکستان کے صدرمملکت یا وزیراعظم یا اُن کے کسی نمائندے نے کیے ہیں۔ جن میں سے ہر ایک دورے کوناصرف کامیاب قرار دیا گیا بلکہ کامیاب قرار دینے والوں کے بقول اُنہیں بھرپور پروٹوکول بھی دیا گیا۔
صدر ٹرمپ کا دورہ پاکستان جسے فی الحال مؤخر کردیا گیا ہے، ایسے وقت میں ہونے والا تھا جب دنیا ایک نئے جغرافیائی سیاسی توازن کی طرف بڑھ رہی ہے۔ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں کئی چیلنجز موجود ہیں، جن میں چین کے ساتھ پاکستان کی قربت، افغانستان سے امریکی انخلاء کے بعد کی صورتحال، اور خطے میں سیکیورٹی کے نئے خدشات شامل ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدر ہونے کے ساتھ ایک کاروباری شخصیت بھی ہیں ،اُن کے بعض فیصلوںمیں امریکہ اور امریکہ کے عوام سے زیادہ اُن کا اپنا فائدہ جھلکتا ہوا نظر آتا ہے۔اِس سال جنوری میں غزہ میں عارضی جنگ بندی کراتے ہی انہوں نے اپنے رئیل اسٹیٹ کے بزنس کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا کہ غزہ میرے حوالے کردیں تو میں اِس کی بحالی کا کام زیادہ بہتر طور پر کرسکتا ہوں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے کسی اچھی خبر کی توقع رکھنا خصوصاً پاکستان کے حوالے سے ممکن تو نہیں ہے مگر جو ضرب المثل بنی ہے کہ اُمید پر دنیا قائم ہے ،شاید اسی موقع کی مناسبت سے بنی ہے۔
اِس میں شک نہیں ہے کہ امریکہ ایک سُپر پاور ہے ، اُس کی مرضی کے بغیر یو این او میں کوئی قرارداد منظور نہیں ہوسکتی ،اُس کے صدر کےایک اشارے سے جنگیں رک سکتی ہیں اور اور ایک اشارے سے جنگیں شروع ہوسکتی ہیں جبکہ پاکستان اُس کے مقابلے میں دس فیصد بھی نہیں ہے ۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان اتنا گیا گزرا اور کمزور بھی نہیں ہے کہ امریکہ کی وفاداری نبھانے میںاپنے مفادات اور سلامتی کو پس پشت ڈال کر امریکہ کے مفادکا وہ کام کرگزرے جس کی ابھی اُسے طلب ہی نہ تھی ۔گویا امریکہ سے وفاداری نبھانے میں امریکیوں سے بھی سبقت لے جائیں ۔
استحکام ِپاکستان کا تقاضا ہے کہ امریکہ ہو یا کوئی بھی اور سپر پاور ،اُس سے تعلقات مرعوبیت کی بجائے توازن کی بنیادپر قائم کئے جائیں۔ دنیا کے نقشے میں پاکستان کی اہمیت کو دنیا کی تمام طاقتیں تو جان چکی ہیں مگر بدقسمتی سے صرف ہمارے وہ چند حکمران ہی لاعلم رہتے ہیں جن کے مفادات پاکستان کی بجائے امریکہ سے وابستہ ہوتے ہیں اور وہ مسند سے اترتے ہی پہلی دستیاب پرواز سے پاکستان سے پرواز کرجاتے ہیں۔
اگر ہم ماضی کی طرف گردن گھما کر دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کے استحکام میں امریکہ نے جزوی کردار ضرور ادا کیا، لیکن قومی مفاد، خود مختاری، اور اصولی خارجہ پالیسی کی قربانی پر۔ ایسے میں ہنری کسنجر کی بات سو فیصد سچ معلوم ہوتی ہے۔ ہمیں پاکستان کے حوالے سے امریکی پالیسیاں تاریخ کے آئینے میں ضرور دیکھناہوں گی، اور یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ کسی سپر پاورکا سہارا لینے کی بجائے اپنے پاؤں پر خود کھڑا ہونا زیادہ محفوظ ہے۔
پاکستانی حکمران بھی اگر یہ بات سمجھ لیں کہ اللہ تعالیٰ نے اُنہیں مملکتِ خداداد کی صورت میںجو نعمت دے رکھی ہے ،وہ امریکہ سے ملنے والی ہر نعمت سے زیادہ قیمتی اور دیر پا ہے تو وہ یقیناً پاکستان کو مضبوط بنانے کے نام پر کبھی کسی غیر فطری امداد کی طرف راغب نہیں ہوں گے۔